نومبر ۲۰۱۸

فہرست مضامین

احترامِ نبوی

ڈاکٹر ممتاز عمر | نومبر ۲۰۱۸ | اسوۂ حسنہ

Responsive image Responsive image

نبی محترم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات انتہائی احترا م کی متقاضی ہے۔ آپؐ اللہ کے بندے اور رسولؐ ہیں۔تاہم، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی وہی انداز اختیار کریں۔ اس سلسلے میں کچھ اصول و آداب متعین کیے گئے ہیں۔

ارشاد ہوا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔(الحجرات ۴۹:۱)

پھر ارشاد ہوا: ’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور   نہ نبیؐ کے ساتھ اُونچی آواز سے بات کیا کروجس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو‘‘۔(الحجرات ۴۹:۲)

سورئہ حجرات کی ان ابتدائی آیات میں وہ آداب سکھائے گئے ہیں جو امام الانبیاؐ پر ایمان لانے والوں کے لیے ہیں کیوں کہ ایمان والوں کے نزدیک فوقیت اس بات کی ہونی چاہیے کہ  اللہ اور اس کے نبیؐ کے احکام مقدم جانیں۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہو بلکہ ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلےاللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو دیکھے۔ یہاں مطیع وفرماں بردار رہ کر زندگی گزارنے کا حکم ہے، یعنی قرآن اور سنت میں تلاش کیا جائے کہ کیا حکم ہے۔

اللہ اور اس کے رسولؐ کی حیثیت مقدم کرانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں بیٹھنے اور گفتگو کرنے کا سلیقہ سکھایا گیاہے۔یہاں بھی احترام کا انتہائی انداز اپنانے کا حکم ہے۔ بات چیت کرتے ہوئے یا کچھ پوچھتے ہوئے دبی آواز رہے بلکہ محفل میں حضوراکرمؐ کی آواز بلند اور دیگر کی پست ہو۔ یہ ادب اگرچہ نبیؐ کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضوؐر کے زمانے میں موجود تھے مگربعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپؐ کا ذکر ہورہا ہو، یا آپؐ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپؐ کی احادیث بیان کی جائیں۔

مفسرین نے یہ راے بھی قائم کی ہے کہ اس آیت کا اطلاق بزرگوں کے ساتھ گفتگو کے حوالے سے بھی ہوسکتا ہے۔ چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ احترام کو ملحوظ رکھیں اور اپنی آواز کو پست رکھیں۔اس سلسلے میں حضرت ثابت بن قیسؓ کے واقعے کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ  وہ بلندپایہ مقرر تھے۔ فطری طور پر ان کی آواز بلند تھی۔ جب اس آیت کا نزول ہوا تو وہ اپنے گھر بیٹھ گئے۔ ندامت اور پریشانی حددرجۂ عروج پر تھی۔گمان تھا کہ سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔جب حضور اکرمؐ کو ان کی کیفیت کا علم ہوا تو انھیں بلایا اور ارشاد فرمایا: ’’تم اہلِ دوزخ سے نہیں اہلِ جنت میں سے ہو‘‘۔

نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہےکہ حضوراکرمؐ کا احترام ملحوظ رہے کیوں کہ رُوگردانی کی صورت میں زندگی بھر کی کمائی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ جو حضور اکرمؐ کا احترام نہیں کرتاوہ اللہ کا احترام نہیں کرتا۔

ارشادِ ربانی ہے: ’’اے نبیؐ، جو لوگ تمھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اگر وہ تمھارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انھی کے لیے بہتر تھا، اللہ درگزر کرنے ولا اور رحیم ہے‘‘۔(الحجرات ۴۹:۴-۵)

اس حکمِ ربانی کی ضرورت پیش نہ آتی کیوں کہ اس حکم کا لحاظ صحابہ کرامؓ تو مکمل طور پر کیا کرتے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ حضور اکرمؐ کا زیادہ تر وقت دین کی تبلیغ میں صرف ہوتا ہے۔ محض آرام اور خانگی اُمورِ زندگی کی ادایگی کے لیے حجروں میں تشریف لے جاتے تھے۔ اس لیے صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ وہ انھی اوقات میں آتے جب آپؐ موجود ہوتے اور اگر آپؐ نہ بھی ہوتے تو صحابہ کرامؓ بیٹھ کرآپؐ کا انتظار کرتے ۔ مگر قبائل سے آنے والے آداب سے نابلد لوگ یہ سمجھتے تھے کہ دعوت الی اللہ اور اصلاحِ خلق کا کام کرنے والے کو کسی بھی وقت آرام لینے کا حق نہیں ہے اور انھیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آدھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آجائیں تو وہ ان سے ملنے کے لیے مستعد رہے۔

اَزواجِ مطہراتؓ کے حجروں کے گرد چکر لگاتے اور آوازیں دیتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حلیم الطبع تھے، اس لیے ان کو نہ ٹوکتے تھے، البتہ دلی طور پر تکلیف محسوس کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے واضح احکامات دے کر نبی محترمؐ کے ادب و احترام کو مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا مقام نصیب ہوا لیکن نبی محترمؐ کو افضل البشر کہا گیا۔ یہی نہیں معراج کے موقعے پر امام الانبیا ؐ کی حیثیت سےبلندمقام پر فائز ہوئے۔قرآن کریم میں جابجا آپؐ کے بلندمقام کا تذکرہ ہے۔ کبھی کہا گیا کہ آپؐ خوش خبری اور ڈرانے والے ہیں تو کہیں ارشاد ہوا: آپؐ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ کاحکم ہوتا ہے ۔ جب مشرکینِ مکہ اور یہودِ مدینہ نے آپؐ کوجھٹلایا تو رب العالمین نے تقویت دیتے ہوئے فرمایا: یہ کوئی آپؐ کے ساتھ نہیں ہورہا۔ اس سے پہلے بھی رسولوںؑ اور انبیا ؑ کو جھٹلایاگیا اور اذیتیںدی گئیں مگر اس کے باوجود مسلمانوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی احترام کریں۔

سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے، بلند آواز سے گفتگو کرنے اور آرام میں مخل ہونے کو زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور مقام، مال و دولت، والدین، اولاد گویا ہر شے سے بڑھ کر ہے۔

مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی شان میں گستاخی یا زبان درازی کی جارہی ہو تو مسلمانوں کا کیا فرض ہے؟ اس سلسلے میں ارشاد ہوا:’’اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جارہا ہے اور ان کا مذاق اُڑایا جارہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں۔ اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انھی کی طرح ہو۔ یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے‘‘۔ (النساء ۴:۱۴۰)

درحقیقت اس ارشاد میں اللہ کے احکامات کا مذاق اُڑانے والوں اور اُسے سن کر خاموش رہنے والوں، ہر دو کو برابر عذاب کی خبر سنائی گئی ہے۔ اللہ کے یہ احکامات وحی کی صورت میں نبی محترمؐ تک آئے۔ پھر آپؐ نے انھیں اپنی زبان سے بیان کیا کہ منکرین اور منافقین کا مذاق اُڑانا اللہ اور اس کے رسولؐ، ہر دو کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ حالاں کہ مشرکین مکہ حضوؐر کو صادق کے لقب سے پکارتے تھے اور حضور اکرمؐ کی چالیس سالہ زندگی صاف اور شفاف انداز میں ان کے سامنے تھی۔ پھر احکاماتِ ربّانی کا مذاق اُڑانا گستاخی کے مترادف ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حسب و مراتب کا تعین کر دیا گیا اور تعظیم کے لائق مقدم ترین ہستی حضور اکرمؐ کو ٹھیرایا گیا۔ اکثر علما تو حضور اکرمؐ کی تعلیمات اور احادیث بیان کرنے اور روضۂ رسولؐ کے پاس گزرتے وقت ادب و احترام کی ایسی کیفیت کو برقرار رکھنے کے قائل ہیں جو سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں متعین کر دی گئی۔

ادب و آداب کے اہتمام کے حوالے سے ارشاد ربانی ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو رَاعِنَا نہ کہا کرو بلکہ اُنْظُرنَـا کہو اور توجہ سے بات سنو،یہ کافر تو عذابِ الیم کے مستحق ہیں‘‘۔ (البقرہ۲:۱۰۴)

یہود چونکہ بُغض رکھتے تھے اور گفتگو کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ چھوٹا سمجھتے ہوئے رَاعِنَا استعمال کرتے جس کا ظاہری مطلب تو ٹھیریئے اور ہماری بات سنیے تھا مگر کچھ دوسرے ایسے مطالب بھی تھے جو ابہام پیدا کرتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو اُنْظُرنَـاجیسا واضح لفظ استعمال کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کی اہمیت اور فوقیت کو مومنوں کے دلوں میں یقینی بنایا ہے۔ چوں کہ یہود اس لفظ کو کھینچ کر رَاعِنَا  جس کے معنی ہمارے چرواہے ہے، ہو جاتا تھا اور وہ قلبی طور پر بھی یہی کہنا چاہتے تھے اور اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے۔ اس لیے حقیقت کو ظاہر کر دیا گیا۔ اور یہ بھی تو سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی مسلمان سے غلطی سے یہود والی ادایگی نکل جائے اور اہانت ِ رسولؐ کا پہلو نکل آئے۔ اس لیے مومنین کو اس لفظ کی ادایگی سے روک کر مترادف کے طور پر خوب صورت لفظ بتا دیا گیا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تفوق مسلمانوں کے لیے جزوِ ایمان ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’بلاشبہہ نبیؐ تو اہلِ ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہیں‘‘۔

اس حکم کے بعد بال برابر بھی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ کوئی شانِ رسالتؐ میں اہانت کا ارتکاب کرے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی سزا موت ہے۔خود رسولؐ نے ایسے لوگوں کے لیے سزا مقرر کی اور اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا۔اس سلسلے میں قرآنِ کریم میں واضح طور پر ارشاد ہوا: ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ اُسی طرح ذلیل و خوار کر دیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جاچکے ہیں‘‘۔(المجادلۃ ۵۸:۵)

یہاں واضح طور پر گستاخِ رسولؐ کے لیے سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ الکبت کے معنی گرانے، ذلیل کرنے اور رُسوا کرنے کے ہیں۔ اسی طرح کبتوا کے معنی ہلاک کرنے اور رُسوا کرنے کے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا مقدر موت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’تم کبھی یہ نہ پائو گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان‘‘۔ (الحشر ۵۹:۲۲)

یہاں صاف صاف اہلِ ایمان اور جھٹلانے والوں کا فرق واضح کر دیا گیا۔ بلاشبہہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام خونیں رشتوں سے بڑھ کر متعین کر دیا گیا۔ اس لیے اب کیا گنجایش رہ جاتی ہے کہ انکار کرنے والوں کو اور خاص طور پر ان کو جو دشنام طرازی بھی کریں، اسلامی معاشرے میں رہنے دیا جائے۔ بنیادی اعتبار سے گستاخی کرنے والوں کی سزا موت ہے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے قتل کا حکم دیا ہے جس کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے۔ اور یہی نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’کیا انھیں معلوم نہیں ہے کہ جواللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کرتا ہے، اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا؟ یہ بہت بڑی رُسوائی ہے‘‘۔(التوبۃ ۹:۶۳)

یعنی آخرت میں بھی ان کے لیے بڑے عذاب کی وعید ہے۔ اگر کوئی مرتد ہوجائے اور مدتِ معینہ میں توبہ کر کے پلٹ آئے تو اس کی معافی ہوجاتی ہے۔ لیکن اس بات پر مفسرین متفق ہیں کہ گستاخِ رسولؐ چوں کہ کسی عام فرد کی دل شکنی کا باعث نہیں بلکہ شانِ رسالتؐ میں گستاخی کا مرتکب ہے اور شاتمِ رسولؐ ہے اس لیے اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔

بلاشبہہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت اور حکومت ہو، ان احکامات کو قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے خاندانی نظام میں کوشش کی جانی چاہیے کہ اپنے بچوں کو نبی محترمؐ کے مقام سے واقف کرائیں اور اوائل عمری سے ان کی ایسی تربیت کی جائے جس سے ان کے دل و دماغ میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے مطیع و فرماں بردار بنے رہنے کا سبق اَزبر ہو۔ ایسی صورت میں اہلِ ایمان سے تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مرتد ہوجائیں یا گستاخی کا احتمال کریں۔رہے کم علم اور غیرمسلم تو وہاں بھی اس بات کا شائبہ موجود ہے کہ کسی کے کہنے میں آکر یا مسلمانوں کو چڑانے کی وجہ سے ایسی حرکت کے مرتکب ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوانین کی تیاری کے وقت سزائوں کو واضح کیا جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کو مقدم نہ رکھنے اور اس سے رُوگردانی کرنے والوں کے لیے سزائیں مقرر ہوں۔ آئینِ پاکستان میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ کوئی گستاخی کا مرتکب ہو تو اسے قرارِ واقعی سزا دی جائے تاکہ اس قسم کے واقعات کا انسداد ہوسکے۔ یہی تحفظ ِ ناموسِ رسالتؐ کا تقاضا بھی ہے۔