فاضل مصنف زرعی یونی ورسٹی فیصل آباد میں پروفیسر رہے ہیں اور ان کا شمار زرعی ماہرین میں ہوتا ہے۔ باعث ِ تعجب ہے کہ انھوں نے ایک ایسے علمی اور فکری موضوع پر قلم اُٹھایا ہے جس کا زراعت کے کسی بھی شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن، حدیث اور دیگر علومِ اسلامیہ کے حوالے سے انھوں نے جس عمدگی سے مباحث سمیٹے ہیں، اس کا سبب خود ان کے خیال میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا فیضانِ نظر ہے۔ ان کے بقول :’’آپ کی تحریروں سے متاثر ہوکر ایک فرد کے اندر وہ نظرپیدا ہوجاتی ہے جس سے وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرسکتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر آفتاب صاحب کو اپنے زمانۂ ملازمت ہی سے شدید احساس تھا کہ وطن عزیز کے بعض ادارے اور نام نہاد دانش ور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں اور دینی تشخص کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں خاندانی نظام، حقوقِ نسواں، مساواتِ مرد وزن وغیرہ کے حوالے سے بعض احادیث کی آڑ میں دین بیزاری اور اباحیت کے جراثیم پھیلائے جارہے ہیں۔ وہ متعلقہ موضوعات خصوصاً حدیث کا مطالعہ کرتے رہے۔ ملازمت سے وظیفہ یاب ہونے کے بعدلمبی تعطیلات میں سعودی عرب میں قیام کا موقع ملا ۔ انھوں نے اپنے مطالعے کو مکمل کیا پھر قلم اُٹھا کر زیرنظر کتاب تالیف کی۔ اس کے ابواب کے موضوعات (علمِ حدیث اور اس کا ارتقا؛ جنسیت، انسانی زندگی میں اس کی ضرورت و اہمیت؛ اسلام میں عورت کا مقام اور خاندانی نظام؛ مساواتِ مرد و زن کے حامی اور منکرینِ حدیث کے شکوک و شبہات ، ایک تنقیدی جائزہ؛ قرآن اور احادیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ؛ احادیث میں جنسی موضوعات پر ایک مجموعی نظر) سے کتاب کے مباحث کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ درحقیقت مصنف نے بڑے دردمندانہ انداز میں صحیح اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کی۔ احادیث نبویؐ پر اعتراضات کا بھی بڑی عمدگی سے ردّ کیا ہے۔
کتاب کے آخر میں چار ضمیمے شامل ہیں۔ حدیث کے بارے جسٹس محمد شفیع کے اِشکالات پر مولانا مودودی کے تبصرے سے ڈاکٹر آفتاب صاحب کی توضیحات مزید مضبوط ہوتی ہیں۔ پھر ڈاکٹر محمد رضی الاسلام کے مضمون: ’فرد کی قوامیت، مفہوم اور ذمہ داری‘ اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالحی ابڑو کے مضمون ’عورتوں کی باجماعت نماز‘ کی حیثیت تائید ِ مزید کی ہے۔ناشر نے کتاب اچھے معیار پر شائع کی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
سائنسی ترقی نے دُور دراز ملکوں اور براعظموں کی طنابیں کھینچ دی ہیں۔ ’پردیس‘ کا تصور ختم ہونے کو ہے۔ ایک طرف انسان سمندروں سے پاتال کی خبریں لارہا ہے اور دوسری طرف وہ ستاروں کی گزرگاہوں کا ہم رکاب ہے، مگر اِس غیرمعمولی ترقی کے باوجود وہ بقولِ اقبال: ’زندگی کی شب ِ تاریک سحر کر نہ سکا‘ کی کیفیت سے دوچار ہے۔ سائنس نے انسان کے لیے آسایش مہیا اور آسانیاں فراہم کی ہیں۔ اِس اعتبار سے وہ انسانیت کے لیے باعث ِ رحمت ہے مگر بعض حریص انسانوں اور قوتوں نے سائنس کو نیوکلیائی ہتھیاروں اور طرح طرح کی زہریلی گیسوں، اور زہریلے جرثوموں والے بموں کے ذریعے دو عظیم جنگوں میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اب بھی یہ سلسلہ افغانستان، شام، عراق اور صومالیہ میں جاری ہے۔
زیرنظر کتاب اسی اجمال کی تفصیل پیش کرتی ہے۔ آٹھ ابواب (سائنس اور ٹکنالوجی ایک تعارف۔ سائنس رحمت بھی زحمت بھی۔ بنی نوعِ انسان کی ہلاکت۔ سیاسی و اقتصادی استحصال۔ انسانوں پر سائنسی تحقیق اور مالی مفادات۔ ماحول کی تباہی۔ سائنس کا ذمہ دارانہ استعمال) کے عنوانات سے موضوع کے ابعاد کا اندازہ ہوتا ہے۔ مصنف نے ایک بہت پھیلے ہوئے موضوع کے سمندر کو ایک کتاب کے کوزے میں بند کر دیا ہے۔
دراصل، سائنس اور ٹکنالوجی توایک ذریعہ ہے۔ آپ چاہیں تو اس کے ذریعے انسان کو بیماریوں سے نجات دلا کر اُسے صحت مند بنا سکتے ہیں۔ چاہیں تو اُسے اعلیٰ تعلیم دلا کر نئی سے نئی ایجادات کے ذریعے سے زندگی کو باسہولت بنا سکتے ہیں، مگر جیساکہ فیضان اللہ خان نے بتایا ہے کہ بڑی طاقتوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کو اپنے مخالفین اور چھوٹی قوموں کے استحصال کا ذریعہ بنایا، سائنسی تجربات کے لیے زندہ انسانوں کی چیرپھاڑ کی اور کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں کو پھیلایا۔
مصنف نے مستند حوالوں کے ذریعے برطانیہ، امریکا، جاپان،عراق، شام اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے اداروں اور مجرمین کی نشان دہی کی ہے۔ بڑی طاقتوں کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے اپنے جرائم پر پردہ پوشی کے لیے کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی کی بظاہر تو حمایت کی اور معاہدے بھی کیے کہ ہم ان ہتھیاروں کے استعمال سے اجتناب کریں گے مگر جرائم کا ارتکاب بھی جاری رکھا۔ مصنف کہتے ہیں: ’’ٹکنالوجی نے لوگوں کے درمیان فاصلے تو ختم کر دیے، لیکن دلوں کے فاصلوں میں اضافہ ہوگیا۔ کیونکہ انسان سائنسی ترقی کو اپنے اقتدار اور غلبے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ آسمانی ہدایت ہی دینِ اسلام کی جامع ترین شکل میں دنیاوی تعصبات و ترجیحات سے ماورا ہوکر رہنمائی کرتی ہے اور اِس راستے پر چل کر انسان سائنس کو نسلِ انسانی کے لیے کامل راستہ سلامتی کا ذریعہ بنا کر رکھ سکتا ہے‘‘۔
اس وقت، جب کہ ماحولیاتی آلودگی ، گلوبل وارمنگ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی پوری دنیا کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں، سائنس بورڈ نے ایک راہ نماکتاب تیار اور شائع کرکے ایک مفید خدمت انجام دی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اُردو کے علمی حلقے مریم جمیلہ کے نام سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ان کی درجنوں انگریزی کتابوں میں سے چند ایک کے اُردو تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔ مغربی تہذیب کے بارے میں ان کے خیالات اس لیے اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور ان کی تعلیم امریکی اور ایک یہودی اسکول اور بعدازاں یہودی اساتذہ کی شاگردی اور نگرانی میں ہوئی لیکن اللہ نے انھیں ہدایت دی۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور پلٹ کر کبھی امریکا نہیں گئیں۔ یہیں پیوند ِ خاک ہوئیں۔
اُردو میں ترجمہ شدہ ان کے ۱۶مضامین اور مصاحبوں (انٹرویو) پر مشتمل زیرنظر کتاب خاصی دل چسپ ہے، حالاں کہ ایسے علمی مباحث کم ہی ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ مغربی تہذیب اور مادہ پرستی، تحریکِ آزادیِ نسواں ، ابوالکلام آزاد، سرسیّد احمد خاں، جدید ترقی و تمدن اور مولانا مودودی وغیرہ۔ دو مضامین (میرا مطالعہ - یہودیت سے اسلام تک) کی حیثیت خودنوشت کی ہے۔ اسی طرح آخری مصاحبہ ’مریم جمیلہ کی کہانی خود ان کی زبانی ‘ایک طرح کی خودنوشت کی حیثیت رکھتا ہے۔
بعض باتیں چونکا دینے والی ہیں، مثلاً وہ کہتی ہیں:’’موجودہ صورتِ حال میں احیاے اسلام کی کسی تحریک کی کامیابی کا امکان نظر نہیں آتا‘‘۔ان کے خیال میں اس کی متعدد وجوہ ہیں، مثلاً : ’’ہماری جدید تعلیم یافتہ اشرافیہ، سابقہ فرماں روائوں کی ہوبہو نقل ہیں اور یہ لوگ جوش و جذبے کے ساتھ وطن یا معاشرے کو مغربی ممالک کی روایات میں رنگنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس اشرافیہ کے لوگ تعداد میں بہت کم ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں کی آبادی کا ایک تہائی، یعنی عوام اگرچہ مضبوط عقیدے کے مسلمان ہیں اور کچھ باعمل بھی ہیں، لیکن ان سب کو آسانی سے ورغلایا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر مسلمان اسلام کو حساس معاملہ سمجھنے کے بجاے عادت اور رواج کے طور پر اپناتے ہیں۔ تیسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مصنّفین موجودہ زمانے کے مسائل کا قابلِ عمل اور حقیقی حل پیش کرنے کے بجاے ماضی کی کامیابیوں پر فخر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں‘‘۔مریم جمیلہ کے خیال میں ہماری کامیابی کا امکان صرف اس صورت میں ہے کہ مادیت پرستوں سے دنیا کی قیادت چھین لی جائے۔
جملہ مضامین فکرانگیز ہیں، خصوصاً کالجوں کے اساتذہ کے لیے قابلِ مطالعہ___ خالد امین نے قریب قریب نصف مضامین خود ترجمہ کیے یا دوستوں سے کرائے۔ یہ اہتمام لائقِ داد ہے۔کتاب خوب صورت چھپی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)