مشرق و مغرب میں علومِ عمران کی بنیاد جن تصورات پر ہے، ان میں سے ایک کا تعلق اقلیت اور اکثریت کے باہمی تعلق، نفسیات، معاشی مضمرات اور سیاسی اور ثقافتی حکمت عملی سے ہے۔ ایسے خطوں میں جہاں مسلمان ایک بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ملک کی مجموعی آبادی میں کم تر تناسب رکھتے ہوں، عموماً غیر محسوس طور پر ایک اقلیتی نفسیات وجود میں آجاتی ہے، جس میں مدافعانہ اور معذرت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اکثریت سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اقلیت کے انسانی حقوق کے حصول کے لیے مدد و تعاون کریں۔ بعض اوقات اکثریت کے ساتھ سیاسی یا معاشی الحاق کر کے اپنے حقوق کے حصول کے لیے بھی جدوجہد کی جاتی ہے، چنانچہ ثقافتی تشخص ہو یا معاشی خودانحصاری یا معاشرتی تحفظات (مثلاً پرسنل لا وغیرہ)، ان سب کے حوالے سے اقلیت بمقابلہ اکثریت کا ماڈل انسانوں کے زاویۂ نگاہ اور تصورِ مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی برعظیم پاک و ہند کے علمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے ایک بلندپایہ استاد کا مقام رکھتے ہیں۔ دینی و تاریخی موضوعات پرآپ کی اعلیٰ تحقیقی تصانیف علمی حلقوں میں آپ کا سکّہ منوا چکی ہیں۔ زیرنظر کتاب: مکّی اسوہ نبویa، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، آپ کے آٹھ خطبات پر مشتمل ہے جن کے عنوانات یہ ہیں:
حرفِ آغاز میں مصنف نے ہم عصر اور دیگر علما و مؤرخین کے کام پر ایک مجموعی تبصرہ یہ کیا ہے: ’’ہمارے علما نے اسلام کو گذشتہ صدیوں میں ایک حاکم مذہب بنا کر پیش کیا۔ اس کی فقہ اسلام کے صرف نظامِ حاکمیت کو اُجاگر کرتی ہے۔ اس کی عام دینی تعلیمات کے بارے میں یہ تصور و عمل بنا کہ وہ حکمرانی کی فضا میں بارآور ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ریاست کا قیام اور اقتدار کا حصول ایک بنیادی عنصر بن گیا۔ اس حد تک تو بات ٹھیک تھی کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو غالبیت حاصل کرنے پر اُبھارتا ہے اور مغلوبیت و محکومیت کو مجبوری میں برداشت کرتا ہے، لیکن اسلام کی ہر آن و ہر حال میں غالبیت و حکمرانی کے تصور نے بڑی خرابی برپا کی۔ علما و فقہا اور اہلِ راے کے علاوہ یہ فکروتصور عوام الناس کے دلوں اور دماغوں میں اس طرح راسخ ہوگیا کہ حکمرانی مسلمانوں کی سائیکی بن کر رہ گئی۔ اتفاق سے تاریخی ارتقاء ات اور انقلابات نے بھی اسلام کو ایک حکمراں مذہب اور غالب نظامِ حیات بنا کر پیش کیا‘‘۔ (ص vii،viii)
مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: ’’تاہم اس دورِ ابتلا و آزمایش اور زمانۂ مغلوبیت و محکومیت میں علما و عوام دونوں کے ذہن سے حکمرانی کی خوبو نہیں گئی۔ علما، صاحبانِ فکرودانش اور اہلِ بینش و قلم ہونے کے باوجود اسلامی نظام کی حکمرانی کی تاریخ لکھتے رہے اور عوام، ان کے ایجاد کردہ نشے میں سرمستِ خوے سلطانی رہے۔ ان کی فکروعمل میں اسلام اور اسلامی ریاست کے شان دار ماضی کی حکمرانی کے کارنامے جلوہ آرائی کرتے رہے اور وہ اپنی تحریروں سے حکمرانی و سلطانی کے نغمے بکھیرتے رہے جن سے عوام الناس بھی حظ و نشاط حاصل کرتے اور حکمرانی کے جلوے دیکھتے رہے۔ دونوں میں سے کسی کو حقیقتِ حال کو سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
’’اس دورِ مغلوبیت میں اسلامی علوم و فنون کے ذخیرے میں برابر اضافے ہوتے رہے اور ان میں سے بہت سے عظیم الشان و بے مثال بھی ہیں۔ تفسیر و حدیث ہو یا فقہ و تفقہ، تاریخ و سیرت ہو یا کلام و فلسفہ یا دوسرے سماجی اور سائنسی علوم و فنون، سب مالا مال ہوئے لیکن ان سب کی بنیاد قدیم علوم و فنون کے اساطین پر استوار تھی۔ قرونِ حاکمیت میں جو نہج، بنیاد، طریقہ اور فکری و تحریری انداز استوار ہوگیا تھا، اسی پر بعد کی تمام کتابیں لکھی جاتی رہیں، حتیٰ کہ فقہ اور تاریخ میں بھی اسلامی ریاست کے اندازِ حکمرانی کی حاکمیت قائم رہی اور کسی کو بھی فقہِ اقلیت مرتب کرنے کی توفیق ہوئی اور نہ تاریخِ مغلوبیت رقم کرنے کی ہمت پڑی‘‘۔ (ص viii - ix)
اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: ’’یوں تو پوری سیرتِ طیبہ کا اصل تجزیہ و تحلیل باقی ہے اورمدتوں باقی رہے گا مگر مکّی دور کا تجزیہ تو انتہائی ناقص ہے۔ ہمارے بزرگ اہلِ قلم میں سے کسی نے یہ نہیں سوچاکہ اسلامی تاریخ اور نبوی سیرت کا ارتقا خالص دورِ محکومی میں ہوا تھا‘‘۔ (ص x)
مصنف کا یہ خیال ہے کہ: ’’اس حقیقت کا ادراک بھی ذرا کم کم ہے کہ مکّی دور اسلام کا دورِمغلوبیت تھا اور مسلمانوں کا زمانہ اقلیت۔ ان ابتدائی ۱۳ برسوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو احکام مکّی سورتوں میں دیے گئے، ان کا تجزیہ تو بالکل ہی نہیں کیا گیا اور جو کیا گیا وہ تجزیہ ہی نہیں۔ واقعاتِ تاریخ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کیسے مرتب کی؟ اس کا پتا بھی نہیں چلتا اور ان کے تجزیے کی روشنی میں اقلیت کی تاریخ، فلسفۂ تاریخ، طریقِ زندگی، منہجِ عمل اور اندازِ فکر مرتب کرنے کا ہوش بھی نہیں آیا۔ حالانکہ اس مکّی دورِ اقلیت میں اسلام کے ایک خاص انداز اور مسلمانِ عالم کی ایک حیثیت کے لیے کامل دستور موجود ہے‘‘۔ (ص x)
اس ضمن میں ہماری پہلی گزارش یہ ہے کہ مکّی دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کا ایک زاویہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کو ایک ’اقلیت‘ اور مشرکینِ مکّہ کو ایک اکثریت مان لیا جائے لیکن اس میں جو امر مانع نظر آتا ہے، وہ اسلام کا بنیادی مزاج ہے۔ کلمۃ اللہ کی پہچان اس کا عُلیہ، بلند اور بلند ترین ہونا ہے، اور تعداد میں کم ہونے کو ’محکومیت‘ قرار دینا مکّہ کی دعوتی تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کہا جاسکتا۔ اسلام یا اسلامی جماعت محکوم تو جب ہوتی جب مکّہ میں کوئی سیاسی، معاشرتی اور معاشی اقتدار ہوتا جس میں اقلیت کی تعداد کے تناسب سے کوئی نمایندگی کی جگہ ہوتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اقلیتی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہے ہوتے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ حق کے پیروکار چاہے ۱۰۰ سے کم ہوں، ان سے ہزارہا افراد خائف و لرزاں ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس حوالے سے جو اصول سورئہ انفال میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ۲۰ صابرین ہوں تو ۲۰۰ مشرکین پر غالب آئیں گے۔ اس تناظر میں مکّہ میں مسلمان ’محکوم‘ کس زاویے سے بن سکتے ہیں۔ وہ تو قلتِ تعداد کے باوجود اہلِ مکّہ کے لیے ایک عظیم خطرہ تھے۔
دوسری گزارش یہ کہ مکّی دور کو محکومیت کی طرح ’مغلوبیت‘ کہنا بھی محلِ نظر ہے۔ ’مغلوبیت‘ اس ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں بعض صلاحیتوں کے باوجود کوئی فرد یا قوم دوسری قوم، تہذیب یا ثقافت سے مرعوب ہوکر اس کے اطوار، طرزِفکر یا انداز کو اپنا لے اور اس کا اپنا تشخص دب جائے، جب کہ مکّی دور میں لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اظہار جمعیت ِ صحابہؓ کی ہر ہر ادا سے ہوتا ہے۔ توحید کا مطلب ہی یہ تھا کہ لا غالب الا ھوتو وہ ’مغلوب‘ کیسے ہوتے؟
’حرفِ آغاز‘ کے بعد آنے والے سات ابواب محترم پروفیسر صاحب کے تاریخی واقعات کو تحقیقی انداز میں پیش کرنے کی دلیل ہیں۔ مراجع و مصادر بھی اسی بات کی شہادت دیتے ہیں لیکن ان سات ابواب میں گو، انتہائی قیمتی مواد ہے لیکن مسلم اقلیتوں کے مسائل سے بجاے خود گہرا تعلق نظر نہیں آتا۔ اگرچہ جابجا اقلیت کی اصطلاح کا استعمال ہوا ہے، البتہ آخری باب پوری کتاب کا حامل کہا جاسکتا ہے۔ اس باب میں مسلم اقلیتوں کے حقیقی مسائل کے حوالے سے داعیانہ حکمت عملی کی روشنی میں جو تجاویز دی گئی ہیں، وہ قابلِ تعریف ہیں، تاہم بعض مفروضات سے شدید اختلاف کیا جاسکتا ہے، مثلاً: ’’سیرتِ نبویؐ میں مسلم اقلیتوں کے لیے اسوئہ نبوی موجود ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی تعلیمات و الٰہی ارشادات کے پس منظر میں ۱۳ برسوں تک مکّی مسلم اقلیت کی تعمیروارتقا کا ایک نقشہ تیار کیا۔ قریشِ مکّہ اور اکابر شہرِ الٰہی کی اشرافیہ کی روایاتِ حکمرانی اس مسلم اقلیت کا پیش منظر تھیں‘‘۔ (ص ۲۷۹)
آٹھویں باب کے افتتاحی مجلے کا بقیہ نصف میری ناقص راے میں نہ تاریخی طور پر اور نہ فکری طور پر ہی قابلِ قبول ہے۔ گویا کہا یہ جا رہا ہے کہ مکّی دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کے پس منظر میں جو منہج دعوت اختیار فرمایا، وہ مسلمانوں کو اقلیت مانتے ہوئے بنایا گیا اور مدینہ سے بالکل مختلف حکمت عملی اس غرض سے بنائی کہ اسلام جہاں کہیں بھی ایسی صورت حال میں ہو کہ غیرمسلموں کی اکثریت ہو تو مکّی دور کی ہرسنت کو مدنی دور کی ہر سنت پر فوقیت دی جائے۔ مزید یہ کہ کیا واقعی مکّی اسوہ کسی ’اقلیت زدہ مغلوب‘ ذہنیت کا پتا دیتا ہے؟ کیا مکّی دور سے ’تبرج جاہلیہ‘ کے ساتھ کوئی مفاہمت اختیار کی گئی یا اس کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا؟
ایسے ہی یہ کہنا کہ: ’’اسی نظامِ قدرت اور قانونِ فطرت کے مطابق یہ اصول و عمل طے پاگیا کہ مسلم اقوام ہمیشہ اقلیت سے آغاز کریں گی، قوانینِ الٰہی اور ارشاداتِ نبویؐ کے مطابق عمل کریں گی، تو رفتہ رفتہ اقلیت کے عنصری نشوونما کا قانون جاری ہوگا اور وہ ان کو مختلف مراحل ارتقا اور درجاتِ ترقی سے گزار کر اکثریت کی طرف لے جائے گا‘‘۔ (ص ۲۸۱) یہ ایک مفروضہ ہے جس کی کوئی دلیل اورثبوت فراہم نہیں کیاگیا۔
بہ ایں ہمہ یہ باب ہر داعی کے لیے غور کا مواد فراہم کرتاہے۔ گو ایک اقلیتی زاویے سے بات کی گئی ہے لیکن اکثر نکات میں عصرحاضر کے اقلیتی مسائل سے گہری واقفیت کا عکس پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اقلیتوں کے تعلیمی، ثقافتی، معاشی، ابلاغی مسائل پر پھر ہجرت کے حوالے سے مختلف احکامات وغیرہ سے4 عمدہ بحث ہے۔
اگر مصنف محترم اقلیت و اکثریت کی جگہ فرد اور جماعت اور مکّے میں مسلم اقلیت کی جگہ حزب اللہ اور اس کی مخالف کفر، طاغوت، مشرک اور ضلالت کی جماعت کے تناظر میں ان عملی مسائل کا جائزہ لیتے تو شاید مکّی دور کے ماڈل کی بہتر تشریح ہوسکتی تھی۔
اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے کتاب کی طباعت کا بہت اچھا اہتمام کیا ہے۔ یہ کتاب علمی کتب خانوں میں ایک قیمتی اضافہ ہوگی۔
(مکّی اسوہ نبویa، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی۔ ناشر:اسلامک ریسرچ اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات: ۳۲۵۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔)