ان دنوں ہماری حکومت سبھی دائروں میں، لیکن خاص طور پر تعلیم کے دائرے میں جو فیصلے کر رہی ہے، ان میں سے بعض بطورِ خاص مضحکہ خیز ہیں سندھ میں تعلیمی کمیٹی نے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ ۲۰۱۳ء سے سندھ کے تمام اسکولوں میں چینی زبان بطور لازمی مضمون پڑھائی جائے۔ غالباً وزیر اعلیٰ نے اس عظیم تاریخی فیصلے کا کریڈٹ وزیر تعلیم کو نہ دینے کی غرض سے اپنی صدارت میں یہ فیصلہ فرمایا۔ اب یہ مسائل کہ ایک ڈیڑھ سال میں اتنی بڑی تعداد میں چینی زبان کے اساتذہ کس طرح تیار ہوں گے، کیا یہ چین سے درآمد کیے جائیں گے اور حکومت چین پاکستان سے اپنی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی کی خاطر ان اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرے گی، اور پاکستان کے لاکھوں نوجوان چینی زبان جیسی کچھ پڑھائی جائے گی پڑھ کر، کیا تیر ماریں گے، ہم جیسے فکر مندوں کا درد سر ہوں تو ہوں، فیصلہ کرنے والے اس سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں زبان کے مسئلے کا جو حشر کیا گیا ہے وہ بھی خوب ہے۔ ایک مسئلہ ذریعۂ تعلیم کا ہے۔ ۱۹۷۳ میں دستور میں یہ طے کیا گیا کہ ۱۵ برس میں اردو بطور سرکاری زبان نافذ کر دی جائے گی، لیکن قومی تقاضوں کے مطابق اور پاکستان کی ترقی کے لیے لازمی ہوتے ہوئے بھی آج ۳۸ سال ہو گئے (۷۳ء سے پہلے کے ۲۶ شمار نہ کیے جائیں تو)لیکن اردو کے نام پر کچھ اداروں میں کچھ افراد کی پرورش کے علاوہ، انگریزی کے بجاے اردو کو دفتروں میں نافذ کرنے، عدالتوں کی زبان بنانے اور کاروبار مملکت اردو میںچلانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ ہمارے حکمران طبقوں کے مرعوب اور غلام ذہن انگریزی کے حوالے سے صحیح فیصلہ کرنے سے معذور ہیں۔ کتنا ہی بتایا جائے کہ چین، جاپان، جرمنی، ایران، عرب ممالک اور دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک اپنی اپنی زبانوں میں ملک کا سارا نظام چلاتے ہیں، ذریعہ تعلیم بھی یہی زبان ہوتی ہے، ذریعہ روزگار بھی یہی ہوتی ہے___ چین کی ترقی تو آنکھیں کھولنے والی ہے___ لیکن ہمارے ہاں انگریزی اور ترقی کو لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا ہے۔ بجاے اس کے کہ انگریزی کو وہ مقام دیا جائے جو اس کا جائز حق ہے، اور اردو کو واقعتا قومی زبان کے طور پر اختیار واستعمال کیا جائے، حال یہ ہے کہ جسے انگریزی نہ آتی ہو، کتنا ہی عالم فاضل ہو، اسے ہم غیر تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ کسی انٹرویو میں کوئی انگریزی میں گٹ پٹ کر جائے، تو اصل مضمون کا علم نہ رکھنے کے باوجود وہی منتخب ہو جاتاہے۔ کمزور انگریزی اور ناقص تدریس کا یہ بقراطی حل نکالا گیا کہ پہلی جماعت سے انگریزی لازمی کر دی گئی ہے۔ اس پر کیسا اور کتنا عمل ہو رہا ہے، اس سے ملّی اور قومی مقاصد کو کیا نقصانات ہورہے ہیں، ہر ہوش مند انسان دیکھ سکتا ہے۔
ایک مسئلہ مادری زبان کا بھی ہے۔ سندھ میں بطور مادری زبان بشمول کراچی لازمی سندھی نافذ کر دی گئی۔ ۱۹۷۲ء میں اس پر لسانی فسادات کی آگ بھڑکی۔ یقینا کراچی والوں کو بھی زور زبردستی کے بغیر اپنے بھائیوں کی سندھی زبان آتی ہو تو کوئی ہرج نہیں۔اسکولوں میں سندھی زبان کی تعلیم خوش اسلوبی سے اس لیے نافذ ہو گئی کہ سندھی کے اساتذہ نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے کراچی میں طالب علموں کو دل کھول کر نمبر دیے اور اس سے طلبہ کوبہتر گریڈ ملے۔ سندھی آئے نہ آئے، نمبرخوب آ گئے۔ اب جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ اسکولوں میں چوتھی کلاس سے سندھی لازمی ہے۔ چھٹی سے بھی ہو سکتی تھی تاکہ سرکار پر صرف ثانوی اسکولوں کے اساتذہ کا بوجھ رہے لیکن چوتھی کلاس سے کرکے ہر پرائمری اسکول میں ایک سندھی ٹیچر کی جگہ بن گئی۔ شاید یہی مطلوب تھا، سندھی زبان کی ترویج ضمنی بات تھی۔ کراچی میں عموماً پرائمری تعلیم خواتین نے سنبھالی ہوئی ہے۔ اس میں ایک سندھی مرد استاد کے آنے سے، جب کہ اس کے لیے کام کا بوجھ بھی صرف دو کلاسوں کا ہو، جو مسائل پیدا ہو رہے ہوں گے ان کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب پالیسی اس بنیاد پر بنے کہ ایک ہی فیصلے سے کئی ہزار لوگوں کے لیے ملازمت مہیا ہوجائے، خزانے پر غیر ضروری بار کا احساس نہ ہو تو کیا کہا جائے!
زبان ہی کی بات ہو رہی ہے تو انھی دنوں میں جب سندھ سے چینی زبان کا فیصلہ آیا تو پنجاب سے چھٹی کلاس سے عربی لازمی کے سلسلے میں وضاحت کی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں دینی اور قومی نقطۂ نظر سے بہت سے اچھے فیصلے کیے گئے جنھیں شمار کیا جائے تو ۱۰۰ سے زائد ہوتے ہیں۔ ان میں ایک یہ تھا کہ چھٹی ، ساتویں، آٹھویں میںعربی لازمی کر دی گئی۔ اس کی لازمی درسی کتاب بھی ایک ایسے امریکی نو مسلم یوسف طلال نے مرتب کی، جو بنوری ٹائون کے مدرسے سے فارغ التحصیل تھے۔ اس کا اصل فائدہ یہ ہوا کہ ہمارا جو بچہ مڈل پاس کرتا ہے اسے عربی سے شدبد ہو جاتی ہے۔ بنیادی قرآنی عربی سے شناسا ہو جاتا ہے۔ اب وہ جو نمازوں میں تلاوت ہو اس کا مطلب سمجھتا ہے۔ اسے عالم فاضل بنانا مقصد نہ تھا، اتنی بنیاد اسے دین اور قرآن سے تعلق اور ایمان کو تازہ رکھنے کے لیے بہت مفید ہے۔ اس شناسائی سے کسی کو خلیج یا سعودی عرب میں ملازمت میں سہولت ملی، تویہ اس کا مزید فائدہ ہے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہے۔ حال ہی میں انھی تین کلاسوں میں کمپیوٹر کی تعلیم لازمی کی گئی تو یہ غلط فہمی پھیل گئی کہ یہ لازمی عربی کی بجاے رائج کی جا رہی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے حکومت پنجاب نے مراسلہSO (SE-IV) 2-34/2008 مورخہ ۲۳؍اگست ۲۰۱۱ء جاری کیا کہ عربی حسب سابق لازمی رائج رہے گی، کمپیوٹر تعلیم اضافی لازمی مضمون ہے۔ عربی کی یہ تعلیم نئی نسل کے ایمان اور دین سے تعلق اور اپنے مستقبل کی بہتر تعمیر میں مثبت کردار ادا کرتی رہے گی۔
جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا تب اس وقت بھی زبان کا مسئلہ اٹھا تھا بلکہ جبھی سے اس مسئلے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ بھی اسی سے جوڑا جاتا ہے۔ پاکستان میں صوبائیت کے فتنے کے پیش نظر اس وقت ایک راے یہ تھی کہ عربی کو پاکستان کی سرکاری اور قومی زبان بنایا جائے اور یہ تجویز آغا خان چہارم نے پیش کی تھی۔ اسٹیٹ بنک کے پہلے گورنر اور پلاننگ کمیشن کے پہلے چیئرمین جناب زاہد حسین بھی یہی راے رکھتے تھے۔ اس فیصلے کو سب مسلمان دل و جان سے قبول کرتے تو ۱۵، ۲۰ سال میں یہ تبدیلی آجاتی۔ غیر ملکی زبان جب ظالم فاتح کی زبان ہو اور اس کے خلاف مزاحمت ہو تب بھی وہ رائج ہو جاتی ہے۔ ہندستان میں انگریزی اور فرانس اور سپین کے مقبوضات میں فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں کی ترویج اس کی مثال ہیں۔ لیکن عربی کی مزاحمت نہ ہوتی بلکہ سر آنکھوں پر لیا جاتا۔ قیام پاکستان کے بعد اولین دور میں مسلمانوں کی اسلام کے لیے جو گرم جوشی اور جذبات تھے ان کے پیش نظر یہ فیصلہ آسانی سے نافذہوتا اور ہمارے بہت سارے مسائل حل کرتا۔ ہم خلیجی ممالک اور عرب دنیا سے قریب ہو کر مسلم اُمت کا مضبوط حصہ بنتے تو بہت زیادہ فوائد حاصل کر لیتے۔
چین سے ہمارے رابطے بڑھ رہے ہیں۔ چین ہمارے پڑوس سے دنیا کی ایک عظیم سوپرپاور کی حیثیت سے ابھرا ہے۔ اکیسویں صدی کو چین کی صدی بھی کہا جانے لگا ہے خواہ امریکا کتنا ہی اس صدی پر دعویٰ کرے۔ امریکا کا تو اب چل چلائو ہے۔ زوال نوشتہ دیوارہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انگریزی سے فارغ ہوں اور چینی کو اوڑھ لیں۔ مسئلے کا صاف اور سیدھا حل یہ ہے کہ حکومت کوئی ایسا ادارہ بنائے جو ملک کے ۲۰، ۲۵ شہروں میں، خصوصاً چار پانچ بڑے شہروں میں چینی زبان میں مہارت کے لیے مختلف کورس کرائے۔ اورچین سے تجارتی و ثقافتی تعلقات بڑھانے کے لیے جو مہارت اور جتنے افراد درکار ہیں ان کی تربیت کا مناسب انتظام کرے۔ انگریزی کے مسئلے کا بھی یہی حل ہے۔ یہ پہلی جماعت سے ہرگزلازمی نہ کی جائے۔ صورت حال یہ ہے کہ انگریزی کو ملک میں عملی زندگی میں ایک ایسا مقام حاصل ہے کہ جسے آگے بڑھنا ہے اس کے لیے انگریزی کی مہارت لازمی ہے۔ اگر ہم انگریزی کو صرف تحقیق کی اور بین الاقوامی رابطے کی زبان تک محدود رکھیں تو اس ضرورت کو بھی اسی طرح پورا کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے بہت میٹرک کے بعد لازمی کی جائے۔ جنھیں انگریزی نہیں آتی، وہ اب بھی بھوکے نہیں مرتے لیکن انگریزی کی مصنوعی اہمیت ختم ہو جائے تو حقیقی قابل اور عالم لوگ ہر شعبے میں قیادت کے لیے آگے آئیں گے۔ ابھی تو انگریزی کی وجہ سے امتحانات میں کامیابی کا اوسط خوامخواہ کم ہو جاتا ہے۔ دوسری زبان میں سمجھنے کا ذہنوں پر بوجھ نہیں ہوگا اور چینیوں یا جاپانیوں اور جرمنوں کی طرح ہم بھی اپنی زبان، یعنی اردو میں مست رہیں گے تو زیادہ فطری اور بہتر انداز سے ترقی کریں گے اور مادری زبان اور اردو زبان کے ساتھ انگریزی کے ناروا بوجھ سے آزاد ہوں گے۔
بات چینی زبان کی تعلیم لازمی کرنے سے شروع ہوئی تھی، بعد میں اعلان آیا کہ لازمی نہیں اختیاری ہوگی۔ جب اختیار ہو اور کوئی اختیار نہ کرے اور خوامخواہ کوئی کیوں اختیار کرے، تو یہ عملاً نفی کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ چینی زبان لازمی کرنے کا یہ فیصلہ ہمارے تعلیمی بزر جمہروں کو کس نے سجھایا۔ایسے مضحکہ خیز فیصلے کرکے اپنے کو نشانۂ تضحیک کیوں بنایا جارہا ہے!