اسماعیل راجی الفاروقی [یکم جنوری ۱۹۲۱ء، جافا، فلسطین ۔ شہادت:۲۷مئی ۱۹۸۶ء، ونکوٹ، امریکا] عالم اسلام کی ان عظیم ہستیوں میں سے ہیں، جنھوں نے غلبۂ اسلام کے لیے منتشر شیرازے کو منظم کرنے کی کوشش کی، حالات کا تجزیہ کیا اور امت مسلمہ کو ان کی اصل پر لانے کے لیے خاکہ سازی کی کہ تاریخ کااصول ہے:’’خدا اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدلے‘‘۔
قرآن کے اس اعلان کی روشنی میں الفاروقی نے محسوس کیا کہ اُمت مسلمہ موجودہ دور میں بے بسی اوربے چارگی کے دور سے گزر رہی ہے اور مصائب نے لوگوں کے حوصلے پست کردیے ہیں۔دیگر نظا م کی بالا دستی نے بے اعتمادی کی فضا پیدا کردی ہے، اجنبی تہذیبوں کی دوڑ ہر میدان میں دکھائی دے رہی ہے، انگریزی اورفرانسیسی زبانوں کی مقبولیت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، مختلف پروگراموں اورمعاشی وسیاسی سرگرمیوں میںا س کا اثر دیکھنے کو مل رہاہے۔ اگر ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہماری نگاہ تعلیمی نظام پر جاکر ٹھیر جاتی ہے جو دومتضاد رویوں کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میںدیگر تہذیبوں کے اثرات نے مسلم معاشرے کارخ اپنی جانب بہت تیزی سے موڑا اور پوری طرح اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی اورمسلم معاشرہ اسلام سے دُور ہوتا چلاگیا۔ اسلامی فکروعمل پر غیر اسلامی افکار وخیالات کاغلبہ نظرآنے لگا اوریوں اُمت مسلمہ اندرونی کرب وبے چینی کا شکار ہوگئی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس تہذیبی تباہی کو لانے اور حالات کا رُخ مغربی اقوام کی طرف موڑنے میں جوچیز سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی، وہ تعلیمی نظام تھا، جو دوحصوں پر منقسم تھا: ایک حصہ اسلامی علوم پر مشتمل تھا اور دوسراجدید علوم پر مشتمل۔ ابتدائی مدارس کے ماحول کی وجہ سے دل تو اسلام کی جانب مائل رہتا،مگر دماغ اورشعور بہ تدریج اعلیٰ جدید تعلیم کے ذریعے متاثر ہوجاتا، جس کا مقصد مغربی افکار ونظریات کو پروان چڑھانا اورمحض مادی خواہشات کی تکمیل تھا۔
راجی الفاروقی نے تعلیم کی اسی تقسیم کو مسلمانوں کے زوال کا سب سے بڑا سبب قراردیا کیوں کہ علوم کا دوخانوں میں بٹوارہ کسی بھی صور ت میں امت کی تشکیلِ نو کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوسکتا اوراس نظام کے تحت امت اپنے فرض کو پوراکرنے پرقادر نہیں ہوسکتی۔
مسلم امت کے زوال کے اسباب کو جاننے اورسمجھنے کی سعی دیگر مسلم مفکرین سرسیداحمد خاں اور محمد عبدہٗ وغیرہ نے بھی کی اورانھوںنے یہ حل نکالا کہ: ’’تعلیمی نظا م میں تجدید کی آمیزش سے نظامِ تعلیم کی اصلاح ہوسکتی ہے اورمسلم قو م ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے‘‘۔ راجی الفاروقی نے مذکورہ حضرات کی تجدیدی فکر اوران کی کاوشوں پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے :
’’ ماضی میں کچھ مسلمان دانش وروں نے اسلامی نظام تعلیم کی اصلاح کی یہ صورت نکالی کہ اس کے نصاب میں اجنبی افکار سے مستعار لی ہوئی چیزوں کی پیوندکاری کردی جائے۔ سرسید احمد خاں اور محمد عبدہٗ اسی طرزِ فکر کی حامل شخصیتیں ہیں۔ اسی انداز فکر پر عمل کرتے ہوئے جمال عبدالناصر نے مضبوط اسلامی قلعہ جامعۃ الازہر کو ۱۹۶۱ء میں ایک جدید یونی ورسٹی میں تبدیل کردیا۔ اس تجدیدی فکر کی پوری عمار ت اس مفروضے پر قائم کی گئی تھی کہ نام نہاد جدید علوم بے ضرر ہیں۔ اس نکتے پر کم ہی توجہ دی گئی کہ اجنبی ادبیات، معاشرتی علوم اورسائنسی علوم وغیرہ زندگی، کائنات اور تاریخ کے ایک منضبط نظریے کے مختلف پہلوہیں، جو اسلام کے لیے قطعاً بیگانہ ہیں۔ یہ لوگ اس لطیف مگر لازمی تعلق کو شاید ہی سمجھ سکے ہوں جو ان علوم کے طریقہ ہاے تنظیم اور نظریہ ہاے صداقت اورعلم کو اجنبی دنیا کے نظامِ اقدار کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ اسی سبب سے ان کے اقدامات کچھ مثبت نتائج پید انہ کرسکے ‘‘۔
آگے چل کر راجی الفاروقی نے اس نظامِ تعلیم کے نقصانات کوا ن الفاظ میں بیان کیا ہے :
’’ایک جانب اسلامی علوم کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا اور دوسری جانب جدید علوم کا اضافہ بھی وہ عظمت نہ بخش سکا جواس نے اپنے موجدوں کواپنے اصل وطن میں بخشی تھی، بلکہ توقع کے بالکل برخلاف اس طرز فکر وعمل نے مسلمانوں کو اجنبی تحقیق اور قیادت کا محتاج ضرور بنادیا۔ معروضی طرزِ فکر کے بلند بانگ دعووں کے بل بوتے پر جدید فکر نے مسلمانوں سے ان اسلامی عقائد کے منافی افکار کو تسلیم کراکے چھوڑ ا جوترقی کے علَم برداروں کے نزدیک رجعت پسندی اورقدامت پرستی کا دوسرا نام تھا‘‘۔
راجی الفاروقی نے تعلیمی اصلاح کے لیے جو تصور پیش کیا، اس کا دائرۂ کار انتہائی وسیع ہے۔ آپ کے خیال میں علوم اسلامی میں علوم جدیدہ کی آمیزش سے بہتر ہے کہ علوم جدیدہ کی اسلامی تشکیلِ نو کی جائے ۔آپ کاخیال ہے کہ:
ادبی، معاشرتی اورطبعی علوم کی تفہیم وتشکیلِ نو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اب علوم کو لازمی طورپر اسلامی بنیادفراہم کی جانی چاہیے اوراسلامی طرزِ فکر سے ہم آہنگ مقاصد کاان کو پابند کیا جانا چاہیے۔ ہرشعبۂ علم یا مضمون کی تدوینِ نو کی جانی چاہیے، تاکہ اس کی منہاجیات،حکمت ِعملی ،بنیادی مفروضات ، مقاصد اورمسائل کو حل کرنے کے طریقوں میں اسلامی اصولوں کو سمویا جاسکے۔ ہر مضمون کی نئی صورت گری اس طور ہونی چاہیے کہ اس کا تعلق اسلام کے نظام اقدا رسے استوار ہوجائے ۔
اپنے نظریا ت کو عملی شکل دینے کے لیے آپ نے چند نکات اورتجاویز پیش کی ہیں:
وحدتِ علم:جس کے تحت تمام علوم آتے ہیں جس میں علومِ عقلی اورنقلی کی تقسیم نہیں ہوتی۔
وحدتِ حیات :سارے علوم کویکساں اہمیت ملنی چاہیے ۔
وحدتِ تاریخ:جس کے تحت تمام علوم اس بات کو تسلیم کرلیں کہ تمام انسانی حرکات کے پیچھے معاشرتی مزاج کا رفرما ہوتاہے اوراس طرح معاشرے کی تاریخی خدمت پرمامور ہوجائیں۔ اس طرح تمام علوم انسانی اورمعاشرتی شکل اختیارکرلیں گے۔
دوسرا اہم نکتہ فکر وعمل کی سنجیدگی ہے، جس سے مسلمان عام طور پر پہلوتہی کرتے ہیں۔ مسلم قائدین کو تفکر ،منصوبہ بندی اورحفظ ماتقدم کی طرف توجہ اوردلچسپی کی ضرورت ہے ۔
اگر ہم مسلمانوں کے علمی ارتقا کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ زوال کے اس عہد سے پہلے علوم میں ترقی اوروسعت کا سہرامسلمانوں کے سرہے۔ انھوں نے تمام علوم کو اسلامی نظریے اور اقدار سے مربوط کرکے اسلامی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا، لیکن افسوس ہماری غفلت کے سبب غیر مسلموں نے مسلمانوں کے علمی ورثے میں اپنے نظریات شامل کرکے اپنے مفاد اورمقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا اورآہستہ آہستہ پوری طرح قابض ہوگئے۔موجودہ وقت میں عالم اسلام کے تمام تعلیمی اداروں میںیہی غیر اسلامی کتب ونظریات مسلم طلبہ و طالبات کوپڑھائے جارہے ہیں۔ اس وقت عالم اسلام میں تعلیم کی حالت بہت تشویش ناک ہے، اس لیے مسلم مفکرین اور دانش ورحضرات کو نوجوان نسل کی اسلامی ذہن سازی کے لیے سخت جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ علمی زوال کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن راجی الفاروقی کی شکل میںنمودا رہوئی، جنھوںنے حالات کا رخ بدلنے اوراسلامی آفاقی نظریہ قائم کرنے کے لیے چند مقاصد بیان کیے ہیں:
جدید علوم پر کامل دسترس حاصل کرنا۔
اسلامی ورثۂ علم پر کامل دسترس حاصل کرنا۔
جدید علوم کے ہر شعبے سے اسلام کا خصوصی تعلق قائم کرنا۔
جدید علوم اوراسلامی ورثے کے تخلیقی امتزاج کی راہیں تلاش کرنا۔
اسلامی فکر کو ایسے خطوط پر استوار کرنا کہ قدرتِ حق کے خزانوں سے فیض ممکن ہوسکے۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے آپ نے درجِ ذیل اقدامات کی جانب رہنمائی کی ہے :
علوم کی اسلامی تشکیلِ نو: ضروری اقدامات
جدید علوم پر کامل دسترس: اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ مغربی علوم کو مختلف اقسام ، اصولوں ،منہاجات،مسائل اورموضوعات میں بانٹ دیا جائے اور وضاحتی اور تجزیاتی جملوں کے ذریعے اعلیٰ ترین شکل میں واضح کیا جائے ۔
مضامین کا جائزہ:ہر مضمون کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ اس کے تسلسل اورتاریخی ارتقا پر اس کی منہاجات کی نشوونماپر ،اس کی وسعتوں اوراس پرلکھنے والے تمام علما اوران کی تحریروں پر مضامین لکھے جانے چاہیے، تاکہ ان تمام عناصر کے خدوخال کو نمایاں کیا جاسکے۔ ہر شعبۂ علم سے متعلق اہم ترین تصنیفات وتالیفات پر مبنی وضاحتی فہرست کتب کی تیاری اس جائزے میں شامل ہونا چاہیے۔ اس طریقے سے مسلم دانش ور متعلقہ علم کو ٹھیک اسی انداز میںسمجھ سکے گا، جس انداز میں وہ مغرب میں وجود میں آیا اورپروان چڑھا۔
اسلامی ورثہ ٔ علم پر کامل دسترس:اسلاف کے ورثے سے واقفیت اسلامی علوم کی تشکیلِ نو کی راہ میں نقطۂ آغاز ہے۔ اسلامی علوم میں مہار ت کے ساتھ ساتھ علومِ جدیدہ کے تمام شعبوں کے عنوانات، مسائل اور مضامین سے واقفیت لازمی ہے۔ اس طرح تحقیقات کے لیے ایک مطلوبہ معیار مہیا ہوجائے گااور جدید علم کے مضمون سے متعلق اہم اجزا پرمشتمل ،مفصل دستاویز ات تیار ہوجائیں گی، جن کی مدد سے جدید مسلم دانش وروں کے لیے علم کے ورثے تک رسائی حاصل ہوسکے گی۔
اسلامی ورثہ ٔ علم پرماہرانہ تجزیہ:اسلامی بصیرت کی مکمل تفہیم کے لیے تاریخی تناظر میں اسلاف کی علمی خدمات کا تجزیہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ اسلامی ورثے کا تجزیہ یوں ہی نہیں کیا جاسکتا بلکہ پہلے مضامین کی تقدیم وتاخیر کے مدارج قائم کرنا ہوںگے۔ پھر دانش وروں کو دعوت دی جائے گی کہ وہ ان کو اسی ترتیب پر زیر مطالعہ وتجزیہ لائیںاورنمایاں مسائل کو اپنے علم و تحقیق کا خصوصی موضوع بنائیں ۔
شعبہ ہاے علوم کے ساتھ اسلام کی متعین مناسبت قائم کرنا: جدید علوم کے مزاج ،اس کے اجزاے ترکیبی، اصول، مسائل، مقاصد اورتوقعات ،کارنامے اور نقائص، غرض تمام چیزوں کا اسلامی ورثے سے تعلق قائم کرنا چاہیے ۔
جدید علوم کا تنقیدی محاسبہ: مذکورہ اقدامات کے بعد دانش وروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ علم کو اسلامی نقطۂ نظر سے تنقیدی تجزیے کے پیمانے پر جانچیں اورپرکھیں۔ یہ علوم کی اسلامی تشکیل کے لیے اہم قدم ہے ۔
اسلامی ورثے کا تنقیدی تعیین :اسلامی ورثے کا مطلب اوّل: قرآن حکیم اور دوسری چیز سنت رسولؐ اللہ ہے۔ قرآن وسنت کا مصدّقہ معیار شک وشبہے اورتنقید وتجزیے سے بالاتر ہے، مگر اس سلسلے میںمسلمانوں کی فکراور افہام وتفہیم،تنقید وتبصرے سے بالاتر نہیں ہے۔ لہٰذا، انسانی کاوش کے اس پہلوپر نظر ثانی کی جانی چاہیے ۔دوسری اہم بات یہ کہ تمام علوم کے ماہرین کو انسانی افعال کے ہر میدان میں اسلامی ورثے کا تجزیہ کرنا چاہیے اورماہرین علومِ اسلامی کی مدد لینا چاہیے، تاکہ بہترین تفہیم ممکن ہوسکے ۔
امت کے بڑے بڑے مسائل کا جائزہ :دورحاضر میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اُمت کے مسائل اوران کی وجوہ پرغور کیا جائے۔ ساتھ ہی دیگر داخلی عوامل اور مسائل کے نتائج پربھی غور کیا جائے ۔کسی بھی مسلمان دانش ور کو اپنا مطالعہ محض عقلی تجسس کو تسکین پہنچانے کی غرض سے نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ اُمت کے وجودی حقائق کو نظرانداز کرکے جو مطالعہ کیا جائے گا، وہ عملی افادیت سے خالی ہوگا۔ ہم اللہ سے علم نافع کی جودعا مانگتے ہیں، اس کا اظہار ہماری علمی کاوشوں میںبھی ہونا چاہیے۔ سب سے بڑھ کرعلوم کے مسائل اوراپنے تعلیمی اداروں پر بھی نظررکھنی چاہیے، یعنی یہ کہ اسلام سے ان کی دوری اوراسلامی خطوط پران کی استواری کی کوشش کس مرحلے میں ہے ؟ اس کے ساتھ ساتھ امت کودرپیش بڑے بڑے سیاسی ،سماجی، معاشی،عقلی، ثقافتی، اخلاقی اورروحانی مسائل پر خاطرخواہ توجہ صرف کی جانی چاہیے۔ علاوہ ازیں ہر شعبۂ زندگی سے متعلق امت کے تمام مسائل مسلم دانش وروں کی توجہ کے مستحق ہیں۔کسی بھی شعبے کو نظرانداز کیا جانا مناسب نہیں ۔
انسانیت کے مسائل کا جائزہ:اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں پر نہ صرف اُمت مسلمہ کی فلاح وبہبود بلکہ پوری بنی نوع انسان کی بھلائی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یقینا پوری کائنات اللہ کی امانت ہے۔ اسلام کے حامل ہونے کے سبب صرف امت مسلمہ کے پاس وہ بصیرت پائی جاتی ہے، جو بنی نوع انسان کی اصل کامیابی وخوش حالی کے لیے ناگزیر ہے۔ لہٰذا، مسلم مفکرین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا کودرپیش مسائل کا مطالعہ و تجزیہ کریں،اسلام کے مطابق ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں اور انسانوںکوشیطانی قوتوں سے راہِ راست کی طرف بلائیں۔ نسل پرستی عالمی پیمانے پرانسانی تعلقات کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ شراب،آزادنہ جنسی اختلاط، جہالت اورجنگجو ئی نے انسانیت کو برباد کر ڈالا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنا اور تمام انسانیت کی ایسی خوش حالی کی جانب رہنمائی کرنا، جو عدل واحترام سے بھرپور ہو، اسلامی نظامِ حیات کے علَم برداروں کا فریضہ ہے۔
۰-اسلامی ورثہ اور جدید علوم کا امتزاج :اسلامی ورثہ اورجدید علم کے درمیان ایک نوع کا تخلیقی امتزاج پیدا کرنا اور جمود کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اسلامی ورثۂ علم کو وہاںتک پہنچنا چاہیے جہاں تک جدید علم کی روشنی پہنچ چکی ہے۔ اسی کے ساتھ سارے عالم کے مسائل کایقینی حل تلاش کرنا اوراسلامی توقعات کے پس منظر میں اٹھتے رہنے والے تمام مسائل سے سروکار رکھنا انتہائی اہم ہے۔ ہر شعبۂ زندگی میں اسلامی توقعات کے مخصوص مضمرات کا اندازہ لگانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نیا امتزاج انسانیت کی توقعات کی بازیافت میںکیوںکر معاون ثابت ہوگا؟
اسلامی دائرہ عمل کے مطابق علوم کی تشکیل نو:فکری اختلاف انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اورقابل مذمت نہیں بلکہ خوش آیند ہے۔ مختلف تجزیوں اورآرا سے امت مسلمہ کے شعور کوقوی بنایا جاسکتاہے۔ دراصل جب تک اسلام دوبارہ تمام مسلمانوں کے نادر افکار و خیالات کا ماخذ نہ بن جائے، اُمت میں ہمہ جہت فعالیت دوبارہ پید ا نہیں ہوسکتی۔ اسی ایک ماخذ سے اللہ تعالیٰ کی سنت کا ادراک ممکن ہے کہ یہ ایسے تخلیقی اوراخلاقی امکانات کا لامحدود مخزن ہے، جس کی بنیاد پر آفاقی اقدار اورہدایا ت کو معرض وجود میں لایاجاسکتا ہے اور تاریخی عمل میں شریکِ کاربنایا جاسکتاہے ۔اسلام کے مفہوم میں شامل ہونے والی نئی بصیرت اوراس نئے مفہوم کی عمل پذیری کے لیے تخلیقی امکان کا تقاضا ہے کہ یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے لیے نصابی کتب تیار کی جائیں تاکہ اسلامی ذہنوں کی آبیاری کی جاسکے اوران کو عقلی طورپر قوی تر بنایا جاسکے۔
اسلامی تشکیل شدہ علم کی ترویج:علمی کاموں کو اپنی ذاتی لائبریری میں اکٹھا کرنا یا پھرچند دوستوں تک محدود رکھنا نامناسب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر جو کچھ کیا جائے اس کو پوری امت تک پہنچایا جائے اوراس کے ذریعے انسانوں کو بیدار اورروشن خیال بنایا جائے۔ اسلامی بصیرت کے پیش کردیے جانے کے بعد اس کو خدائی رضا کا آلۂ کار بن جانا چاہیے ۔اس علمی خاکے کومسلم یونی ورسٹیوں سے متعلق ہر صاحب ِعلم ودانش تک بلاقیمت پہنچانا چاہیے تاکہ وہ دوسرے انسانوں کے دماغوں اوردلوں میں بصیرت اسلام کو راسخ کردے۔اہم بات یہ کہ اس علمی خاکے کے تحت تیار شدہ مواد کو مسلم دنیا کی یونی ورسٹیوں اورکالجوں کوسرکاری طورپر پیش کیا جائے اوریہ درخواست کی جائے کہ وہ اس کو ممکنہ حد تک داخل نصاب کرنے میں تذبذب نہ کریں۔
راجی الفارقی نے ان اقدامات کے ساتھ کچھ وسائل بیان کیے ہیں،جو اسلامی تشکیل علوم کے لیے لازمی ہیں :
کانفرنسیں اورسیمی نار: متعلقہ علوم کے ماہرین کو اکثر وبیش تر کا نفرنسوں اور مباحثوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ کسی بھی مضمون سے متعلق مسائل کوزیر بحث لاکران کا حل تلاش کیا جاسکے۔ امت کے مسئلے کا حل دراصل یہی ہے کہ اس کو درپیش مشکلات پر بیش تر علوم بیک وقت روشنی ڈال سکیں۔ ایک ہی مضمون میں تخصیص رکھنے والے ماہرین اورعلما کے مابین بھی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہنی چاہییں، تاکہ وہ انفرادی کاوشوں میںایک دوسرے سے تعاون کرسکیں ۔
اساتذہ کی تربیت کا اہتمام: ان اقدامات کے مطابق درسی کتب اورضروری مواد کی تیاری کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ معلّمین کی تدریسی صلاحیت کی تربیت کی جائے، تاکہ وہ تیار شدہ نصاب کو بخوبی پڑھا سکیں۔ جوعلما اس نصاب کی تیاری کی ذمہ داری انجام دیں ان کو تدریسی عملے سے ملاقات کرنے اورگفت وشنید کا موقع دیاجانا چاہیے، تاکہ وہ مضامین اورکتب میں شامل غیر تحریری مضمرا ت، نظریات اور اُصولوں پر اظہار وتبادلۂ خیال کرسکیں۔ مزید یہ کہ ایسی نشستیں نصاب کے سلسلے میں ممکنہ تدریسی مسائل کو سامنے لانے اورہدف تک پہنچانے میں نہایت مدد گار ثابت ہوں گی۔