اکتوبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

اعترافِ عظمتؐ لیکن…

شیریں زادہ خدوخیل | اکتوبر ۲۰۱۱ | مغرب اور اسلام

Responsive image Responsive image

دسمبر کی سرد رات ہے، چاروں طرف گھپ اندھیرا ہے، خاموشی کا راج ہے۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے۔ اس سناٹے میں ہلکی بارش کی آواز مسلسل ایک تواتر سے آرہی ہے جو آج صبح سے شروع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سردی بہت بڑھ گئی ہے اور وقت سے پہلے اندھیرا چھا گیا ہے۔ میری بیوی بچے سرِشام کھانے کے بعد لحاف میں دبک گئے ہیں۔ میں اپنے اسٹڈی روم میں ایک کرسی پر سوچوں میں گم بیٹھا ہوں۔ گیس کا ہیٹر اگرچہ کافی تیز ہے لیکن پھر بھی میں نے اپنے پیروں  اور ٹانگوں پر کمبل ڈال رکھا ہے۔ لیٹنے سے قبل میری بیوی نے گرم چائے کا کپ لاکر میری میز پر رکھا تھا جو اب خالی ہے۔ دراصل میں ایک ذہنی خلجان میں مبتلا ہوں۔ ایک الجھی ہوئی ڈور سلجھانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن اس کا سرا ہاتھ نہیں آرہا ہے۔ اس الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے میں اب مَیں خود بری طرح اُلجھ چکا ہوں۔ میرا ذہن مائوف ہورہا ہے اور میری عقل ساتھ دینے سے عاجز ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے۔

میرے چاروں طرف سیرت النبیؐ پر لکھی گئی کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ میں گذشتہ کئی مہینوں سے سیرت النبیؐ کا تحقیقی مطالعہ کر رہا ہوں۔ سامنے میز پر سیرۃ النبیؐ ابن ہشام کی دوموٹی جلدیں پڑی ہیں جن کا مولانا غلام رسول مہر اور پروفیسر عبدالجلیل صدیقی نے خاصی محنت سے اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس کے پہلو میں امام ابن حزم ظاہری کی جوامع السیرۃ پڑی ہے جو مختصر ہونے کے باوجود انتہائی جامع سیرت ہے۔ اس کے اُوپر تاریخ ابن خلدون کی پہلی جلد رکھی ہے جو سیرت النبیؐ پر مبنی ہے۔ طبقات ابن سعد کی پہلی دو جلدیں ہیں۔ اس کے دائیں طرف شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ اور مولانا مودودی کی سیرت سرورِعالمؐ ہے۔ اس کے ساتھ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری کی رحمۃ للعالمینؐ کی تینوں جلدیں ہیں۔ بائیں طرف نعیم صدیقی کی محسنِ انسانیتؐ چند کتب کے اُوپر رکھی ہے۔ ریک میں نقوش کے رسول نمبر کی جلدیں قطار میں رکھی ہیں۔یہ صرف وہ چند کتابیں ہیں جو اس وقت مجھے نظر آرہی ہیں، قریبی الماریوں میں سیرت النبیؐ پر انتہائی نادر اور نایاب ذخیرہ کتب مقفل ہے، جب کہ کتب حدیث اس کے علاوہ ہیں۔

سیرت النبیؐ کے جملہ پہلوئوں کا احاطہ کرنے والے سیرت نگاروں کی ایک روشن کہکشاں ہے جو لامتناہی ہے لیکن اس روشن کہکشاں میں شامل ناموں پر مجھے کوئی حیرت نہیں، کوئی اچنبھا نہیں، اس لیے کہ یہ سب اہلِ قلم مسلمان تھے۔ ان کا ایک دینی جذبہ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت تھی،ان کی والہانہ عقیدت کا اظہار تھا جو انھوں نے آپؐ سے کیا۔ کیونکہ آپؐ انسانِ کامل تھے۔ تمام جہانوں کے لیے رُشد و ہدایت کا منبع تھے، آپؐ کی تعلیمات نے زندگی کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا، اس لیے سیرت النبیؐ کے اتنے پہلوئوں پر اتنی کتابیں لکھی گئیں کہ شاید ہی سیرتِ رسولؐ کا کوئی پہلو تشنہ رہ گیا ہو۔ مسلمان ہونے کے ناتے آپؐ سے محبت و عقیدت ہر ایک کا جزوِ ایمان ہے، مگر مجھے ان لوگوں پر حیرت ہورہی ہے جو مسلمان نہیں لیکن آپؐ کی عظمت کے قائل ہیں۔ آپؐ کو نبیِ برحق تسلیم کرتے ہیں، آپؐ کی تعلیمات کو دنیا و آخرت دونوں کے لیے فلاح کا سبب سمجھتے ہیں۔ انھوں نے بغیر کسی تعصب کے آپؐ کی سیرت کا مطالعہ کیا اور اس کے بعد بے ساختہ آپؐ کی نبوت کی تصدیق کی۔ حیرت ہے کہ باوجود اس اعتراف کے وہ پھر بھی دولتِ ایمان سے محروم رہیں۔ جن غیرمسلم سیرت نگاروں نے سیرت لکھتے ہوئے جھوٹ، تعصب، اتہام اور دشنام سے کام لیا اور جو بے سروپا اور بے پَرکی اُڑانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، میں ان لوگوں کی بات نہیں کرتا۔

آپؐ کی عظمت کا اعتراف کرنے والوں میں بڑے بڑے اہلِ قلم کے نام نظر آتے ہیں۔ بڑے نامی گرامی راہب ہیں، سیاست دان ہیں، پنڈت ہیں، فلاسفر ہیں، شاعر اور ادیب ہیں۔   یہ وہ لوگ ہیں جن کی عقل کی، جن کے فہم اور اہلیت و قابلیت کی ایک دنیا معترف ہے، جن کی حقیقت شناسی اور بے تعصبی سب پر عیاں ہے، مگر جب بات ایمان کی آتی ہے تو ان کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ چشمۂ حقیقت تک پہنچنے کے باوجود وہ تشنۂ لب رہ جاتے ہیں جس پر مجھے حیرت کے ساتھ تعجب بھی ہورہا ہے اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ میں گذشتہ کئی دنوں سے اسی گتھی کو سلجھانے میں سرگرداں ہوں۔

اس وقت بارش کی آواز کچھ تیز ہوگئی تو مجھے یوں ہی ایک کپکپی آگئی، حالانکہ کمرہ خوب گرم ہے، گیس ہیٹر لگا ہوا ہے، کمبل میرے پیروں پر پڑا ہے۔ سامنے دیوار پر لگے کلاک پر نظر پڑی تو نوبجنے کو تھے۔ آج کھانے کے بعد میں نے عشاء کی نماز گھر پر ہی پڑھ لی تھی کیونکہ محلے کی مسجد تک جانا میرے لیے دشوار تھا، بارش بھی ہو رہی تھی اور سردی بھی خاصی زیادہ تھی۔ مسجد فاصلے پر ہے اورراستے میں کیچڑ ہوتا ہے لیکن شاید میں صحیح نہیں کہہ رہا ہوں۔ یہ ایک طرح کا بہانا ہے کیونکہ اس سے بھی خراب موسم میں محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے عموماً جاتا رہا ہوں۔ دراصل جس چیز نے مجھے مسجد جانے سے روکا تھا وہ کونسٹن ورژیل کی سیرت النبیؐ پر لکھی ہوئی کتاب کے آخری صفحات تھے جو مجھے پڑھنے تھے۔ یہ کتاب عکسِ سیرت کے نام سے سیارہ ڈائجسٹ نے خصوصی نمبر کے طور پر شائع کی تھی جس کا رواں اور خوب صورت ترجمہ خلیل احمد نے کیا ہے۔

کونسٹن ورژیل جورجیو جن کا تعلق رومانیہ سے ہے، اپنے ملک کے وزیرخارجہ بھی رہے___ یہ ان کی بہت مشہور کتاب ہے۔ یہ کتاب انھوں نے خاصی تحقیق کے بعد ہمدردانہ بلکہ عقیدت مندانہ انداز میں لکھی ہے۔ اس کتاب میں وہ اہلِ مغرب سے مخاطب ہیں کہ محمدؐ کو تعصب، بے جا تنقید، نکتہ چینی و عیب جوئی کے بجاے ازسرِنو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ ان کا محققانہ انداز، وسیع مطالعہ سیرت اور طرزِ تحریر اور عقیدت و احترام کو دیکھ کر مجھے حیرت ہورہی ہے۔ میں گذشتہ دوتین دنوں سے اس کتاب میں اس قدر محو ہوں کہ کسی اور طرف بہت مشکل سے متوجہ ہوپاتا ہوں۔ کتاب میں حد سے زیادہ دل چسپی ہی نے شاید مجھے مسجد جانے سے روکا، بارش بہانا بنی اور گھر میں نمازِ عشاء ادا کرنے کے بعد میں پھر سے بیٹھ گیا اور کتاب ختم کرکے ہی دم لیا۔ مگر کتاب ختم کرنے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں اس کشتی کی طرح تھپیڑے کھانے لگا جس کو چاروں طرف سے طوفان نے گھیر لیا ہو۔ مجھے کتاب سے زیادہ کونسٹن ورژیل پر حیرت ہورہی تھی کہ باوجود اس قدر تحقیق، عقیدت اور احترام کے کلمہ طیبہ ان کی زبان پر نہ آسکا۔ میں دیر تک اس کتاب کو تکتا رہا اور پھر اُٹھا کر الماری میں رکھ دی۔

اچانک میری نظر مشہور روسی ناول نگار ٹالسٹائی کے شہرئہ آفاق ناول جنگ اور امن پر پڑی جس کا اُردو ترجمہ شاہد حمیدنے کیا ہے۔ اس ناول کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا  بہترین ناول ہے۔ اگرچہ یہ اچھا خاصا ضخیم ناول ہے اور ہرکسی کے پڑھنے کے بس کا نہیں۔ جنگ اور امن کے علاوہ ان کا دوسرا ناول آنا کارنینا بھی ایک لاجواب شاہکار ہے۔ جنگ آزادی چیچنیا کے پس منظر میں ان کا آخری مختصر ناول حاجی مراد بھی ایک بے مثال ناول ہے جس میں اُنھوں نے امام شامل اور چیچن مجاہدین کی تحریکِ آزادی کی ایک جھلک دکھائی ہے۔

ٹالسٹائی انسانی محبت اور عدم تشدد کا علَم بردار تھا۔ اس نے ایک جاگیردار ہونے کے باوجود اپنی ساری جایداد اور دولت اپنے خاندان اور غریب غربا میں تقسیم کر دی، اور زارشاہی کے استبداد کے سامنے جمہوریت، مساوات اور اخوت کی بات کی۔ زارشاہی کو ناپسند ہونے کے باوجود وہ اس کے خلاف کوئی اقدام نہ اُٹھا سکے، اور روسی کلیسا نے بھی اسے ملحد قرار دیا تھا۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا طرزِعمل اخلاق کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ ہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تبلیغ و ہدایت خالص سچائی پر مبنی تھی۔ آپؐ نے دنیا میں حقیقی ترقی اور تمدن کی راہیں کھول دیں۔ یہ اتنا عظیم الشان کارنامہ ہے جو اس شخص کے سوا کوئی نہیں کرسکتا جسے خاص قوت دی گئی ہو‘‘۔ اکثر ادبی حلقوں میں ان کو نوبل انعام نہ ملنے پر تعجب کا اظہار ہوتا ہے لیکن میں ان کے کلمہ نہ پڑھنے پر متعجب ہورہا ہوں۔

آنا کارنینا سے نظریں ہٹاکر جب میں الماری بند کرنے لگا تو اچانک میری نظر ٹائن بی کی مشہور تصنیف A Study of History کی ایک جِلد پر پڑی۔ ۱۲ جلدوں پر مشتمل یہ کتاب جس کی مجھے بڑی جستجو ہے، اس کی یہ ایک جلد پرسوں میں نے اتوار بازار میں ایک فٹ پاتھیئے سے خریدی جو پرانی کتابیں بیچ رہا تھا۔ ضروری مرمت کروانے کے بعد میں نے یہ کتاب یہاں رکھی ہے کہ کسی وقت آرام سے بیٹھ کر اس کا مطالعہ کروں گا۔ ٹائن بی دنیاے تاریخ کا ایک انتہائی معتبر نام ہے۔ ہمارے ایک پروفیسر صاحب بڑے فخر سے ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ’’ٹائن بی ۱۹۵۷ء اور ۱۹۶۰ء میں دو مرتبہ پاکستان آئے تھے اور دونوں مرتبہ میں ان سے ملا تھا‘‘۔ وہ ان کی مؤرخانہ علمی دیانت کے بڑے معترف تھے اور واقعی ان کی علمی اور ادبی حیثیت میں کسی شک کی گنجایش بھی نہیں۔ انھوںنے موجودہ طبقاتی، نسلی امتیاز اور عالمی سطح پر ناانصافی کے خاتمے کے لیے اسوئہ حسنہ کو مشعلِ راہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسلام کے ذریعے انسانوں میں رنگ و نسل اور طبقاتی امتیاز کا یکسر خاتمہ کر دیا۔ کسی مذہب نے اس سے بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کو نصیب ہوئی۔ آج کی دنیا جس ضرورت کے لیے رو رہی ہے اسے صرف اور صرف مساواتِ محمدیؐ کے نظریے کے ذریعے ہی پورا کیا جاسکتا ہے‘‘۔

ٹائن بی کے ساتھ مجھے ایک اور بڑے مؤرخ ایڈورڈ گبن کا خیال آیا جو سقوطِ سلطنت روما کے مصنف ہیں۔ یہ کتاب ان کے ۲۰سال کی متواتر شب و روز کی مشقت کا ثمر ہے۔ یہ کتاب ۱۷۷۶-۱۷۸۸ء کے دوران چھے جلدوں میں شائع ہوئی اور ابھی تک تاریخ اور ادب دونوں میدانوں میں بلندپایہ تصنیف جانی جاتی ہے۔ اس مشہور تصنیف میں آپ رقم طراز ہیں: ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذہب شک و ابہام سے بالکل مبرا ہے۔ قرآن خدا کی درخشندہ شہادت ہے… قرآن کی نسبت بحراوقیانوس سے لے کر دریاے گنگا تک سب نے تسلیم کرلیا ہے کہ وہ واضح راستہ ہے، اور ایسے دانش مندانہ اصول اور عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب شدہ ہے کہ اس کی نظیر پوری کائنات میں کہیں نہیں مل سکتی۔ قرآن وحدانیت کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ ایک توحید پرست فلسفی اگر کوئی مذہب قبول کرسکتا ہے تو وہ مذہب اسلام ہی ہے‘‘۔

فلسفے سے میرا دھیان مشہور فلسفی، ریاضی دان اور انشا پرداز برٹرنڈرسل کی طرف چلا گیا جو جارحیت اور خاص کر جنوب مشرقی ایشیا میں امریکی جارحیت کے خلاف مرتے دم تک نبردآزما رہا، جو مذہب، سرمایہ داری اور کمیونزم تینوں کا مخالف تھا لیکن مذاہب عالم کے مخالف ہونے کے باوجود وہ اعتراف کرتا ہے کہ ’’حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین توازن پر کھڑا ہے۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ایک عظیم الشان اور فقیدالمثال مذہبی رہنما تھے۔ وہ ایک ایسے دین کے بانی تھے جو بُردباری، مساوات اور انصاف کی بنیادوں پر کھڑا ہے‘‘۔

میں رسل کے الفاظ پر غور کر رہا تھا کہ اچانک میری بیگم نے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا، ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا اندر کو لپکا جس نے کمرے کی حدت کو یکدم کافی کم کر دیا۔ اس نے اگرچہ جلدی سے دروازہ بند کر دیا مگر پھر بھی کمرے میں ٹھنڈک کی ایک لہر گردش کرتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں آج کا اخبار اور ایک کتاب تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا:آپ کا کمرہ تو اچھا خاصا گرم ہے، اسی لیے آپ یہاں دبکے بیٹھے ہیں۔ میں لیٹی ہی تھی کہ اچانک خیال آیا کہ آج کا اخبار تو آپ نے دیکھا ہی نہیں، یہ لیں آج کا اخبار اور یہ کتاب سو بڑے لوگ بھی سنبھال لیں۔بڑے لڑکے کے سرہانے گذشتہ دو تین روز سے پڑی تھی کہیں اِدھر اُدھر نہ ہوجائے۔

میں مائیکل ہارٹ کی کتاب اپنی جگہ پر رکھنے لگا۔ پتا نہیں اس کتاب میں کیاہے کہ لوگ آج کل اسے دھڑادھڑ خرید رہے ہیں۔ سو بڑے لوگ میں اول نمبر پر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی۔ آپؐ کو سو بڑے آدمیوں میں سب سے پہلے نمبر پر رکھنا اس کی مجبوری تھی کیونکہ انسانی تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت صرف آپؐ ہی تھے اور یہی اس کی وجۂ جواز ہے۔

کتاب رکھ کر میں واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور ایک مرتبہ پھر اپنی سوچوں میں کھو گیا اور جان ڈیون پورٹ کے یہ الفاظ گویا میرے دل کی ترجمانی کر رہے تھے جو انھوں نے اپنی کتاب قرآن اور محمدؐ سے معذرت کے ساتھ میں لکھے ہیں کہ محمدؐ رسول اللہ میں سواے سچائی اور حقانیت کی تعلیم کے جذبہ و جوش کے اور کچھ نہ تھا۔ پھر آخر لوگوں کو یہ یقین کیوں نہیں آتا کہ وہ سچائی اور حقانیت کی تعلیم کے لیے ہی دنیا میں آئے تھے‘‘۔

جان ڈیون پورٹ جس نے مغرب کے متعصب دانش وروں اور پادریوں کی جھوٹی تہمتوں اور ناروا الزامات سے آپؐ کو مبرا قرار دینے کے لیے یہ کتاب لکھی مگر اس کا قلب کیوں اس حقیقت اسلام کو تسلیم نہیں کرسکا؟ اس کا دل اس نورِ ایمان سے کیوں منور نہ ہوسکا؟___ یہ وہ سوالات ہیں جنھوں نے مجھے بے چین کیا ہے۔

میرے ذہن میں مشہور انگریز ادیب اور ڈراما نگار برنارڈشا کے الفاظ گونجنے لگے: ’’آج انسان جس طرح فطرت سے دُور ہورہا ہے وہ ضرور قانونِ فطرت کی طرف رجوع کرے گا، اور اس وقت اس کے لیے پھر کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ اسلام سے رجوع کرے مگر وہ موجودہ زمانے کا اسلام نہ ہوگا، بلکہ وہ اسلام ہوگا جو محمدؐ رسول اللہ کے زمانے میں دلوں، دماغوں اور روحوں میں جاگزیں تھا‘‘۔

میں اپنی سوچوں میں غلطاں تھا کہ میرے تخیل میں گاندھی جی کی تصویر اُبھری۔ نحیف و نزار جسم، ایک لنگوٹی باندھے، عدم تشدد کا پیامبر، برعظیم پاک و ہند کی آزادی کا ناقابلِ فراموش کردار، ناتواں جسم لیکن آہنی حوصلے کا مالک جو کسی سے مرعوب نہیں ہوا، مگر آپؐ کے حضور وہ بھی سر جھکائے پر نام کرتے کھڑے ہوئے کہہ رہے ہیں: ’’بلاشبہہ آپؐ ساری دنیا کے روحانی پیشوا تھے۔ آپؐ ہی کی تعلیمات کو میں سب سے بہتر سمجھتا ہوں۔ کسی روحانی پیشوا نے خدا کی بادشاہت کا ایسا جامع اورمانع پیغام اس کے بندوں تک نہیں پہنچایا جو آپؐ نے آکر پہنچایا ہے‘‘۔

گاندھی جی کے بعد مجھے بدھ دھرم کے پیشواے اعظم مانگ تونگ زرد لباس پہنے کھڑے نظر آئے جو کہہ رہے تھے: ’’حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کا ظہور بنی نوع انسان پر خدا کی ایک رحمت تھی۔ لوگ کتنا ہی انکار کریں مگر آپؐ کی اصلاحات عظیمہ سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ ہم بدھ دھرم کے ماننے والے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔ آپؐ کا انتہائی احترام کرتے ہیں‘‘۔

ایک بار پھر اپنے خیالات سے پیچھا چھڑانے کے لیے میں نے اپنا سر جھٹک دیا اور اُٹھ کر ادبی اور تنقیدی کتابوں کو اُلٹنے پلٹنے لگا کہ شاید کوئی ناول، کوئی افسانوی یا شعری مجموعہ میری توجہ اپنی طرف مبذول کرلے اور ان خیالات سے میرا پیچھے چھوٹ جائے جو بادل کی طرح میرے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں اورجنھوں نے مجھے جکڑ رکھا ہے۔ میں ادبی اور تنقیدی کتابوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ میری نظریں تلوک چند اور ان کے فرزند جگن ناتھ آزاد کی کتابوں پر رُک گئی۔ یہ دونوں اُردو ادب کے بہت بڑے نام ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں باپ بیٹے نے نعتیں کہی اور لکھی ہیں۔ میرے لبوں پر بے اختیار جگن ناتھ آزاد کا ایک نعتیہ شعر آگیا   ؎

مبارک ہو زمانے کو کہ ختم المرسلینؐ آئے
سحاب رحم بن کر رحمت للعالمینؐ آئے

بہت سی کتابوں کے باوجود میرا ہاتھ کسی کتاب کی طرف نہ بڑھ سکا۔ میں واپس آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور بے دلی سے اخبار کی سرخیاں ایک بار پھر دیکھنے لگا تو میری نظریں ایک سرخی پر جم کر رہ گئیں۔ یہ ایک امریکی پادری اور چند متعصب صحافیوں کے متعلق خبر تھی جس میں آپؐ اور قرآن کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے گئے تھے۔ مجھے اس پادری اور ان صحافیوں کی ذہنی حالت پر افسوس ہونے لگا جو معلومات عامہ کے بیش بہا خزانے آسانی سے دستیاب ہونے کے باوجود اپنی جہالت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ شاید جرمن فلاسفر جان جاک ولیک نے انھی لوگوں کے لیے کہا تھا کہ: ’’یہ تھوڑی عربی جاننے والے قرآن پاک کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ اگر وہ لوگ خوش نصیبی سے کبھی آنحضرتؐ کی معجز نما قوتِ بیان سے قرآن کریم کی تشریح سنتے تو یقینا یہ لوگ بے ساختہ سجدے میں گر پڑتے اور سب سے پہلی آواز ان کے منہ سے یہ نکلتی کہ ’’پیارے نبیؐ! پیارے رسولؐ! ہمارا ہاتھ پکڑ لیجیے، ہمیں اپنے پیروکاروں میں شامل کر کے عزت اور شرف عطا فرمانے میں دریغ نہ فرمایئے‘‘۔ مگر میرے ذہن میں پھر وہی سوال لوٹ کر آیا کہ اس اعتراف کے باوجود جان ولیک کیوں اللہ تعالیٰ کے حضور میںسربسجود نہ ہوسکا؟

میں نہ جانے اور کتنی دیر تک ان خیالوں میں گم رہتا اگر میری بیوی چائے بناکر نہ لاتی، اس کی آمد سے میری محویت ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنی ٹانگوں پر کمبل اچھی طرح پھر سے ٹھیک کیا اور گرم گرم چائے کی چسکیاں لینے لگا جس سے میرے تنے ہوئے اعصاب ذرا سکون محسوس کرنے لگے۔ چائے ختم کرنے کے بعد میرے ہاتھ خود بخود قرآن مجید کی طرف بڑھے جو میری کرسی کے پیچھے انگیٹھی کے کارنس پر رکھا تھا۔ میں ہرصبح نماز کے بعد باقاعدگی سے اس کی تلاوت کرتا ہوں۔ میں اپنے سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے قرآن پاک کی ورق گردانی کرنے لگا۔ اچانک در معنی کھل گیا، میں جس گتھی کے سلجھانے میں سرگرداں تھاس کا سرا ہاتھ آگیا:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o (یونس ۱۰:۵۷)

اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔

میرے بے قرار دل کو قرار آیا۔ تنائو کی ساری کیفیت ختم ہوگئی۔ میری ساری کلفت دُور ہوگئی۔ ذہن پر چھائی ہوئی دھند چھٹ گئی ۔ میں نے بار بار اس آیت شریفہ کو پڑھا۔

یہ بڑے بڑے عظیم فلاسفر، شاعر، ادیب، مفکر، سائنس دان اگرچہ انتہائی ذہین اور اختراعی ذہن رکھتے تھے مگر ان کے دلوں کو شفا نہ مل سکی، کیونکہ عظمتِ رسولؐ کے اعتراف کے باوجود وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ نہ پڑھ سکے۔ اس لیے کہ انھوں نے رسول اکرمؐ کوقرآن کے بغیر سمجھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے رسول اکرمؐ کو دیکھا تو صرف ایک انسان کی حیثیت سے دیکھا۔ انھوں نے آپؐ کے کردار کو جانچا اور پرکھا۔ ابولہب اور ابوجہل سے زیادہ رسولؐ کے کردار سے کون واقف تھا۔ اس نظر سے تو سارے کفارِ مکہ نے آپؐ کو دیکھا، جانچا اور پرکھا تھا۔ اس کے باوجود کہ وہ آپؐ کو صادق پکارتے، الامین کہتے، اپنی امانتیں آپؐ کے سپرد کرتے، آپؐ سے اپنے فیصلے کرواتے تھے۔ آپؐ کے کردار میں ان کو کوئی کلام نہ تھا۔ وہ جس سے گریزاں تھے وہ قرآن تھا، جو شمع نبوت کا نور تھا، جو ایسا مصحف ربانی تھا، جو دلوں کو شفا دینے والا تھا، جو رحمت اور بھلائی کی طرف لانے والا تھا۔ فکر و نظر کی یہی خامی تھی جس کے سبب وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اعتراف کے باوجود محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ نہ پڑھ سکے۔

میں نے قرآن پاک کو چوما اور آنکھوں سے لگایا۔ میرے سوال کا جواب مجھے مل چکا تھا۔ میں سوچ کی دلدل سے نکل آیا، دل طمانیت سے بھر گیا۔ میں نے جاے نماز بچھائی اور شکرانے کے نوافل ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوگیا!


 مضمون نگار، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول، غازی کوٹ ضلع بونیر کے پرنسپل ہیں۔