نبی محترم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات انتہائی احترا م کی متقاضی ہے۔ آپؐ اللہ کے بندے اور رسولؐ ہیں۔تاہم، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی وہی انداز اختیار کریں۔ اس سلسلے میں کچھ اصول و آداب متعین کیے گئے ہیں۔
ارشاد ہوا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔(الحجرات ۴۹:۱)
پھر ارشاد ہوا: ’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیؐ کے ساتھ اُونچی آواز سے بات کیا کروجس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو‘‘۔(الحجرات ۴۹:۲)
سورئہ حجرات کی ان ابتدائی آیات میں وہ آداب سکھائے گئے ہیں جو امام الانبیاؐ پر ایمان لانے والوں کے لیے ہیں کیوں کہ ایمان والوں کے نزدیک فوقیت اس بات کی ہونی چاہیے کہ اللہ اور اس کے نبیؐ کے احکام مقدم جانیں۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہو بلکہ ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلےاللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کو دیکھے۔ یہاں مطیع وفرماں بردار رہ کر زندگی گزارنے کا حکم ہے، یعنی قرآن اور سنت میں تلاش کیا جائے کہ کیا حکم ہے۔
اللہ اور اس کے رسولؐ کی حیثیت مقدم کرانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں بیٹھنے اور گفتگو کرنے کا سلیقہ سکھایا گیاہے۔یہاں بھی احترام کا انتہائی انداز اپنانے کا حکم ہے۔ بات چیت کرتے ہوئے یا کچھ پوچھتے ہوئے دبی آواز رہے بلکہ محفل میں حضوراکرمؐ کی آواز بلند اور دیگر کی پست ہو۔ یہ ادب اگرچہ نبیؐ کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضوؐر کے زمانے میں موجود تھے مگربعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپؐ کا ذکر ہورہا ہو، یا آپؐ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپؐ کی احادیث بیان کی جائیں۔
مفسرین نے یہ راے بھی قائم کی ہے کہ اس آیت کا اطلاق بزرگوں کے ساتھ گفتگو کے حوالے سے بھی ہوسکتا ہے۔ چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ احترام کو ملحوظ رکھیں اور اپنی آواز کو پست رکھیں۔اس سلسلے میں حضرت ثابت بن قیسؓ کے واقعے کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ وہ بلندپایہ مقرر تھے۔ فطری طور پر ان کی آواز بلند تھی۔ جب اس آیت کا نزول ہوا تو وہ اپنے گھر بیٹھ گئے۔ ندامت اور پریشانی حددرجۂ عروج پر تھی۔گمان تھا کہ سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔جب حضور اکرمؐ کو ان کی کیفیت کا علم ہوا تو انھیں بلایا اور ارشاد فرمایا: ’’تم اہلِ دوزخ سے نہیں اہلِ جنت میں سے ہو‘‘۔
نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہےکہ حضوراکرمؐ کا احترام ملحوظ رہے کیوں کہ رُوگردانی کی صورت میں زندگی بھر کی کمائی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ جو حضور اکرمؐ کا احترام نہیں کرتاوہ اللہ کا احترام نہیں کرتا۔
ارشادِ ربانی ہے: ’’اے نبیؐ، جو لوگ تمھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اگر وہ تمھارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انھی کے لیے بہتر تھا، اللہ درگزر کرنے ولا اور رحیم ہے‘‘۔(الحجرات ۴۹:۴-۵)
اس حکمِ ربانی کی ضرورت پیش نہ آتی کیوں کہ اس حکم کا لحاظ صحابہ کرامؓ تو مکمل طور پر کیا کرتے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ حضور اکرمؐ کا زیادہ تر وقت دین کی تبلیغ میں صرف ہوتا ہے۔ محض آرام اور خانگی اُمورِ زندگی کی ادایگی کے لیے حجروں میں تشریف لے جاتے تھے۔ اس لیے صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ وہ انھی اوقات میں آتے جب آپؐ موجود ہوتے اور اگر آپؐ نہ بھی ہوتے تو صحابہ کرامؓ بیٹھ کرآپؐ کا انتظار کرتے ۔ مگر قبائل سے آنے والے آداب سے نابلد لوگ یہ سمجھتے تھے کہ دعوت الی اللہ اور اصلاحِ خلق کا کام کرنے والے کو کسی بھی وقت آرام لینے کا حق نہیں ہے اور انھیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آدھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آجائیں تو وہ ان سے ملنے کے لیے مستعد رہے۔
اَزواجِ مطہراتؓ کے حجروں کے گرد چکر لگاتے اور آوازیں دیتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حلیم الطبع تھے، اس لیے ان کو نہ ٹوکتے تھے، البتہ دلی طور پر تکلیف محسوس کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے واضح احکامات دے کر نبی محترمؐ کے ادب و احترام کو مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا مقام نصیب ہوا لیکن نبی محترمؐ کو افضل البشر کہا گیا۔ یہی نہیں معراج کے موقعے پر امام الانبیا ؐ کی حیثیت سےبلندمقام پر فائز ہوئے۔قرآن کریم میں جابجا آپؐ کے بلندمقام کا تذکرہ ہے۔ کبھی کہا گیا کہ آپؐ خوش خبری اور ڈرانے والے ہیں تو کہیں ارشاد ہوا: آپؐ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ کاحکم ہوتا ہے ۔ جب مشرکینِ مکہ اور یہودِ مدینہ نے آپؐ کوجھٹلایا تو رب العالمین نے تقویت دیتے ہوئے فرمایا: یہ کوئی آپؐ کے ساتھ نہیں ہورہا۔ اس سے پہلے بھی رسولوںؑ اور انبیا ؑ کو جھٹلایاگیا اور اذیتیںدی گئیں مگر اس کے باوجود مسلمانوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی احترام کریں۔
سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے، بلند آواز سے گفتگو کرنے اور آرام میں مخل ہونے کو زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور مقام، مال و دولت، والدین، اولاد گویا ہر شے سے بڑھ کر ہے۔
مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی شان میں گستاخی یا زبان درازی کی جارہی ہو تو مسلمانوں کا کیا فرض ہے؟ اس سلسلے میں ارشاد ہوا:’’اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جارہا ہے اور ان کا مذاق اُڑایا جارہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں۔ اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انھی کی طرح ہو۔ یقین جانو کہ اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ جمع کرنے والا ہے‘‘۔ (النساء ۴:۱۴۰)
درحقیقت اس ارشاد میں اللہ کے احکامات کا مذاق اُڑانے والوں اور اُسے سن کر خاموش رہنے والوں، ہر دو کو برابر عذاب کی خبر سنائی گئی ہے۔ اللہ کے یہ احکامات وحی کی صورت میں نبی محترمؐ تک آئے۔ پھر آپؐ نے انھیں اپنی زبان سے بیان کیا کہ منکرین اور منافقین کا مذاق اُڑانا اللہ اور اس کے رسولؐ، ہر دو کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ حالاں کہ مشرکین مکہ حضوؐر کو صادق کے لقب سے پکارتے تھے اور حضور اکرمؐ کی چالیس سالہ زندگی صاف اور شفاف انداز میں ان کے سامنے تھی۔ پھر احکاماتِ ربّانی کا مذاق اُڑانا گستاخی کے مترادف ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حسب و مراتب کا تعین کر دیا گیا اور تعظیم کے لائق مقدم ترین ہستی حضور اکرمؐ کو ٹھیرایا گیا۔ اکثر علما تو حضور اکرمؐ کی تعلیمات اور احادیث بیان کرنے اور روضۂ رسولؐ کے پاس گزرتے وقت ادب و احترام کی ایسی کیفیت کو برقرار رکھنے کے قائل ہیں جو سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں متعین کر دی گئی۔
ادب و آداب کے اہتمام کے حوالے سے ارشاد ربانی ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو رَاعِنَا نہ کہا کرو بلکہ اُنْظُرنَـا کہو اور توجہ سے بات سنو،یہ کافر تو عذابِ الیم کے مستحق ہیں‘‘۔ (البقرہ۲:۱۰۴)
یہود چونکہ بُغض رکھتے تھے اور گفتگو کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ چھوٹا سمجھتے ہوئے رَاعِنَا استعمال کرتے جس کا ظاہری مطلب تو ٹھیریئے اور ہماری بات سنیے تھا مگر کچھ دوسرے ایسے مطالب بھی تھے جو ابہام پیدا کرتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو اُنْظُرنَـاجیسا واضح لفظ استعمال کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کی اہمیت اور فوقیت کو مومنوں کے دلوں میں یقینی بنایا ہے۔ چوں کہ یہود اس لفظ کو کھینچ کر رَاعِنَا جس کے معنی ہمارے چرواہے ہے، ہو جاتا تھا اور وہ قلبی طور پر بھی یہی کہنا چاہتے تھے اور اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے۔ اس لیے حقیقت کو ظاہر کر دیا گیا۔ اور یہ بھی تو سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی مسلمان سے غلطی سے یہود والی ادایگی نکل جائے اور اہانت ِ رسولؐ کا پہلو نکل آئے۔ اس لیے مومنین کو اس لفظ کی ادایگی سے روک کر مترادف کے طور پر خوب صورت لفظ بتا دیا گیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تفوق مسلمانوں کے لیے جزوِ ایمان ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’بلاشبہہ نبیؐ تو اہلِ ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہیں‘‘۔
اس حکم کے بعد بال برابر بھی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ کوئی شانِ رسالتؐ میں اہانت کا ارتکاب کرے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی سزا موت ہے۔خود رسولؐ نے ایسے لوگوں کے لیے سزا مقرر کی اور اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا۔اس سلسلے میں قرآنِ کریم میں واضح طور پر ارشاد ہوا: ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں وہ اُسی طرح ذلیل و خوار کر دیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جاچکے ہیں‘‘۔(المجادلۃ ۵۸:۵)
یہاں واضح طور پر گستاخِ رسولؐ کے لیے سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ الکبت کے معنی گرانے، ذلیل کرنے اور رُسوا کرنے کے ہیں۔ اسی طرح کبتوا کے معنی ہلاک کرنے اور رُسوا کرنے کے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا مقدر موت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’تم کبھی یہ نہ پائو گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان‘‘۔ (الحشر ۵۹:۲۲)
یہاں صاف صاف اہلِ ایمان اور جھٹلانے والوں کا فرق واضح کر دیا گیا۔ بلاشبہہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام خونیں رشتوں سے بڑھ کر متعین کر دیا گیا۔ اس لیے اب کیا گنجایش رہ جاتی ہے کہ انکار کرنے والوں کو اور خاص طور پر ان کو جو دشنام طرازی بھی کریں، اسلامی معاشرے میں رہنے دیا جائے۔ بنیادی اعتبار سے گستاخی کرنے والوں کی سزا موت ہے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے قتل کا حکم دیا ہے جس کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے۔ اور یہی نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’کیا انھیں معلوم نہیں ہے کہ جواللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کرتا ہے، اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا؟ یہ بہت بڑی رُسوائی ہے‘‘۔(التوبۃ ۹:۶۳)
یعنی آخرت میں بھی ان کے لیے بڑے عذاب کی وعید ہے۔ اگر کوئی مرتد ہوجائے اور مدتِ معینہ میں توبہ کر کے پلٹ آئے تو اس کی معافی ہوجاتی ہے۔ لیکن اس بات پر مفسرین متفق ہیں کہ گستاخِ رسولؐ چوں کہ کسی عام فرد کی دل شکنی کا باعث نہیں بلکہ شانِ رسالتؐ میں گستاخی کا مرتکب ہے اور شاتمِ رسولؐ ہے اس لیے اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔
بلاشبہہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت اور حکومت ہو، ان احکامات کو قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے خاندانی نظام میں کوشش کی جانی چاہیے کہ اپنے بچوں کو نبی محترمؐ کے مقام سے واقف کرائیں اور اوائل عمری سے ان کی ایسی تربیت کی جائے جس سے ان کے دل و دماغ میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے مطیع و فرماں بردار بنے رہنے کا سبق اَزبر ہو۔ ایسی صورت میں اہلِ ایمان سے تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مرتد ہوجائیں یا گستاخی کا احتمال کریں۔رہے کم علم اور غیرمسلم تو وہاں بھی اس بات کا شائبہ موجود ہے کہ کسی کے کہنے میں آکر یا مسلمانوں کو چڑانے کی وجہ سے ایسی حرکت کے مرتکب ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوانین کی تیاری کے وقت سزائوں کو واضح کیا جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کو مقدم نہ رکھنے اور اس سے رُوگردانی کرنے والوں کے لیے سزائیں مقرر ہوں۔ آئینِ پاکستان میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ کوئی گستاخی کا مرتکب ہو تو اسے قرارِ واقعی سزا دی جائے تاکہ اس قسم کے واقعات کا انسداد ہوسکے۔ یہی تحفظ ِ ناموسِ رسالتؐ کا تقاضا بھی ہے۔
السلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو ۔ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور السلام علیکم کہتا ہے تو یہ صرف اظہارِمحبت ہی نہیں دعا بھی ہے۔ دُعا کے معنوں میں یہ ایک بہترین دُعا ہے کہ تم میری طرف سے ہر طرح محفوظ رہو۔ ’السلام‘ ہر طرح کی سلامتی ، ظاہری سلامتی بھی اور باطنی سلامتی بھی، یعنی تمھاری زندگی، صحت، جان و مال ، اولاد، ایمان اور اخلاق ہر چیز سلامتی میں رہیں، کیوںکہ صرف سلام نہیں السلام ہے۔ ’ال‘ استغراق کے لیے ہے ، یعنی مکمل سلامتی۔ پھر دنیا کی نہیں آخرت کی بھی۔ اس اعتبار سے السلام علیکم بہت جامع الفاظ ہیں ۔
عربوں میں یہ رواج تھا صباح الخیر (اچھی صبح ہو)، صباح النور (روشن صبح ہو)۔ انگریزی الفاظ گڈمارننگ، گڈ ایوننگ کا مفہوم بھی وقتی سلامتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس میں دعا کا پہلو نہیں بلکہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ تمھاری صبح و شام اچھی ہو لیکن اسلام ’السلام‘ کہنے کی ہدایت کرتا ہے جو صبح و شام تک محدود نہیں مکمل سلامتی کی بات ہے اور اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو آخرت کی سلامتی بھی۔
ایک مسلمان مفکر کا قول ہے: وہ پوچھتے ہیں کہ تم جانتے ہو سلام کس چیز کا نام ہے؟ پھر وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سلام کرنے والا دراصل یہ کہتا ہے کہ تم میری طرف سے بالکل مطمئن رہو، بے خوف رہو، یعنی مجھ سے تمھیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
غور کریں کہ جب ہم کسی سے ملنے جاتے ہیں اور السلام علیکم کہتے ہیں اور پھر اس کو طعنے دینے لگیں، اس کو بُرا بھلا کہیں تو یوں اس کے اور اپنے اعمال کو برباد کرنے لگتے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ جھوٹ، دھوکا اور فریب کا معاملہ کرنے لگیں تو ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلام ایک ایسی یاد دہانی ہے جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ تم جس سے مل رہے ہو نہ تو اس کو تکلیف دینا مقصود ہے اور نہ اس کی جانب سے تکلیف کا امکان ہی ہے۔ شاید ہم نے سلام کی روح کو نہیں سمجھا اور کبھی شعوری طور پر سلام نہیں کیا۔ صرف ایک روایت کی طرح اظہار کرتے ہیں۔
ہم سب مسلمان ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض علاقوں میں سلام کے بجاے آداب کہنے کا رواج ہے۔ یہ ہی نہیں اس کی ادایگی کے لیے بھی مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ سیدھی ہتھیلی کو کچھ گولائی میں خم دے کر جھک کر آداب کیا جاتا ہے۔ جتنی محترم بزرگ اور عمررسیدہ ہستی کو آداب کرنا ہو اس قدر جھکتے ہیں۔ کہیں آداب عرض کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں جیتے رہو کی دُعا دی جاتی ہے۔ اسی طرح جوڈوکراٹے کی ابتدا میں ایک دوسرے کو جھک کر سلام کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات جلدی میں سام علیکم کہہ دیتے ہیں جس میں ’لام‘ کی ادایگی نہیں ہوتی تو معنی بدل کر موت کے ہوجاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں سلام کرتے ہوئے پائوں چھوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اسے بدتہذیبی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح پگڑی اُتار کر پیروں میں رکھنا، پیروں اور گھٹنوں کو چھونا، زبان سے سلام کرنے کے بعد مصافحہ پھر ہاتھوں کو چومنا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔
نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے جب حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا تو فرمایا: جائو سلام کرو فرشتوں کے ان گروہوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر غور سے سننا جو وہ تم کو کہیں گے۔ وہ تمھارا اور تمھاری اولاد کا سلام ہوگا۔حضرت آدم ؑ نے جاکر کہا: السلام علیکم تو انھوں نے کہا: وعلیک السلام ورحمۃ اللہ۔ جواب میں السلام علیکم سے بڑھ کر ورحمۃ اللہ اضافی کہا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تمھیں کوئی سلام کرے تو اُسے اس سے کچھ زائد دعا دو ورنہ اس کے برابر جواب تو ضرور دو۔ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض باتوں کا حکم دیا۔ بیمار کی مزاج پُرسی کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، یعنی اس میں شریک ہونے کا، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے کا، یعنی یرحمک اللہ کہنے کا، کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا، سلام پھیلانے کا اور قسم دلانے والے کی قسم پوری کرنے کا۔ ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔
حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: اے لوگو! سلام کو پھیلائو، لوگوں کو کھانا کھلائو، رشتوں کو ملائو، صلہ رحمی کرو، اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوں۔ تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجائو گے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: وہ آدمی اللہ کے زیادہ قریب ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: ’’اس شخص کا دل کبر اور تکبر سے خالی ہوتا ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے‘‘۔ ہم انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی ہمیں سلام کرے۔ اگر ایسا خیال دل میں آئے تو اسے تکبر سمجھتے ہوئے سلام میں پہل کرنی چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات سب سے زیادہ بہتر ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تم بھوکے کو کھانا کھلائو اور ہرشخص کو سلام کرو چاہے تم اسے پہچانو نہ پہچانو۔
ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم صرف ان کو سلام کرتے ہیں جنھیں پہچانتے ہیں بلکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ مجلس میں جاکر نام لے کر سلام کرتے ہیں، جب کہ ایسے موقع پر سب کو سلام کرنا چاہیے۔ ممکن ہے آپ کسی اجنبی کو اس لیے سلام نہیں کر رہے کہ آپ اسے نہیں جانتے لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سلام کرنے سے اجنبیت دُور ہوجائے، اور ہم ایک دوسرے کے شناسا بن جائیں۔ بظاہر سلام کرنا چھوٹی سی چیز ہے مگر اس کے ذریعے محبت کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اپنے گھر کے سوا کسی دوسرے کے گھر میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور اس گھر میں رہنے والوں کو سلام نہ کرلو‘‘ (النور۲۴:۲۱)۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کہا: ’’اے بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جائو تو سلام کرو، تمھارے گھر والوں پر برکت ہوگی‘‘۔ مذکورہ حکم سے ظاہر ہوا کہ گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اللہ کا دیا سب کچھ ہے مگر گھر میں برکت نہیں۔ ذرا غور کریں تو ممکن ہے گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت سلام نہ کرنے اور اہلِ خانہ کے جواب نہ دینے کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہو۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’جب کسی مجلس میں جائو تو سلام کرو اور جب رخصت ہونے لگو تو بھی سلام کرو‘‘۔ اور فرمایا: پہلا اور دوسرا ہردو سلام ضروری اور اجر کے حساب سے برابر ہیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کتنی بار سلام کریں۔ احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا طریقہ تو یہ تھا کہ کسی درخت کی اُوٹ سے دوبارہ ظاہر ہونے پر ایک بار پھر سلام کرتے تھے۔اس سلسلے میں نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے۔ اگر درخت یا دیوار یا پتھر کی اُوٹ سے دوبارہ سامنے آئے تو پھر سلام کرے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب کسی کو سلام کرو تو اپنا سلام اس کو سنائو۔ اس لیے کہ سلام اللہ کی طرف سے نہایت پاکیزہ اور برکت والی دُعا ہے۔ حضرت مقدادؓ فرماتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے حصے کا دودھ اُٹھا کر رکھ دیا کرتے تھے۔ جب حضور اکرمؐ تشریف لاتے تو اس طرح سلام کرتے کہ سویا ہوا بیدار نہ ہو اور جاگتا ہوا جواب دے۔
حضوؐر کسی ایسے شخص کو سلام کرنا چاہتے جو آپؐ سے فاصلے پرہوتا اور آواز پہنچنا مشکل ہوتا تو ہاتھ کے اشارے سے بھی سلام کرلیتے تھے۔ حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ آپؐ ایک دن مسجد سے گزرے تو مسجد میں خواتین کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ ایک بات سلام کرتے وقت یہ اپنانی چاہیے کہ خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ سلام کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن حارثؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرمؐ سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں پایا۔
ایک جگہ سے دوسری جگہ، یعنی کسی دوسرے شہر یا ملک جانے والوں کے ذریعے بھی اپنے جاننے والوں کو سلام بھیجنا چاہیے۔ اسی طرح خطوط، ایس ایم ایس اور دوسرے ذرائع سے بھی سلام لکھنا چاہیے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خطوط لکھے تو ان میں اس طرح السلام لکھا کہ سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کو اپنا لے۔ یہ طریقہ ایسے لوگوں کے لیے ہے جو دائرۂ اسلام میں نہ ہوں، جب کہ کسی بھی مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے السلام علیکم یا احسن طریقے پر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بھی لکھنا چاہیے۔ اسی طرح ٹیلی فون پر جب مخاطب سامنے نہ ہو تو گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کرنا چاہیے۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے قطع تعلق کیے رکھے، یعنی ایک ادھر منہ پھیرے ہوئے ہو تو دوسرا دوسری جانب۔ ان میں افضل وہ ہے جو سلام میں پہل کرلے۔نبی کریمؐ سے پوچھا گیا جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملیں تو ان میں کون پہلے سلام کرے؟ آپؐ نے فرمایا: جو ان دونوں میں اللہ کے نزدیک ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سلام کرنے میں اتنی پہل کرتے کہ کوئی دوسرا ان پر سبقت نہ لے پاتا۔ چھوٹے بچوں کو سلام سکھانے کے لیے ان کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ جو بچہ بولنا سیکھ رہا ہو اس کو سلام کیا جائے اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا جائے، تو آپ دیکھیں گے وہ بچہ زبان سے سلام تو ادا نہ کرپائے گا مگر آپ کو دیکھتے ہی ہاتھ آگے بڑھا دے گا۔ سلام کی عادت ڈالنے کے لیے سلام میں پہل کی جانی چاہیے۔ حضرت انسؓ چھوٹے بچوں کے پاس سے گزرے تو انھیں سلام کیا اور کہا کہ حضور اکرمؐ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ خط میں بھی بچوں کو سلام لکھا کرتے تھے۔ عام حالت میں چھوٹوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر سلام کریں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے افراد زیادہ کو سلام میں پہل کریں۔ اسی طرح سوار پیدل چلنے والوں کو سلام کرے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اُوپر والا نیچے والے کو سلام کرے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ تکبر کا خاتمہ ہو۔
یہود و نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی سلام کرنے میں پہل نہ کریں۔ ہاں، اگر مختلف مذاہب کے لوگ مشترک بیٹھے ہوں تو سلام میں پہل کرسکتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: جب اہلِ کتاب تمھیں سلام کریں تو وعلیکم کہہ دیا کرو۔
حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ سلام برکت پر مکمل ہوجاتا ہے۔ اس سے آگے کچھ نہ بولو۔ کیوںکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ جنت حلال اور دوزخ حرام وغیرہ نہ جانے کیا کیا سلام کے ساتھ ملاتے ہیں۔
مصافحہ اور معانقہ: سلام کے علاوہ مصافحہ اور معانقہ بھی ہے۔ مصافحہ صفح سے نکلا ہے جس کا معنی ہے ہتھیلی کو ہتھیلی سے ملانا۔ ارشادرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جب تک دو بھائی ہاتھ ملائے رکھتے ہیں گناہ جھڑتے رہتے ہیں۔ ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا: تم مصافحہ کیا کرو اس سے دلوں کا کینہ ختم ہوجاتا ہے۔ تاہم، یہاں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔ سلام کریں اور ہاتھ ملائیں۔ یہ نہیں کہ ہاتھ پکڑ لیں تو چھوڑنا بھول جائیں ، اور یہ بھی نہیں کہ ہاتھ ملائیں تو اس زور سے دبائیں کہ دوسرے کی چیخ ہی نکل جائے۔ایک روایت ہے کہ فرشتے اس مسلمان پر تعجب کرتے ہیں جو دوسرے مسلمان کے پاس سے گزرتا ہے اور سلام نہیں کرتا۔
معانقہ کا مطلب ہے گردن سے گردن ملانا، یعنی گلے ملنا۔ یہ لفظ عُنق سے بنا ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑتے ہوئے آتے تو آپؐ فرطِ محبت سے ان دونوں کو گلے سے لگا لیا کرتے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ بچوں سے سلام کریں تو پیار کرتے ہوئے انھیں گلے سے لگائیں۔
سلام صرف زندوں کو نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ جب قبرستان میں داخل ہوں تو اہلِ قبور کو سلام کریں اور اگر قبرستان کے پاس سے گزریں تو بھی ان کے لیے دعا کریں۔
ہمارے معاشرے میں ناخواندگی کے بادل چھٹتے جارہے ہیں، علم کا نور بہ تدریج پھیل رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ چھوٹی عمر سے بچوں کا تعلیمی ادارے سے تعلق ہے۔ اب تین سال کے بچے کو نرسری اور کے جی کی راہ دکھائی جانے لگی ہے۔ اس کے برعکس مساجد میں چھوٹے بچوں کے ساتھ رویّہ عام مسلمان اور علما سب کے لیے قابلِ غور ہے۔
رسول کریمؐ کی ہدایت کے تحت تلقین کی جاتی ہے کہ ’’سات سال کے بچے کو مسجد میں نماز کے لیے لائو‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۱ سال کے بچے کو مسجد میں ضرور لایا جائے۔ اگر بچہ آنے میں پس و پیش کرے تو اس پر سختی کی جائے، اس میں مارپیٹ کی اجازت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو انگلی پکڑے مساجد کی طرف لے جایا کرتے تھے۔ یہ رواج نمازِ جمعہ اور عیدین میں خصوصیت کے ساتھ دیکھنے میں آتا رہا۔ عام نمازوں میں والدین بچوں کو لانے سے ہچکچاتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ نمازی بچوں کو مسجد میں لے آئیں تو انھیں بعض اوقات شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے۔ فرض نماز کی ادایگی کے فوری بعد ان بچوں کی سرزنش اور پھر بچوں کے والدین کی شناخت کے بعد ان کو بھی ایسی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو کیوں لائے؟
بچوں کو مسجد میں لانے اور ان کی شرارت کی بنا پر جس شرمندگی کا احساس والدین یا دیگر بزرگوں کو ہوتا ہے اس کی وجہ ہمیشہ خود بچے نہیں ہوتے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ بچے تو بڑے اہتمام کے ساتھ صف بناتے اور نماز کی ادایگی میں مصروف ہوتے ہیں مگر چند بچے اس موقع پر شرارت پر اُتر آتے ہیں۔ یوں دھکا دینے، کچھ پوچھنے یا مختلف اشارے کرنے کی بنا پر بچے ہنسنے یا دیگر مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے صف بنائے بڑی تنظیم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کوئی بڑا آیا اور اس نے بچوں کو سب سے پیچھے کی طرف دھکیل کر خود اس کی جگہ سنبھال لی۔ اس وجہ سے بھی وہ تمام اخلاقی تلقین اور تربیت کو فراموش کرکے شرارت پر اُتر آتے ہیں۔
مفتی عبدالرئوف سکھروی لکھتے ہیں:’’ بچوں کی صف کا مردوں کی صف کے پیچھے ہونا سنت ہے۔ لہٰذا جب جماعت کا وقت ہو اور بچے حاضر ہوں تو پہلے مرد اپنی صفیں بنائیں پھر ان کے بعد بچے اپنی صفیں بنائیں۔ پھر اس ترتیب سے جماعت قائم ہوجانے کے بعد اگر بعد میں کچھ مرد حاضر ہوں تو اوّل وہ مردوں کی صفوں کو مکمل کریں، اگر وہ پوری ہوچکی ہوں تو پھر بچوں کی صف ہی میں دائیں بائیں شامل ہوجائیں، بچوں کو پیچھے نہ ہٹائیں، کیونکہ بچے اپنے صحیح مقام پر کھڑے ہیں۔ مردوں اور بچوں کی مذکورہ ترتیب جماعت کے شروع میں ہے۔ نماز شروع ہوجانے کے بعد نہیں۔‘‘ (صف بندی کے آداب، مکتبہ الاسلام، کراچی، ص۳۱)۔مفتی عبدالرؤف بچوں کو مردوں کی صفوں کے درمیان شامل کرنے کی گنجایش بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’ اگر بچے تربیت یافتہ نہ ہوں اور دورانِ نماز شرارتیں کریں جس سے اپنی نماز کو باطل کرنے یا ان کے کسی طرزِعمل اور شرارت سے مردوں کی نماز باطل ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر ان کی علیحدہ صف نہ بنائی جائے، بلکہ ان کو منتشر اور متفرق طور پر مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ ان بچوں کو صف میں انتہائی بائیں جانب یا داہنی جانب متفرق طور پر کھڑا کیا جائے تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کرکے اپنی یا دوسروں کی نماز برباد کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔ ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہت نہ آئے گی۔‘‘(ایضاً، ص۳۲)
ہمارے معاشرے میں یہ رویہ فروغ پا رہا ہے کہ اکثر بڑے اپنے بچوں کو مسجد میں لانے سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کی شرارت کی وجہ سے خجالت اور شرمندگی کا سامنا نہ ہو۔ اس طرح بچوں کی تربیت نہیں ہوپارہی۔ ساتھ ہی مسجد میں بچوں کی عدم موجودگی بھی خصوصیت سے محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی کام کی عادت بچپن ہی سے پڑا کرتی ہے۔ اگر بچپن ہی سے بچوں کو مسجد میں لایا جائے گا تو بتدریج وہ نماز کی ادایگی سیکھ جائیںگے۔ گھر میں رہ کر ان کی تربیت ایک حد تک تو ہوسکتی ہے مگر آدابِ نماز مسجد آکر سیکھے جاسکیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے بچے یا چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لائیں اور ابتدائی طور پر اپنے برابر میں کھڑا کریں۔ ساتھ ہی اسے یہ احساس بھی دلائیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، یہاں شرارت کرنا بے ادبی اور گناہ ہے۔ اس طرح اُمید ہے کہ بچہ آپ کی قربت کے پیش نظر بھی خیال رکھے گا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور وہ شرارت سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ پھر بھی اس سے اگر کوئی لغزش ہوجائے تو اُسے سب کے سامنے ڈانٹنے اور بے عزت کرنے کے بجاے بڑے آرام اور تحمل سے سمجھائیں۔ اس طرح اس کی اصلاح بھی ہوگی اور اُسے حوصلہ بھی ملے گا، یوں وہ کامل مسلمان بن جائے گا۔
مسجد اور بچوں کا تعلق ہمیشہ سے ہے۔ خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں حضرت امام حسنؓ و حسینؓ کو مسجد میں لاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ دیکھیے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے۔ اسی اثنا میں حسنؓ اور حسینؓ آئے، انھوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھیں اور وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے تو رسولؐ اللہ فرطِ محبت سے منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان دونوں کو اُٹھا لیا اور اپنے سامنے بٹھا دیا۔ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: تمھارے لیے مال اور اولاد فتنہ (آزمایش) ہیں۔ جب میں نے ان دونوں بچوں کوچلتے اور لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ مجھے اپنی بات ختم کرنا پڑی اور ان دونوں کو اُٹھا لیا۔(رحمت ہی رحمت، تالیف: شیخ عطاء اللہ بن عبدالغفار، ترجمہ: مولانا امیر الدین مہر، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی، ص۵۵)
دورانِ نماز بچوں کی موجودگی کے حوالے سے یہ روایت خصوصی اہمیت کی حامل ہے ۔ حضرت عبداللہ بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ظہر یا عصر میں سے کسی نماز کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپؐ حسنؓ یا حسینؓ کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ نے اس کو آگے کر کے بٹھا دیا اور نماز کے لیے تکبیر کہہ کر نماز شروع کی۔ پھر جب سجدہ کیا تو آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدے کو طویل کیا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر اُٹھاکر دیکھا تو رسولؐ اللہ سجدے کی حالت میں ہیں اور بچہ آپؐ کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر میں واپس سجدے میں چلا گیا۔ پھر جب رسولؐ اللہ نے نماز پوری کی تو لوگوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدہ اتنا طویل کیا ، یہاں تک کہ ہمیںگمان ہوا کہ کوئی معاملہ درپیش ہے یا پھر آپؐ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ان میں سے کوئی بات نہ تھی لیکن میرا بیٹا میرے اُوپر سوار تھا اور مجھے یہ بات ناپسند لگی کہ میں اس کے لیے عجلت کروں یہاں تک کہ وہ اپنی (کھیلنے کی) ضرورت پوری کرلے۔(ایضاً، ص ۵۸)
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ میں نے حسن بن علیؓ کو دیکھا کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے، جب کہ آپؐ سجدے میں ہوتے تو آپؐ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے۔ آپؐ انھیں اُتارتے نہیں تھے، جب تک وہ خود نہیں اُتر جاتے، اور وہ آتے اور آپؐ رکوع کررہے ہوتے تو اپنے دونوںپیروں کو پھیلا دیتے اور وہ دوسری طرف نکل جاتے۔(ایضاً، ص ۵۹)
کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جس کے ذریعے یہ ثابت ہوکہ نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسنؓ و حسینؓ کے اوقاتِ نماز میں مسجد آنے پر ناراض ہوئے ہوں اور اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ زہراؓ سے کبھی یہ کہا ہو کہ بچے مسجد میں نماز کے دوران کیوں جاتے ہیں یا روکنے کی ہدایت کی ہو۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا جو زمانہ پایا، اس میں ان کی عمریں محض چند سال تھیں۔
بچوں کے حوالے سے مختصر نماز پڑھنے کا بھی حکم ہے تاکہ بچوں کے رونے سے ان کی ماں یا دیگر نمازیوں کا دھیان بٹنے کا امکان کم رہے۔ حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز طویل کروں۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز اس ڈر سے مختصر کرتا ہوں کہ اس کی ماں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بن جائے۔
خانۂ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں بچوں کو ساتھ لانے کا عام رواج ہے۔ تقریباً تمام ہی نمازوں میں ناسمجھ اور سمجھ دار ہردو قسم کے بچے ہوتے ہیں اور ان مقاماتِ مقدسہ پر کثیرتعداد کے پیش نظر یہ اہتمام بھی نہیں ہوپاتا کہ مردوں کی صفوں کے بعد بچوں کی صف بنائی جائے، بلکہ بچوں کو اپنے ساتھ کھڑا رکھنے کا رواج ہے۔ خود میں نے دیکھا کہ مغرب کی نماز کے دوران بیت اللہ اور پہلی صف کے درمیان بچے بھاگتے دوڑتے رہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ نماز کے بعد ان بچوں کو بُری طرح ڈانٹا یا پیٹا جائے گا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نماز کے بعد بچوں کو ان کے والدین نے بڑے پیار سے چوما اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اسی طرح مسجد نبویؐ میں بھی ہوا اور جب میرے خدشے کے پیشِ نظر بچوں کی سرزنش نہ ہوئی تو میں نے مدینہ میں مقیم اپنے ایک عزیز سے استفسار کیا کہ ہمارے یہاں تو والدین خود اور دیگر نمازی بچوں پر برس پڑتے ہیں۔ مگر یہاں بچوں کو ڈانٹنا تو کجا، انھیں پیار کرنے اور چومنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ بولے: اچھا ہوا تم نے اس پورے معاملے کو خاموشی سے دیکھا۔ اگر کہیں غلطی سے بچوں کو ڈانٹ دیتے یا ان کے والدین سے شکایت کرتے تو لوگ تم پر برس پڑتے۔ کیونکہ یہ عام خیال ہے کہ مسجد نبویؐ پر بچوں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ اگر وہ نادانی میں بھاگیں دوڑیں، شرارت کریں یا نمازیوں کی پیٹھ پر چڑھ جائیں تو کوئی حرج اور کراہیت کی بات نہیں۔ کیونکہ حضرت امام حسنؓ و حسینؓ بھی مسجد میں بھاگتے دوڑتے آتے اور منبر تک چلے جاتے تھے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں اور مسجد کے تعلق کے درمیان ایک خلیج حائل کردی گئی ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کو ساتھ لے آئے اور برابر میں کھڑا کرے تو دوسرے اعتراض کرتے ہیں۔ اگر بچے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تو دورانِ نماز چند بچوں کی شرارت پر سب بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کی حمایت کرے تو اُسے بھی آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بچے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں۔ یوں مساجد بچوں سے غیرآباد ہوتی جارہی ہیں۔
اب ذرا اپنے گردوپیش پر نظر کیجیے۔ ہماری اکثر مساجد کے گرد دکانیں ہوتی ہیں۔ ایک اسلامی معاشرہ ہونے کے باوجود دکان دار اور قریبی مکین مسجد کے تقدس سے ناآشنا ہیں۔ موسیقی، گانے اور اشیاے ضروریہ بیچنے والوں کی صدائیں، ان سب سے بڑھ کر قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کا شور اور بلاوجہ ہارن کا استعمال___ ان مواقع پر مسجد میں موجود نمازی کیا کرتے ہیں؟ محض ان اُمور کو نظرانداز کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ دکان دار یا صاحب ِ مکاں کو کچھ کہہ سکے۔ ہاں، اگر غصہ آتا ہے تو ان معصوم بچوں پر جو اپنے والدین کے ہمراہ خوشی خوشی مسجد میں آتے ہیں اور ابھی آدابِ نماز اور احترامِ مسجد سے واقف نہیں۔ اس لیے دورانِ نماز بچے گلیوں میں کھیلنے یا گھروں میں ٹی وی دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ عمل اسلامی معاشرے کی تیاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ آیئے! غور کریں ہم کس طرح بچوں کو مسجد میں لاکر ان کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔
مرزا محمد الیاس نے ارقم آفاق پرنٹر، بلال گنج سے چھپوا کر اچھرہ، لاہور سے شائع کیا۔