تیونس سے شروع ہونے والے سفر آزادی کو انقلابات کی بہار کہا جاتا ہے۔ تیونس اور مصر میں جلاد صفت حکمرانوں کا شکنجہ بہت مضبوط اور ہولناک تھا لیکن اچانک رونما ہونے والی عوامی تحریکیں دو سے اڑھائی ہفتوں میں فرعون حکمرانوں سے نجات پانے میں کامیاب ہوگئیں۔
ادھر لیبیا کے عوام بھی قذافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور کامیابیاں حاصل کیں۔ ۱۸رمضان المبارک کو لیبیا کے عوامی لشکر نے اچانک اعلان کیا کہ ہم فتح مکہ کے تاریخی اور بابرکت دن دنیا کو قذافی سے نجات کی خوش خبری سنائیں گے۔ ایک طرف یہ عوامی افواج دارالحکومت طرابلس میں داخل ہورہی تھیں اور دوسری طرف سرکاری ٹی وی پسرِ قذافی کی ایک روز پرانی طویل تقریر سنا رہا تھا۔ سٹیج پر ایک بڑا بینر لگا تھا ’’اللہ - معمر - لیبیا و بس‘‘ یہ بینر۴۲ سالہ اقتدار مطلق کا خلاصہ ہے لیکن آج لیبیا کا چپہ چپہ اعلان کررہا ہے کہ:وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ (الرحمن۵۵:۲۷)’’اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔‘‘
جن پانچ عرب ممالک میں عوامی انقلاب کی لہر عروج پر ہے ان میں سے لیبیا ہی سب سے زیادہ مالی وسائل رکھتا ہے۔ اعلی ترین معیار کا پٹرول وافر ہے۔ ۴۲ سال میں قذافی چاہتا تو ملک کا ذرہ ذرہ چمک اٹھتا، لیکن سارا عرصہ مختلف لا یعنی مہم جوئیوں میں گزرگیا۔ اس وقت دولت کے انبار تقریباً ہراہم مغربی ملک کے بنکوں میں منجمد پڑے ہیں۔۳۰ ارب ڈالر تو صرف امریکی بنکوں میں ہیں۔ قذافی کا آخری اور سنگین ترین جرم یہ ہے کہ جب عوام نے مزید غلامی برداشت کرنے سے انکار کردیا تو اس نے ان پر چہار جانب سے موت مسلط کردی اور یوں بیرونی طاقتوں کو لیبیا میں در آنے کا بہانہ فراہم کردیا۔ عبوری حکومت نے اعلان کیا ہے کہ قذافی نے اقتدار بچانے کی جنگ میں ۵۰ ہزار سے زائد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ سرت اور بنی ولید میں جاری جھڑپوں سے یہ تعداد یقینا مزید بڑھ جائے گی۔جب ایک کے بعد دوسرے شہر میں موت کا بازار گرم کرتے ہوئے، قذافی نے لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی کا بھی محاصرہ کرلیا اور دھمکیاں دینے لگا کہ میرا اقتدار نہ مانا تو پورے شہر کو بھسم کردوں۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب ہر طرف سے عوام چلا اٹھے کہ دنیا مدد کو پہنچے، ہم اس جنونی قاتل کا مزید سامنا نہیں کرسکتے۔ مغرب کو بھی اسی لمحے کا انتظار تھا، اقوام متحدہ سے قرارداد جاری ہوگئی اور ناٹو افواج لیبیا کی فضاؤں اور پانیوں پر قابض ہوگئیں۔ یہ عوامی تحریک اور پھر خوں ریز لڑائی ۱۷ فروری سے جاری ہے۔ ناٹو نے اس عرصے میں نہ صرف اپنی عسکری گرفت مضبوط کی ہے بلکہ اس نے عبوری مجلس میں بھی اثر و نفوذ حاصل کرلیا ہے۔ یقینا اس بیرونی قبضے کے لیے قذافی نے اسباب فراہم کیے، اگرچہ ۴۴ ارب بیرل پیٹرول کے زیرزمین ذخیروں پر تسلط کا مغربی خواب بھی اس کے لیے قوت متحرکہ ہے۔
اس وقت اُمید کی سب سے بڑی بنیاد تو یقینا رب ذوالجلال کی رحمت پر ایمان ہی ہے۔ جس ذات نے بے نوا عوام کو ظالم حکمرانوں سے نجات دی ہے وہ آیندہ بھی اپنی رحمت شامل حال رکھے گا۔ خود عوام بھی اپنی تمام قربانیوں اور جدوجہد آزادی کے ثمرات سے محرومی کے لیے کسی طور آمادہ نہیں ہیں۔ یہ عوام کی بیداری، جذبۂ آزادی اور مسلسل قربانیاں ہی ہیں، کہ سنہری موقع ملنے کے باوجود لیبیا پر فوج کشی کے لیے امریکا خود کھل کر سامنے نہیں آیا۔ عراق اور افغانستان کی دلدل جس طرح اسے مسلسل نگل رہی ہے، وہ خود اس کے لیے ہی نہیں، ناٹو بالخصوص فرانس برطانیہ اور اٹلی کے لیے بھی باعث عبرت ہے۔ وہ کوشش تو ضرور کریں گے کہ آیندہ حکومت میں ان کا نفوذ زیادہ سے زیادہ ہو، لیکن زمینی حقائق سے بھی آنکھیں بند نہ کرسکیں گے۔
عبوری مجلس کے سربراہ مصطفی عبد الجلیل کا یہ بیان اس تناظر میں بہت اہم ہے کہ: ’’ہم بہرصورت دین اسلام کی مبنی بر اعتدال تعلیمات پر چلیں گے‘‘۔ قذافی کی جیلوں میں طویل عرصے تک قید رہنے والے ڈاکٹر علی محمد الصلابی اور ان کے ساتھی بھی میدان میں ہیں اور اخوان کے ذمہ داران بھی مکمل طور پر شریک عمل ہیں۔ ڈاکٹر علی صلابی تقریباً گزشتہ تین سال کے عرصے میں اس وقت اچانک سامنے آئے، جب سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ کے علاوہ کئی موضوعات پر ان کی درجنوں بے مثال کتب، تازہ ہوا کے ایک خوش گوار جھونکے کی طرح عرب قارئین کو نصیب ہوئیں۔ میں نے ایک ملاقات میں ان سے پوچھا کہ جناب یہ پورا چمنستان اچانک کیسے ترتیب پا گیا؟ کہنے لگے: جیل میں ان ساری کتب کی تیاری ہوگئی تھیں۔ مسوّدہ جات تیار تھے، اب انھیں ایک بار دیکھ کر شائع کروارہا ہوں۔ ڈاکٹر صلابی نے بھی اپنے حالیہ بیان میں قذافی کے سابق وزرا اور مغرب سے لائے گئے کئی چہروں کے بارے میں واضح بیان دیا ہے کہ انھیں مستقبل کے انتظام میں قبول نہیں کیا جاسکتا الا یہ کہ عوام انھیں منتخب کرلیں۔ اب عبوری دستور کے مطابق آٹھ ماہ کے اندر اندر دستوری مجلس کے انتخابات ہونا ہیں۔ یہ مجلس ایک عبوری حکومت اورعبوری صدر بھی منتخب کرے گی اور پھر ۲۰ ماہ کے اندر اندر پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کروائے جائیں گے کہ جن کے بعد لیبیا کو کسی ایک شخص یا خاندان کی ملکیت ہونے کے بجاے شورائیت و جمہوریت پر مبنی ایک نئی آزاد ریاست کے روپ میں سامنے آنا ہے۔ ان شاء اللہ
تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کی طرح شام میں بھی کئی عشروں سے مسلط جابر آمریت کو مسترد کرنے کے لیے ۱۵ مارچ سے عوامی مظاہرے شروع ہوئے تو بشار انتظامیہ نے خوںریزی کی نئی تاریخ رقم کرنا شروع کردی۔ بدقسمتی سے کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب شام سے مظلوم عوام کی شہادتوں اور ان پر ہونے والے مجرمانہ تشدد کی خبریں نہ ملتی ہوں۔ حقوق انسان کے ایک ادارے (شہداء سوریا) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۵ مارچ سے ۹ ستمبر تک ۳ہزار سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں، جن میں ۱۹۸ بچے اور ۱۴۳ خواتین بھی شامل ہیں۔ تقریباً ۱۰ہزار افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ جان بچاکر ترکی اور لبنان ہجرت کرجانے والوں کی تعداد بھی ۱۵ہزار سے متجاوز ہے، جو کبھی اپنے اپنے گھروں میں معزز و مکرم تھے اب مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
قذافی کے بعد سب سے زیادہ خوں ریز مظالم شام کی بشار حکومت ڈھا رہی ہے۔ ۱۵مارچ کے بعد سے کوئی ایسا دن طلوع نہیں ہوا اور کوئی سورج ایسا غروب نہیں ہوا کہ جو معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلتے شامی فوجیوں کی سفاکی کا گواہ نہ بنا ہو۔ ہر لمحے ظلم کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔ انسانوں کو قتل کرنا تو کوئی کارنامہ ہی نہیں سمجھا جاتا، اصل بہادری یہ ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ اذیت کیسے دی جائے۔ بچوں اور خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خوف و ہراس پیدا ہو۔ کسانوں کی فصلیں تک جلائی جارہی ہیں، مال مویشی کو ہلاک کیا جارہا ہے۔
مظالم کی تفصیل اپنی جگہ اہم ہے، لیکن اصل قابل ذکر بلکہ قابل فخر بات یہ ہے کہ ان تمام مظالم نے شامی عوام کے حوصلوں کو پست کرنے کے بجاے مزید توانا کیا ہے۔ درعا نامی ایک سرحدی قصبے سے شروع ہونے والے مظاہرے دارالحکومت دمشق کے قلب تک پہنچ چکے ہیں۔ مظاہرے صرف دن کے اوقات ہی میں نہیں، رات کو بھی ہوتے ہیں۔ روزانہ ہونے والے مظاہرے ہر جمعے کے روز اپنے عروج کو پہنچ جاتے ہیں۔ معلوم ہونے کے باوجود کہ مظاہرے کے لیے نکلنا شہادت کے سفر پر نکلنا ہے، عوام بڑی تعداد میں نکلتے، شہید ہوتے اور جابر اقتدار سے آزادی کا کارواں آگے بڑھاتے ہیں۔ ہر جمعے کو ایک نیا عنوان دیا جاتا ہے اور پھر پورے ملک میں یہی عنوان چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بعض عنوان ملاحظہ کیجیے:اللہ معنا (اللہ ہمارے ساتھ ہے)، التحدی (چیلنج)، الحرائر (آزاد و باعزت خواتین کا جمعہ)،الصمود حتی اسقاط النظام (حکومت کے خاتمے تک ڈٹے رہنا)، ایک خطرناک عنوان یہ بھی تھا: الحمایۃ الدولیۃ (عالمی حفاظت)۔ بالکل وہی بن غازی کے محاصرے والی صورت۔ مظالم کے سامنے بے بس عوام چلا اٹھے کہ عالمی برادری کہاں ہے۔۔؟ بیرونی طاقتوں کے لیے مداخلت کا یہ ایک سنہری موقع ہوسکتا ہے۔
مظالم کا شکار عوام اس مطالبے کی سنگینی کے باوجود اپنی مجبوریاں رکھتے ہیں لیکن شام کا محل وقوع بھی بہت نازک حیثیت رکھتا ہے۔ شام میں آنے والی تبدیلی یقینا تمام پڑوسی ممالک پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ معروف امریکی رسالے فارن پالیسی سمیت کئی رسائل و اخبارات اہم عالمی اور علاقائی تجزیہ نگار تو یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کے لیے بشار الاسد سے زیادہ مفید اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ کئی عشروں سے گولان کا پورا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے لیکن اسد حکومت نے اس کی خاطر ایک بھی گولی نہیں چلائی۔ لبنانی، اردنی اور مصری سرحدوں سے تو صہیونی ریاست کو کچھ نہ کچھ پریشانی لاحق رہی ہے لیکن شامی حکومت نے اسرائیل کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا۔ اس سب کچھ کے باوجود بھی شام کو اگر کوئی کریڈٹ جاتا ہے تو صرف یہ کہ اس نے صہیونی ریاست کے مقابلے کے لیے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کا کارڈ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ حماس اور الجہاد الاسلامی سمیت کئی فلسطینی تحریکوں کی قیادت شام ہی میں قیام پذیر ہے، اگرچہ انھیں وہاں سے مقبوضہ فلسطین کی آزادی کے لیے کسی عسکری تیاری یا کارروائی کی اجازت نہیں ہے۔ انھیں پناہ دینا بہرحال ایک کارنامہ ہے۔
لیبیا کی طرح شام میں بھی یہی نعرہ عقیدہ بنادیا گیا ہے اللہ- الاسد- الوطنہر طرف یہی لکھا ملے گا الاسد الی الأبد( ہمیشہ کے لیے اسد)۔ شامی دستور کی آٹھویں شق میں حکمران بعث پارٹی کو شام کا ابدی حکمران قرار دیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں یا اپوزیشن کوئی وجود نہیں رکھتی۔ شامی قانون کی شق ۴۹ کے مطابق الاخوان المسلمون سے تعلق کی سزا پھانسی ہے۔ جب بھی کسی نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی اسے تہ خاک کردیا گیا۔ ۱۹۸۲ء میں شام کے دو تاریخی شہروں ’حماۃ‘ اور’حلب‘ میں جب اخوان کی قوت یکجا اور برسر زمین دکھائی دی تو سابق صدر حافظ الاسد نے دونوں شہروں کو ٹینکوں، توپوں اور جہازوں سے بم باری کرکے ملیا میٹ کردیا۔ لیکن کیا ۳۰سال پہلے کام دینے والا فارمولاآج بھی کام دے گا؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔
اس حقیقت کو خود بشار اور اس کے حواری بھی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ایک طرف تو مظاہرین کو وحشیانہ تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی اور دوسری طرف اصلاحات کے نام پر بعض لالچ بھی دیے۔ ۱۹۸۲ء سے لے کر اب تک ہزاروں کی تعداد میں خاندان ملک بدری کی زندگی پر مجبور تھے۔ ان کی نسلوں کی نسلیں گزر گئیں لیکن گھر واپسی کی اجازت نہ ملی۔ حالیہ تحریک شروع ہوئی تو بشار نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے تمام شامی شہریوں کو واپسی کی اجازت دے دی، لیکن اب اس اعلان پر بھروسا کون کرتا۔ تحریک ختم کرنے کے لیے سیاسی اور صحافتی آزادیوں کا اعلان کردیا گیا، تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کردیا گیا لیکن ’روم کے جلنے کے بعد‘ اب کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہورہی۔
شام اب دنیا میں تنہائی کا شکار ہے۔ترک وزیر اعظم چند سال سے شام کے ساتھ مضبوط تر تعلقات کی خصوصی کاوشیں کر رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور عسکری تعاون میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا۔ دونوں ملکوں کے مابین ویزے کی پابندی ختم کردی گئی تھی۔ لیکن ہزاروں افراد کے قتل اور روز مرہ تعذیب و تشدد کے بعد یہ تعلقات بھی تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ اردوگان نے بشار کو بے تکلفی سے مشورہ دیا کہ عوام کو ساتھ نہ لیا تو کوئی تدبیر بھی کام نہ آئے گی لیکن بشار حکومت ناراض ہوگئی۔ اب مسلمان ملکوں میں سے صرف ایران بشار کا کھلم کھلا ساتھ دے رہا ہے لیکن اس کا بھی فائدے کے بجاے نقصان ہورہا ہے۔ عرب بالخصوص خلیجی ممالک میں اس وقت شیعہ سنی اختلافات کی جنگ سنگین حدوں کو چھورہی ہے، ایران کا شام سے تعلق شام پر شیعہ کنٹرول کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے۔ جو ممالک اور افراد ایران کے بارے میں مذہبی حساسیت نہیں رکھتے وہ بعث پارٹی اور اس کے مظالم کے شانہ بشانہ کھڑا دیکھ کر ایران سے ناراض ہورہے ہیں۔ البتہ عالمی برادری میں روس اور چین شام کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے مزید پابندیوں کی بوجوہ مخالفت کررہے ہیں۔
صورتحال کو سمجھنے کے لیے شام میں آبادی کا تناسب دیکھیں تو یہ ایک واضح سنی اکثریت کا ملک ہے۔ ۷۰ فی صد سے زائد آبادی سنی العقیدہ ہے۔ ۱۰ سے ۱۲ فی صد علوی ہیں، حکمران پارٹی کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔ اگرچہ کئی نمایاں علوی رہنما بھی اس تحریک میں بشار حکومت کے بجاے عوام کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ۲ فی صد اسماعیلی اور ۳ فی صد دروزی ہیں، شیعہ آبادی ۵.۰ فی صد ہے، جب کہ معمولی تعداد میں مسیحی، ارمنی اور مجوسی بھی ہیں۔ نسلی اعتبار سے دیکھیں تو ۹۰ فی صد عرب اور ۱۰ فی صد کرد ہیں۔ اس کثیر المذہبی ملک میں نظریاتی لحاظ سے بعثی اور مذہبی لحاظ سے علوی شناخت رکھنے والا اسد خاندان ۱۹۶۳ء سے اقتدار میں ہے۔ انقلابات کی لہر اعلان کر رہی ہے کہ ڈکٹیٹر شپ کا دور ختم ہوگیا۔
شام میں تحریک کا آغاز ہوا تو عوام کا نعرہ تھا: الشعب یرید اصلاح النظام (عوام نظام کی اصلاح چاہتے ہیں)۔ حکومت نے اس نعرے کا جواب خوں ریزی اور قتل عام سے دیا۔ اب عوام بیک زبان ایک ہی مطالبے پر مصر ہیں الشعب یرید اسقاط النظام: (عوام حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں)۔ گذشتہ دنوں ایک شامی رکن پارلیمنٹ سے تفصیلی گفتگو رہی۔ حکومت کی وکالت کرتے ہوئے بار بار کہہ رہا تھا کہ حکومت خود بھی اصلاحات چاہتی ہے، پورے نظام میں تبدیلیاں لے آئے گی لیکن یہ لوگ بیرونی ایجنٹ ہیں، مذاکرات پر ہی آمادہ نہیں۔ عرض کی جب موقع تھا حکومت سنتی نہ تھی۔ اب قذافی جیسا سفاک بھی ۵۰ ہزار مزید جانوں کا بوجھ اٹھا کر ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا ہے اور بشار حکومت بھی خوں ریزی کی انتہا کرچکی ہے۔ تو اس وقت کون بات کرے اور کیوں کرے ۔ اب تو پورا نقشہ تبدیل ہوکر رہنا ہے۔ بے گناہ معصوم عوام کا خون بڑے سے بڑے تاجداروں کو بھی اوندھے منہ گرا دیتا ہے۔ یہ تاجدار کوئی فرد ہو، تنظیم ہو، ریاست ہو یا بزعم خود کوئی سپر پاور۔ اس وقت تو اصل سوال ان ظالم حکمرانوں کا ساتھ دینے والے آپ جیسے اصحاب جبہ و دستار کا ہے کہ دنیا و آخرت میں ان کا انجام کا کیا ہوگا___ یہی سوال اہل پاکستان سمیت ان تمام لوگوں سے بھی ہے جو ان مظالم پر خاموش اور لا تعلق بیٹھے ہیں!
اہم گزارش: اس رسالے میں اشتہار دینے والے اداروں یا افراد سے معاملات کی کوئی ذمہ داری ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن کی انتظامیہ کی نہیں ہے۔ قارئین اپنی ذمہ داری پر معاملات کریں۔ (ادارہ)