فاسد ماحول میں کسی مرد کی حیاداری اور کسی خاتون کی عصمت پسندی کو ساری عمر چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ بے حیائی ہرسمت سے نئے نئے اسلحے کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہے اور بار بار حملہ آور ہوتی ہے۔ وہ بنائوسنگھار کرکے نکلتی ہے، وہ نمایش اور مظاہرے کی اسپرٹ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے،وہ شعر کا لباس پہنتی ہے، وہ افسانے کا بہروپ بھرتی ہے، وہ صحافت اور ادب کے ایوان میں مسند آرا ہوتی ہے، وہ اشتہاروں میں نمایاں ہوتی ہے، وہ تصویر کا کاغذی پیرہن زیبِ بدن کرتی ہے، وہ رقص گاہوں میں ناچتی ہے،وہ مینابازار لگاتی ہے،و ہ کیمروں کے سامنے پریڈیں کرتی ہے،وہ ضیافتوں اور دعوتوں اور تقریبوں میں پیش پیش رہتی ہے، وہ سینمائوں میں ہنگامے مچاتی ہے اور وہ ریڈیو سے طوفانِ صوت بن کر بہتی ہے۔
اس کے مقابلے میں آپ اپنی فطرت کی پاکیزگی کے زور پر ’غضِ بصر‘ کرتے ہیں لیکن بے حیائی خود آگے بڑھ کر آپ کی آنکھوں میں گھستی ہے۔ آپ اس کے لیے گوش برآواز نہیں ہوتے، لیکن وہ خود اپنا پیغام آپ کے کانوں میں ڈالتی ہے۔ آپ کو اس کی بو سے نفرت ہے لیکن وہ عطر کی لپٹوں میں تحلیل ہوکر آپ کے مشام پر حملہ کرتی ہے۔
یہ فاسد ماحول کا جادو ہے کہ حیاداروں اور عصمت پسندوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، ان کو کور ذوق شمار کیا جاتا ہے، لیکن بے حیائی اور بے عصمتی ترقی پسندی اور تہذب اور کلچر کی علامت قرار دی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ماحول عصمت و حیا کو پیچھے دھکیلتا ہے اور بے عصمتی و بے حیائی کو اگلی صفوں میں جگہ دیتاہے۔ ایسے حالات میں کون حساب لگا سکتا ہے کہ کتنی ہی سعید روحیں ہیں کہ جو بے حیائی کے اس طوفان کے ریلوں سے لڑتے لڑتے آخرکار دم توڑ دیتی ہیں۔ اور کون اس بات کا اندازہ کرسکتا ہے کہ کتنے افراد کی عصمت پسندی کے مظاہرے کے پس پردہ ان کے تحت ِ شعور میں ماحول کے فاسد اثرات گھس کر ڈیرے ڈال چکے ہیں اور وہ برابر ان کی سیرتوں کو دیمک بن کر چاٹ رہے ہیں…
ایسے فاسد ماحول میں گھرے ہوئے مومن سے اس کا ایمان دو مطالبے کرتا ہے:ایک یہ کہ وہ ماحول کے اثرات اور گندگیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اور اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پاکیزگیِ اخلاق اور طہارتِ نفس پیدا کرنے کے لیے عملاً جو کچھ کرسکتا ہے اس کو آخری حد تک کرے۔دوسرے یہ کہ فاسد ماحول کا تسلط ختم کرنے اور اس کی جگہ ایک صالح ماحول کو برپا کرنے کے لیے جدوجہد اور سرگرمی کا حق جتنا وہ ادا کرسکتا ہو اسے پوری عزیمت سے ادا کرے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ کسی فاسد ماحول میں ایمان، تقویٰ اور احسان کی راہ صرف یہی ہے۔(’اشارات ‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۷، عدد ۱، محرم ۱۳۷۱ھ، اکتوبر ۱۹۵۱ء، ص ۳-۴،۷-۸)