’فی الواقع گورنمنٹ برطانیہ ایک ڈھال ہے، جس کے نیچے احمدی جماعت آگےہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس ڈھال کو ذرا ایک طرف کردو اور دیکھو کہ کیسےزہریلے تیروں کی کیسی خطرناک بارش تمھارے سروں پر ہوتی ہے۔پس کیوں ہم اس گورنمنٹ کے شکرگزارنہ ہوں۔ اس گورنمنٹ کی تباہی ہماری تباہی ہے اور اس گورنمنٹ کی ترقی ہماری ترقی۔جہاں جہاں اس گورنمنٹ کی حکومت پھیلتی جاتی ہے،ہمارے لیے تبلیغ کا ایک میدان نکل آتاہے‘۔(الفضل ،قادیانیوں کا ترجمان اخبار،۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۵ء)
’میرے حلقۂ انتخاب میں واقع احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ یورپ کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے جس میں ۱۰ہزار لوگ بیک وقت عبادت کر سکتے ہیں۔ اس علاقے میں احمدی (قادیانی) کمیونٹی خوب ترقی کر رہی ہے… اس کمیونٹی کے سربراہ برطانیہ میں رہایش پذیرہیں‘۔ (ممبر برطانوی پارلیمنٹ اور قادیانی کمیو نٹی سے متعلق کل جماعتی پارلیمانی گروپAPPG کی سربراہ سائیوبھین میکڈونگ کاپارلیمنٹ میں بیان)
قادیانیوں اور برطانیہ کا آپس میں گہرا تعلق اور تعاون ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اپنی ابتدا ہی سے اس جماعت کے بانی بر صغیر کے باقی طبقوں کے برعکس ،ہندستان میں استعماری برطانوی حکومت کے ہمیشہ حامی رہے ہیں ۔ انگریزی سلطنت کو ’رحمت ، باعث برکت اور ایک سپر‘قرار دیتے ہوئے انھوں نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی ہے کہ ’’تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو‘‘۔ اپنی مختلف کتابوں،تقاریر اور بیانات میں انھوں نے اور ان کے بعد آنے والے قادیانی رہنماؤں نے ہر معاملے میں برطانیہ کا ساتھ دیاہے اور برطانیہ نے بھی کھل کر ان کی سر پرستی کی ہے۔ بقول مولانا مودودی: ’’کفار کی غلامی جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے ،[جھوٹے] مدعیان نبوت کے لیے وہی عین رحمت اور فضل ایزدی ہے ،کیونکہ اسی کے زیر سایہ ان لوگوں کو اسلام میں نئی نئی نبوتوں کے فتنے اٹھانے اور مسلم معاشرے کی قطع وبُرید کی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔اس کے بر عکس مسلمانوں کی اپنی آزاد حکومت ،جو مسلمانوں کے لیے ایک رحمت ہے ان لوگوں کے لیے وہی ایک آفت ہے کیوں کہ با اختیارمسلمان بہر حال اپنے ہی دین اور اپنے ہی معاشرے کی قطع و بُرید کو بخوشی برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔(قادیانی مسئلہ،۱۹۵۳ء، لاہور)
اسی دیرینہ اور تاریخی تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی جماعت کی بین الاقوامی بشمول برطانیہ سیاسی اور سفارتی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ قادیانیوں کے موجودہ سربراہ مرزا منصور آج کل امریکا کے دورے پر ہیں۔ برطانیہ میں قیام کے باعث ان کے لیے دوسرے ممالک میں دورے کرنے میں بہت آسانی ہے۔ ان کے ایما پر پارلیمنٹ کے اندر ایک کُل جماعتی پارلیمانی گروپ کا قیام عمل میں آیا ہے جس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں کے ممبر پارلیمنٹ شامل ہیں۔ برطانیہ میں موجودہ برسرِ اقتدارحکومت میں ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے نے اپنی پارٹی کے ایک قادیانی وزیر لارڈ طارق محمود احمد جو فارن آفس کے وزیر اور ہاؤس آف لارڈز (ایوانِ بالا) کے ممبر بھی ہیں کو دنیا بھر میں ’مذہب اور عقیدے کی آزادی کو فروغ دینے کے لیے اپنا خصوصی ایلچی‘ (Prime Minister’s Special Envoy on Freedom of Religion and Belief ) مقرر کیا ہے۔
لارڈ طارق نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنا پہلا دورہ اسرائیل سے شروع کیا۔ دورے سے قبل برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فلسطینیوں پر واضح کیا کہ: ’’جو لوگ اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے انھیں امن مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا‘‘۔ لارڈ طارق نے اسرائیل میں حیفہ شہر کا خصوصی دورہ کیا اور وہاں اپنی جماعت کے ہیڈکوارٹر بھی گئے۔ انھوں نے وہاں رہایش پذیر پاکستانی قادیانیوں سے ملاقات کی اور تسلیم کیا کہ اسرائیل میں مقیم قادیانی دوسری کمیونٹیز کے ساتھ وہاں خوشی سے رہ رہے ہیں‘‘۔انھوں نے قادیانیوں کی اسرائیل میں موجودگی کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ’’انھیں پاکستان ،الجزائر اور انڈونیشیا میں تنگ کیا جاتاہے‘‘۔ درحقیقت بیرونِ ملک قادیانیوں کی موجودگی کا بہت بڑا سبب معاشی ہے، جسے مذہبی رنگ دے کر زیادہ سے زیادہ قادیانی خاندانوں کو مختلف ممالک میں آباد کر رہے ہیں۔ ’مذہبی جبر‘ کی آڑ میں مَیں پناہ گزینوں کا درجہ حاصل کر کے، میزبان ملکوں سے زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد حاصل کیے جارہے ہیں، اور اس پردے میں مفاد حاصل کرنے والوں کو بھی اپنے مذہب میں ترقی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
قادیانیوں نے مغربی ممالک کے بااثر اور مقتدر حلقوں میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے خاصا رُسوخ حاصل کر لیاہے ۔حال ہی میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی قادیانی بیرسٹر کریم اسد احمد خان کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے داعش کے خلاف تحقیقات کے لیے سربراہ مقرر کیا ہے۔ اس تقرر کی خبر دیتے ہوئے قادیانیوں کے اخبار ربوہ ٹائمز (Rabwah Times)نے بیرسٹر کریم اسد احمد خان کا تعلق قادیانی کمیونٹی سے ظاہر کیا ہے۔ قادیانی بین الاقوامی ہمدردیاں سمیٹنے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ایک منظم اور سوچے سمجھے طریقے سےاپنے آپ کو ایک مظلوم گروپ (Persecuted Community) کے طور پر پیش کر رہے ہیں حالاںکہ بیرسٹر کریم ایک برطانوی شہری ہیں۔ بیرون ملک اپنے حامیوں کے ذریعے قادیانی پاکستان پربین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے وہ اس بات کا مسلسل پروپیگنڈاکررہے ہیں کہ وہاں انھیں ایذا رسانی اور عقوبت (Persecution) کا سامنا ہے۔ ان کے بقول قادیانی پاکستان میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
دراصل جب سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ءمیں قادیانیوں کوآئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا ہے، یہ پچھلے ۴۰سال سے اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے آئین میں یہ ترمیم ختم کر دی جائے اور انھیں مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ تصورکیا جائے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں ان کی حمایت میں قائم ہونے والے گروپ کی سربراہ نے تسلیم کیا ہے کہ: ’’احمدی اپنے آپ کو ’مسلم‘ گردانتے ہیں لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ محمدؐانسانیت کو ہدایت کرنے والے آخری نبی نہیں تھے اور اس وجہ سے ان کو غیر مسلم قرار دے کر انھیں ایذا دی جاتی ہے‘‘۔ قادیانیوں کی علمی اور سیاسی بدیانتی کا عالم یہ ہے کہ اپنے حمایتیوں کو کبھی بھی باور نہیں کراتے کہ ہم اپنے بانی پر ایمان نہ لانے والوں کو خود مسلمان تصور نہیں کرتے اور انھیں کافر قرار دیتے ہیں۔ ان کی حامی کُل جماعتی پارلیمانی گروپ کی لیڈر سائیوبھین میکڈونگ عیسائی کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان کی جانب سے قادیانیوں کے لیے پُرجوش حمایت سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ قادیانیوں کے عیسائیوں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں گمراہی پر مبنی عقائد سے بالکل بے خبر ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قادیانیوں کا یہ شروع سے ہی عقیدہ ہے کہ ’مسلمان‘ ہم ہیں اور ہمارے بانی (مرزا غلام احمد)کو نبی نہ ماننے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔مولانا مودودی نے قادیانی مسئلہ میں ان کے عقیدے کا جائزہ لیتے ہوئےخود ان کی تحریروں سے ثابت کیا ہے کہ وہ ان تمام مسلمانوں کو اپنی تحریر و تقریر میں علانیہ کافر قرار دیتے ہیں جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ وہ صرف یہ نہیں کہتے کہ مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض مرزا صاحب کی نبوت کے معاملے میں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ،ہمارا اسلام، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا روزہ، غرض ہماری ہر چیز مسلمانوں سے الگ ہے۔
اُمت ِ مسلمہ سے قادیانیوں کی علیحدگی کے بارے میں مولانا مودودی کا استدلال یہ ہے کہ: ’’قادیانیوں کا مسلمانوں سے الگ ایک امت ہونا اس پوزیشن کا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے جو انھوں نے خود اختیار کی ہے ۔وہ اسباب ان کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں جو انھیںا مسلمانوں سے کاٹ کر ایک جداگانہ ملت بنادیتے ہیں۔ [چودہ سوچالیس سال] سے تمام مسلمان بالاتفاق یہ مانتے رہے ہیں اور آج بھی یہی مانتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید کی تصریح کا یہی مطلب صحابہ کرامؓ نے سمجھا تھا اور اسی لیے انھوں نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے حضوؐر کے بعد دعویٰ نبوت کیا۔ پھر یہی مطلب بعد کے ہر دور میں تمام مسلمان سمجھتے رہے ہیں جس کی بنا پر مسلمانوں نے اپنے درمیا ن کبھی کسی ایسے شخص کو برداشت نہیں کیا جس نے نبوت کا دعویٰ کیاہو۔ لیکن قادیانی حضرات نے تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتم النبیینؐ کی یہ نرالی تفسیرکی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبیو ں کی مہر ہیں اور اس کا مطلب یہ بیان کیا کہ حضوؐر کے بعد اب جو بھی نبی آئے گا اس کی نبوت آپؐ کی مہر تصدیق لگ کر مصدقہ ہوگی۔ان کی نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس [جھوٹی] نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے۔ چنانچہ قادیانیوں نے یہی کیا۔ (قادیانی مسئلہ،۱۹۷۳ء، لاہور)
مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے یاد دلایا ہےکہ ’’پاکستان کے کروڑوں آدمی اس بات کے شاہد ہیں کہ قادیانی عملاً بھی مسلمانوں سے کٹ کر ایک الگ اُمت بن چکے ہیں۔ نہ وہ ان کے ساتھ نماز کے شریک، نہ جنازےکے،نہ شادی بیاہ کے۔ اب اس کے بعد آخر کون سی معقول وجہ رہ جاتی ہے کہ ان کو اور مسلمانوں کو زبردستی ایک امت میں باندھ کر رکھا جائے‘‘۔
قادیانیوں کا معاملہ محض ایک سیدھا سادا مذہبی مسئلہ نہیں ہے، اس مسئلےکی نوعیت سیاسی بھی ہے۔ ان کے بعض ایسے خطرناک سیا سی رجحانات ہیں جن کے باعث ان کی پُرجوش بین الاقوامی سرگرمیاں ہرمحبِ وطن کے دل میں لازمی طور پرتشویش پیدا کرتی ہیں۔ وہ پاکستانی ریاست کے اندر اپنی ایک قادیانی ریاست کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد قادیانیوں کا خیال تھا کہ وہ بلوچستان کو جس کی آبادی بہت کم تھی ، ایک قادیانی صوبہ بنا سکتے ہیں تاکہ یہ خطہ پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست کی بنیاد (base)بن سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کلیدی عہدوں پر قادیانی عقیدہ رکھنے والے یا ان کے ہمدردوں کی تعیناتی ان کی سوچی سمجھی پالیسی رہی ہے اور وہ ماضی میں اس معاملے میں خاصے کامیاب رہے ہیں۔
وہ پاکستان میں اپنے لیے ہمیشہ سے ایسا ماحول چاہتے ہیں جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے گمراہ کن عقائد کی تبلیغ کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قادیانی بناسکیں۔ ریاست کے تمام اداروں میں ان کا اتنا رسوخ ہوکہ وہ ریاست کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوکر اپنے حق میں استعمال کریں۔ انھیں ادراک ہے کہ آئینی اور قانونی طور پر غیرمسلم ہونے کے باعث عوام الناس کی عظیم اکثریت اب ان کی شکارگاہ نہیں رہی، لیکن وہ بین الاقوامی مہم کے ذریعے پاکستانی حکومتوں کو دبائو میں لا کر اپنے لیے گنجایش پیدا کرنے کے لیے پوری دنیا، خصوصاً مغربی ممالک بشمول برطانیہ میں ہر طرح سے سرگرمِ عمل ہیں۔ برطانیہ سے قادیانیوں کا ایک صدی سے زائد عرصے کا تعلق آئے دن گہرا ہورہا ہے اور ان کے ہم عقیدہ افراد اب وزیر اور مشیر کی حیثیت سے برطانوی حکومت کا حصہ ہیں۔