پاکستان کا قیام اللہ کی مشیت کا ثمرہ اور برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی قائداعظم کی قیادت میں مخلصانہ جدوجہد اور فقید المثال قربانیوں کا عطیہ ہے۔ یہ ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی تمام سازشوں، کاوشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود ان شاء للہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم و دائم رہے گا، لیکن اس امانت کی حفاظت ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے۔ آج ملک کو جو خطرات درپیش ہیں ان کی زد براہ راست اس کے وجود پر ہے جس کی طرف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب نے، کراچی کے حالات پر کراچی میں ہی منعقدہ از خود نوٹس (Suo Motu) سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے، ان درد بھرے الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’آپ کس چیز کی حفاظت کر رہے ہیں___ حکومت یا ریاست؟‘‘
یہ سوال آج پوری پاکستانی قوم کے لیے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے عملی جواب کے لیے ان کو دعوت عمل دے رہا ہے۔ عدالت کے فیصلے کا سب کو انتظار ہے۔ ہمیں امید ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ وہ حکومت سے تحریری ضمانتوں کے سراب کے تعاقب سے اپنے کو بچا کر حکومت اور اس سے بڑھ کر قوم کے لیے اس راہ عمل کی واضح نشان دہی کر سکے جو ہمیں اس دلدل سے نکال سکے۔ نہ صرف یہ کہ راستے کی نشان دہی کرے بلکہ اس پر عمل کو دستور کے تحت لازمی ذمہ داری (imperative)بھی قرار دے، فیصلے پر عمل سے اجتناب یا انحراف پر قانون کی گرفت کو مستحکم کرے، تمام دستوری اداروں کو پابند کرے کہ وہ قومی تاریخ کے اس نازک مرحلے میں ملک کی آزادی اور حکمرانی (governance) دونوں کو تار تار کرنے والی حکومت سے نجات، ریاست کے تحفظ اور اس کے تمام اداروں کو دستور کے نقشے کے مطابق بروے کار لانے کی خدمت انجام دے، تاکہ دستور کے تحفظ کی جو ذمہ داری فرد، دستور اور قوم نے عدلیہ کے سپرد کی ہے اسے پورا کیا جا سکے۔
آج عدالت عظمیٰ کے سامنے فیصلہ کسی حکومت کو بچانے کا نہیں بلکہ ریاست کو بچانے کا ہے۔ دستور کے تحت حکومت کا کام دستور کی روشنی میں اچھی حکمرانی ہے جس کا پیمانہ ملک کی آزادی، سلامتی، خود مختاری، عزت و شناخت کا تحفظ اور ملک کے عوام کو امن و امان، انصاف اور عزت کی زندگی کی فراہمی ہے___ لیکن موجودہ وفاقی حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں اچھی حکمرانی اور صلاحیت کار کے فقدان، بدعنوانی کے طوفان، دستور اور قانون کے احترام اور عوام کے مسائل و مشکلات کے باب میں بے حسی کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے، اس کی روشنی میں اسے مزید مہلت دینا ریاست کی بنیادوں کو پامال کرنے اور ملک کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس حکومت کی کارکردگی پہلے دن ہی سے مخدوش اور ناقابل اطمینان تھی لیکن سال رواں میں خصوصاً گذشتہ دو مہینوں میں اس کی جو کچھ کارکردگی قوم کے سامنے آئی ہے، اس کے بعد تو اس کے سوا کچھ کہنا مشکل ہے کہ اب یہ حکومت پاکستان کی ریاست کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔ ان حالات میں ایسی حکومت سے نجات اور دستور کے تحت تبدیلی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ عدالت، پارلیمنٹ اور قوم سب کے سامنے اس وقت اصل سوال یہی ہے کہ ایک ایسی حکومت سے کیسے نجات حاصل کی جائے جو قانونی جواز مکمل طور پر کھو چکی ہے اور جس کے تسلسل سے ملک کی آزادی، سلامتی، عزت، معیشت اور امن وامان، غرض ہر چیز معرض خطر میں ہے۔
ہم یہ الفاظ بڑے گہرے غور، غیر جذباتی فکر، اور بے حد دکھ کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر رقم کر رہے ہیں، اور اس احساس کے ساتھ کر رہے ہیں کہ یہ صرف ہمارے جذبات اور احساسات نہیں بلکہ پاکستان کے ہر با شعور شہری کے دل کی آواز ہیں۔ روز کے اخبارات اور میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں اور تبصرے ایک آئینہ ہیں، جس میں حالات کی صحیح تصویر ہر شخص دیکھ رہا ہے اور خون کے آنسو رو رہا ہے۔ صرف اتمام حجت کے لیے ہم یہاں ان چند حقائق کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں جو ان دنوںبہت ہی کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور جن کے ادراک سے دل و دماغ تہ و بالا ہیں۔
پہلی بات انسانی جان کی ارزانی اور خون ناحق کی فراوانی ہے، جس نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میںلے لیا ہے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ جن کی ذمہ داری جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کا قیام تھا، وہ خود ان کی پامالی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں تشدد کا رجحان روزافزوں ہے، جرائم بڑھ رہے ہیں، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، ظلم اور زیادتی کا طوفان امنڈ رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غافل، خاموش اور بے بس ہیں بلکہ ان میں سے کچھ اس ظلم میں شریک اور ساجھی ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے قتل کے کل ۱۸۹ واقعات ہوئے تھے، جن میں سے ۱۶۰ عام شہری تھے، لیکن ۲۰۰۹ء میں ہلاکتوں کی تعداد ااہزار ۷ سو۴ ہوئی، اور ۲۰۱۱ء کے صرف ابتدائی چھے ماہ میں ۴ہزار ۸۲۔ ان ۱۰ سالوںمیں ۳۶ ہزار ۷ سو ۵ افراد اس اجتماعی تشدد کا نشانہ بن گئے۔ اس سے بھی زیادہ چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک نہیں ہے جو دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔ جنوبی ایشیا کے ایک جائزے کے مطابق پورے جنوب ایشیا میں ۲۰۰۵ء میں اس نوعیت کے قتل کے واقعات میں پاکستان کا حصہ ۱۰ فی صد تھا، جو۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷۹ فی صد ہوگیا ہے۔(ڈان، ۲۶ اگست۲۰۱۱ء)
ایک دوسرے جائزے کی روشنی میں صرف گذشہ تین سال کے دہشت گردی کے واقعات کو لیا جائے تو سر فہرست بلوچستان آتا ہے، جہاں ۱۰۲۴ دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔ پھر صوبہ خیبر پختون خوا کا نمبر آتا ہے، جہاں یہ تعداد ۱۰۱۸ تھی۔ البتہ اگر تمام جرائم کا جائزہ لیا جائے جن میں عام قتل، اغوا براے تاوان اور (Imported Explosive Device) IED شامل ہیں، تو پنجاب ۱۵ہزار واقعات کے ساتھ سب سے آگے ہے، جب کہ سندھ میں ۹ ہزار ۲۰، خیبر پختون خوا میں ۶ ہزار ۷۶ اور بلوچستان میں ۱۳۵۵ واقعات رونما ہوئے۔ (دی نیشن، ۲۲؍اگست۲۰۱۱ء)۔ ستم یہ ہے کہ تشدد کا رجحان روزمرہ زندگی میںبڑھ رہا ہے۔ خاندان، سکول، کالج، محلہ، دیہات، شہر، غرض ہر جگہ یہ روز افزوں ہے، جو واضح طور پر اخلاقی زوال اور قانون کی حکمرانی کے فقدان کی علامت ہے۔
اس پس منظر میں کراچی کے حالات اور لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو از خود عدالتی کار روائیاں کی ہیں اور اس سلسلے میں جو حالات سامنے آئے ہیں، وہ رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ کراچی میں صرف اس سال میں۱۳۱۰ افراد ہدفی قتل (ٹارگٹ کلنگ) کا نشانہ بنے ہیں۔ کراچی میں: ۱۲؍ربیع الاول، ۱۲ ؍مئی ۲۰۰۷، ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۷، ۷ اپریل ۲۰۰۸، سانحہ عاشورہ و چہلم، سانحہ بولٹن مارکیٹ کے خونیں واقعات ہماری تاریخ کے روح فرسا نشان بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں اور جو عدالت کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں ۲۰۰۱ء میں ٹارگٹ کلنگ کے ۲۷۳ خونیں واقعات ہوئے، جو ۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۷۷۸ ہو گئے، اور ۲۰۱۱ء کے صرف پہلے آٹھ مہینوں میں یہ تعداد ۱۴۰۰ ہو گئی ہے۔ سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کہنے پر مجبور ہوئے کہ میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیوں کہ پولیس میں ۳۰سے ۴۰ فی صد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں اور میں پولیس افسران (ڈی آئی جی اور دیگر ) کے خلاف کوئی کار روائی نہیں کر سکتا۔
آئی جی نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ کراچی جو ملک کا اہم شہر ہے اس کے حالات وزیرستان سے بھی خراب ہیں ۔ چیف جسٹس صاحب بار بار پوچھتے رہے کہ مجرموں کے خلاف کار روائی کیوں نہیں ہوتی؟ انھیں چارج شیٹ تک نہیں کیا جاتا اور گرفتار کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر شہادتیں ہی مفقود ہوتی ہیں۔ وزیر داخلہ اعلان کرتے ہیں کہ مجرموں کی فہرستیں ان کے پاس ہیں لیکن کسی کے خلاف اقدام نہیں کیا جاتا۔ جواب میں اٹارنی جنرل انوارالحق صاحب عدالت کے سامنے یہ کہنے پر مجبور ہیں:
Police has not taken action against terrorists
پولیس نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
۱۹ وکیل قتل کر دیے جاتے ہیں، پولیس اور فوج کے ۹۲ افسروں کو (جنھوں نے ماضی میں قاتلوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا) بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے مگرکوئی گرفت نہیں ہوتی۔ ٹارگٹ کلرز کے اقبالی بیان ریکارڈ پر ہیں۔ انوسٹی گیشن رپورٹیں جن کی تیاری میں پاکستان کی تمام قومی خفیہ ایجنسیوں نے شرکت کی ہے، ناموں کے تعین کے ساتھ مجرموں کی نشان دہی کرتی ہیں مگر مجرمین پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔
عدالت کے سامنے کئی اقبالی بیان لائے گئے ہیں، جن میں سے ایک اجمل پہاڑی کا ہے اور جس نے ۱۱۰ سے زیادہ قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ نام لے کر ایسی ایسی تفصیلات بھی بیان کی ہیں جن میں کراچی کی غالب لسانی پارٹی کی مرکزی قیادت کا واضح کردار موجود ہے۔ بھارتی حکومت اور ایجنسیوں کی معاونت کے مکمل ثبوت موجود ہیں۔ بیرونی ممالک اور ٹھکانوں کی نشان دہی ہے لیکن حکومتِ وقت، جنرل پرویزمشرف کے دور میں اور اس کے بعد زرداری، گیلانی اور رحمن ملک کے دور میں بھی ان کے خلاف نہ صرف کوئی کار روائی نہیںکرتی، بلکہ ان عناصرکی پشت پناہی کرتی اور انھیں شریک اقتدار کرتی اور ’مفاہمت‘ کے نام پر ان کے جرائم کی (بشمول بھتاخوری، قتل و غارت گری، زمینوں پر قبضے، اذیت خانوں کے قیام اور جیلوں میں مجرموں کی سرپرستی) کی پردہ پوشی کرتی ہے۔
کراچی ہی نہیںپورے ملک میں غیر قانونی اسلحے کی بھر مار کی بات کی جاتی ہے لیکن شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کی کسی باضابطہ و موثر مہم کا کہیں دور دور تک پتا نہیں۔ پھر ناجائز اسلحہ تو ہے ہی ناجائر، خوں ریزی اور دہشت گردی میں لائسنس یافتہ اسلحے کا کردار بھی کم نہیں۔ لائسنس یافتہ اسلحے کو بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ پرویز مشرف اور زرداری حکومتوں کے زمانے میں چند خاص سیاسی جماعتوں اور مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے اسلحہ لائسنسوںکا ایسا پھیلائو ہوا ہے جس کا پہلے کوئی تصور نہیں تھا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزانے اپنے تین سالہ دور میں ۳ لاکھ اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کو خود تسلیم کیا ہے اور پولیس میں ۱۰ ہزار کی بھرتی کی بات کی ہے۔ سندھ کے آئی جی نے عدالت کے سامنے کہا کہ قیام پاکستان سے ۲۰۰۱ء تک کے ۵۳ سالوں میںپورے سندھ میں صرف ۵۰ ہزار لائسنس جاری کیے گئے، جب کہ گذشتہ ۱۰ سال میں، یعنی مشرف ، مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم (۲۰۰۲ء- ۲۰۰۸ء) کے دور میں اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی (۲۰۰۸ء -۲۰۱۱ء) کے دور میں ساڑھے پانچ لاکھ لائسنس جاری کیے گئے (ان میں ممنوعہ بور کا اسلحہ بھی شامل ہے)۔ پیپلز پارٹی نے ’جیالا‘ کلچر روشناس کروایا ، الذوالفقار نامی تنظیم نے دہشت گردی کا بازار گرم کیا۔ لیاری کی نام نہاد امن کمیٹی پی پی پی ہی کی بازوے شمشیر زن تھی اور یہ اس کی واحد شمشیر نہ تھی۔ رہی ایم کیو ایم، تو اس نے تو اپنی پوری سیاست کی بنیاد ہی بھتا خوری، دہشت گردی اور تشدد پر رکھی۔ ۱۹۸۹ء ہی میں جناب الطاف حسین نے برملا اعلان کیا کہ ٹیلی ویژن بیچ کر اسلحہ خرید لو۔ ان کی سیاست کا محور اور قوت کا راز ہی جدید ترین اسلحے سے مسلح ان کا عسکری ونگ رہا ہے اور ان کا ماٹو (’’قائد کا جو غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے‘‘ )ان کے سیاسی کلچر کا ترجمان ہے۔کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں کے لوگ اس کا تجربہ رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر بھی اس کا پورا ادراک پایا جاتا ہے۔ گو، اپنے اپنے سیاسی مصالح یا کمزوریوں کی وجہ سے ہر کسی نے یا اس سے اغماض برتا ہے یا ان کو شریک کار بنا لیا ہے۔ کینیڈا کی ریاست کیوبک میں ایم کیو ایم کو پاکستان میں اس کے دہشت گردی کے کردار کی بنیاد پر’ایک دہشت گردی تنظیم‘ قرار دیا گیا ہے۔ صوبے اور ملک کی ہائی کورٹ دونوں ہی نے یہ فیصلہ کرکے ان کے افراد کو امیگریشن کے قوانین کے تحت ملک بدر کیا ہے۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے بیانات، خواہ آدھا سچ ہی پیش کرتے ہوں، ایسے تکلیف دہ، ہولناک اور شرمناک جرائم کی متعین انداز میں نشان دہی کرتے ہیں، جن پر بر وقت گرفت نہ کرنے کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ قانون اور شرافت کی دھجیاں بکھیرنے والے یہ تمام عناصر جو سیاست میں بھی بڑے معتبر رہے ہیں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں ان کا چہرہ صاف نظر آ رہا ہے۔ پھران کی پشت پناہی کرنے والوں، ان کو شریک اقتدار کرنے والوں، اور ان جرائم کا علم اور پورا ریکارڈ اپنے پاس رکھنے کے باوجود اور اقتدار کی قوت حاصل ہونے کے علیٰ الرغم ان پر کار روائی نہ کرنے والوں کا چہرہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اوراس تصویر کی مدد سے ان تمام اسباب اور عوامل کا ادراک بھی ہو جاتا ہے جو ان حالات کا باعث ہوئے۔ آج بڑے بڑے سیاسی کھلاڑی ایک دوسرے کے چہروں پر خون کے دھبوں کی نشان دہی کررہے ہیں، لیکن اپنی معاونت اور ذمہ داری کے باب میں خاموش ہیں۔ ہمارے دوست پروفیسرعنایت علی خاں کا شعر اس صورت حال پر کتنا صادق آتا ہے کہ ؎
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مجرم اور مجرم کو پناہ دینے والے دونوں برابر کے مجرم اور ان حالات کے ذمہ دار ہیں اور اگر ان تمام حقائق کے سامنے آنے کے بعد بھی مفاہمت اور منافقت کا کاروبار گرم رہتا ہے، عدالت بھی انصاف اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجاے وعظ اور تحریری ضمانتوں کا خود کش راستہ اختیار کرتی ہے، تو پھر ہمیں ڈر ہے کہ انقلاب کے نام پر انتشاراور انتقام کو روکنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کا سامان ہو سکتا ہے جس سے ہم اللہ ہی کی پناہ مانگتے ہیں۔
عدالت عالیہ کے سامنے جو حقائق پیش کیے گئے ہیں، اور عدالت کے باہر ڈاکٹر ذولفقار مرزا اور دوسرے افراد نے پورے تعین کے ساتھ اور افراد کی نشان دہی کرتے ہوئے جو حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں، وہ ایک آئینہ ہیں جن میں ملک کے حالات اور خصوصیت سے ارباب اختیار کے کردار، سیاسی جماعتوں کے رول اور حکومت، پولیس، رینجر اور اپنے اپنے زمانے کی فوجی قیادت کے کردار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اب یہ لاوا پھٹ رہا ہے اور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتی،اگر حکومت دستور، قانون، اخلاق اور شرافت کی اقدار کو اسی بے دردی کے ساتھ پامال کرتی ہے،مجرموں کی نہ صرف پشت پناہی کی جا تی ہے، بلکہ انھیں سرکاری عہدوں پر بحال رکھ کر کھل کھیلنے کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے،تو پھر یا عوامی انقلاب کے ذریعے حالات بدلیں گے، یا پھر پورا معاشرہ اللہ کی گرفت میں آئے گا بشمول ان کے۔ ایسی صورت حال میں وہ لوگ جو خواہ ان جرائم میں شریک نہ ہوں اور عدل و انصاف کے نظام کے قیام کی جدوجہد ہی کرتے ہوں،مگر حقِ نصیحت ادا کرنے میں کوتاہی کے سبب وہ بھی اللہ کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم سب اصلاح احوال کا راستہ اختیار کریں اور تباہی سے بچنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں۔
جس طرح ایک آئینے میں ہم ملک میں بدامنی، دہشت گردی اور ظلم و زیادتی کے حالات اور خصوصیت سے سپریم کورٹ کی از خود سماعت (سوموٹو) کار روائیوں میں سامنے آنے والے واقعات دیکھ رہے ہیں، اسی طرح دوسرے آئینے میں وہ انکشافات ہیں جو وکی لیکس کے ذریعے پاکستان کی قیادت، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں، فوجی ذمہ داروں اور خود میڈیا کے افراد کی امریکی سفارت کاروں سے بات چیت، عرض داشتوں، خوشامدوں اور سفارشات اور معاملہ بندی کا مرقع ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان تمام دستاویزات کا معروضی انداز میں مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے۔ تلخ حقائق کے اس دروبست کو سمجھا جائے جو سفارت کاری کے نام پر ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے کے لیے ہم پر مسلط ہے۔ اخبارات میں جو حصے شائع ہوئے ہیں ان سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ بڑی مکروہ ہے۔ ایک طرف استعمار کی وہ نئی شکل امریکا کی سلطنت (hubris)کی صورت میں سامنے آئی ہے جو ہم پر اور باقی مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک پر تھوپی گئی ہے اور جسے بڑی خوش اسلوبی سے جمہوریت، لبرلزم، موڈرنزم، دوستی اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر شپ کا لبادہ اڑھا یا گیا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو ہمارے اپنے حکمرانوں اور ارباب اختیار کی وہ سوچ، ان کے اصل عزائم اور ان کا وہ کردار ہے جو بظاہر نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی تمام ہی سیاسی اور کچھ مذہبی جماعتوں کی جو تصویران مراسلات میں ابھرتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ الفاظ، انداز تکلم اور التفات کی شکلوں میں اختلاف ہے لیکن مدعا سب کا ایک ہی نظر آتا ہے___ امریکا ہی ان سب کا اصل مولا اور کرتا دھرتا ہے۔اسی کی نظر التفات ہر ایک کو مطلوب ہے۔ اسی کے ایجنڈے کو ہر ایک آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ اسی کی مدد سے اقتدار میں آنے اور اقتدار کو برقرار رکھنے کا ہر کوئی متمنی ہے۔ جناب عنایت علی خاں نے ان حضرات کی اسی کیفیت کو اپنی ’گلوبل حمد‘ ،’یا حافظ امریکا، یا ناصر امریکا‘میں بیان کیا ہے، چند اشعار ملاحظہ کریں:
جو تیری طلب ہو گی ہم اس سے سوا دیں گے
اک تیرے اشارے پر ہم جان لڑا دیں گے
پیاروں کو کٹا دیں گے، خوابوں کو سلا دیں گے
خود اپنے نشیمن کو ہم آگ لگا دیں گے
پھر آگ کے شعلوں کو ڈالر کی ہوا دیں گے
مقتل میں تہہ خنجر جینے کی دعا دیں
یوں شانِ وفاداری دنیا کو دکھا دیں گے
ہمارے اپنے ملک کی آزادی اور قوم کا وقار اور عزت، ہمارے اپنے ملّی اور ملکی مفادات اور ترجیحات اور ہمارے ایمانی تقاضے، تہذیبی اور تمدنی روایات اور عوامی امنگیں اور ضروریات یہ سب کچھ ان کے لیے یا غیر متعلق ہے یا صرف جزوی طور پر قابل لحاظ___ اصل فیصلہ کن بات وہ ہے جو امریکا چاہتا ہے اور جس کی خاطر ہم اپنے تمام معاملات کو چلانے اور طے کرنے میں عافیت دیکھتے ہیں۔ بات سخت ہے لیکن اگر الفاظ کو، یعنی معنی کواصل اہمیت دی جائے تو ان مراسلوں سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری مقتدر قیادتوں کی بدعملی اور قومی مفادات سے بے وفائی کے سبب ہماری آزادی ایک سراب بن کر رہ گئی ہے۔ان حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر ہماری ہر چیز کا سودا کر لیا ہے یا کرنے کو تیار ہیں، اور اس سے بھی یہ کوئی سبق سیکھنے سے عاری ہیں کہ عالمی طاقتیں اپنی مطلب براری کے لیے دوسروں کو کس طرح استعمال کرتی ہیں اور اپنا مطلب نکال کر کس طرح دودھ میں سے بال کی طرح نکال پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کو خوش کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو دھوکا دینا ان حکمرانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل اور روزمرہ کا مشغلہ ہے، اور ان کی ساری کاوش امریکا کی نظرِ کرم کو حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہے___الا ماشاء اللہ! بحیثیت مجموعی ان حکمرانوں کے لیے اصل چیز ان کا اپنا مفاد، ان کا اقتدار، اس چند سال کی زندگی کے لیے سہولتوں کا حصول اور پھر اپنے خاندان اور اپنی آل اولاد کے لیے ان کا تسلسل ہے۔
وکی لیکس عالم سیاست میں ہوش ربا داستانوں کی ایک الف لیلیٰ ہے۔ پاکستان اور مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ارباب بست و کشاد کی جو تصویر وکی لیکس کے ذریعے ہمارے سامنے آتی ہے ہم قارئین کی توجہ اس کی طرف مبذول کرانا اور بتانا چاہتے ہیں کہ اس کا کیا تعلق ہمارے حالات سے ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ حالات میں جو بگاڑ ہر قدم پر نظر آ رہا ہے اس کا سبب ہمارے اپنے ارباب اختیار کے عزائم، کردار اور ترجیحات ہیں۔ بیرونی قوتوں کا عمل دخل ہمارے معاملات میں ہرہر سطح تک اور ہر ہر انداز میں پہنچ گیا ہے، اور کوئی شعبہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔ بیرونی قوتیں تو وہی کردار ادا کر رہی ہیں جو ان کے مفاد میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کیا کردار کر رہے ہیں؟ اور ہم نے ان کو یہ سب کچھ کرنے کا موقع کیوں دے رکھا ہے؟ بظاہر دستور بھی ہے اور دستوری ادارے بھی، میڈیا بھی آزاد ہے اور اس کا کردار بھی بڑھ رہا ہے، لیکن ان تمام ذرائع کو دوسرے کس طرح استعمال کر رہے ہیں اور ہم کس طرح استعمال ہو رہے ہیں؟ بیرونی سازشوں کا نوحہ بہت ہوچکا، اب جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تباہی اور بربادی کی اس افتاد میں ہمارا اپنا کردار بھی ہے___ اور جب تک ہم اپنے گھر کو درست کرنے اور زمام کار ان ہاتھوں سے چھین لینے کی فکر نہیںکرتے جو ہمارے اور ہمارے دین و ملت کے حقیقی وفادار نہیں، اس وقت تک ہم نہ اپنے گھر کو درست کر سکیں گے، نہ اپنے وسائل کو اپنے لوگوں کی بہبود کے لیے خرچ کر سکیں گے۔ اورنہ دنیا میں اپنا اصل مقام ہی حاصل کر سکیں گے۔
آئینے میں جو تصویر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے جانے والے حقائق سے ابھرتی ہے، ایک دوسرے انداز میں وہی تصویر وکی لیکس کے آئینے میں بھی نظر آتی ہے___اور اس کا تقاضا بھی وہی ہے، جو پہلی تصویر سے سامنے آ رہا ہے۔
ایک اور آئینہ وہ ہے جو بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاری اور بحیثیت مجموعی معیشت کی زبوں حالی کا عکاس ہے۔ ایک طرف دولت کی ریل پیل ہے اور دوسری طرف غربت اور فقر و فاقہ اپنی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ آبادی کا پانچواں حصہ سارے وسائل پر قابض ہے اور ۸۰ فی صد آبادی محرومیوں کا شکا رہے۔ اگر بین الاقوامی اشاریے کی روشنی میں دو ڈالر یومیہ آمدنی (۱۷۰ روپے) کو کم سے کم ضرورت سمجھا جائے تو ۷۵ فی صدی آبادی اس خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اگر یہ افراد کسی طرح جسم اور روح کے رشتے کو باقی رکھ بھی لیتے ہیں تو بھی یہ تعلیم، صحت اور ترقی کے مواقع سے محروم رہتے ہیں۔ پھر ملک کا معاشی اور سماجی انفراسٹرکچر ہے، جو بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کو بچانے اور مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تمام ہی ادارے بحران کا شکار اور قرضوں کے گرداب میں گرفتار ہیں۔ صرف ان کو زندہ رکھنے کے لیے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر۴ سو ارب روپے سالانہ ان کو دیے جا رہے ہیں اور خسارہ ہے کہ ہر سال بڑھ رہا ہے اور بڑے بڑے ادارے دم توڑتے اور سہولتیں ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ سڑکیں اور پل برے حال میں ہیں، بجلی، گیس او رپانی کی فراہمی روبہ زوال ہے، پی آئی اے ، اسٹیل مل اور ریلوے جان بلب ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے، ہسپتال اور دوسرے طبی سہولتوں کے مراکز زبوں حالی کا شکار ہیں۔ روزگار کے مواقع مفقود ہیں۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ ملک پر قرضوں کا جتنا بوجھ ملک کے قیام سے ۲۰۰۷ء تک کے ۶۰ سالوں میں تھا، بعدکے صرف چار سالوں میں اس سے کچھ زیادہ ہم پر لاد دیا گیا ہے۔
اس پر مستزاد اشیاے ضرورت کی قلت، ان کی ناقص کوالٹی اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ ان چار سالوں میں افراط زر (مہنگائی) ۱۲ اور ۱۴ فی صد رہی ہے۔ اور اشیاے خوردو نوش میں مہنگائی کی شرح عام اشاریے سے زیادہ رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے اشیاے خوردو نوش میں ان چار سالوں میں ۸۰ سے ۱۰۰ فی صد اضافہ ہو گیا۔ مزید برآں آفات سماوی ہیں جن کا تازیانہ برابر پڑ رہا ہے اور ہماری آنکھیں ہیں کہ کھلنے کا نام نہیں لیتیں۔ ۲۰۰۵ء کا زلزلہ، ۲۰۱۰ء کا سیلاب اور اب ۲۰۱۱ء کی بارشیں اور سیلاب___لاکھوں انسان گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں، کھڑی فصلیں بہ گئی ہیں، مکانات منہدم ہو گئے ہیں، مال مویشی لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ اور تمام تنبیہات کے باوجود نہ خطرات کے مقابلے کے لیے مناسب پیش بندی کی گئی اور نہ افتاد زدہ علاقوں اور افراد کی مدد اور اعانت کے لیے معقول انتظام کیا گیا۔ غضب ہے کہ گذشتہ سال کے سیلاب کے موقعے پر جو رقم ملک اور ملک کے باہر سے امداد کی مد میں آئی تھی، اسے بھی مستحقین پر خرچ نہیں کیا گیا ہے۔ غفلت اور بد عنوانی دونوں نے تباہی کو اور بھی سوا کر دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی وجود نہیں۔ بیوروکریسی بے لگام ہے اور سیاسی قیادت بے حس ہے۔
سیلاب زدگان کی مدد کے سلسلے میں پبلک اور دینی اور نجی دائرے کے خدمت خلق کے اداروں کی طرف سے متاثرین کی مدد کے لیے بڑا قابل تحسین کام ہوا ہے۔ یہ جہاں خیر کی علامت ہے، وہیں حکومتی اداروں کی غفلت اور بدعنوانی پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔ صدر مملکت فوٹو سیشن کے لیے تو خاصے چاق و چوبند تھے لیکن اس کے فوراً بعدپھر اسی طرح بیرونی دوروں پر روانہ ہوئے جیسے ۲۰۱۰ء کے سیلاب کے موقع پر ہوئے تھے___ان کی ترجیحات میں عوام کے مسائل اور مصائب کا مقام دور دور نظر نہیں آتا۔
جس کام کو قومی ترجیحات میں اولین مقام حاصل ہونا چاہیے، اس کے بارے میں اتنی غفلت اوربے توجہی ایک بنیادی مرض کی علامت ہے۔ اس کا علاج بھی وہی فکر و نظر کی تبدیلی اور انقلابِ قیادت ہے۔
ان تمام حالات کا تقاضا تھا کہ سب سے پہلے اللہ سے رشتے کو مضبوط کرنے اور اس کی ہدایت کے مطابق اپنی منزل کے تعین اور ترجیحات کی ترتیب نو کی فکر کی جاتی۔ اللہ سے عہد کی تجدید ہوتی اور قوم کے وسائل کو امانت اور حکمت کے ساتھ قوم کے مستحقین کی ضرورتوں کو پورا کرنے، امن و امان کے قیام اور انصاف کے ساتھ سب کے حقوق کی ادایگی کے لیے استعمال کیا جاتا۔ پاکستان وسائل کے باب میں غریب اور محروم ملک نہیں۔ اصل چیلنج وسائل کی ترقی اور صحیح استعمال کا ہے اور یہیں ہم بار بار ٹھوکریںکھا رہے ہیں۔ اصل وجہ اخلاص کی کمی، منزل کا عدم شعور، رب کی بندگی، اور محنت، تعاون، خدمت اور مشارکت کے اسلامی اصولوں کی عدم پاسداری ہے۔
بات اب صرف اس نصب العین، ہدف اور حکمت عملی سے گریز ہی تک محدود نہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے منتخب کیا ہے اور جسے اصولی اور اجمالی طور پر دستور پاکستان میں رقم کر دیا گیا ہے۔ نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کھلے بندوں اس مقصد اور منزل ہی سے دستبرداری کے دعوے اور انحراف کی راہوں کی استواری کا سامان کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی اسلامی بنیاد کو مسمار کرنے کے لیے بیرونی دشمن تو پہلے دن ہی سے مصروف تھے، لیکن اب ایک منظم سازش کے ذریعے اس تصور ہی پر تیشہ چلایا جا رہا ہے جو اقبال اور قائداعظم نے دیا تھا اورجس کی بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں نے آزادی کی جدوجہد میں جان و مال کی بازی لگائی تھی۔
ایک صاحب لندن میں بیٹھ کر اور ملکۂ برطانیہ سے وفاداری کا عہد لے کر قوم کو بتا رہے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الا اللہ محض ایک واہمہ اور بعد کی اختراع ہے۔ اور یہ وہ صاحب ہیں جنھوں نے بھارت کی سرزمین پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا قیام ہی ایک غلطی تھی اور اگر وہ اس وقت ہوتے تو پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے۔ایک اور بزرگ پاکستان بھارت دوستی کے راگ کو اتنا بلند کرتے ہیں کہ انھیںپاکستان اور بھارت اور مسلمان اور ہندو کلچر میںکوئی فرق ہی نظر نہیں آتا، اور وہ اس قوم کے ساتھ آلو گوشت کھانے کی بات کرتے ہیں جو گوشت کو ہاتھ لگانے سے نجس ہونے کا عقیدہ رکھتی ہے اور جس نے اپنے سماج کی بنیاد ہی ’ہندو پانی‘ ’مسلمان پانی‘ کے دو جداگانہ دھاروں پر رکھی ہے۔ اس وقت پاکستان کو اس کی نظریاتی شناخت سے محروم کرنے اور اسے ایک بے لنگر کے جہاز میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے۔ خاص طور پر انگریزی پریس میں تو پاکستان کے تصور کے خلاف صلیبی جنگ کی سی فضا پائی جاتی ہے، اوراب اردو پریس میں بھی اس کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی قوم اور اس کی نئی نسل کو اس کی تاریخ سے کاٹنے اور بے بہرہ رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے، اور استعماری اہداف کو پورا کرنے کے لیے ایک نئی تاریخ وضع کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ قائداعظم نے جس بنیاد پر برعظیم کے مسلمانوں کو ایک آزادمسلم ریاست کے قیام کے لیے بیدار اور متحرک کیا تھا وہ اسلام کے سوا کچھ نہ تھی۔ قائداعظم نے ۱۹۴۴ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے ___نہ وطن ہے او رنہ نسل۔‘‘ان کا ارشاد تھا کہ:
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیںکیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
قائد اعظم نے پنجاب مسلم فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے مارچ ۱۹۴۵ء میں فرمایا تھا کہ ’’اسلام ہمارا رہنما اور ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔‘‘قیام پاکستان کے بعد ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اسی شہر لاہور (پنجاب یونی ورسٹی گرائونڈ) میں یہ ایمان افروز اعلان فرمایا تھا:
ہر شخص کو میرا پیغام پہنچا دیجیے کہ وہ عہد کرے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہے۔
یہ ہے پاکستان کی اصل تقدیر___اور یہی وہ تقدیر ہے جو قوم میں یکسوئی اور یک رنگی پیدا کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں انصاف اور خوش حالی پر مبنی معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے اور دنیا اور آخرت میں مسلمان کامیاب و کامران ہو سکتا ہے۔
جس انقلاب کی پاکستان کو ضرورت ہے، وہ یہ ہے___ اور جس قیادت نے اس وقت پاکستان پر قبضہ کر رکھا ہے وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ وسلم کی وفادار ہے اور نہ اقبال اور قائداعظم کے تصور پاکستان سے اسے کوئی نسبت ہے (اگر وہ نبی کریمؐ سے وفاداری کا دعویٰ کرے بھی تو اس کا عمل اس دعوے کی نفی کر رہا ہے)۔ اس کا اصل چہرہ وہ ہے جو اوپر کے آئینوں میں نظر آ رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان چہروں کو بدل دیا جائے جو پاکستان کو اس کی اسلامی منزل سے کاٹ کر استعماری قوتوں کی چاکری کے لیے، اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو اس گروہ کے چنگل سے نکالنے اور اسے اُمت کے اصل مقصد او رمنزل کے لیے وقف کرنے کی جدوجہد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اس وجہ سے اور بھی بڑھ گئی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو غیروں کی نگاہ میں معتبر بنانے اور ان کے سہارے اپنی قوم پر اپنے تسلط کو باقی رکھنے کے لیے پاکستان کو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آگ میں دھکیل دیا تھا جس کی تباہ کن قیمت ہم اب تک ادا کر رہے ہیں۔ اب اس صورت حال سے جلد از جلد نکلنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ایک عظیم جھوٹ پر مبنی تھی اور اس کے نتیجے میں دنیا ظلم اور طغیان سے بھر گئی ہے، دہشت گردی میں چند دو چند اضافہ ہو گیا ہے، لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں، اور امریکا سمیت دنیا کی معیشت کو کھربوں ڈالر کے نقصانات اٹھا چکی ہے مگر افسوس کہ اس تباہی کے رکنے کا کوئی سامان نظر نہیں آ رہا ہے۔
امریکا یہ جنگ افغانستان میں ہار چکا ہے اور کابل میں خود اپنے اور ناٹو کے مراکز کی حفاظت کے لیے جو حصار اندر حصار اس نے تعمیر کیے تھے وہ درہم برہم ہو چکے ہیں۔ معاشی اعتبار سے اس کے لیے اس جنگ کو جاری رکھنا مشکل تر ہو رہا ہے اور اس سال راے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں امریکی عوام کی اکثریت نے پہلی بار اسے ایک ناکام جنگ قرار دیا ہے اور اس سے نکلنے کا مطالبہ اب تیزی سے اکثریت کا مطالبہ بنتا جا رہا ہے۔
امریکا اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ سیاسی اور معاشی دبائو کا ہر حربہ استعمال کر رہا ہے اورپاکستان کو اپنے بچے کچھے دوستوں سے بھی محروم کر رہاہے۔ اس کی کوشش ہے کہ شمالی وزیرستان میں جنگ کی آگ بھڑکا کر ہمیں اس میں جھونک دے۔ اس کے لیے امریکا نے اپنی 3-B مہم (Bully Bribe & Blackmail)یعنی دھونس ، رشوت اور ناجائز دبائو تیزتر کر دی ہے۔ امریکا کی قومی اور سیاسی قیادت نے پاکستان پر دبائو میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔اس امریکی دبائو سے ہماری سیاسی قیادت کے بازو ڈگمگانے لگے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتے میں جس طرح امریکی وزیر دفاع، وزیر خارجہ، چیف آف اسٹاف اور امریکی صدر نے پاکستان کا گھیرائو کیا ہے، وہ امریکا کے جارحانہ عزائم کو واشگاف کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ دبائو ابھی اور بڑھے گا اور بھارت بھی اس میں اپنا کردار بڑھائے گا۔ یہ وقت امریکا کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا وقت ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب قوم موجودہ امریکا نواز اور امریکیوں کی اسیر قیادت سے نجات پائے اور عوامی قوت سے ایک ایسی قیادت بروے کار لائے جو قیام و حصول پاکستان کے اصل مقاصد کی علم بردار ہو، جو دیانت اور اہلیت کے جوہر سے مالا مال ہو، جس کے دامن پر کرپشن اور امریکا پرستی کا داغ نہ ہو، جو بھارت سے برابری کی بنیاد پر دوستی اور باعزت تعلقات کی تو خواہاں ہو لیکن بھارت کے اس کھیل کا حصہ نہ بنے،جو وہ علاقے میں کھیل رہا ہے اور چین کے خلاف حصار بنانے میں مصروف ہے، کشمیر پرغاصبانہ قبضہ جاری رکھنے پر مصر ہے اور پاکستان کو پانی سے محروم کرکے ایک بنجر اور بھارت پر انحصار کرنے والا ملک بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
امریکا کا دوغلا پن تو اس بات سے ہی ظاہر ہے کہ وہ خود تو طالبان سے مذکرات کرنے میں مشغول ہے اور کابل حکومت سے ان کے اشتراک اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہے، اور ہمیں ان سے لڑانے پر مصر ہے۔ ہم پر الزام ہے کہ حقانی نیٹ ورک شمالی وزیرستان سے کارروائیاں کر رہا ہے، جب کہ حقانی نیٹ ورک کے قائد کا دعویٰ ہے کہ ہم افغانستان میں ہیں اور وہیں سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ شکایت ہے کہ شمالی وزیرستان سے افغانستان میں لوگ کیوں داخل ہوتے ہیں لیکن اس سوال کا کوئی جواب امریکا کے پاس نہیں کہ امریکا اور ناٹو کے ڈیڑھ لاکھ فوجی اورافغانستان کی نیشنل آرمی کے ۲ لاکھ جوان ان چند مجاہدین کا راستہ روکنے میں کیوں ناکام ہیں؟ وہ افغان سرحد سے کئی سو کلومیٹر دور کابل کے قلب میں ان مقامات پر کار روائیاں کر رہے ہیں جن کے گرد تین تین آہنی سکیورٹی حصار قائم کرنے کے دعوے کئی ماہ سے کیے جا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ صرف اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرانے اور پاکستان کی قیادت اور فوج کو بلیک میل کرنے کے لیے یہ دبائو ڈالا جا رہا ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اب اس جنگ سے نکلنے کا اعلان کرکے اپنے دفاع کی مناسب اور موثر حکمت عملی بنائی جائے۔ پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس حکمت عملی کی پشت پر ہو۔ امریکا سے you do more کہنا بے معنی ہے۔ ۱؎ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا کو بتا دیا جائے کہ پاکستان نے جو کچھ کیا اور امریکا نے اس کا جو بدلہ دیا ہے اس کے بعد ہمارا صرف ایک ہدف ہے اور وہ یہ کہ امریکا کی مسلط کردہ پالیسی سے خلاصی اور چھٹکارا۔ do more کا صحیح جواب no more ہے اور اس کے لیے پوری قوم کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اس پالیسی کے اختیار کرتے ہی حالات بدلنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان کو دہشت گردی کی جس آگ میں جھونک دیا گیا ہے وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑ جائے گی۔
جو جنگ ہم نے خود امریکا کے دبائو میں اپنے اوپر مسلط کر لی ہے، اس سے جلد نجات مل جائے گی۔ پارلیمنٹ نے ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء کی اپنی قرار داد میں واضح کیا تھا کہ مسئلہ سیاسی ہے اوراس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے، فوجی حل ممکن نہیں۔ اس لیے 3-D ) Dialogue, (Development, Deterrance یعنی مکالمہ، ترقی اور سدجارحیت ہی کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے۔ ہمیںپارلیمنٹ کی اسی قرار داد کے مطابق ہی آگے بڑھنا چاہیے۔ صرف اسی طرح، یعنی بات چیت اور مذاکرات ہی سے، جن کو ہم نے امریکا کی خاطر دشمن بنا لیا تھا توقع ہے کہ وہ بھی اپنا رویہ بدلیں گے اور نئی فضا قائم ہوگی، پاکستان میں امن بحال ہوگا اور پاکستان اور افغانستان میں بھی تعاون اور دوستی کا نیا دور شروع ہوگا۔
سپریم کورٹ میں اور وکی لیکس کے آئینے میں نظر آنے والی تصویریں ہوں یا نظریہ پاکستان کی میزان، اور امریکا پاکستان تعلقات کے باہمی تعلقات، یا موجودہ مرحلہ، سب کا تقاضا ایک ہی ہے___ موجودہ حکمرانوں سے نجات، اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کی تعمیر اور ایک دیانت دار، باصلاحیت، خدا ترس اور خادمِ خلق قیادت کو منصب اختیار کی تفویض۔ اگر ہم اس راہ پر عزم صمیم کے ساتھ گامزن ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ راستے کی تمام مشکلات کو آسان کر دیتا ہے اور ضعف طاقت میں، نا اُمیدی اُمید میں، اور ہزیمت کامیابی میں بدل جاتی ہے۔
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّہُمْ سُبُلَنَاط(العنکنوت ۲۹:۶۹)
جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔