اکتوبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

مسجد سے بچوں کا تعلق

ڈاکٹر ممتاز عمر | اکتوبر ۲۰۱۱ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

ہمارے معاشرے میں ناخواندگی کے بادل چھٹتے جارہے ہیں، علم کا نور بہ تدریج پھیل رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ چھوٹی عمر سے بچوں کا تعلیمی ادارے سے تعلق ہے۔ اب تین سال کے بچے کو نرسری اور کے جی کی راہ دکھائی جانے لگی ہے۔ اس کے برعکس مساجد میں چھوٹے بچوں کے ساتھ رویّہ عام مسلمان اور علما سب کے لیے قابلِ غور ہے۔

رسول کریمؐ کی ہدایت کے تحت تلقین کی جاتی ہے کہ ’’سات سال کے بچے کو مسجد میں  نماز کے لیے لائو‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۱ سال کے بچے کو مسجد میں ضرور لایا جائے۔ اگر بچہ آنے میں پس و پیش کرے تو اس پر سختی کی جائے، اس میں مارپیٹ کی اجازت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو انگلی پکڑے مساجد کی طرف لے جایا کرتے تھے۔ یہ رواج نمازِ جمعہ اور عیدین میں خصوصیت کے ساتھ دیکھنے میں آتا رہا۔ عام نمازوں میں والدین بچوں کو لانے سے ہچکچاتے ہیں۔ لیکن اگر کچھ نمازی بچوں کو مسجد میں لے آئیں تو انھیں بعض اوقات شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے۔ فرض نماز کی ادایگی کے فوری بعد ان بچوں کی سرزنش اور پھر بچوں کے والدین کی شناخت کے بعد ان کو بھی ایسی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو کیوں لائے؟

بچوں کو مسجد میں لانے اور ان کی شرارت کی بنا پر جس شرمندگی کا احساس والدین یا دیگر بزرگوں کو ہوتا ہے اس کی وجہ ہمیشہ خود بچے نہیں ہوتے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ بچے تو بڑے اہتمام کے ساتھ صف بناتے اور نماز کی ادایگی میں مصروف ہوتے ہیں مگر چند بچے اس موقع پر شرارت پر اُتر آتے ہیں۔ یوں دھکا دینے، کچھ پوچھنے یا مختلف اشارے کرنے کی بنا پر بچے ہنسنے یا دیگر مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے صف بنائے بڑی تنظیم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کوئی بڑا آیا اور اس نے بچوں کو سب سے پیچھے کی طرف دھکیل کر خود اس کی جگہ سنبھال لی۔ اس وجہ سے بھی وہ تمام اخلاقی تلقین اور تربیت کو فراموش کرکے شرارت پر اُتر آتے ہیں۔

مفتی عبدالرئوف سکھروی لکھتے ہیں:’’ بچوں کی صف کا مردوں کی صف کے پیچھے ہونا سنت ہے۔ لہٰذا جب جماعت کا وقت ہو اور بچے حاضر ہوں تو پہلے مرد اپنی صفیں بنائیں پھر ان کے بعد بچے اپنی صفیں بنائیں۔ پھر اس ترتیب سے جماعت قائم ہوجانے کے بعد اگر بعد میں کچھ مرد حاضر ہوں تو اوّل وہ مردوں کی صفوں کو مکمل کریں، اگر وہ پوری ہوچکی ہوں تو پھر بچوں کی صف ہی میں دائیں بائیں شامل ہوجائیں، بچوں کو پیچھے نہ ہٹائیں، کیونکہ بچے اپنے صحیح مقام پر کھڑے ہیں۔ مردوں اور بچوں کی مذکورہ ترتیب جماعت کے شروع میں ہے۔ نماز شروع ہوجانے کے بعد نہیں۔‘‘ (صف بندی کے آداب، مکتبہ الاسلام، کراچی، ص۳۱)۔مفتی عبدالرؤف بچوں کو مردوں کی صفوں کے درمیان شامل کرنے کی گنجایش بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’ اگر بچے تربیت یافتہ نہ ہوں اور دورانِ نماز شرارتیں کریں جس سے اپنی نماز کو باطل کرنے یا ان کے کسی طرزِعمل اور شرارت سے مردوں کی نماز باطل ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو تو پھر ان کی علیحدہ صف نہ بنائی جائے، بلکہ ان کو منتشر اور متفرق طور پر مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ ان بچوں کو صف میں انتہائی بائیں جانب یا داہنی جانب متفرق طور پر کھڑا کیا جائے تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کرکے اپنی یا دوسروں کی نماز برباد کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔ ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہت نہ آئے گی۔‘‘(ایضاً، ص۳۲)

ہمارے معاشرے میں یہ رویہ فروغ پا رہا ہے کہ اکثر بڑے اپنے بچوں کو مسجد میں لانے سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کی شرارت کی وجہ سے خجالت اور شرمندگی کا سامنا نہ ہو۔ اس طرح بچوں کی تربیت نہیں ہوپارہی۔ ساتھ ہی مسجد میں بچوں کی عدم موجودگی بھی خصوصیت سے محسوس ہوتی ہے۔ کسی بھی کام کی عادت بچپن ہی سے پڑا کرتی ہے۔ اگر بچپن ہی سے بچوں کو مسجد میں لایا جائے گا تو بتدریج وہ نماز کی ادایگی سیکھ جائیںگے۔ گھر میں رہ کر ان کی تربیت ایک حد تک تو ہوسکتی ہے مگر آدابِ نماز مسجد آکر سیکھے جاسکیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے بچے یا چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لائیں اور ابتدائی طور پر اپنے برابر میں کھڑا کریں۔ ساتھ ہی اسے یہ احساس بھی دلائیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، یہاں شرارت کرنا بے ادبی اور گناہ ہے۔ اس طرح اُمید ہے کہ بچہ آپ کی قربت کے پیش نظر بھی خیال رکھے گا کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور وہ شرارت سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ پھر بھی اس سے اگر کوئی لغزش ہوجائے تو اُسے سب کے سامنے ڈانٹنے اور بے عزت کرنے کے بجاے بڑے آرام اور تحمل سے سمجھائیں۔ اس طرح اس کی اصلاح بھی ہوگی اور اُسے حوصلہ بھی ملے گا، یوں وہ کامل مسلمان بن جائے گا۔

مسجد اور بچوں کا تعلق ہمیشہ سے ہے۔ خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں    حضرت امام حسنؓ و حسینؓ کو مسجد میں لاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ واقعہ دیکھیے: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے۔ اسی اثنا میں حسنؓ اور حسینؓ آئے، انھوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھیں اور وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا رہے تھے تو رسولؐ اللہ فرطِ محبت سے منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان دونوں کو اُٹھا لیا اور اپنے سامنے بٹھا دیا۔ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: تمھارے لیے مال اور اولاد فتنہ (آزمایش) ہیں۔ جب میں نے ان دونوں بچوں کوچلتے اور لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ مجھے اپنی بات ختم کرنا پڑی اور ان دونوں کو اُٹھا لیا۔(رحمت ہی رحمت، تالیف: شیخ عطاء اللہ بن عبدالغفار، ترجمہ: مولانا امیر الدین مہر، اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی، ص۵۵)

دورانِ نماز بچوں کی موجودگی کے حوالے سے یہ روایت خصوصی اہمیت کی حامل ہے ۔ حضرت عبداللہ بن شداد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ظہر یا عصر میں سے کسی نماز کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپؐ حسنؓ یا حسینؓ کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ نے اس کو آگے کر کے بٹھا دیا اور نماز کے لیے تکبیر کہہ کر نماز شروع کی۔ پھر جب سجدہ کیا تو آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدے کو طویل کیا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے اپنا سر اُٹھاکر دیکھا تو رسولؐ اللہ سجدے کی حالت میں ہیں اور بچہ آپؐ کی پیٹھ پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر میں واپس سجدے میں چلا گیا۔ پھر جب رسولؐ اللہ نے نماز پوری کی تو لوگوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے اپنی نماز کے درمیان سجدہ اتنا طویل کیا ، یہاں تک کہ ہمیںگمان ہوا کہ کوئی معاملہ درپیش ہے یا پھر آپؐ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ان میں سے کوئی بات نہ تھی لیکن میرا بیٹا میرے اُوپر سوار تھا اور مجھے یہ بات ناپسند لگی کہ میں اس کے لیے عجلت کروں یہاں تک کہ وہ اپنی (کھیلنے کی) ضرورت پوری کرلے۔(ایضاً، ص ۵۸)

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی روایت ہے کہ میں نے حسن بن علیؓ کو دیکھا کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے، جب کہ آپؐ سجدے میں ہوتے تو آپؐ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے۔ آپؐ انھیں اُتارتے نہیں تھے، جب تک وہ خود نہیں اُتر جاتے، اور وہ آتے اور آپؐ رکوع کررہے ہوتے تو اپنے دونوںپیروں کو پھیلا دیتے اور وہ دوسری طرف نکل جاتے۔(ایضاً، ص ۵۹)

کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جس کے ذریعے یہ ثابت ہوکہ نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسنؓ و حسینؓ کے اوقاتِ نماز میں مسجد آنے پر ناراض ہوئے ہوں اور اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ زہراؓ سے کبھی یہ کہا ہو کہ بچے مسجد میں نماز کے دوران کیوں جاتے ہیں یا روکنے کی ہدایت کی ہو۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا جو زمانہ پایا، اس میں ان کی عمریں محض چند سال تھیں۔

بچوں کے حوالے سے مختصر نماز پڑھنے کا بھی حکم ہے تاکہ بچوں کے رونے سے ان کی ماں یا دیگر نمازیوں کا دھیان بٹنے کا امکان کم رہے۔ حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز طویل کروں۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز اس ڈر سے مختصر کرتا ہوں کہ اس کی ماں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بن جائے۔

خانۂ کعبہ اور مسجد نبویؐ میں بچوں کو ساتھ لانے کا عام رواج ہے۔ تقریباً تمام ہی نمازوں میں ناسمجھ اور سمجھ دار ہردو قسم کے بچے ہوتے ہیں اور ان مقاماتِ مقدسہ پر کثیرتعداد کے پیش نظر یہ اہتمام بھی نہیں ہوپاتا کہ مردوں کی صفوں کے بعد بچوں کی صف بنائی جائے، بلکہ بچوں کو اپنے ساتھ کھڑا رکھنے کا رواج ہے۔ خود میں نے دیکھا کہ مغرب کی نماز کے دوران بیت اللہ اور پہلی صف کے درمیان بچے بھاگتے دوڑتے رہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ نماز کے بعد ان بچوں کو بُری طرح ڈانٹا یا پیٹا جائے گا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نماز کے بعد بچوں کو ان کے والدین نے بڑے پیار سے چوما اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اسی طرح مسجد نبویؐ میں بھی ہوا اور جب میرے خدشے کے پیشِ نظر بچوں کی سرزنش نہ ہوئی تو میں نے مدینہ میں مقیم اپنے ایک عزیز سے استفسار کیا کہ ہمارے یہاں تو والدین خود اور دیگر نمازی بچوں پر برس پڑتے ہیں۔ مگر یہاں بچوں کو ڈانٹنا تو کجا، انھیں پیار کرنے اور چومنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ بولے: اچھا ہوا تم نے اس پورے معاملے کو خاموشی سے دیکھا۔ اگر کہیں غلطی سے بچوں کو ڈانٹ دیتے یا ان کے والدین سے شکایت کرتے تو لوگ تم پر برس پڑتے۔ کیونکہ یہ عام خیال ہے کہ مسجد نبویؐ پر بچوں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ اگر وہ نادانی میں بھاگیں دوڑیں، شرارت کریں یا نمازیوں کی پیٹھ پر چڑھ جائیں تو کوئی حرج اور کراہیت کی بات نہیں۔ کیونکہ حضرت امام حسنؓ و حسینؓ بھی مسجد میں بھاگتے دوڑتے آتے اور منبر تک چلے جاتے تھے۔

ہمارے معاشرے میں بچوں اور مسجد کے تعلق کے درمیان ایک خلیج حائل کردی گئی ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کو ساتھ لے آئے اور برابر میں کھڑا کرے تو دوسرے اعتراض کرتے ہیں۔ اگر بچے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تو دورانِ نماز چند بچوں کی شرارت پر سب بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے بُرا بھلا کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے بچے کی حمایت کرے تو اُسے بھی آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بچے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں۔ یوں مساجد بچوں سے غیرآباد ہوتی جارہی ہیں۔

اب ذرا اپنے گردوپیش پر نظر کیجیے۔ ہماری اکثر مساجد کے گرد دکانیں ہوتی ہیں۔ ایک اسلامی معاشرہ ہونے کے باوجود دکان دار اور قریبی مکین مسجد کے تقدس سے ناآشنا ہیں۔ موسیقی، گانے اور اشیاے ضروریہ بیچنے والوں کی صدائیں، ان سب سے بڑھ کر قریب سے گزرنے والی گاڑیوں کا شور اور بلاوجہ ہارن کا استعمال___ ان مواقع پر مسجد میں موجود نمازی کیا کرتے ہیں؟ محض ان اُمور کو نظرانداز کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ دکان دار یا صاحب ِ مکاں کو کچھ کہہ سکے۔ ہاں، اگر غصہ آتا ہے تو ان معصوم بچوں پر جو اپنے والدین کے ہمراہ خوشی خوشی مسجد میں آتے ہیں اور ابھی آدابِ نماز اور احترامِ مسجد سے واقف نہیں۔ اس لیے دورانِ نماز بچے گلیوں میں کھیلنے یا گھروں میں ٹی وی دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ عمل اسلامی معاشرے کی تیاری کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ آیئے! غور کریں ہم کس طرح بچوں کو مسجد میں لاکر ان کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔


مرزا محمد الیاس نے ارقم آفاق پرنٹر، بلال گنج سے چھپوا کر اچھرہ، لاہور سے شائع کیا۔