مروج قانونی اصطلاح کے مطابق جرائم جو مستلزمِ سزا ہیں، انھیں بالعموم دیوانی (Civil)اور فوجداری (Criminal)جرائم میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دیوانی مقدمات میں عام طور پر مالی تاوان یا قید کی سزا دی جاتی ہے اور فوجداری جرائم میں اس کے علاوہ سنگین مقدمات میں موت تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ اسلامی قانون کی اصطلاح میں حدود یا قصاص کے مقدمات فوجداری نوعیت کے ہیں، مگر اُن کے مابین فرق و امتیاز واضح طور پر سمجھ میں نہیں آیا۔
مثلاً یہ کہ اُن میں سے ہرجرم آیا قابلِ دست اندازیِ ریاست ہےیا نہیں؟ اور دعویٰ دائر ہوجانے کے بعد آیا ہر فوجداری مقدمہ قابلِ راضی نامہ ہے یا نہیں؟ بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ ہرایسا مقدمہ قابلِ راضی نامہ مابین فریقین ہے۔ قتل کے مقدمات، قاتل و مقتول یا مقتول کے وارثوں میں قابلِ راضی نامہ ہیں، لیکن اِن میں حقِ دعویٰ اور قصاص لینے کا حق کس کو حاصل ہے؟ اگر اس میں مدعی و مدعا علیہ باہم مصالحت اور سمجھوتا کرلیں تو کیا ریاست یا حکومت ثبوتِ جرم کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کرسکتی؟ اگرایسا ہو تو بعض قتل رائیگاں جائیں گے اور جن مجرمین کے پاس طاقت یا دولت ہے وہ مظلومین کا منہ بند کردیں گے، نیز جو وارث مقتول کے قصاص کا مطالبہ کرسکتے ہیں اُن کی کوئی متعین فہرست ہے یا ہرقسم کا رشتہ دار یا خاندان کا فرد اس کا حق رکھتا ہے؟
اسلام کے نظامِ قانون کی رُو سے بعض فوجداری جرائم ایسے ہیں، جن میں ملزم کے خلاف حکومت یا ہر شہری مدعی یا فریقِ مقدمہ بن سکتا ہے، مثلاً سرقہ، ڈاکا، رہزنی، زنا۔ ان جرائم کو جرائمِ حدود کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ناقابلِ راضی نامہ ہیں۔ اس کے برعکس بعض جرائم ایسے ہیں، جن میں مستغیث یا فریق یا تو وہ شخص بن سکتا ہے، جو خود مظلوم اور ملزم کی تعدّی کا شکار ہوا ہو اور اگر مظلوم زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو تو صرف مظلوم کے اولیا اور ورثا ہی مدعی یا فریقِ مقدمہ بن سکتے ہیں، البتہ کوئی وارث موجود نہ ہو تو پھر مظلوم کا ولی حاکم و قاضی ہوگا۔ اُن کے ماسوا کوئی دوسرا شخص فریقِ مقدمہ نہیں بن سکتا۔ اِن جرائم کو جرائمِ قصاص کہا جاتا ہے۔ جرمِ قتل کا شمار بھی جرائمِ قصاص میں ہوتا ہے، مگر اسے جرائمِ حدود میں شامل نہیں کیا گیا۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۰ۭ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّہٖ سُلْطٰنًا (بنی اسرائیل۱۷:۳۳)قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اُس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے۔
قرآنِ مجید میں یہاں ’ولی‘ کے حق کے لیے ’سلطان‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس سے مراد حجت ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس ارشادِ ربانی سے اسلامی قانون کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں، بلکہ اولیاے مقتول ہیں اور اولیاے مقتول سے مراد مقتول کے وہ وارث ہیں جنھیں شرعی قانونِ وراثت کی رُو سے مقتول کے ترکے میں سے حصہ مل سکتا ہے۔
امام کاشانی اپنی کتاب البدائع والصنائع میں بیان من یستحق القصاص (اس کا بیان کہ قصاص کا مستحق کون ہے)کے زیرعنوان فرماتے ہیں:
الْمَقْتُولُ لَا یَخْلُو إمَّا أَنْ یَکُوْنَ حُرًّا، وَإِمَّا أَنْ یَکُوْنَ عَبْدًا، فَإِنْ کَانَ حُرًّا لَا یَخْلُوْ إمَّا أَنْ یَکُوْنَ لَہُ وَارِثٌ، وَإِمَّا أَنْ لَمْ یَکُنْ، فَإِنْ کَانَ لَہُ وَارِثٌ فَالْمُسْتَحِقُّ لِلْقِصَاصِ ہُوَ الْوَارِثُ کَالْمُسْتَحِقِّ لِلْمَالِ..... وَالْوَرَثَۃُ خُلَفَاؤُہُ فِي اسْتِیفَائِ الْحَقِّ یَقَعُ الْإِثْبَاتُ لِلْمَیِّتِ، وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْ آحَادِ الْوَرَثَۃِ خَصْمٌ عَنْ الْمَیّتِ فِي حُقُوقہِ کَمَا فِي الدِّیَۃِ وَالدَّیْنِ (بدائع الصنائع، جلد۷، ص ۲۴۲) مقتول آزاد ہوگا یا غلام، اگر وہ آزاد ہو تو اُس کا معاملہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگا، یا تو اُس کا کوئی وارث ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اگر اس کا کوئی وارث ہو تو قصاص کا مستحق وہی وارث ہے جس طرح کہ وہ مال کا مستحق ہوتا ہے۔ وارث ہی مقتول کے جانشین اور نائب ہوتے ہیں اور وارثوں میں سے ہر ایک مقتول کی طرف سے خصم، یعنی دیت اور قرض وغیرہ کے معاملات میں مدعی ہوتا ہے۔
یہ اصول دیگر کتب ِ فقہ میں بھی مذکور ہے، مثلاً ہدایہ کے ابواب القتل میں مصنف لکھتے ہیں:
اَلْقِصَاصُ طَرِیْقَہٗ طَرِیْقُ الْوِارَثَۃِ کَالدَّیْنِ وَھٰذَا لِاَنَّہٗ عِوَضٌ عَنْ نَفْسِہٖ فَیَکُوْنُ الْمِلْکُ فِیْہِ لِمَنْ لَہٗ الْمِلْکُ الْمُعَوَّضِ کَمَا فِی الدِّیَۃِ، قصاص کے حصول کا طریقہ وراثت کے حصول کے مطابق ہے جس طرح وارث اپنے مورث کا ورثہ اور قرض وصول کرتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ قصا ص جان کا بدلہ ہے، تو قصاص میں بھی حق اور ملکیت اسی کو حاصل ہوگی جس کو دوسرے مالی حقوق دیت وغیرہ میں حاصل ہوتے ہیں۔
ہدایہ کی شرح عنایہ اور دوسری شرح فتح القدیر میں مذکورہ بالا اصول درج کرنے کے بعد مزید وضاحت اور توجیہہ ان الفاظ میں درج ہے:
اَلْاَصْلُ اَنَّ اِسْتِیْفَاءَ الْقِصَاصِ حَقُ الْوَارِثِ عِنْدَہٗ ، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ’’اس کی اصل اور بنیاد یہ ہے کہ قصاص کی تحصیل و تکمیل وارث کا حق ہے‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ کے دو رفقا اور شاگردقاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کا استدلال فتح القدیر شرح ہدایہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
وَاَمَّا عِنْدَھُمَا الْقِصَاصُ حَقٌّ ثَابِتٌ لِلْمُوَرِّثِ اِبْتِدَاءً مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ ثُمَّ یَنْتَقِلُ بَعْدَ مَوْتِہٖ اِلَی الْوَارِثِ بِطَرِیْقِ الْوِرَاثَۃِ کَسَائِرِ اَمْلَاکِہٖ ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک ’’حقِ قصاص ابتدا میں تو مورث کے لیے ثابت ہوتا ہے (اگر وہ زندہ رہے تو خود لے گا ورنہ) اُس کی موت کے بعد بہمہ وجوہ یہ حق وارث کی طرف بطریقِ وراثت منتقل ہوتا ہے جس طرح اُس کی جملہ املاک وارثوں کی جانب منتقل ہوتی ہیں۔
شریعت ِ اسلامی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو افراد ذمہ دارانہ حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، اُن کی خطا پر بعض اوقات اُن سے زیادہ سخت طریق پر بازپُرس ہوتی ہے اور عام افراد کے مقابلے میں اُنھیں رعایت دینے اور نرمی اختیار کرنے کے بجائے شدت برتی جاتی ہے۔ سورئہ احزاب، آیت ۳۰ میں اَزواجِ مطہراتؓ سے فرمایاگیا:
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ يُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ط (الاحزاب ۳۳:۳۰) اے نبیؐ کی بیویو! تم میں سے اگر کوئی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی، تو اُسے دُہرا عذاب دیا جائے گا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ اَزواجِ مطہراتؓ سے ایسی بات کا اندیشہ تھا، بلکہ اس سے مقصود اُنھیں یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں اُن کا مقام جس قدر بلند ہے اس کے لحاظ سے اُن کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں۔ البحرالرائق جو حنفی فقہ کی معتبر کتاب ہے، اس کے حوالے سے مولانا عبدالشکور لکھنوی اپنی کتاب علم الفقہ، جلدسوم میں روزے کی قضا اور کفّارے کے زیرعنوان لکھتے ہیں:
اگر کسی بادشاہ پر کفّارہ واجب ہو تو اُسے غلام کو آزادکرنے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم نہ دینا چاہیے کیونکہ یہ چیزیں اُس کے نزدیک کچھ دشوار نہیں۔ ان سے کچھ بھی تنبیہہ اُس کو نہ ہوگی، بلکہ اُسے ساٹھ روزے رکھنے کا حکم ہونا چاہیے کہ اس پر گراں گزرے اور آیندہ رمضان کے روزے کو اس طرح فاسد نہ کرے۔
سزا دینے کے سلسلے میں حکومت کو بھی بعض استثنائی حالات میں تعزیری حق کی گنجایش ہے۔ اس سلسلے میں عبدالرحمٰن الجزری اپنی کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ (ج۵،ص ۲۶۵) میں لکھتے ہیں:
اِذَا عَفَا اَوْلِیَاءُ الدَّمِ عَنِ الْقَاتِلِ …… وَلٰکِنْ رَاَی الْحَاکِمُ اَنَّ اِطْلَاقَہٗ یُھَدِّدُ الْأَمْنَ الْعَامَ فَلَہٗ اَنْ یُعَزِّرَہٗ بِمَاشَاءَ…… الخ (یعنی اگر مقتول کے اولیا قاتل کو معاف کر دیں اور حاکم یہ دیکھیے کہ اِس معافی سے امن عامہ کو خطرہ لاحق ہوجائے گا، تو حاکم اُس قاتل کو معافی کے بعد بھی جو سزا چاہے دے سکتا ہے۔
اب مذکورہ بالا اصول پر اسلامی عدالتی نظام سے ایک نظیر بھی (مرات سکندری، ۴۵-۴۶، بحوالہ ہندستان کے عہد رفتہ کی سچی کہانیاں، مطبوعہ اعظم گڑھ، ص ۱۵۵) ملاحظہ فرمایئے:
’’گجرات کے حکمران احمد شاہ اوّل (م:۱۴۳۲ء) کے داماد نے جوانی اور شاہی رشتے کے غرور وتکبر میں ایک شخص کو بے قصور قتل کر دیا۔ سلطان احمد شاہ اوّل کو معلوم ہوا تو اُس نے اپنے داماد کو باندھ کر قاضی کے پاس بھیج دیا۔ قاضی نے مقتول کے وارثوں کو دو سو اُونٹوں کے قصاص پر راضی کر کے سلطان کے سامنے پیش کیا۔ سلطان نے اُن کو دیکھ کر کہا کہ اگرچہ مقتول کے وارث راضی ہیں، لیکن مجھ کو خود یہ قبول نہیں کہ اس طرح دولت مند لوگ خونِ ناحق کرنے میں دلیر ہوجائیں گے، چنانچہ سلطان کا داماد قتل کیا گیا۔ سلطان کے حکم سے اُس کی لاش ایک روز تک دار پر لٹکتی رہی تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں‘‘۔ (جسٹس ملک غلام علی)
کیا قرآن و حدیث اور سلف سے اس کی کوئی نظیر پیش کی جاسکتی ہے کہ مزدور کو اس کی اُجرت کے علاوہ پیداوار کے منافع میں بھی شریک کیا گیا ہو؟
یہ مسئلہ دراصل مباحات میں سے ہے۔ شریعت کا اصول یہ ہے کہ انسان کو جس چیز سے منع نہیں کیا گیا ہے اسے وہ اسلام کے حدود اربعہ کا لحاظ رکھتے ہوئے کرسکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں ہمیں معاشیات کے بارے میں چند بنیادی اصول دیے گئے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں ہم اپنی ضروریات کے مطابق تفصیلات طے کرسکتے ہیں۔
جہاں تک سلف سے نظیر لانے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق یہ جان لیجیے کہ اس زمانے میں سرمایہ اور محنت کے وہ مسائل ہی پیدا نہیں ہوئے تھے، جن سے ہمیں یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد سابقہ پیش آیا ہے۔ جدید معاشی نظام نے انسانیت پر جو ظلم ڈھائے ہیں ان کا قرنِ اوّل میں کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس زمانے میں چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتیں تھیں، جن میں دس دس، بارہ بارہ افراد کام کرتے تھے اور ایک کنبے کی طرح وہ اپنے معاملات طے کر لیا کرتے تھے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب آیا تو اس نے بڑی تیزی سے پوری دنیا میں اپنے پنکھ پھیلا دیے اور گھریلو صنعتیں (Cottage Industries) دم توڑنے لگیں۔ بڑے بڑے کارخانے لگ گئے اور ہزاروں آدمی بیک وقت ایک کارخانے میں کام کرنے لگے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ وہ محنت کش ایک بہت بڑے کارخانہ دار کے دست ِ نگر ہوگئے۔کارخانہ دار انھیں من مانی شرائط پر ملازم رکھنے لگا، اور وہ مجبور تھے کہ کارخانہ دار کی شرائط پر کام کریں، کیوں کہ کام نہ کرنے کی صورت میں ان کا جینا محال تھا۔ ان کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ ایک دن ہی فاقے سے بچ سکیں۔ دوسری طرف کارخانہ دار اتنی دولت کا مالک تھا کہ وہ دو سال بھی کارخانہ نہ چلائے تو اللے تللے سے رہ سکتا تھا۔ مزدورکی اس مجبوری سے سرمایہ دار نے خوب فائدہ اُٹھایا۔ بالآخر مزدوروں کے اندر اس ظلم کے خلاف لہر اُٹھی اور انھوں نے متحد ہوکر آواز بلند کی تو سرمایہ دار کو اس متحدہ قوت کے سامنے جھکنا اور مزدوروں کے انسانی حقوق تسلیم کرنا پڑے۔ ایک مدت کی جدوجہد کے بعد یورپ میں مزدور اور کارخانہ دار کے تعلقات خوش گوار مرحلے میں داخل ہوئے ہیں۔
اب سوال کے اصل نکتے کی طرف آتا ہوں، یعنی کیا مزدور کا اُجرت کے علاوہ نفع میں بھی حصہ ہے؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ مزدور کو جو اُجرت ملتی ہے وہ دراصل نفع ہی کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ اب ضروری نہیں کہ وہ نفع میں اس کی نسبت کے عین مطابق ہو۔ چونکہ مزدور کو اپنی گزراوقات کے لیے ایک ماہانہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے وہ رقم اسے تنخواہ کی صورت میں مل جاتی ہے، لیکن زائد منافع اس کا محفوظ رہتا ہے جو سال چھے مہینے میں پورا حساب لگانے کے بعد اسے بونس کی شکل میں ملنا چاہیے۔(سیّدابوالاعلٰی مودودی)
جب مزدور منافع میں شریک ہونے کا دعوے دار ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ اسے نقصان میں بھی برابر کا شریک ٹھیرایا جائے؟
شرکت‘ اور ’مضاربت‘ دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔ ’شرکت‘ اسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی کسی کاروبار میں اپنے سرمایے کے ساتھ شریک ہو۔ ایسی صورت میں کاروبار میں ہونے والے نفع اور نقصان میں دونوں حصہ دار قرار پاتے ہیں۔ اور ’مضاربت‘ اسے کہتے ہیں کہ ایک آدمی کسی کاروبار میں محض اپنی محنت کے ساتھ شریک ہوتا ہے اور محنت کے صلے میں وہ اس کاروبار سے نفع حاصل کرتا ہے، مگر وہ اس کاروبار میں ہونے والے کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ ایک مزدور اور کارخانہ دار کے درمیان یہی ’مضاربت‘ کا تعلق ہے، جس میں نقصان کی زد اس پر نہیں پڑتی۔ (سیّدابوالاعلٰی مودودی)
میں کئی برس سے ایک کاروبار کررہا ہوں ۔ میں نے اپنے ایک دوست کو پیش کش کی کہ وہ بھی اس میں شریک ہوجائے۔ وہ اس پر رضا مند ہوگیا۔ اب کاروبار میں میرا سرمایہ ۷۰ فی صد اور میرے دوست کا ۳۰ فی صد ہے ۔ ہم اس پر متفق ہوگئے کہ نفع میں دونوں برابر کے شریک ہوںگے ، یعنی نفع میں ہر ایک کا حصہ ۵۰ فی صد ہوگا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر کاروبار میں خسارہ ہوتو کیا اس میں بھی ہم دونوں برابر کے شریک ہوں گے، یعنی ہر ایک کو۵۰ فی صد خسارہ برداشت کرنا ہوگا، یا جس کا سرمایہ جس تناسب سے لگا ہوا ہے اس کے اعتبار سے اسے خسارہ برداشت کرنا ہوگا؟
مشترکہ تجارت ’شرکت‘ اور ’مضاربت‘ دونوں طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ ’شرکت‘ یہ ہے کہ دو یاد و سے زائد افراد متعین سرمایوں کے ساتھ کسی کاروبار میں شریک ہوں اور ان کے درمیان یہ معاہدہ طے پائے کہ وہ مل کر کاروبار کریںگے اور نفع ونقصان میں ان کی شرکت متعین تناسب کے ساتھ ہوگی۔ ’مضاربت‘ یہ ہے کہ ایک فریق سرمایہ فراہم کرے اور دوسرا اس سے کاروبار کرے اوران کے درمیان یہ معاہدہ ہوکہ نفع میں ایک متعین تناسب سے اسے حصہ ملے گا۔
’شرکت‘ اور ’مضاربت‘ دونوں صورتوں میں نفع دونوں فریق کے درمیان باہم طے کردہ تناسب سے تقسیم ہوگا۔ کسی فریق کے لیےکوئی متعین رقم طے کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ سوال کہ کیا شرکاے کاروبار باہم رضا مندی سے نفع کی تقسیم جس تناسب کے ساتھ چاہیں ، کرسکتے ہیں ؟ ’مضاربت‘ کی صورت میں اس کا جواب تمام فقہا اثبات میں دیتے ہیں ، البتہ ’شرکت‘ کی صورت میں ان کے درمیان اختلاف ہے ۔ احناف اورحنابلہ اس صورت میں بھی شرکاے کاروبار کواجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے درمیان نفع کی تقسیم کا جوتناسب چاہیں ، طے کرسکتے ہیں، لیکن مالکیہ اور شوافع کہتے ہیں کہ نفع کی تقسیم شرکا کے فراہم کردہ سرمایوں کے تناسب سے عمل میں آئےگی۔
جہاںتک نقصان کا معاملہ ہے ، شرکت کی صورت میں وہ ہمیشہ کاروبار میں لگے ہوئے سرمایوں پر ان کی مقداروں کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گااوراسے ان سرمایوں کے مالک برداشت کریں گے۔ مضاربت کی صورت میں مُضـارِب (کاروبارکرنے والے) پر نقصان کا کچھ بار نہیں ڈالا جائے گا ، اسے کلّی طورپر صرف سرمایہ دار کوبرداشت کرنا ہوگا۔
نفع اورنقصان میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کے نزدیک نفع سرمایہ لگاکر کاروباری جدو جہد کرنے کا نتیجہ ہے، جب کہ نقصان کسی جدوجہد کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ کاروباری جدو جہد کے باوجود سرمایے میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ اسلامی معاشیات کے ممتاز ماہر پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے کاروبار میں نفع اورنقصان کے فرق کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
نفع اورنقصان کی نوعیت میں اصولی فرق کا شریعت نے لحاظ رکھا ہے ۔ یہ بات مضاربت کے شرعی اصول سے واضح ہے۔اگر کاروبارِمضاربت میں نقصان ہو تو کاروباری فریق کو اس نقصان کا کوئی حصہ نہیں برداشت کرنا ہوگا ۔ اس نے سرمایے کے ذریعے کاروبارمیں جدوجہد کی، تاکہ سرمایے میں اضافہ ہو اوراس نفع میں سے اسے بھی حصہ ملے، لیکن باوجود کوشش کے اضافہ نہ ہوسکا۔ اس کی کاروباری جہدوجہد ناکام رہی، اسے کوئی نفع نہیں ملے گا۔ یہی اس کا نقصان ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اس پر سرمایے میں واقع ہونے والی کمی، یعنی کاروبار میں خسارے کا بار نہیں ڈالا گیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ شریعت نقصان کو کاروباری جدوجہد کا نتیجہ یا ثمرہ یا حاصل نہیں قرار دیتی۔ وہ نقصان کوسرمایے میں نقصا ن قرار دیتی ہے ۔ اس کے برعکس اگرمضاربت پر سرمایہ حاصل کرکے کاروباری جدوجہد کرنے والے کی کوششیں کا م یاب ہوئیں اور کاروبار میں نفع ہوا تو اسے اس نفع میں سے ایک حصہ ملتا ہے۔معلوم ہوا کہ شریعت نفع کو سرمایے کے ساتھ کاروبار ی جدوجہد کا نتیجہ اورثمرہ قرار دیتی ہے ۔ شریعت نے نفع اور نقصان کوایک درجہ نہیں دیا ہے، نہ ان کی تقسیم کا اصول ایک رکھا ہے۔(شرکت ومضاربت کے شرعی اصول، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی ،۱۹۸۴، ص ۳۳-۳۴)
خلاصہ یہ کہ مشترکہ تجارت کے دو فریق الگ الگ تناسب میں اپنا سرمایہ لگانے کے باوجود نفع میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں، لیکن نقصان کی صورت میں انھیں اپنے لگائے ہوئے سرمایے کے تناسب کے مطابق ہی نقصان برداشت کرنا ہوگا۔(مولانا رضی الاسلام ندوی)
آج کل عورتوں میں چست لباس بطور پہناوا بہت عام ہوگیا ہے ، خاص طور پر جسم کے نچلے حصے میں پہنا جانے والا لباس ۔ چنانچہ ٹانگوں کا حجم بالکل نمایاںرہتا ہے۔ بسااوقات دینی حلقوں کی خواتین بھی ایسا لباس زیب تن کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ کیا’عموم بلویٰ‘ کی وجہ سے ایسا لباس اب جواز کے دائرے میں آگیا ہے ؟ براہِ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب: ضروری ہے کہ لباس سے ستر پوشی ہو۔ شریعت میں عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ (کلائی تک) کے علاوہ پورا بدن ستر قراردیا گیا ہے اوراسے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی بہن حضرت اسماءؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوئیں۔ اس وقت ان کے بدن پر باریک کپڑے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے اپنا رُخ پھیر لیا اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
یَااَسْمَائُ ! اِنَّ الْمَرْاَۃَ اِذَا بَلَغَتِ الْمَحِیْضَ لَمْ تَصْلُحْ اَنْ یُّرٰی مِنْہَا اِلاَّہٰذَا وَہٰذَا (سنن ابی داؤد، کتاب اللباس، باب فیما تبدی المرأَۃ من زینتہا، حدیث:۴۱۰۴)، اے اسماء! عورت جب سنِّ بلوغ کو پہنچ جائے تو مناسب نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی دے، سواے اس کے اوراس کے (یہ فرماتے ہوئے آپؐ نے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کی جانب اشارہ کیا )۔
حدیث بالا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لباس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اتنا باریک نہ ہو کہ اس کا بدن جھلکے۔ اس لیے کہ اس صورت میں ستر پوشی نہیںہوسکتی ، بلکہ اس سے عورت کے محاسن میںاضافہ ہوگا۔ حدیث میں اس کے لیے بہت بلیغ تعبیراختیار کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : نِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ ...... لاَ یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یَجِدْنَ رِیْحَہَا ( مسلم ، کتاب اللباس ، باب النساء الکاسیات العاریات ،حدیث ۲۱۲۸) ’’ایسی عورتیں جوکپڑے پہن کر بھی عریاں معلوم ہوں و ہ جنت میں نہیں جائیںگی ، بلکہ و ہ جنت سے اتنی دوری پر ہوںگی کہ جنت کی خوش بوبھی ان تک نہیں پہنچ سکے گی‘‘۔
عورت کے لباس کے لیے یہ بھی ضـروری ہے کہ وہ اتنا چست نہ ہو کہ اس کے جسمانی نشیب وفرا ز نمایاں ہوجائیں اوراعضا کا حجم دکھائی دینے لگے۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت دحیہ کلبی ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قطبی کپڑا تحفے میں بھیجا ۔ اسے آپؐ نے مجھے عنایت فرمایا ۔ میںنے اسے اپنی بیوی کودے دیا ۔ کچھ دنوں کے بعد آپؐ نے مجھ سے دریافت فرمایا : ’’تم نے اس قطبی کپڑے کو کیوں نہیں پہنا؟ ‘‘ میںنے عرض کیا : ’’ اے اللہ کے رسولؐ ! میں نے اسے اپنی بیوی کو دے دیا ہے ۔ ‘‘ آپ ؐ نے فرمایا :مُرْہَا فَلْتَجْعَلْ تَحْتَہَا غِلاَلَۃً، اِنِّی اَخَافُ اَنْ تَصِفَ حَجْمَ عِظَامِہَا (احمد : ۲۱۷۸۶) ’’اس سے کہو کہ اس کے نیچے استر لگالے ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے بغیر ہڈیوں کا حجم ظاہر ہوگا‘‘۔
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان خاتون کے لیے چست لباس پہنا درست نہیں ہے ۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (مولانا رضی الاسلام ندوی)