مولانا مودودی ؒ نے اپنی پوری زندگی ملت اسلامیہ کی فکری و عملی رہنمائی کے لیے وقف کررکھی تھی۔ انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اسلامی نظام کی تشریح و تفسیر اور اس کے قیام کی جدوجہد میں صرف کردیا۔ پھر دورِ حاضر کو اسلام کی ایسی ہم آہنگی سے پیش کیا، کہ اُمت کے بہی خواہ اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام عصرِ حاضر کا دین ہے۔
مولانا مودودی ؒنے اس فکر کو عام کرنے کے لیے اس دور میں ہر معروف ذریعۂ ابلاغ کو استعمال کیا۔ پاکستان میں ایسی کوئی قابلِ ذکر جگہ نہیں رہی ہو گی، جہاں انھوں نے دینِ مبین کو عام کرنے کے لیے دورہ نہ کیا ہو۔مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش ) میںبھی مولانا مودودیؒ نے کئی بار دعوتی دورے کیے۔تاہم، اگست ۱۹۴۷ء سے قبل متحدہ ہندستان میں بھی انھوں نے دہلی ،اورنگ آباد، بہار، لکھنؤ، علی گڑھ ، حیدر آباد دکن، گورداس پور (پنجاب) کے علاوہ متعدد جگہوں کا دورہ کیا۔
مولانا مودودی نے ۱۹۲۵ء سے، جب اخبار الجمعیۃ ،دہلی کے ذریعے بڑے پیمانے پر اسلامی فکر اور اُمت کے مسائل کو موضوع بنایا تو اسی زمانے میں آپ کا نام جموں و کشمیر کے اہلِ علم میں معروف ہوچکا تھا۔ پھر جب ۱۹۳۳ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن ،حیدرآباددکن کے ذریعے احیاے اسلام کا علَم بلند کیا، تو یہ آواز بہت جلد ریاست جموں و کشمیر بالخصو ص وادی کشمیر میں بھی پہنچ گئی، اور مختصر مدت میںایک بڑی تعداد اس دعوت اور فکر سے متعارف ہوگئی۔ ماہنامہ ترجمان القرآن ۱۹۳۶ء کے اوائل ہی سے کشمیرکے معروف کتب فروشوں کی دکانوں پر دستیاب رہتا تھا۔ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے مؤسس مولانا سعدالدینؒ ترجمان القرآن کے ذریعے ہی مولانا مودودیؒ کی فکر سے شناسا ہوئے تھے۔ انھی ایام میں سری نگر کے ایک کتب فروش سے انھیں ترجمان القرآن کا ایک شمارہ ملا، جسے پڑھ کر انھوں نے محسوس کیا جیسے یہ ان کے دل کی آواز ہے، اور پھر وہ اس کے مستقل قاری بن گئے۔ ایک سال کے بعد، یعنی ۱۹۳۸ء میں انھوں نے ’دارالاسلام ‘ (جمال پور، پٹھان کوٹ) میں خود کو وقف کرنے کی درخواست بھی دی تھی۔
دوسری اہم شخصیت جناب مولانا احرارا حمد تھے۔وہ بھی ۳۸ ۱۹ ء کے اوائل میں یا آس پاس مولانا مودودی کے افکار سے متعارف ہوئے۔ ۱۹۴۰ء میں تاسیس جماعت سے قبل، اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر عبدالبشیر آذری [مولانا مودودی کے ایک قریبی ساتھی، م:۲۷مارچ ۱۹۸۳ء ] کے ساتھ مولانا مودودی کشمیر کے دورے پر آئے۔ عبد۱لبشیر آذری اکثر گرمیوں میں کشمیر آیا اور شوپیان میں قیام کیا کرتے تھے۔ انھی کی دعوت پر مولانا نے کشمیر کا دورہ کیا تھا ا ور انھی کے کہنے پر شوپیان میں قیام فرمایا تھا۔
مولانا امین شوپیانی صاحب نے بتایا ہے کہ: ’’جب مولانا مودودی سرینگر سے شوپیان کی طرف جارہے تھے، تو ان کے ہمراہ پردہ نشین خواتین میں ان کی والدہ ، اہلیہ ،ایک بچہ اور ملازمہ شامل تھے۔ مولانا امین صاحب کا کہنا ہے کہ: ’’جب راستے میں نماز کا وقت آیا تو ہم نے ایک ساتھ نماز ادا کی۔ امرواقعہ ہے کہ اس نماز کے دوران ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کتنی عظیم شخصیت ہیں‘‘۔ ڈاکٹر حمید فیاض صاحب کے مطابق: ’’مولانا مودودی نے چند دن (ایک روایت کے مطابق ایک مہینہ) وادیِ کشمیر کے اس خوب صورت اور مردم خیز علاقے میں قیام کیاتھا۔یہاں آپ نے ملک عزیز شاہ اکرم شاہ کا بنگلہ کرایے پر لیا۔
مولانا احرار احمد صاحب کے مطابق:’’اس مکان کے مالک نے مولانا مودودی سے بدسلوکی کی اور انھیں گھر خالی کرنے پر مجبور کیا‘‘۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:’’ جس گائوں میں مولانا مودودی نے قیام کیا تھا، وہاں کے مولوی صاحب اور متولیوں نے مولانا پر وہابی ہونے کا ’الزام‘ لگایا اور شاہ اکرم شاہ کو اس بات کے لیے اکسایا کہ وہ مولانا مودودی کو گھر سے نکال دیں۔ شاہ صاحب نے ایسا ہی کیا۔ وہاں سے نکلنے کے بعد مولانا مودودی نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ محمد عبداللہ وانی صاحب کے ہاں قیام کیا اور پھر شالیمار بھی تشریف لے گئے۔
کشمیر میںقیام کے دوران بہت سے لوگوں نے مولانا مودودی سے استفادہ کیا۔ پروفیسر جناب عبدالبشیر آذری نے مولاناا حرار احمد صاحب کو مولانا مودودی کی چند کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ جس کے بعد مولانا احرار صاحب کامولانا سعدالدین سے رابطہ ہوا، اور یہ رابطہ ایسا تھا جو زندگی کے آخری دم تک باقی رہا۔ اس مختصر قافلۂ سخت جان میں جب قاری سیف الدین صاحب اور چودھری محمد شفیع صاحب نے شمولیت اختیار کی، تویہ قافلہ منظم اور مضبوط ہوگیا۔ چودھری محمد شفیع صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ۱۹۴۲ء میں ریاست جموں و کشمیر کے اوّلین ناظم حلقہ مقرر ہوئے تھے اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ عبدالبشیر آذری صاحب ہی نے کشمیر کے اولین تحریکی اجتماع سے خطاب کیا تھا۔
جب ۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کا کل ہند اجتماع بمقام پٹھانکوٹ منعقد ہوا، جس میں وادیِ کشمیر سے مولانا سعدالدین اور محمد شفیع صاحب کے علاوہ مولانا احرار صاحب اور قاری سیف الدین نے بھی اس تاریخی اور روح پرور اجتماع میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔مذکورہ اجتماع نے ان تینوں بزرگوں میں انقلابی تبدیلیاں پروان چڑھائیں، کیوں کہ ابھی تک یہ مولانا مودودی کے افکار کا مطالعہ ترجمان القرآن سے ہی کرتے تھے، لیکن اس اجتماع میں انھوں نے مولانا مودودی سے براہِ راست استفادہ کیا جس سے ان درویش صفت انسانوں کی تحریک سے وابستگی اور بھی مستحکم ہوگئی۔ مولانا مودودی نے اسی تاریخی اجتماع میں سلامتی کا راستہ کے نام سے جو خطاب کیا، اس کو انھوں نے براہِ راست سماعت فرمایا۔
دارالاسلام (پٹھان کوٹ) سے واپس لوٹنے کے بعد اس مختصر قافلے نے آپس میں صلاح مشورے کے بعد کشمیر میں تحریک اسلامی کے کام میں وسعت کا آغاز کیا۔سب سے پہلے ۱۹۴۶ء میں دارالمطالعہ نوابازار میں ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا، جس میں وادی کے اطراف و اکناف سے تقریباً ۱۰۰ کے قریب تعلیم یافتہ لوگوں نے شرکت کی۔ یہ افراد پہلے ہی سے جماعت اسلامی کے نصب العین سے واقف تھے۔اس اجتماع میں مولانا سعدالدین نے انتہائی بصیرت افروز تقریر کی، جس میں انھوں نے کشمیر میں اسلام کے پہلے داعی امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒکی انقلاب آفرین دعوت و تحریک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’امیر کبیر سیّد علی ہمدانی نے کفر و شرک کی تاریکیوں کو چیر کر اسلام کی آفاقی کرنوں سے پورے علاقے کو منور کیا اور لاکھوں انسانوں کو جہالت سے نکال کر صراط مستقیم پر لاکھڑا کیا۔ آج ہم ان کے اسوہ پر چلتے ہوئے جماعت اسلامی کی دعوت اور کام کو وسعت کی راہوں پر استوار کر رہے ہیں‘‘۔اس بصیرت افروز خطاب کے بعد تحریک اسلامی کشمیر کھل کر منصہ شہود پر آگئی اورمولانا سعدالدین کو باقاعدہ امیر منتخب کیا گیا۔ مولانا مودودی کی برپا کردہ تحریک اسلامی نے برصغیر کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت ریاست جموں و کشمیر میں بہت تیزی سے اپنا سفر آگے بڑھایا۔
دوسری جانب یہ اگست ۱۹۶۵ء کی بات ہے کہ وادیِ کشمیر سے تباہ حال مہاجرین خطِ متارکۂ جنگ (کنٹرول لائن)کو عبور کرکے آزاد کشمیر جارہے تھے کہ مولانا مودودی نے ان کی تائید کے لیے اپیل کرتے ہوئے بیان دیا:’’خدا وہ وقت جلد لائے ،جب ہم مال ہی سے نہیں بلکہ جان سے بھی کشمیری بھائیوں کی آزادی کے لیے آگے بڑھ سکیں‘‘۔ ۶ستمبر ۱۹۶۵ء کی صبح بھارتی افواج نے لاہور پر یلغار کی تو مولانا مودودی نے بیان دیا: ’’اہلِ کشمیر کا جہادِ آزادی نہ صرف ان کا حق بلکہ فرض بھی ہے‘‘۔
پاک بھارت جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء کے دوران گفتگوئوں میں کشمیر کے حقِ خود ارادیت کا ذکر بھی آتا رہا، جو پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل وجۂ نزاع ہے۔ ایک نوجوان نے کہا: ’’بھارت کا کہنا ہے کہ [مقبوضہ]کشمیر میں متعدد بار انتخابات ہوچکے ہیں اور عوام ان انتخابات کے ذریعے اپنی راے ظاہر کرچکے ہیں، اس لیے مزید کسی راے شماری کی ضرورت نہیں‘‘۔
مولانا مودودی نے جواب میں فرمایا: ’’مقبوضہ کشمیر میں جو انتخابات ہوئے ہیں، انھیں کسی بھی راے شماری کے مترادف قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق راے شماری کے ذریعے ہی کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنا مقصود تھا کہ آیا وہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان سے؟ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اب تک اس ایشو کے بارے میں عوام کی راے کبھی معلوم نہیں کی گئی۔ بھارت کے زیرتسلط وہاں جو انتخابات ہوئے ہیں، ان کی بنیاد یہ ایشو کبھی قرار نہیں دیا گیا، اس لیے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا مقصد پورا نہیں ہوا، اور اسی لیے وہاں کے عوام کو اپنی راے کے اظہار کا حق ملنا چاہیے‘‘۔
اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودی نے فرمایا:
اگر بھارت کی اسی نام نہاد دلیل کو درست مان لیا جائے کہ چوں کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی بار انتخابات ہوچکے ہیں، اس لیے اب وہاں راے شماری کی ضرورت نہیں ہے، تو پھر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ متحدہ ہندستان کو آزادی نہیں ملنی چاہیے تھی، اور انگریزی حکومت قائم رہنی چاہیے تھی، کیوں کہ متحدہ ہندستان میں بھی ۱۹۴۷ء سے پہلے کئی انتخابات منعقد ہوچکے تھے۔ کیا کوئی ہوش مند آدمی اس دلیل کو انگریز سے آزادی کی جدوجہد کے خلاف پیش کرسکتا ہے؟‘‘ (۵-اے ، ذیلدار پارک، دوم، مرتبہ:رفیع الدین ہاشمی، ۱۹۷۹ء، ص۳۸)
انھی دنوں ۶نومبر ۱۹۶۵ء کو وکلا کی دعوت پر ملتان بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیا تو ایک وکیل نے سوال پوچھا: ’’کیا سلامتی کونسل کے رویے کے پیش نظر مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی اُمید کی جاسکتی ہے؟‘‘ مولانا مودودی نے جواب دیا:
اقوام متحدہ کے قیام کے بعد ابتداً یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ادارہ دنیا کو لڑائی سے نجات دلائے گا اور امن و انصاف کی بنیادوں پر بین الاقوامی جھگڑوں کا حل پیش کرے گا۔ لیکن جب سے یہ ادارہ قائم ہے، تب سے آج تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ادارہ امن و انصاف کے اصولوں پر کوئی فیصلہ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ [ا س دوران میں] سلامتی کونسل نے جو کچھ کیا ہے وہ کوئی نئی اور حیرت کی چیز نہیں۔ اس بات کو نگاہ میں رکھیے کہ دنیا کی طاقتیں بنیے کی طرح دونوں فریقوں کو ترازوں میں رکھ کر دیکھتی ہیں اور فریقین کے موقف کا نہیں بلکہ فریقین کا وزن دیکھ کر کوئی راے قائم کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک مسائل کے حل کا یہی پیمانہ ہے۔ انھیں اس سے بحث نہیں کہ انصاف کیا شے ہے؟ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادیں علی الاعلان اس کے منہ پر دے ماریں، لیکن کوئی بولا نہیں کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ سب دیکھتے رہے اور بھارت نے علی الاعلان کشمیر کو اپنا داخلی مسئلہ قرار دے ڈالا۔(ہفت روزہ آئین، لاہور، ۱۵نومبر ۱۹۶۵ء،ص ۸)
۲۴نومبر ۱۹۶۵ء کو آزاد کشمیر حکومت کی دعوت پر مولانا مودودی لاہور سے راولپنڈی پہنچے، جہاں سے ۲۵نومبر کو کار کے ذریعے مظفرآباد روانہ ہوئے۔ میاں طفیل محمد، نعیم صدیقی، سیّدصدیق الحسن گیلانی ان کے ہمراہ تھے۔ ڈیڑھ بجے مظفرآباد سے باہر ہزاروں شہریوں نے ان کا استقبال کیا اور ایک بڑے باوقار جلوس کی شکل میں مظفرآباد لے کر گئے۔ جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد ڈگری کالج کے گرائونڈ میں مولانا مودودی خطاب کے لیے پہنچے جہاں صدر جلسہ سردار عبدالقیوم تھے۔ انھوں نے مولانا کا استقبال کرتے ہوئے کہا:
کشمیر کے لیے مولانا مودودی نے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں، مہاجرین کشمیر کے لیے جماعت اسلامی نے جو کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں، اسے اہلِ کشمیر اور ان کی آیندہ نسلیں کبھی نہیں بھلا سکیں گی۔
جواب میں مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کا بڑی تفصیل سے تذکرہ کیا، اور ابتدائی کلمات میں یہ فرمایا : ’’ایک مدت سے میری تمنا تھی کہ مجھے آزاد کشمیر آنے کا موقع ملے، اور بارہا یہاں کے دوستوں نے آنے کی دعوت بھی دی، مگر آنا ممکن نہ ہوسکا۔ لیکن اب اس جنگ کے زمانے میں جوحالات یہاں گزرے اور جس طرح ہزارہا مہاجرین مقبوضہ کشمیر سے نکل نکل کر تباہ حال یہاں پہنچے، ان کے حالات سننے کے بعد دوسری تمام مصروفیتوں کو چھوڑ کر اس لیے یہاں آیا ہوں کہ اپنے بھائیوں کی حالت سے براہِ راست واقفیت حاصل کروں، اور جو خدمت میرے بس میں ہے، وہ انجام دوں۔اس جنگ کے دوران میں پاکستان کی سرحدوں پر بھی لاتعداد انسان بے گھر ہوئے ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد مقبوضہ کشمیر سے بھی تباہ حالی کے ساتھ نکلنے پر مجبور ہوگئی۔میں نے وہاں بھی اس طرح کی داستانیں سنی ہیں اور یہاں آکر بھی ایسی داستانیں سنی ہیں جن کو حقیقت میں صبر کے ساتھ سننا نہایت مشکل ہے۔ پتھر کا جگر ہی چاہیے ان چیزوں کو سن کر برداشت کرنے کے لیے۔ لیکن جو بات مجھے کہنی ہے، وہ یہ ہے کہ، وہ کم ہمت اور بزدل قومیں ہوتی ہیں جو اس طرح کے حالات میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر کسی قوم میں غیرت و حمیت اور زندگی موجود ہو، تو ایسے حالات اس کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کردیتے ہیں۔ پھر وہ ہمت کے ساتھ اُٹھتی ہے اور حالات کو بدلنے میں لگ جاتی ہے‘‘۔
مغرب کی نماز اد ا کرنے کے بعد مولانا مودودی نے مظفرآباد کے کلب ہوٹل میں درسِ قرآن دیا۔ اس موقعے پر صدر مجلس، آزاد کشمیر حکومت کے صدر[۶۹-۱۹۶۴ء] جسٹس عبدالحمید خان [م: ۱۳؍اگست ۱۹۸۶ء] تھے۔ درس کے بعد حاضرین کے سوالات کے شافی جوابات دیے۔
۲۷نومبر کو مولانا مودودی نے ریڈیو آزاد کشمیر، مظفرآباد میں تقریر ریکارڈ کرائی، جب کہ کلب ہوٹل کے سبزہ زار میں سردار محمد عبدالقیوم احباب کے ہمراہ گھاس پر بیٹھے مولانا کی واپسی کے منتظر تھے۔ جوں ہی مولانا واپس آئے تو سردار عبدالقیوم صاحب نے مولانا کو اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی اور پھر خود کار چلاتے ہوئے کوہالہ پُل تک الوداع کہنے آئے۔ مولانا نے ظہرکی نماز مری میں پڑھی اور پھر راولپنڈی کی طرف کوچ کیا۔
۲۸نومبر کا دن راولپنڈی میں گزارا، اور سوموار، یعنی ۲۹نومبر کو مولانا مودودی آزاد کشمیر کے دوسرے بڑے شہر میرپور روانہ ہوئے، جہاں کے ڈپٹی کمشنر مرزا عزیز احمد اور معززین شہر نے آپ کا والہانہ استقبال کیا۔ ڈھائی بجے سہ پہر گورنمنٹ کالج میرپور کی مجلس اسلامیات کے سیمی نار میں مولانا نے تقریر کے بجاے حاضرین کے بہت سے سوالوں کے جوابات دیے۔
ایک استاد نے سوال پوچھا:’’ کیا بھارت اور پاکستان کی جنگ کو دونوں ملکوں کی ہوسِ ملک گیری کہا جاسکتا ہے؟‘‘
مولانا مودودی نے جواب دیا: ’’بھارت کی حد تک یہ بات درست ہے، مگر پاکستان کے بارے میں ہوسِ ملک گیری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ [اگست ۱۹۴۷ء میں] برعظیم ہند کی تقسیم جس اصول پر ہوئی تھی اور جسے ہندوئوں اور انگریزوں نے بھی تسلیم کیا تھا، وہ یہ تھا کہ مسلم آبادی سے متصل علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے، اور ہندو اکثریت کے متصل علاقے بھارت میں___ اس لحاظ سے جموں و کشمیر کو آپ سے آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہیے ۔ اس لیے اگر پاکستان کشمیر کے لیے لڑائی پر مجبور کر دیا جائے تو اسے ہوسِ ملک گیری نہیں کہا جاسکتا‘‘۔
ایک صاحب نے پوچھا: ’’عہد ِخیرالقرون کے شہدا اور شہداے کشمیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟‘‘
مولانا مودودی نے جواب میں فرمایا:
شہادت کا درجہ جذبے کی شدت کے حساب سے ہوتا ہے۔ ایک شخص لاکھوں روپے اللہ کی راہ میں پیش کرتا ہے، دوسرا صرف ایک کھجور___ کھجور والے کے پاس جو کچھ تھا اس نے سب کچھ پیش کر دیا۔گویا اس کے جذبے کی Intensity [شدت] لاکھوں روپے دینے والے کے مقابلے میں زیادہ ہے، تو اس کو اجر زیادہ ملے گا۔ اللہ کی راہ میں جس شخص کا جذبہ جتنا صادق ہوگا، اتنا ہی بڑا درجہ اس کو نصیب ہوگا، مگر درجات کا فیصلہ کرنا بہرکیف ہمارا کام نہیں ہے ۔ ہم تو صرف اس قدر جانتے ہیں کہ ایک شخص بندئہ مومن تھا، لڑا اور شہید ہوگیا۔ اللہ اس کی شہادت اور جذبۂ شہادت کو قبول فرمائے‘‘۔
سوال و جواب کی اس بھرپور نشست کے بعد مولانا مودودی آزاد کشمیر کا دورہ مکمل کر کے ۳۰نومبر ۱۹۶۵ء کی صبح لاہور روانہ ہوئے۔(۵-اے، ذیلدار پارک، دوم، ص ۵۰-۷۹)
مولانا مودودی کشمیر کے بارے میںپُرخلوص ، نہایت سنجیدہ اور فکر مند رہتے تھے۔ وہ اہلِ کشمیر کی سیاسی ،فکری ،عملی اور دینی رہنمائی کے لیے متحرک رہتے تھے اورخطۂ کشمیر کے لیے ان کا دل ہمیشہ بے چین رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں کشمیر اور اس کے مسئلے کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔مولانا مودودی جن بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے، وہاں اس دیرینہ مسئلے کومدبرانہ اور مدلل انداز سے پیش کرکے اس کے حق میں قرارداد ضرور منظور کرواتے تھے۔
۱۹۶۶ء میں حج ِ بیت اللہ کے موقعے پر مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے انھوں نے ایک مقالہ تحریر فرمایا، جس کو عربی ،فرانسیسی، بنگلہ اورانگریزی زبان میں ترجمہ کرکے مختلف ممالک میں ۳۰ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا گیا،تاکہ دنیا اس حساس مسئلے کی طرف توجہ دے۔ مولانا مودودی کشمیر کے اس دیرینہ اور انسانی مسئلے کے حل کے لیے نہایت کوشاں رہتے تھے، جس میں ریاست جموں و کشمیر کے عوام ایک طویل عرصے سے مبتلا ہیں۔مولانا مودودی نے مسئلہ کشمیر کو سب سے اہم اور حساس مسئلہ قرار دیا اور اس مسئلے پر جو عالمانہ اور قائدانہ کردار ادا کیا، وہ ان کی دینی، فکری ،سیاسی بصیرت کے شایان شان تھا۔