سوال: ہم آسٹریلیا میں پاکستانی مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ہمارے چاروں طرف گورے آسٹریلین یا یورپین رہتے ہیں۔ یہاں ہر سال کرسمس اور نیا سال بڑی دھوم سے منایا جاتا ہے۔ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ آیا کرسمس یا ایسٹر یا نئے سال کے موقعے پر ہم مسلمان اپنے ہمسایوں (جن میں عیسائی، یہودی اور لادین وغیرہ قسم کے سب لوگ شامل ہیں) کو کرسمس مبارک یا نیاسال مبارک کہہ سکتے ہیں؟ کیا اُن کی خوشی کے موقعے پر ہم اُن کے گھرجا سکتے ہیں اور مبارک باد دے سکتے ہیں اور حلال اور حرام کا لحاظ رکھتے ہوئے اُن کو تحفہ تحائف دے سکتے ہیں؟یاد رہے کہ آسٹریلین گورے (صرف نام کے عیسائی ) ہمارے ساتھ تو بہت اچھی طرح پیش آتے ہیں اور اچھے دوست ثابت ہوتے ہیں۔ ہر شہر میں ہماری مساجد موجود ہیں اور اسلام پر عمل کرنے ، اسے پھیلانے اور تبلیغ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہماری تبلیغی کاوش کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
حضور اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کا غیر مسلموں کے ہاں آنا جانا اور حلال و حرام کا لحاظ رکھتے ہوئے اُن کے ہاں کھانا کھانا ہماری اسلامی تاریخ کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں کچھ مسلم علما نے غیر مسلم کو سلام کرنے، عیدمبارک کہنے یا اُن کے ہاں آنے جانے کے معاملے میں سخت رویہ اختیار کیا ہے، اور سلام کرنے، عید مبارک یا تحفہ تحائف کے لین دین کو ناجائز ٹھیرایا ہے۔آپ بتائیے کہ ہم لوگ اسلام کو ایک بین الاقوامی مذہب کے طور پر اور ایک روا دار آئیڈیالوجی کے طور پر کیسے پھیلا سکتے ہیں، جب کہ ہم اُن کی خوشی کے موقعے پر تنگ دلی کا مظاہرہ کریں اور اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھے رہیں؟اگر ہم اسلامی حدود میں رہتے ہوئے اُن کو مبارک باد کہہ دیں، گھروں میں جائیں اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرلیں تو اس سے اسلام کے مقصد کو کون سا صدمہ پہنچے گا؟
جواب: آسٹریلیا اور دیگر ممالک جہاںمسلمان تعلیم یا ملازمت کی غرض سے مقیم ہوں، اسلام کی دعوت کے لیے وسیع میدان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور باشعور اہل ایمان جنھیں قرآن کریم شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (الحج۲۲:۷۸) سے تعبیر کرتا ہے جہاں کہیں بھی ہوں ان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ حالات کی مناسبت سے دعوت کی توسیع کے لیے کوشاں ہوں۔
مغربی ممالک میں سفید فام حضرات کا گذشتہ دو تین صدیوں میں عیسائیت سے تعلق کم ہوا ہے اور لادینیت میںاضافہ ہوا ہے۔ گو، روایتی طور پر یورپ ، امریکا اور آسٹریلیا کی سفید فام نسل یا افریقی النسل آبادی میں ایسے بہت سے تہوار بڑے اہتمام سے منائے جاتے ہیں جن کی ماضی میں ان کے مذہب کے ساتھ نسبت رہی ہو۔ آج کرسمس ہو یا ایسٹر، ان کی حیثیت ایک دنیوی تہوار بلکہ ایک معاشی سرگرمی کی ہوگئی ہے۔ عموماً ان دونوں مواقع پر خاندان کے افراد کا دور دراز سے سفر کرکے یک جا ہونے اور ایک ساتھ کھانے میں شرکت کی روایت بن گئی ہے۔ گویا یہ معاشرتی اورسماجی تہوار بن گئے ہیں اور ان کی مذہبیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود کرسمس اور ایسٹر کے موقع پر کیتھولک فرقے کا سربراہ اپنے ماننے والوں کو روحانی پیغام دیتا ہے اور چرچوں میں خصوصی تقریبات اور دعائیں بھی کی جاتی ہیں۔
اہل ایمان کا کسی ایسی تقریب میں کہ جہاں اسلامی شعار کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، اہل اسلام کے خلاف منصوبہ بندی کی جا رہی ہو، یا مشرکانہ عبادات کی جارہی ہوں، ان میں شرکت کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ قرآن کریم نے ان سے اجتناب کرنے اور ایسے مواقع سے تیزی سے گزر جانے کی ہدایت کی ہے: ’’(اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغوچیز پر ان کا گزر ہو جائے توشریف انسانوں کی طرح گزر جاتے ہیں‘‘ (الفرقان۳۵:۷۲)۔ چنانچہ اگر یہ معلوم ہو کہ کسی دعوت میں شراب اور اس کے لوازمات کا اہتمام ہونا یقینی ہے تو اس میں شرکت سے لازمی طور پر اجتناب کرنا چاہیے، یا یہ معلوم ہو کہ کہیں محفل رقص منعقد کی جا رہی ہے اور کسی غیر مسلم پڑوسی نے دعوت دی ہے تو ہمسایگی کے حق کے باوجود اس میں شرکت سے معذرت کرنی ہوگی۔
کرسمس اور ایسٹر بظاہر معاشرتی اور سماجی نوعیت کے تہوار بن گئے ہیں، اور جو لوگ مسلم ممالک سے باہر مقیم ہیں، ان کے لیے ان تہواروں سے اپنے آپ کو بچانا ایک معاشرتی اور سماجی مشکل بن گیا ہے۔ اس حقیقت واقعہ کے پیش نظر، اگر خالصتاً دعوتی نقطۂ نظر سے کسی پڑوسی کو کرسمس یا ایسٹر کے موقعے پر کوئی تحفہ ، زبانی مبارک باد یا کارڈ بھیجا جائے اور اس طرح وہ اسلام کی دعوت سے قریب آ سکے تو اس حد تک ایسے کام کا کرنا حرام نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ حرام و حلال کو قرآن و سنت نے متعین کر دیا ہے اور مشتبہات سے احتیاط کا حکم دیا ہے۔
آپ کا خیال درست ہے کہ اہل کتاب خصوصاً یہود و نصاریٰ کے ساتھ معاشرتی اور معاشی تعلقات پر تو کوئی پابندی نہیں ہے لیکن انھیں راز دار بنا کر،نیز ان پر وہ اعتماد کرنا جس کا ایک صاحبِ ایمان مسحق ہے، قرآن و سنت کے منافی ہے۔ حضور نبی کریم ؐ نے ایک یہودی کے بھیجے ہوئے کھانے کو قبول فرمایا(یہ الگ بات ہے کہ آپؐ اور اسلام سے بغض کی بنا پر اس کھانے کو زہر آلود کر دیا گیا تھا)۔ ایسے ہی غیر مسلموں کی تیمارداری بھی سنت سے ثابت ہے۔ غیر مسلموں کی طرف سے اگرسلام میں پہل کی جائے تو جواب میں صرف ’وعلیکم ‘کہنا بھی اسلامی آداب میں شامل ہے۔ اصل مسئلہ فقہی باریکیوں کا نہیں ہے بلکہ فقہ الدعوۃ کا ہے، اور دعوت اسلام کو حکمت، موعظہ حسنہ اورعملِ صالح کے ساتھ دینے کا ہے۔ اس بنا پر غیر مسلموں کو شروع کے مطابق خوش آمدید کہنا، انھیں صبح بخیر یا شب بخیر کہنایا کرسمس یا ایسٹر پر مبارک باد دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی دفترمیں کام کرنے والے ایک عیسائی یا یہودی کی ترقی ہو اور آپ اسے ایک سماجی روایت کے طور پر مبارک باد دیں۔
اسلام ایک دعوتی دین ہے اور ہر مسلمان مرد اور عورت پر اجتماعی اور انفرادی حیثیت میں دین کی دعوت دینا فرض ہے۔ اس غرض کے لیے مخاطب کی زبان، ثقافت اور رہن سہن سے واقفیت حاصل کرنا دعوتی حکمت عملی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ مسلمان، جو مغربی دنیا میں مقیم ہیں، وہاں بسنے والے افراد کے ساتھ روابط قائم کریں، اور ایسے تمام کاموں سے مکمل طور پر بچتے ہوئے جن میں شرک اورممنوعات کا ارتکاب ہوتا ہو، حکمت کے ساتھ غیر مسلموں تک اپنی بات کو پہنچائیں۔
ایک ضمنی لیکن اہم پہلو یہ بھی سامنے رہے کہ غیر مسلموں کو دعوتی نقطۂ نظر سے اسلام سے قریب لانے کے لیے کرسمس یا ایسٹر پر مبارک باد دینے کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب میں مقیم مسلمان اپنے بچوں کی خوشی کے لیے اپنے گھر میں کرسمس کا درخت مع تزئینی روشنیوں کے لگائیں، اور اس عمل کے ذریعے وہ یہ سمجھیں کہ ’وسعت نظر‘ کا اظہار ہوگا۔ ایساکرنا دین کی واضح تعلیمات کے منافی ہے۔ اللہ کے رسولؐنے غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے کی مکمل ممانعت کی ہے۔ اس لیے ان کے تہواروں کا منانا اسلامی طور پر جائز نہیں ہو سکتا۔ نہ صرف یہ بلکہ جو لوگ باہر مقیم ہیں ان کا فرض ہے، اپنے بچوں کو ان تہواروں کے نہ منانے پر عقلی دلائل دے کر مطمئن کریں۔ اسلامی تہواروں ، دونوں عیدوں کے موقع پر گھر میں خصوصی اہتمام کریں اور بچوں کو تحائف، اچھے کھانے اور اچھے لباس کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر کھیلوں اور مقابلوں میں شرکت کروائیں تاکہ ایک صحت مند متبادل سرگرمی ان کے سامنے آئے۔
اسلام لازمی طور پر دیگر مذاہب کے متوازی وجود پر اعتراض نہیں کرتا، لیکن وہ ثقافتی اورمذہبی تکثیریت کو گوارا کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت اور دیگر مذاہب کی گمراہی کا اظہار کھل کر کرتا ہے۔برداشت اور رواداری کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مذہب کو سچا اور حق مان لیاجائے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ الہامی مذاہب اصلاً ایک ہی مأخذ سے نکلے ہیں،لیکن بعد میں ان میں وہ چیزیں شامل کر لی گئیں جن کا کوئی ثبوت اور دلیل الہامی ہدایت میں نہیں تھی، جب کہ اسلام قرآن وسنت کی بنا پر جیسا نازل ہوا، ویسا ہی اپنی اصل صورت اور غیر منحرف شکل میں محفوظ ہے۔ اور انسانیت کے تمام مسائل کا عقلی اور نقلی حل پیش کرتا ہے۔
مغرب میں دعوت دین دینے والے افراد کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ مقامی افراد کے مذہب، روایات تہواروں اور زبان سے پوری واقفیت حاصل کریں، تاکہ وہ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں سے حقائق پر مبنی باحکمت مکالمہ کر سکیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)