پاکستان اس وقت ایک غیرمعمولی صورتِ حال سے گزر رہا ہے اور ایک کے بعد دوسرے گرداب میں گھرا ہوا ہے۔ مَیں بڑے دُکھ سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ وطنِ عزیز کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے حکومت ، احزابِ اختلاف، میڈیا اور سوشل میڈیا وہ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے، جو قومی مفاد کی مناسبت سے ان پر عائد ہوتی ہے۔
تین منظرنامے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں جن میں:پہلا اور اوّلین ملک کا اندرونی منظرنامہ ہے۔ دوسرا علاقائی منظرنامہ اور پھر تیسرا عالمی منظرنامہ۔ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ان چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے الگ الگ پالیسیاں، متضاد اور متناقض رویے اختیار کرنا سخت نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
یہاں ان وجوہ کا تذکرہ نہیں کیا جارہا جن کی بنا پر ۷۰برس کے دوران میں ہم نے مختلف نشیب و فراز دیکھے ہیں۔البتہ ملکی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قیامِ پاکستان کے جو چار بنیادی اہداف تھے، انھیں پیش نظر رکھا جائے۔ اوّلیں اور سب سے اہم ہدف ہے: ایک حقیقی اسلامی معاشرے اور مملکت کا قیام۔ دوسرا ہدف اسلام کی روح کے مطابق ایک ایسے جمہوری نظام کا قیام ہے کہ جس میں عوام اپنی قسمت اور مستقبل کے ذمہ دار ہوں اور اس کی تشکیل اور تعمیر میں اپنے منتخب نمایندوں کے ذریعے سے کردار ادا کریں، اور یہ منتخب نمایندے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔ تیسرا ہدف یہ ہے کہ ملک کا نظامِ حکومت دستور، قانون اور ضابطۂ کار کے مطابق چلے۔ اور چوتھا یہ کہ حکومت کا مقصود عوام کی بھلائی، ان کی بہبود اور ان کے معیارِ زندگی کے ساتھ ان کے معیارِ اخلاق کو بلند کرنا بھی ہو۔ اس کے لیے دُنیوی وسائل اور جدید ٹکنالوجی کا حصول ضروری ہے، تاکہ ترقی کے لیے مؤثر قوتِ کار فراہم کی جاسکے۔
ان بنیادی اہداف کے ساتھ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ یہ زمینی حقائق ہیں کہ ہم بہرحال ایک وفاق ہیں،اور ہمارے ہاں ایک تنوع پایا جاتا ہے۔ بجاے اس کے کہ ہم گروہی، علاقائی اور قومیتی عصبیتوں میں مبتلا ہوں، مناسب ہوگا کہ اختلاف کے باوجود اتفاق و اتحاد اور رواداری اور افہام و تفہیم کے ماحول میں محنت اور جدوجہد کریں اور موجودہ حکومت کو موقع دیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے پیش رفت کرے۔
قائداعظم نے ان تمام چیزوں کو ان تین الفاظ میں جمع کر دیا: ایمان، اتحاد اور تنظیم۔ یہ بھی کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ ایمان پہلے آتا ہے یا اتحاد پہلے آتا ہے۔ میرے علم کی حد تک قائداعظم نے اسے دونوں طرح استعمال کیا ہے لیکن زیادہ تر ایمان پہلے آیا ہے، اتحاد اس کے بعد اور تنظیم آخر میں ہے۔ یہ الفاظ ایک دوسرے سے مربوط ہیں، ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں اور برابر کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ملک کی صورتِ حال پر نظر ڈالیے۔ اس وقت قوم کو لفظی بحثوںمیں اُلجھایا جارہا ہے، اس سے قوم کو معاف رکھا جائے۔ قیامِ پاکستان کے بنیادی اصول و اہداف (objectives) جنھیں ہم بھول گئے ہیں، انھیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
لفظوں کی ترتیب کی بہرحال ایک معنویت ہوتی ہے، اسی لیے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ’ایمان، اتحاد اور تنظیم‘ کو قومی موٹو قرار دیا گیا۔ قرآن ہمیں ایمان، عمل اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ انبیاے کرام ؑ کا مقصد تلاوتِ آیات، تزکیہ، تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت ہے:
كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ (البقرہ ۲:۱۵۱) ’’ہم نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا، جو تمھیں ہماری آیات سناتا ہے، تمھاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
خاص طور پرپچھلے ۲۰ برس قومی زندگی کے لیے اہم ہیں کہ ان میں پچھلے ۱۰سالہ فوجی آمریت کا دور، پھر پانچ سالہ پیپلزپارٹی کا دور اور سابقہ پانچ سالہ نون لیگ کا دور___ یہ تینوں حکمران اپنے دیے ہوئے اہداف کے حصول میں ناکام رہے۔ مزیدبرآں پاکستان کی آزادی اور خودمختاری، سالمیت، معاشی صلاحیت میں ترقی، نظریاتی استحکام ، جمہوری روایات، دستور، قانونی اداروں کی حکمرانی کو ہرایک نے اپنے اپنے انداز سے پامال کیا ہے۔یہ ہے عوام کی مایوسی کی وہ بنیاد جس نے تبدیلی کی لہر کو جنم دیا ہے۔
تبدیلی اور مدینہ کی ریاست کے ماڈل کو مرکزیت دے کر پاکستان کو اس کے سیاسی، تہذیبی، اخلاقی اور معاشی بحران سے نکالنا جماعت اسلامی کا مقصد ہے۔ ۲۰۱۳ء میں جماعت اسلامی کے منشور کا مرکزی موضوع بھی یہی تھا، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب ہم اپنے موضوع و مقصد کو عوام اور اپنے ووٹروں کے لیے باعث ِ کشش نہیں بنا سکے تو عمران خان اور ان کی پارٹی نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں مختلف سطحوں پر نمایاں گڑبڑ ہوئی ہے اور یہ گڑبڑ ماضی کے مقابلے میں زیادہ فن کارانہ انداز میں ہوئی ہے۔ لیکن یہاں پر حسب ذیل دو باتوں کا ادراک ضروری ہے اور انھیں انتخابات میں مداخلت کے علی الرغم اہم عوامل کی حیثیت سے زیرغور لانا چاہیے:
پہلی بات یہ کہ عوام تبدیلی چاہتے تھے اور چاہتے ہیں ، اسی لیے انھوں نے سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک تیسری قوت کو آگے لانا ضروری سمجھا۔ اس خواہش کو انتخابی اعتبار سے نتیجہ خیز بنانے کے لیے کس نے کیا کیا کردار ادا کیا، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، جس پر الگ سے تحقیق اور گفتگو ہونی چاہیے۔لیکن جو اندرونی مسئلہ ہے، یعنی تبدیلی اور وہ بھی ایک خاص سمت میں اور روایتی سیاسی قیادت اور اداروں کی ناکامی___ یہ ایک حقیقت ہے اور یہی بڑا چیلنج ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان صاحب کی حکمتِ عملی میں یہ چیزیں مرکزی اہمیت کی حامل تھیں۔
دوسری بات جس کے بارے میں مجھے کوئی تحفظ نہیں، وہ یہ ہے کہ انتخابات میں اثرانداز ہونے کا معاملہ نیا نہیں ہے۔ ایسا کبھی زیادہ اور کبھی کم ہوتا رہا ہے، بلکہ برملا کہوں گا کہ پاکستان میں کوئی بھی انتخابات آج تک حقیقی معنوں میں شفاف نہیں ہوئے، بشمول ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے جس کے بارے میں یہ غلط تاثر بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ بہت غیر جانب دارانہ تھے۔ حالاںکہ ان انتخابات میں بھی مغربی پاکستان میں نسبتاً کم لیکن مشرقی پاکستان میں بہت زیادہ مداخلت ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں انتخابی عملہ اور پولنگ اسٹیشن مکمل طور پر عوامی لیگ کے قبضے میں تھے۔ عوامی لیگ نے سارا سال کسی دوسری پارٹی کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی اور پورے انتخابی عمل کو آغاز سے انجام تک اغوا کیے رکھا۔مگر حیرت ہے کہ ہمارے دانش ور اسے ’آزادانہ انتخابات‘ کہتے ہیں، حالاں کہ وہ صرف ’عوامی لیگ کے انتخابات‘ تھے۔پھر اس کے نتائج ہم نے قومی سطح پر بھگتے۔
حالیہ انتخابات میں تمام تر بے اعتدالیوں کے باوجود، مَیں سمجھتا ہوں کہ انتخابی نتائج کو تحفظات کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو کام کرنے دینا چاہیے اور جہاں جو چیز غلط ہوئی ہے، اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔
حزبِ اختلاف احتجاج کر رہی ہے اور احتجاج اس کا حق ہے، مگر کوئی ایسا احتجاج جس سے جمہوری عمل متاثر ہو یا خدانخواستہ ناکام ہوجائے، یہ ہمیں اس سے بڑی مصیبت کی طرف لے جائے گا، اس لیے ہمیں ان دونوں باتوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ: ایک یہ کہ عوامی رو موجود ہے اور حقیقی ضرورت بھی ہے اور اس کو ایک سیاسی جماعت نے اپنے لیے بامعنی بنایا بھی ہے۔ بعض قوتیں کوشش کر رہی ہیں کہ ملک کسی طرح تصادم کی طرف جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تباہی کا راستہ ہے، اس سے ہمیں ہرصورت میں بچنا چاہیے۔
راستہ یہ ہے کہ ہم دستور اور جمہوری نظام کے اندر سیاسی مکالمے، احتساب اور سیاسی عمل کے ذریعے سے بہتری لانے کی کوشش کریں۔ اس میں حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے اور اپوزیشن بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت یہی ایک راستہ ہے، تصادم کوئی راستہ نہیں ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ تصادم خواہ شکست خوردہ قوتیں کرنا چاہ رہی ہیں یا وہ سیاسی قوتیں جو کرپشن کا ہدف بننے کی وجہ سے (بجاے اس کے کہ کرپشن سے اپنی پاک دامنی کو ثابت کریں) سیاسی نظام کو عدم استحکام سے دوچار اور اداروں کو تصادم کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن رہی ہیں، وہ سب قابلِ مذمت ہیں۔ یہ طرزِعمل حددرجہ افسوس ناک ہے، اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔
اب علاقائی (regional) منظرنامے کو دیکھیے۔ خطے میں بہت اہم علاقائی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ان علاقائی تبدیلیوں میں امریکا کا بہت دخل ہے۔ اس نے نائن الیون کو اپنے گھٹیا مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ افغانستان کو مسلسل جنگ کے نتیجے میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں معقولیت کے ساتھ معاملات کو سلجھانے کے بجاے عراق پر حملہ کیا اور پھر ۲۰۰۳ء سے لے کر آج تک (۱۵سال ہوگئے ہیں کہ) عراق، شام اور لیبیا، امریکی سامراجیت کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں۔ پورا خطہ تصادم اور تباہی و بربادی سے دوچار ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں، آگے بڑھ کر مشرق وسطیٰ میں شیعہ سُنّی تصادم کی فضا پیدا کی اور قوت کا استعمال کر کے یمن کو نشانہ بنایا گیا۔
امریکا کے علاوہ ایران کا کردار بھی متعددحوالوں سے غیرتسلی بخش ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ عراق میں ایران نے کچھ مقامات پر القاعدہ یا اس سے نکلنے والے افراد کی مدد کی ہے۔ ادھر لبنان کی حزب اللہ نے شیعہ سُنّی ٹکرائو میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ بھی واضح ہے۔ شام کے معاملے میں جس طرح شیعہ سُنّی کا مسئلہ اُٹھایا گیا اور پھر یمن پر حملہ،پھر قطر کو دیوار سے لگادینا اور اسے تنہائی سے دوچار کرنا۔ گویا عرب اور عجم کو لڑانا، عرب اور عرب کو لڑانا اور اس طرح سب کو اپنا دست نگر بنانا امریکی پالیسیوں کا ہدف ہے۔ پھر امریکا کا ایک طرف یہ کہنا کہ ہم القاعدہ اور داعش کے خلاف ہیں اور دوسری طرف اس کا داعش کے ان گروپوں کی مالی اور اسلحے کی شکل میں مدد دینا جو ترکی کے خلاف بھی صف آرا ہیں، ایک ظالمانہ شیطانی کھیل ہے ۔سی آئی اے ان کو مالی امداد فراہم کر رہا تھا اور امریکی اہل کار ان کے پاس پہنچ رہے تھے۔ یہ عجیب و غریب منظر دل کو دہلا دینے والا اور آنکھوں کو کھول دینے والا ہے، لیکن بدقسمتی سے مسلم ممالک اب بھی غفلت کا شکار ہیں اور امریکا اور استعماری قوتوں کے چنگل سے نکلنے کی کوشش نہیں کررہے۔
اس صورتِ حال میں پاکستان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں، لیکن بہرحال پاکستان بہت سی ایسی چیزوں سے بچ بھی گیا ہے جن سے اسے بچنا چاہیے تھا۔ ترکی، پاکستان، ملایشیا اور انڈونیشیا یہ چار ممالک ہیں جو اس پوری صورتِ حال میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے لیے اس منظرنامے میں بھارت کا کردار اہم ہونے کے ساتھ خطرناک بھی ہے۔
بھارت نے اس زمانے میں دُوراندیشی سے ایک طرف روس سے اپنے تعلق کو باقی رکھا ہے، ایران سے دوستی بڑھائی ہے تو دوسری جانب ایران اور امریکا کے ذریعے افغانستان میں اپنے اثرات بڑھائے ہیں۔ امریکا کے ساتھ حقیقی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بنائی ہے۔اس وقت امریکا بھارت اتحاداس پورے خطے میں بھارت کو آگے بڑھانے اور چین کو ہدف بنانے کے لیے پوری قوت سے متحرک ہے۔اس گمبھیر ، اُلجھی ہوئی اور نازک صورتِ حال کا اِدراک اور خارجہ پالیسی کو حکمت و بصیرت کے ساتھ مرتب کرنا بہت ضروری ہے ورنہ پاکستان کے لیے بڑے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
تیسرا منظرنامہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر پورا ورلڈ آرڈر (عالمی نظام) بدل رہا ہے۔ یہ عمل نائن الیون سے پہلے شروع ہوگیا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکا کو توقع تھی کہ وہ واحد عالمی سوپرپاور کی حیثیت سے پوری دنیا پر حاوی ہوجائے گا ، مگر اللہ کی حکمت سے معاملہ اس کے برعکس ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکا میں دُوری، روس کا نیا کردار، چین کا مؤثر کردار اور خود امریکا میں ’امریکافرسٹ‘ (سب سے پہلے امریکا)کے نعرے کا عام ہونا ایک نئی صورتِ حال کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد امریکا اپنے آپ کو نہ صرف ورلڈ آرڈر سے نکالنے بلکہ اسے تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس کے تحت اس نے اقوام متحدہ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فورم اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو ہدف بنایا ہے۔ ایران سے جوہری پروگرام کی تحدید کا معاہدہ چھے ممالک سے ہوا تھا، اس معاہدے سے نکل کر امریکا نے تباہی کی ایک نئی صورتِ حال پیدا کر لی ہے۔ پیسفک کے ۱۲ممالک کے معاہدے سے امریکا نکلا ہے، میکسیکو اور کینیڈا سے بھی کھچائو اور کشاکش کا کھیل جاری و ساری ہے۔یہ عالمی سطح پر بگاڑ اور انتشار کی علامت ہے۔
پھر اس کے ساتھ ساتھ دولت اور غربت کا ارتکاز تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس زمانے میں حقیقی قوتِ خرید انسانوں کی عظیم اکثریت کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور لاکھوں کروڑوں میں کھیلنے والے ادارے اور افراد کھل کر اور چالاکی سے اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کررہے ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں جو معاشی بحران شروع ہوا، وہ نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہو رہا بلکہ اس نے سرمایہ داروں، کارپوریشنوں اور بنکوں کو تقویت پہنچائی اور مضبوط بھی کیا ہے۔ عام انسان، حتیٰ کہ امریکی صدر اوباما کے دور میں عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے جو کوشش کی گئی تھی (کہ کسی طرح ہائوسنگ، انشورنس، صحت کے مسئلے پر عوام کو کچھ سہولت دی جائے)۔ امریکا اب اس سے بھی پیچھے ہٹ رہا ہے۔ شعبۂ تعلیم و تحقیق، امریکا کا بہت بڑا اثاثہ رہا ہے، لیکن ترجیحات کے اُلٹنے سے اب تعلیم ہر جگہ خریدوفروخت کی چیز بن گئی ہے۔ مفت تعلیم جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا ہے، وہ نہ صرف امریکا میں بلکہ پوری دنیا میں رُوبہ زوال ہے۔
ان تینوں منظرناموں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کا جائزہ لینے اور عصری حالات میں بہتر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے، البتہ اس میں میری نگاہ میں اصل اور بڑا چیلنج داخلی ہے۔ ہم علاقائی اور عالمی صورتِ حال کو نظرانداز کرکے داخلی صورتِ حال کو بہتر نہیں بناسکتے۔ داخلی صورتِ حال ہی اصلاح اور مضبوطی کا ذریعہ ہے کہ جس سے خارجی حالات کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
اس لیے داخلی استحکام ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ رہی عالمی اور علاقائی صورتِ حال، تو اس کے بارے میں جہاں تک ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں، کرنا چاہیے۔ پھر ہمارے اس خطۂ ارضی کو بھارت کی ہٹ دھرمی اور کشمیر میں سفاکی نے خطرناک بنادیا ہے۔ اسی طرح دیگر مسلم ممالک کے مسائل ہیں جنھوں نے گلوبل ڈس آرڈر (عالمی بدنظمی) کو رواج دیا ہے۔ ان مسائل اور ان کے متاثرین کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کا ہم آواز ہونا ___ ہماری نگاہ میں رہنا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
تحریکِ انصاف کی حکومت نے دو تین پہلوئوں سے شروع ہی میں لوگوں کو مایوس کیا ہے اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ بلاشبہہ ان کے لیے پہلا موقع ہے، خاص طور پر عمران خان کے لیے کہ اس سے پہلے کبھی ان کی حکومت نہیں رہی ۔ انھیں بہت کچھ سیکھنا ہوگا اور ماہرین کی آرا سے فائدہ اُٹھا کر، قابلِ اعتماد اور باصلاحیت افراد سے استفادہ کرتے ہوئے اور خود اپنی ٹیم کو رہنمائی دینا ہوگی۔یاد رکھنا ہوگا کہ وہ دوسروں پر سخت جارحانہ تنقید کرتے رہے ہیں، اور اب انھیں اپنے دامن کو ایسے تمام داغوں سے بچاکر چلنا ہوگا۔
مجھے خود اس بات کا تجربہ ہے کہ جب اگست ۱۹۷۸ء میں پلاننگ کمیشن میں بطور وزیر آیا تو وزارت میں جماعت اسلامی کے تین محترم رفقا پروفیسر عبدالغفوراحمد صاحب، محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور محترم محمود اعظم فاروقی صاحب بھی پاکستان کی وفاقی کابینہ میں شامل تھے۔ پروفیسر غفورصاحب اور محمود اعظم فاروقی صاحب مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن میں اچھی گرفت اور تجربہ رکھتے تھے، لیکن ان کے برعکس میرا سارا علم کتابی اور تجربہ دعوتی کام کا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب فوج میں رہے تھے اور پھر انھیں جماعت کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے انتظامی اُمور کو چلانے کا تجربہ بھی میسر تھا۔
اس تناظر میں ہمیں اندازہ ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد ایک دم کس طرح ایک نئی دنیا آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ الحمدللہ ،ثم الحمدللہ ہم آٹھ نو ماہ تک حکومت میں رہے ہیں لیکن کوئی ایک مثال نہیں دی جاسکتی کہ ہمارے بیانات میں تضادات ہو یاہم نے قابلِ ذکر غلطیاں کی ہوں یا ہم نے جو فوری اقدامات کیے، وہ ندامت کا باعث بنے ہوں۔ دوسرا یہ کہ جماعت اسلامی نے ہماری تربیت کی تھی، چنانچہ ہم نے مشاورت میں ہمیشہ تحمل سے بات کی اور سنی بھی، اس طرح بولنے سے پہلے ہرمرحلے پر سوچا بھی کہ اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ پھر فوجی حکمرانی میں انتظامی حدود کے جو زمینی حقائق تھے، ان کو سامنے رکھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھا اور پھر عمل کر کے دکھایا بھی کہ کس طرح کام ہوتا ہے۔
مجھے یہی توقع تھی کہ عمران خان بھی اپنے تجربات کی بنا پر ایسا کریں گے، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ۲۰۱۳ء سے جن مسائل و معاملات پر وہ یکسوئی سے بات کر تے رہے ہیں، ان سے وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹے ہیں۔ اس میں یہ دو تین چیزیں اہم ہیں: ایک یہ کہ ان کے سیاسی موقف کا بہت اہم حصہ یہ تھا کہ انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے بارے میں دیکھنا ہوگا کہ وہ باصلاحیت ہوں اور ان کا دامن صاف ہو۔ ان کی اس بات میں بڑی اپیل تھی مگر عملاً وہ اس سے پیچھے ہٹے۔ دوسری طرف نوجوانوں نے آنکھیںبند کرکے ان کا ساتھ دیا ہے۔ یہ بہت بڑی قوت تھی اور ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں باصلاحیت افراد موجود ہیں۔ ریاست کی انتظامی مشینری میں بھی باصلاحیت اور اچھے لوگ موجود ہیں۔ میں نے خود پلاننگ کمیشن میں آنے کے بعد پہلا کام یہی کیا تھا کہ سب سے پہلے محنتی اور باصلاحیت افراد کی ٹیم بنائی تھی۔ اگر وہاں اچھی ٹیم نہ بناتاتوجو کچھ خدمات انجام دے سکا، وہ مَیں انجام نہ دے سکتا تھا۔ اس معاملے میں عمران خان توقعات پرپورا نہیں اُترے اور انتخابی کامیابی حاصل کرنے والے افراد کے چکّر میں، یا دوستیوں کی بنا پر وہ اس سے پیچھے ہٹے ہیں۔ حالاںکہ ان کا ایک خاص منصوبہ بھی رہا ہے کہ ایک ٹیم بنائی جائے۔ وہ جن لوگوں کو آگے لائے ہیں ان میں کچھ اچھے اور لائق لوگ بھی ہیں، ان کے نظریاتی کارکن بھی اور کچھ نوجوان بھی آئے ہیں لیکن ایک خاصی بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جن کی شہرت اچھی نہیں اور جن پر الزامات ہیں۔ ان کی وجہ سے ان کا عمومی تاثر خراب ہوا ہے۔
دوسری چیز جو پریشانی کا باعث رہی، ان کی سوچ اور گفتگو کا انداز ہے۔ انھوں نے تنقید کا جو انداز اپنایا اور جو الفاظ استعمال کیے، وہ ہماری اخلاقی اور تہذیبی روایات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس چیزکو جاری رکھنا اگرچہ خواہ پہلے کی نسبت کم ہوا ہے، لیکن ان کا اوران سے بھی زیادہ ،ان کے ترجمانوں کا مخالفین پر تنقید کا انداز بہت نقصان دہ ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ مشورے اور گہری سوچ کے بغیر اہم فیصلے کرنا اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ فیصلوں کا قبل از وقت اعلان کرنا ہے۔ یہ چیز انتظامیات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی اور شوریٰ کے اصول کے بھی خلاف ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ہرمعاملے پر علی الاعلان اظہارِ خیال ان کی حکومت کا طرزِعمل بنتا جارہا ہے۔ ایک جانب جلدبازی میں فیصلوں کا اعلان کردیتے ہیں اور پھر اچانک فیصلہ بدل دیتے ہیں، جو باعث ِ ندامت ہوتا ہے۔ ڈپلومیسی ۹۰ فی صد خاموشی کا نام ہے اور ۱۰فی صد اس کا اظہار زبانی (vocal ) اور بہ آوازِ بلند (loud) ہوتا ہے۔ مگر عمران حکومت نے معاملہ اس کے اُلٹ کر دیا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ڈپلومیسی بھی ٹویٹر (tweeter) کی مرہونِ منت ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اڑھائی مہینے کے دوران میں عوام کی توقعات کو صدمہ پہنچا ہے۔
ان تمام کمزوریوں، خامیوں اور تضادات کے باوجود حکومت کرنے کا انھیں موقع دیا جائے۔ جو کام یہ ٹھیک کریں، اس کی تائید کی جائے، محض مخالفت براے مخالفت نہ کی جائے۔ البتہ جو کام پالیسی کے اعتبار سے غلط کریں، ان پر گرفت اور تنقید کی جائے، لیکن یہ تنقید بھی جارحانہ نہیں بلکہ تعمیری ہونی چاہیے، تاکہ اس سے معاملات میں بہتری آسکے۔ اس میں حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اپنے رویوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ان کے درمیان باہمی رابطے اور افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ اس وقت رابطے اور افہام و تفہیم میں دونوں کی طرف سے کوتاہی کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے یہ بے نیازی زیادہ ہے۔ حکومت کو پہل کرتے ہوئے زیادہ بُردباری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس وقت یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہم ایک منقسم قوم ہیں اور مختلف سطحوں پر گروہ بندی (polarlization) کا شکار ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف راے اور مسابقت اپنی حدود کے اندر رہنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ قومی فریم ورک پر اتفاق بھی رہنا چاہیے۔ قومی فریم ورک کا دفاع اور اسے مضبوط کرنے کی کوشش، یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ گروہ بندی سے نکلا جائے اور سخت نوعیت کی تقسیم کو ختم کیا جائے یا کم کیا جائے۔ باہمی رابطے کا راستہ اختیار کیا جائے اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔
دوسرا مسئلہ اداراتی بحران کا ہے۔ کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو صورتِ حال شدید اداراتی بدنظمی کا نوحہ سناتی ہے۔ مَیں اسے مکمل اداراتی ناکامی نہیں کہتا مگر یہ حقیقت ہے کہ اداروں پر اعتبار و اعتماد کی فضا موجود نہیں ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، انتظامیہ، میڈیا، سوشل میڈیا اس وقت بڑے بڑے مؤثر عوامل ہیں مگر یہ سب ایک سطح پر نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنا دستوری، سیاسی اور تہذیبی کردار خاطرخواہ طریقے سے ادا نہیں کر رہا۔ مداخلت، گروہ بندی ، لوگوں کو خریدنا، اپنی لابی بنانا، نان ایشوز کو ایشوز بنانا___ یہ انھی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ نتیجہ ہے: ذہنی انتشار جو ہمارے دشمن اور عالمی اور علاقائی بحران پیدا کرنے والوں کے مقاصد پورا کرنے میں معاون بن رہا ہے۔ ’انسٹی ٹیوشنل ڈس لوکیشن‘ سے نکلنا اور اس کی اصلاح کی جائے۔
میری نگاہ میں آج بھی ملک میں معقول تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں، جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاکر بہت کم وقت میں اداروں کو مؤثر اور متحرک کیا جاسکتا ہے۔ ہردائرے میں اچھے لوگ موجود ہیں بشرطیکہ ہم اپنی ذاتی پسند اور ناپسند سے بالا ہوکر انھیں اداروں میں لائیں اور ان کو اختیار دیں اور موقع بھی دیں۔ پنجاب میں اصلاحِ احوال کے لیے ایک ایسے باصلاحیت شخص کو لایا گیا جس نے خیبرپختونخوا میں پولیس کی اصلاح کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کیا تھا، اور جسے سب نے سراہا تھا۔ لیکن پنجاب میں وہ ایک مہینے سے زیادہ چل نہ سکا۔ خیبرپختونخوا میں اپنی پسند سے جس شخص کو احتساب کے لیے مقرر کیا ، قانون بنایا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ قانون نیب کے قانون سے اچھا تھا لیکن اس قانون پر کچھ عرصہ بھی عمل نہ ہوا اور پھر بالآخر وہ ادارہ ہی ختم کرنا پڑگیا۔ اس اداراتی بحران کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
تیسری چیز کرپشن ہے۔ کرپشن فی الحقیقت ایک بہت بڑی بیماری ہے، بہت بڑی لعنت ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، مقدار و معیار بھی دونوں اعتبار سے۔ اور بدعنوانی کی واردات میں ملوث افراد کے ہاں کرپشن کی نئی نئی صورتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ کرپشن برطانوی دورِغلامی میں بھی تھی۔ یاد رہے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی قائداعظم نے تمام معاملات سے پہلے کرپشن اور اقرباپروری، تنگ نظری، مگر عصبیت، گروہ بندی، لسانیت اور قومیت پرستی پر ضرب لگائی تھی۔ مگر افسوس کہ کرپشن اس کے باوجود آگے بڑھی ہے۔
پہلے ۱۰ برسوں میں شاذشاذ ہی مالی کرپشن ہوتی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں ہم لوگ فریئر روڈ کراچی پر رہتے تھے اور ساتھ ہی گورنمنٹ سیکرٹریٹ تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ان لوگوں کو دیکھاجنھوں نے توبہ کی اور عہد کیا کہ: ’’ہم نے انگریزکے زمانے میں رشوت لی تھی لیکن اب نہیں لیں گے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے‘‘۔ کلرکوں نے قلم دوات تک اپنے پاس سے لا کر کام کیا ہے۔ یہ جذبہ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ پرمٹوں کا چکّر، اقرباپروری، زمینیں، مہاجرین کے حقوق پر دست درازی اور بی ڈی ممبرسسٹم سے کرپشن بڑھتی چلی گئی۔ اس کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کے زمانے میں صنعتی اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس سے اداروں میں سیاسی مداخلت زیادہ ہوگئی، جس نے مزید کرپشن کا راستہ کھول دیا اور خاص طور پر بے نظیر صاحبہ اور نوازشریف صاحب اور مشرف صاحب کے زمانے میں تو یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں کرپشن تھی ضرور، لیکن اس نے وبائی شکل اختیار نہیں کی تھی، اس کے بعد یہ ایک وبا کی صورت اختیار کرگئی۔
ضرورت ہے کہ جہاں اور جب احتساب ہو، سب کا ہو۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ احتساب کے ذریعے انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ احتساب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ نہ بنایا جائے اور نہ جمہوریت کو بچانے کے نام پر اپنی بدعنوانی پر پردہ ڈالا جائے یا ڈالنے کی اجازت دی جائے۔
اس حوالے سے موجودہ نیب کی کارکردگی افسوس ناک ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ موجودہ نیب اور اس سے پہلے کی نیب بھی وہ تھی جو مسلم لیگ نون اور پی پی کے مشورے سے بنی تھی۔ مَیں خود اس کے حق میں تھا کہ حزبِ اختلاف سے نیشنل اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ ہونا چاہیے۔ گو، ہم ۱۸ویں ترمیم میں اسے لا نہیں سکے لیکن یہ ہماری خواہش تھی۔ اس کے بعد اس پر عمل ہوا اور چودھری نثار علی خاں نے اس پر بڑی محنت اور دیانت داری سے کام کیا۔ ان کے استعفے کے بعد پیپلزپارٹی نے بھی اس روایت کو اُس حد تک اور اُس سطح پر تو نہیں لیکن بہرحال اسے کچھ نہ کچھ قائم رکھا۔ اس کے بعد نوازشریف کے دور میں یہ بالکل غیرمؤثر ہوگئی اور صاف نظر آنے لگا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی اور سب سے بڑھ کر نیب اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح ان شبہات کو روز بہ روز تقویت مل رہی ہے کہ احتساب کے نام پر ایک دوسرے کو تحفظ دینے کے لیے کھیل کھیلا جا رہا ہے یا پھر بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اپنا کام نکالا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم جس طرح بنائی اور پالی پوسی گئی ، اسی طرح اسے تقسیم کیا گیا ہے۔ تاہم آج بھی اسے سیاسی درجۂ حرارت حسب ِ ضرورت بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور شاید آیندہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہ بڑی پیچیدہ اور ملک کے لیے اور خود جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑی خطرناک صورتِ حال ہے۔
کرپشن کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے نیب کے کردار پر اَزسرِنو غور کرنا ہوگا۔ نیب میں ایسے افراد لانا ہوں گے جو دیانت دارہوں، اہل اور باصلاحیت ہوں، اپنے شعبوں میں تخصص رکھتے ہوں، ہرطرح کے دبائو کو برداشت کرسکیں اور تفتیشی عمل اور عدالتی عمل کے جملہ مراحل میں مقدمے کو احسن طریقے سے پیش کرسکیں۔
محمد نواز شریف صاحب ، ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل میمن اور ایان علی وغیرہ کے مقدمات سامنے آئے ہیں۔ ان میں صاف نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو چوٹی کے وکلا ہیں جو دفاع کر رہے ہیں اور دوسری طرف نیب کا وکیل یا پراسیکیوشن کمزور سے کمزور چیز لے کر آتا ہے اور اہم اور مضبوط چیزوں کی موجودگی کے باوجود دانستہ طور پر کیس کمزور رہتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے میاں نوازشریف کے مقدمے کے سلسلے میں اصل فیصلے اور مشترکہ تفتیشی ٹیم کی کارروائی کی ۱۰ جلدوں کو دیکھیے تو بالکل دوسری تصویر سامنے آتی ہے، اور آخری فیصلے کو پڑھیے تو بالکل ہی مختلف تصویر سامنے آتی ہے۔ بلاشبہہ کرپشن اس ملک کا تیسرا اہم مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا ازبس ضروری ہے مگر اس کے لیے بڑے حکیمانہ طریقِ کار، بالغ نظری اور غیر جانب داری کی ضرورت ہے۔
ملک کا چوتھا بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ معیشت کے حوالے سے ہمارے ملک اور قوم میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے باوجود ہم ابھی تک محفوظ چلے آرہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے بھی کمزور پالیسی اختیار کی تھی لیکن نوازشریف کے زمانے میں تو اس سے بھی زیادہ تباہ کن پالیسی اختیار کی گئی۔ قرض پر انحصار کیا گیا، میگا پراجیکٹس کے اُوپر، غلط ترجیحات، بروقت اقدامات سے غفلت،ہرمنصوبے کی اصل لاگت اور حقیقی لاگت میں زمین آسمان کا فرق، یہ سب چیزیں معاشی بحران کا سبب بنیں۔ پھر برآمدات گھٹتی اور درآمدات بڑھتی چلی گئیں اور ان کا فرق بھی ہرسال بڑھتا چلا گیا۔مالیاتی خسارہ، تجارتی خسارہ اور بین الاقوامی مالیاتی خسارہ ، یہ تینوں خسارے جس مقام پر پہنچ گئے ہیں، وہ بالکل ناقابلِ فہم ہیں۔
اس پہلو سے عمران حکومت کو بہت ہی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF)کے حوالے سے نظریاتی اور قومی سطح پر میری راے یہی ہے کہ ہمیں اس کے چنگل سے نکلنا چاہیے، لیکن اب ملک جس معاشی دلدل اور دبائو میں پھنس چکا ہے، صاف نظر آرہا ہے کہ کچھ وقت کے لیے مجبوراً اس کا سہارا لینا پڑے گا۔ تاہم اس مسئلے میں حکومت کا طرزِعمل کوئی اچھا تاثر نہیں پیش کرہا۔ اس میں بالغ نظری اور بصیرت کہیں نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہرین سے مشورہ کرکے ایک راستہ بنایا جائے۔ اس کے بعد Internal fiscal control (اندرونی مالیاتی کنٹرول)، ٹیکس ڈھانچے میں تبدیلی، لوگوں کی شرکت، مقامی وسائل کی دریافت اور ان کے استعمال، کرپشن کے خاتمے، برآمدات کے فروغ، زراعت کو اہمیت دینے، سمال انڈسٹری اور میڈیم انڈسٹری کی طرف توجہ، کاروباری طبقات کی شرکت وغیرہ۔ اس کے لیے فوری، درمیانے اور طویل درجے کے منصوبے بنائے جائیں۔
پلاننگ کمیشن، پیپلزپارٹی اور نواز شریف کے زمانے میں اور پھر مشرف کے دورِ حکومت میں ایک عضوِ معطل رہاہے۔ قومی پلاننگ کمیشن کو معاشی پالیسیوں کے حوالےسے حکومت کا دماغ اور مرکز ہونا چاہیے۔ جب تک آپ اس کو یہ حیثیت نہیں دیں گے، پلاننگ کمیشن اور وزارتِ خزانہ کے درمیان تعاون نہ ہوگا اور تمام معاشی وزارتوں میں ہم آہنگی نہ ہوگی تو اسٹیٹ بنک اپنا کردار ادا نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح نیشنل اکنامک کونسل کا قیام اور اس کی صحیح رہنمائی میسر نہ ہوگی تو معاشی بحران پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ یہ تمام کرنے کی چیزیں ہیں۔
مَیں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں ہرگز ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ چھے ماہ سے ایک سال کے اندر اندر ہم معاشی بحران سے نکلنے کے راستے پر آسکتے ہیں۔ پھر ہم اگلے چند برسوں میں ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ صحیح اور ٹھیک اقتصادی پالیسی بنالیں۔
آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنے وژن اور اپنی منزل مقصود کے بارے میں بہت واضح ہونا چاہیے اور اس کو سامنے رکھ کر ایک تسلسل سے جدوجہد کی ضرورت ہے۔