اکتوبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

مساوات مرد وزن

بشریٰ صادقہ | اکتوبر ۲۰۱۱ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

حقوق مرد و زن کا مسئلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس قدر اہم ہے کہ اس کو تمام معاشرتی مسائل کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے۔ خانگی زندگی کی ساری مسرتیں اور خوشیاں اس پر مبنی قرار دی جاسکتی ہیں۔ صرف افراد کا بننا اور بگڑنا ہی نہیں، بلکہ حکومتوں کے ضعف و استحکام کا بھی انحصار اسی پر ہے۔ اجتماعی زندگی میں مرد اور عورت کا تعلق دراصل تمدن کا سنگِ بنیاد ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ اگر اس میں ذرا سی بھی کجی آجائے تو  ع

تا ثریّا می زود دیوار کج

ایک طرف اس مسئلے کی یہ اہمیت ہے اور دوسری طرف اس کی پیچیدگی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ جب تک فطرت کے تمام حقائق پر کسی کی نظر پوری طرح حاوی نہ ہو۔ وہ اس کو حل نہیں کرسکتا۔ سچ کہا تھا جس نے کہا تھا کہ انسان عالمِ اصغر ہے۔ اس کے جسم کی ساخت، اس کے نفس کی ترکیب، اس کی قوتیں اور قابلیتیں، اس کی خواہشات، ضروریات اور جذبات و احساسات اور اپنے وجود سے باہر کی بے شمار اشیا کے ساتھ اس کے فعلی و انفعالی تعلقات، یہ سب چیزیں ایک دنیا کی دنیا اپنے اندر رکھتی ہیں۔ انسان کو پوری طرح نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ اس دنیا کا ایک ایک گوشہ  نگاہ کے سامنے روشن نہ ہوجائے، اور انسانی زندگی کا یہ بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ خود انسان کو پوری طرح نہ سمجھ لیا جائے۔

انسانی علوم میں سے کوئی علم بھی ایسا نہیں ہے جو کمال کے آخری مرتبہ پر پہنچ چکا ہو، یعنی جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہو کہ جتنی حقیقتیں اس شعبۂ علم سے تعلق رکھتی ہوں ان سب کا اس نے احاطہ کرلیا ہے۔ اب تک جو حقائق سامنے آچکے ہیں ان کی وسعتوں اور باریکیوں کا بھی یہ عالم ہے کہ انسان کی نظر ان سب پر بیک وقت حاوی نہیں ہوسکتی۔ ایک پہلو سامنے آتا ہے تو دوسرا پہلو نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ کہیں نظر کوتاہی کرتی ہے اور کہیں شخصی رجحانات نظر میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اس دوہری کمزوری کی وجہ سے انسان خود اپنی زندگی کے ان مسائل کو حل کرنے کی جتنی بھی تدبیریں کرتا ہے وہ ناکام ہوتی ہیں اور تجربہ آخرکار ان کے نقص کو نمایاں کردیتا ہے۔ صحیح حل صرف اسی وقت ممکن ہے، جب کہ نقطۂ عدل کو پا لیا جائے ،اور نقطۂ عدل پایا نہیںجاسکتا جب تک کہ تمام حقائق اور اس کے تمام پہلوئوں پر یکساں نظر ہو اور یہ نظر کسی انسان کی نہیں بلکہ خالقِ انسان کی ہوسکتی ہے، جس نے واقعی مرد و زن کے حقوق میں کمال درجہ توازن اور نہایت عادلانہ نظام قائم کرکے انسان کو دیا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو حقوقِ انسانی کا علَم بردار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو افراط وتفریط سے بچاتے ہوئے نقطۂ عدل کا راستہ دکھاتا ہے۔

انسانی زندگی کی تقسیم

کسی نظام کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے مختلف پُرزوں کو صحیح جگہ پر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام چلانے کے لیے خود اس کے لیے یہاں کے کارپردازوں کا مقام متعین کردیا ہے تاکہ اس میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ نظامِ کائنات کو خالقِ کائنات نے بنایا ہی اس اصول پرہے کہ اس کے تمام افراد و عناصر اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کے لیے مجبور ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کسی پہلو سے ناقص اور کسی پہلو سے مستغنٰی ہے۔ ہر ایک کسی پہلو سے مطلوب اور کسی اعتبار سے طالب بھی ہے، اور باہمی تعاون سے یہ اپنے اپنے خلا کو بھرتے ہوئے مقصودِ حیات کو پانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ زمین و آسمان، شب و روز، گرمی و سردی، بحروبّر، ان سب میں اسی نوعیت کا رابطہ ہے۔ ان میں سے بجاے خود نہ کوئی دوسرے سے مستغنٰی ہے اور نہ ان میں سے کسی کو یہ دعویٰ کرنے کا حق ہے کہ اس نظامِ کائنات میں جو مقام اس کا ہے کسی دوسرے کا نہیں، یا جو مقصد اس کے ذریعے سے پورا ہو رہا ہے وہ کسی درجے میںاور کسی نوعیت سے اُس مقصد سے ارفع ہے جو دوسرے کے ذریعے سے پورا ہو رہا ہے۔

غور کیجیے کہ اس اعتبار سے ان تمام اجزاے مختلفہ میں جو حیرت انگیز مساوات ہے کیا کوئی شخص اس مساوات کا انکار کرنے کی جرأت کرسکتا ہے؟ لیکن اس مساوات کے باوجود کبھی آپ نے دیکھا کہ محض اس زعم کی بنا پر کہ ہم آپس میں بالکل مساوی ہیں زمین آسمان سے جاٹکرائی ہو، چاند نے سورج کے مدار میں گردش شروع کر دی ہو، رات نے دن کی حدود میں مداخلت کر دی ہو، سردی نے گرمی کا روپ دھار لیا ہو، اور سمندر نے خشکی پر یلغار کردی ہو۔ اگر خدانخواستہ یہ ہوجائے اور دن دو دن کے لیے نہیں صرف چند لمحوں کے لیے ہی ہوجائے تو یہ سارا نظامِ کائنات درہم برہم ہوکے رہ جائے۔ ٹھیک اسی اصول پر عورت اور مرد دونوں مساوی ہیں۔ زندگی کی گہما گہمی اور نشیب و فراز میں ہمیشہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے مددگار اور معاون رہے ہیں۔ زندگی کے بارِگراں کو دونوں نے سنبھالا ہے۔ تمدن کا ارتقا دونوں کے اتحاد سے عمل میں آیا ہے۔ دونوںتہذیب کے معمار ہیں۔ انسانی مقصودِ حیات کی ذمہ داری دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے۔ زندگی مرد اور عورت دونوں ہی کی محتاج ہے۔ جس طرح مرد اپنا مقصدِ وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غایت ہے اور قدرت ان دونوں اصناف کے ذریعے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کر رہی ہے۔

مرد اور عورت کے اپنے اپنے دائرۂ عمل

مرد اور عورت گو، زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں لیکن دونوں کا دائرۂ عمل الگ الگ ہے۔ اس فرق کا اظہار دونوں کو ایک ہی نوع کے دو افراد بنانے کے باوجود مختلف انداز کا وجود عطا کرنے میں پوشیدہ ہے۔ ایک کے وجود کو نوعِ انسانی کی پیدایش میں اضافہ کرنے کے لیے خصوصی تربیت دی گئی ہے، اور دوسرے کے وجود کو جسمانی محنت و مشقت اور بیرونی معاشرتی تگ و دو کے لیے خصوصی بناوٹ دی گئی ہے۔ قدرت کے اس خصوصی انداز کو نہ ہم نظرانداز کرسکتے ہیں، نہ ہم بدل سکتے ہیں اور نہ عبث قرار دے کر کارخانۂ حیات میں تقسیمِ کار کے اصول کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ مرد و عورت کے لیے الگ نوعیت کے جسم کی بناوٹ اور ان کی فطرت میں الگ نوعیت کے رجحانات قدرت کی تخلیق کے مقصد کو بیان کرنے کے لیے بہت کافی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قدرت نے دونوں کے لیے الگ دائرۂ کار تجویز کیا ہے۔ اس جداگانہ دائرۂ کار کی تقسیم کو نظرانداز کر کے ہم قدرت کے انتظام کے خلاف دوسرے راستے اختیار کریں گے تو لازماً کسی پر کام کا بوجھ بڑھ جائے گااورکسی پر کم ہوجائے گا۔ لہٰذا نوعِ انسانی کی سلامتی اور بقا کا انحصار اس میں پوشیدہ ہے کہ دونوں بغیر کسی منازعت و منافست[تکرار اور مسابقت]کے اپنی اپنی قابلیت پر قانع رہیں اور جو کرسکتے ہیں اس کو چھوڑ کر نہیں کرسکتے، اس کے خبط میں مبتلا نہ ہوں ورنہ یہ منازعت [تکرار] دنیا کو تباہ کرکے رکھ دے گی اور اس غیرفطری تقسیمِ کار سے بہت سی تمدنی اور معاشرتی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔

اسلام عورت اور مرد کو مساوی قرار دینے کے باوجود ان کی حقیقی اور فطری صلاحیتوں کے لحاظ سے نظامِ اجتماعی میں ان کو الگ الگ مقام دیتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو اس مقام پر رکھتا ہے جس مقام پر وہ بہتر طریق پر معاشرے کو اپنی قابلیتوں سے فائدہ پہنچا سکیں۔ عورت و مرد کی تخلیق کے ساتھ قدرت نے جو فرائض وابستہ کیے ہیں ان میں سے ہر فرض بجاے خود اتنا ہی    اہم اور اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دوسرا فرض۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گھر کا کام سنبھالنا کم اہم ہے اور دفتر کا اہم ہے، یا بچوں کی پرورش کرنا ایک حقیر کام ہے اور سپہ گری یا تجارت ایک معزز کام ہے۔ نظامِ معاشرت و اجتماع کے حفظ و بقا کے جتنے بھی کام ہیں سب یکساں اور ضروری ہیں۔  معاشرے کا جو پُرزہ ان کاموں میں سے جس کام کی انجام دہی کے لیے بھی بنا ہے، اگر وہ ٹھیک ٹھیک اسے انجام دے رہا ہے تو مجموعی مشین کے اندر اس کی قدروقیمت کسی بڑے سے بڑے پُرزے کے برابر ہے اور اس کو حقیر سمجھنے اور نظرانداز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

حقوقِ مرد وزن میں مساوات کا مفھوم

آیئے دیکھیں کہ حق کسے کہتے ہیں؟ اور حقوق میں برابری کا مفہوم کیا ہے؟ ایک مغربی مفکر گالسس ایزیجیو فاز، حق کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے: ’’انسانی یا بنیادی حقوق جدید نام ہے ان حقوق کا جنھیں روایتی طور پر فطری حقوق کہا جاتا ہے۔ ان کی تعریف یوں ہوسکتی ہے کہ وہ اخلاقی حقوق جو ہر انسان کو ہر جگہ اور ہمہ وقت اس بنیاد پر حاصل رہتے ہیں کہ وہ دوسری تمام مخلوقات کے مقابلے میں اس اعتبار سے ممتاز ہے کہ وہ ذی شعور اور ذی اخلاق ہے۔ انصاف کو بُری طرح پامال کیے بغیر کوئی شخص ان حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

گویا حق وہ چیز ہے جسے کوئی دعوے دار وصول کرنے کا قانونی استحقاق رکھتا ہو، یعنی جو کچھ وصول ہو وہ حق ہے، اور جو کچھ اداکرنا پڑے وہ فرض ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی مرد ہے یا عورت، ہر انسان کو تحفظِ جان، تحفظِ ملکیت، تحفظِ آبرو، نجی زندگی کا تحفظ، شخصی آزادی کا تحفظ، آزادیِ اظہار راے، ظلم کے خلاف احتجاج کا حق، حصولِ انصاف کاحق، معاشی تحفظ کا حق، معصیت سے اجتناب کا حق، آزادیِ تنظیم و اجتماع اور سیاسی زندگی میں شرکت کا حق جیسے بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ حقوق میںبرابری یہ ہے کہ یہ سارے حقوق مرداور عورت کو ملتے رہیں۔ ان کے غصب ہونے کی صورت میں آواز بلند کی جاسکے اور اسے عدل کے ساتھ سنا جائے۔

حقوق مرد و زن میں اسلام کی عطاکردہ مساوات کو دیکھنے سے پہلے اس بنیادی سوال پر غور کیجیے کہ مندرجہ بالا حقوق کس کے مقرر کردہ ہیں؟ ان کی قانونی و اخلاقی حیثیت اور ان کا جواز کیا ہے؟ کیا انسان اپنے کسی ذاتی استحقاق کی بناپر ان حقوق کا مستحق بنا ہے یا اپنے کسی دعوے، کسی جدوجہد، یا اپنے منظور شدہ مطالبات کی وجہ سے اسے یہ استحقاق حاصل ہوا ہے؟ انسانی حقوق کسی معاہدۂ عمرانی سے، حکومت اور عوام کے درمیان بالاتفاق ہونے والے کسی معاہدے سے، انسان کے وضع کردہ کسی دستور سے یا انسان اور انسان کے درمیان ہونے والے کسی سمجھوتے (agreement) سے متعین ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بنیاد صرف مقتدرِاعلیٰ کا حکم ہے۔ اس نے ہر انسان کے حقوق کا تعین کیا ہے اور ان کے درمیان ترجیحات طے کی ہیں۔ قرآنی احکام اور    حجۃ الوداع کے موقع پر انسانی حقوق کا منشور ہادیِ برحق کا وہ یادگار خطبہ اپنے ذہن میں مستحضر کیجیے تو آپ اس نتیجے پر لازماً پہنچیں گے کہ یہ صرف اسلام ہی ہے جو حقوقِ انسانی کا علَم بردار ہے۔ فی الحقیقت عورت کی عزت اور اس کے حق کا تخیل ہی انسان کے دماغ میں اسلام کا پیدا کردہ ہے۔ آج حقوقِ نسواں اور مساوات کے جو نعرے آپ سن رہے ہیں یہ سب اسی انقلاب انگیز صدا کی بازگشت ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بلند ہوئی تھی اور جس نے افکارِ انسانی کا رُخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

یوں یہ بات واضح ہوگئی کہ جس نے حق کا تخیل دیا اُسی نے سب سے بڑھ کر اور بہترین حقوق بھی دیے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حقوق عطا ہی اسی نے کیے۔

مساوات کا غلط مفھوم - فرائض میں برابری

مساوات کا ایک مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں مساوی پیدا ہوئے ہیں۔   اس لیے انتظامِ ملک میں دونوں کو مساوی حصہ ملنا چاہیے، یا یہ کہ قدرت نے جن قوتوں اور قابلیتوں سے مرد کو مسلح کیا ہے اور مردجو کچھ کرسکتا ہے عورت بھی وہ سب کچھ کرسکتی ہے، لہٰذا مرد اور عورت کا دائرۂ عمل ایک ہونا چاہیے۔ آج آزادیِ نسواں اور مساواتِ مرد و زن کے نعرے اسی مفہوم کے ساتھ لگائے جارہے ہیں کہ جب تک عورت ٹینک، توپ، ریلوے کا انجن، بحری جہاز، طیارہ، سڑک کوٹنے کا انجن اور سامان سے لدا ہوا ٹرک نہیں چلائے گی، ویلڈنگ سیٹ ہاتھ میں نہیں لے گی، پُل، بند اور بلندعمارتیں تعمیر نہیں کرے گی اسے مرد کے مساوی ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوگا۔ گویا جب تک عورت وہی کارنامہ انجام نہ دے جو مرد انجام دے رہا ہے، اس وقت تک مساوات کی شرط پوری نہیں ہوتی، حالانکہ یہ مساوات درحقیقت حقوق میں نہیں بلکہ فرائض میں مساوات ہے اور مساوات کا یہ ایسا تصور ہے جو خود مردوں میں بھی موجود نہیں۔ ذمہ داریوں اور فرائض میں اضافے پر اصرار کرنے والی خواتین اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنا حق طلب کر رہی ہیں۔

اس مفہوم نے عورت سے اس کی نسوانیت چھن لی اور اس پر مرد بن جانے کا جنون طاری کر دیا۔ یہ جنون اس کے بالوں کی وضع قطع، اس کے لباس، اس کی چال ڈھال، اس کے کھیل کود اور جملہ سرگرمیوں میں ہرجگہ اُبھر آیا ہے۔ عورت مرد کے پیچھے دوڑتے دوڑتے خود مرد کا روپ دھار بیٹھی ہے۔ اگر عورت کو اس کا صحیح مقام نہ دیا جائے تو اس کے نتیجے میں اس کے مضر اثرات خود   اس پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر معاشرہ بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر مرد کو اس کے صحیح محل کے سوا جہاں کے لیے اس کی قابلیتیں تقاضا کر رہی ہوتی ہیں، کسی دوسرے محل میں استعمال کیا جائے تو لازماً اس کااثر بھی یہی ہوتا ہے۔ ایک طرف مرد کی صلاحیتیں اس سے نقصان اُٹھاتی ہیں اور دوسری طرف معاشرہ اس کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے فوائد کے ایک بڑے حصے سے محروم ہوجاتا ہے۔

یہ نظریۂ مساوات اپنی سادہ اور ابتدائی حالت میں بہت معصوم نظر آتا ہے اور جذبات کی رَو میں بہنے والے مردوں اور عورتوں کو اپیل بھی کرتا ہے۔ لیکن جب اس کو بنیاد بناکر اس پر حیاتِ اجتماعی کی تعمیر شروع کی جاتی ہے تب اس کے عیوب کھلنا شروع ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اجتماعیات میں ایک معمولی ادراک رکھنے والا شخص بھی یہ محسوس کرلیتا ہے کہ جس نظامِ اجتماعی کی بنیاد اس نظریے پر ہے اس کی بنیاد درحقیقت ریت پر ہے، جس کا گر جانا ہروقت متوقع ہے۔ اس کے بُرے اثرات جو معاشرے اور حیاتِ اجتماعی پر مرتب ہوئے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ مساوات مرد و زن کا پُرفریب نعرہ دے کر ایک طرف عورت کے سر پر اضافی ذمہ داریوں اور فرائض کا بوجھ لاد دیا گیا اور دوسری طرف چالاک مرد نے اسے ہر جگہ دل بہلانے کا کھلونا بناڈالا۔ گھر سے لے کر دفتر، کارخانہ اور ہر شعبۂ زندگی میں ایک یا ایک سے زائد عورتوں کو ساتھ لگائے رکھنے کے شوقین مردوں نے   اس کے قرب اور خدمت سے خود بھی فائدہ اُٹھایا اور اسے ماڈل گرل اور سیلزگرل وغیرہ کا روپ دے کر اپنے کاروبار کو بھی چمکایا۔

آج کیفیت یہ ہے کہ سگریٹ، بلیڈ، شراب، ٹوتھ پیسٹ، صابن اور دنیا کی ہر شے کی فروخت کے لیے عورت کے حسن اور اس کی ایک ایک اَدا کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ عورت تشہیر وترغیب کا سب سے بڑا ذریعہ اور مرد تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے نئے نئے گاہک پھانسنے کا آلۂ کار بن گئی ہے۔ یورپ کی پوری تجارت جنس زدگی کے مرض میں مبتلا ہے۔ اب عورتیں وہاں دھکے کھاتی پھرتی ہیں، اور کوئی ان کو پوچھتا تک نہیں۔ اِلا یہ کہ پوچھنے کی کوئی خاص وجہ ہو۔ اس وقت تک بھی مغربی ممالک میں مرد اور عورت ایک ہی قسم کے جو کام کرتے ہیں اس کا معاوضہ دونوں کو برابر نہیں دیا جا رہا ہے اور اس پر عورتیں شور مچا رہی ہیں۔ پھر جن میدانوں میں عورتوں اور مردوں کو برابر لاکھڑا کر دیا گیا ہے ان میں، چونکہ اللہ تعالیٰ نے فطرتاً عورتوں کو مردوں کے برابر نہیں کیا ہے،    اس وجہ سے عورت کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ مرد کی برابری نہیں کرسکی ہے۔ اس وقت بھی آپ دیکھیے مغربی ممالک ہوں یا اشتراکی ممالک، کہیں بھی ذمہ داری کے اُونچے مناصب عورتوں کو نہیں دیے جا رہے ہیں، بلکہ وہ مردوں کو ہی دیے جاتے ہیں۔ اس پُرفریب جال کے اثرات ہمارے ہاں بھی در آئے ہیں، اور کبھی حقوقِ نسواں کے نام پر اور کبھی قصاص و دیت کے مسئلے کی آڑ لے کر ایک گروہ ایسا اُٹھا ہے جس نے دلیل و بینہ کی راہ چھوڑکر مظاہرے کرنے اور جلوس نکالنے کی راہ اپنائی ہے۔ یہ گروہ جس کو قرآن میں حکمِ ستروحجاب نہ ملا اور حدیث میں اخفاے زینت کی تاکید نہ ملی، جس نے آج تک کبھی کوئی کارنامہ اسلام کے حق میں اور مغربیت کے خلاف انجام نہ دیا، جس نے رقص و سُرود کی مخلوط محفلوں کو زینت بخشی، جس نے قطاروں میں کھڑے ہوکر باہر سے آنے والے اغیار کا پوری نمایش حُسن کے ساتھ استقبال کیا، جس کے لیے سر پر دوپٹہ ٹکانا مشکل ہورہا ہے،   جن کے گھروں میں موجودہ دور کی ساری فضولیات کا دور دورہ ہے، جن میں سے بعض کو نماز کی توفیق نہ ہوئی ہوگی___ انھیں اسلام کے قانون دیت و قصاص کی تصحیح کے لیے سخت بے تابی لاحق ہوگئی ہے۔ جیسے اسلام میں یہی ایک حکم نازل ہوا تھا اور یہ درست ہوجائے تو پھر ٹھیک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تصور کے ساتھ مساوات نہ کبھی قائم ہوئی ہے، نہ ہوسکتی ہے، بلکہ عورت ان پُرفریب اصطلاحوں کے جال میں پھنس کر اس دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے۔

مساوات کا صحیح مفھوم ___ حق میں برابری

مساوات کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ عورت اور مرد انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں۔ جس طرح مرد قدر و احترام کا مستحق ہے، اسی طرح عورت بھی قدرواحترام کی حق دار ہے۔ جس طرح مرد کچھ خاص قابلیتیں اور قوتیں لے کر آیا ہے، اسی طرح عورت بھی کچھ مخصوص قوتیں اور قابلیتیں لے کر پیدا ہوئی ہے۔ جس طرح مرد اپنے کچھ خاص جذبات و عواطف اور کچھ فطری مقتضیات و مطالبات رکھتا ہے، اسی طرح عورت بھی اپنے کچھ خاص رجحانات و میلانات اور کچھ فطری مطالبات و مقتضیات رکھتی ہے۔ اس لیے عورت اور مرد دونوں کو اپنے اپنے فطری رجحانات و میلانات کے مطابق سورج اور چاند کی طرح اپنے اپنے دائروں میں قدرت کی منشا کی تکمیل میں سرگرم رہنا چاہیے۔ معاشرتی امور میں دونوں پر ان کے فطری صلاحیتوں کے لحاظ سے ذمہ داریاں ہونی چاہییں اور ان کی ذمہ داریوں کے اعتبار سے ان کو حقوق ملنے چاہییں۔ ہر ایک کی تخلیق سے فطرت کا جو منشا ہ اس کو وہ فطرت کے ضابطوں کے تحت اپنے اپنے دائرے کے اندر یکساں آزاد اور یکساں پابند رہ کر پورا کرے۔

اسلامی تصور میں تین باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے:

ایک یہ کہ عورت پر مرد اپنے حقوق سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر ظلم نہ کرسکے، اور ایسا نہ ہو کہ مرد اور عورت کا تعلق آقا و لونڈی کا تعلق بن جائے۔

دوسرے یہ کہ عورت کو ایسے تمام مواقع بہم پہنچائے جائیں جن سے فائدہ اُٹھا کر وہ نظامِ معاشرت کے حدود میں اپنی فطری صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکے اور تعمیرتمدن میں اپنا کردر بہتر سے بہتر انداز میں انجام دے سکے۔

تیسرے یہ کہ عورت کے لیے ترقی اور کامیابی کے بلند سے بلند درجوں تک پہنچنا ممکن ہو، مگر اس کی ترقی اور کامیابی جو کچھ بھی ہو، عورت ہونے کی حیثیت سے ہو۔ مرد بننا نہ تو اس کا حق ہے اور نہ مردانہ زندگی کے لیے اس کو تیار کرنا تہذیب و تمدن کے لیے مفید ہے۔

اس تصور کے نتیجے میں قرونِ اولیٰ میں عورت نے جو مقام و مرتبہ حاصل کیا اور تہذیب و تمدن کی جو ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں وہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم سب اپنے شان دار ماضی سے بخوبی واقف ہیں۔

دونوں نظریات میں فرق

آپ نے غور کیا کہ مساوات کے یہ دونوں نظریے اپنی اساس و بنیاد اور اپنے نتائج و اثرات میں اتنے مختلف ہیں کہ جس طرح مشرق و مغرب کو یک جا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح دونوں نظریات کو جمع کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان دونوں نظریات کی اساس پر حیاتِ اجتماعی کی جو عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں، وہ اپنی بنیاد، اپنے ڈھانچے، اپنے طرزِ تعمیر، اپنی ہیئت مجموعی اور اپنے معاشرتی فوائد و مقاصد کے لحاظ سے اس درجہ مختلف النوع ہوتی ہیں کہ ممکن نہیں ہے کہ ایک کا پیوند دوسرے کے ساتھ لگایا جاسکے۔ اگر اس قسم کی کوئی کوشش کی گئی تو اس سے ہماری حیاتِ اجتماعی کے کسی ایک گوشے میں خرابی پیدا نہ ہوگی بلکہ یہ ایک غلطی ہمارے پورے نظامِ اجتماعی کو بے ہنگم بناکر رکھ دے گی۔

اس لیے اگر آپ مغربی نظریۂ مساوات کے معتقد ہیں اور اسی نظریے کو رہنما مان کر چلیں گے تو ہرقدم پر اسلام سے آپ کی لڑائی ہوگی، اور یہ لڑائی صرف اس اسلام سے نہیں ہوگی جسے آپ فقہا اور ملّائوں کا اسلام کہتے ہیں بلکہ براہِ راست اللہ کی کتاب اور رسولؐ کے احکام سے لڑائی ہوگی۔ اس لیے آپ کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ یا تو آپ اس غلط نظریے کو ترک کرکے سیدھے سیدھے اسلام قبول کرلیجیے، یا اسلام کا نام لینا چھوڑ دیجیے۔ صاف صاف اپنے ارتداد کا اعلان کر دیجیے اور قرآن و رسولؐ کی اطاعت سے الگ ہوکر جس وادی میں آپ کا جی چاہے بھٹکتے پھرئیے۔(جاری)


مقالہ نگار تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں اور نائب ناظمہ حلقہ خواتین پنجاب ہیں-