ایک سو چالیس سال پہلے ۱۸۷۱ء میں لندن سے سفرِحج اور انگلستان کے احوال پر مشتمل انگریزی کتاب Pilgrimage to The CAABA and Charing Cross شائع ہوئی تھی۔ اس کا اُردو ترجمہ غلام مصطفی خان مارہروی نے ماہنامہ العلم ، کراچی میں قسط وار کیا تھا۔ عبدالسلام سلامی صاحب نے اسی ترجمے کو معروف ادیب اور نونہال کے ایڈیٹر جناب مسعود احمد برکاتی کے مختصر دیباچے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ۱۸۷۰ء میں ریاست ٹونک کے امیر نواب محمد علی خان حج کے ارادے سے چلے تو ان کے ایک وزیر حافظ احمد حسن بھی ان کے ہمراہیوں میں شامل تھے۔ حافظ صاحب نے رودادِ سفرِحج انگریزی میں قلم بند کی، اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے سفرِلندن کا احوال بھی کتاب میں شامل کر دیا۔
مسعود احمد برکاتی کے بقول: ’’یہ کتاب ہمیں ڈیڑھ صدی پہلے لے جاتی ہے اور مشرق و مغرب کی طرزِ زندگی، معاشرت اور تمدن سے روشناس کراتی ہے‘‘۔ حافظ احمد حسن نے رودادِ حج سے پہلے انگریزوں کے ہاتھوں نواب محمد خاں کی بلاجواز اور ظالمانہ برطرفی کا ذکر کیا ہے۔ نواب موصوف ایک صاحب ِ تدبیر اور بلند کردار حکمران تھے مگر ان کی ریاست ہندو راجائوں کے علاقے میں واقع تھی جنھوں نے باقاعدہ ایک سازش کر کے انگریزوں سے انھیں برطرف کرا دیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریز حکمرانوں، افسروں اور اہل کاروں میں بھی پرلے درجے کے متعصب، مسلم دشمن اور لارڈ کلائیو اور وارن ہیس ٹنگز جیسے بددیانت اور رشوت خور لوگ موجود تھے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ جدہ میں ایک تو چُنگی کے افسروں نے حجاج سے بُرا سلوک کیا، دوسرے وہاں کا پانی بھی کڑوا اور بدذائقہ تھا۔ جدہ سے مکہ تک کا مشقت بھرا سفر اُونٹوں پر کیا۔ پھرمکّے سے مدینے تک کا سفر تو اور بھی خطرناک اور تکلیف دہ تھا۔ نیم وحشی بدوئوں اور لٹیروں کے گروہوں سے بچنا مسافروں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ لوگ گروہ در گروہ، مسلح محافظوں کے جلو میں سفر کرتے تھے، ورنہ جو لوگ قافلے سے ذرا پیچھے رہ جاتے تھے، وہ اکثر اوقات جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
سفرنامہ پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے، آج کے زائرین ہزار درجہ زیادہ امن و سکون، راحت و آرام اور سہولتوں کے ساتھ عمرہ و حج ادا کرتے ہیں۔ آخری باب میں مؤلف نے جدہ سے انگلستان تک کے سفر کا حال قلم بند کیا ہے۔بہت خوب صورت مشینی کتابت، عمدہ، مضبوط مگر وزن میں ہلکا کاغذ، بے داغ طباعت اور نفیس جلدبندی، یہ سب کچھ، کتاب تیار اور پیش کرنے والے (سلامی صاحب) کے اعلیٰ ذوق اور سلیقے کی شاہد ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
حدیثِ رسولؐ وہ سرمایہ علم ہے جس کی بنیاد پر دین کی تفصیلات کو جاننا امت کے لیے ممکن ہوا۔ سنتِ رسولؐ مصدرِ شریعت ہے اور حدیثِ رسولؐ اس مصدر تک پہنچنے کا ذریعہ۔ خود حدیث بھی بہت سے امور میں مصدر اور ماخذِ دین بن جاتی ہے۔ فقہاے اُمت نے حدیث نبویؐ سے مسائل کا استنباط کیا، محدثین نے احادیث کو روایت بھی کیا اور ان سے مسائل بھی اخذ کیے۔ فقہا اور محدثین کی تعبیرات اور اخذِ مسائل میں اختلاف کیوں واقع ہوا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو دینی امور میں غور وفکر کرنے والے ہر فرد کے ذہن میں ابھرتا ہے۔ عموماً اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کم ہی کی جاتی ہے۔ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کے ایک شاگرد محمد عوّامہ نے اس نکتے پر توجہ مرکوز کرکے اختلافِ ائمہ فقہا کے اسباب بیان کرنے کی ایک قیمتی سعی کی ہے۔ جنوبی افریقہ میں حدیث کے استاد علاء الدین جمال نے ان کی عربی تالیف اثر الحدیثِ الشریف فی اختلاف الائمۃ الفقہاءؒ کااردو ترجمہ پیش کیا ہے۔مصنف نے ان بہت سی وجوہ کو چار اسباب کے تحت بیان کیا ہے جوحدیثِ رسولؐ کے حوالے سے ائمۂ فقہا کی تعبیرات میں اختلاف کی بنیاد بنے ہیں۔
شیخ محمد عوّامہ نے حدیث و فقہ کے وسیع ذخیرے سے مختصراً چند اسباب کو ذکر کرکے حدیث و فقہ کے طلبہ واساتذہ کے لیے ایک معتدل راستے کی طرف نشان دہی کی ہے۔ ان کے زاویۂ نگاہ سے جزوی طور پر اختلاف کیا جا سکتا ہے، تاہم موضوع کی اہمیت اور ان کی مخلصانہ کوشش کی قدر وقیمت سے انکار نہیں۔ اگرچہ اس موضوع پر قدیم علما کی تحریریںبھی موجود ہیں، تاہم اسے مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اُن احادیثِ رسولؐ کو نشان زد کرکے بیان کرنے کی ضرورت ہے جن کی اساس پر فقہا کی آرا سامنے آئی ہیں۔ بالفاظِ دیگر جو احادیث فقہ کا ماخذ ہیں اُن کو یکجا کیا جائے۔ فقہا کی آرا، قرآن و سنت اور حدیث رسولؐ سے الگ ہو کر مصدر دین کی حیثیت نہیںرکھتیں۔ یہ آرا استنباط ہیں جن کی بنیادیں اور مآخذ تلاش کرکے متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً احادیث پر کام کی اشدضروت ہے۔ (ارشاد الرحمن)
ناموس رسالتؐ پر مغرب کے حملوں اور پھر اس پر امت کے رد عمل نے اسے ایک جیتا جاگتا مستقل زندہ مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے جن میں سے ۱۳ تحریریں اس مجموعے میں جمع کی گئی ہیں۔ لکھنے والوں میں خود مولّفہ کے علاوہ، خرم مرادؒ پروفیسر خورشید احمد، اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ، شاہ نواز فاروقی،پروفیسر ساجد میر، مظفر اعجاز، شوکت علی، حافظ حسن مدنی، ڈاکٹر انیس احمد اورڈاکٹر عادل باناعمہ شامل ہیں۔ تحریروں میں اس مسئلے پر بحث کے ہر پہلو کو سمیٹ لیا گیا ہے۔ آخر میں اقبال کا فارسی زبان میں منظوم نذرانۂ عقیدت اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔ اس بے حدقیمتی لوازمے کو ایک مناسب مربع سائز کے آرٹ پیپر پر دل کش انداز میں اور خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ویمن اینڈ فیملی کمیشن کے ذمہ داروں نے ایک اہم مسئلے پر یہ کتاب بروقت شائع کی ہے۔ اس سے ناموس رسالتؐ کا مسئلہ نکھر کر واضح ہو گیا ہے۔ (مسلم سجاد)
بھارت میں قبولِ اسلام کے اکثر واقعات میں وہاں مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کا نام آتا ہے۔ اس کتاب میں ۱۸ نومسلم افراد کے بیش تر واقعات میں بھی وہی مرکزی شخصیت ہیں۔ ان میں ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی، مرد بھی اور عورتیں بھی۔ بھارت سے باہر کے بھی ہیں، مثلاً مائیکل جیکسن کے بھائی جرمن جیکسن۔ ہمارے کرکٹر محمد یوسف کی اور مشہور و معروف کملا ثریا کی داستان بھی شامل ہے۔ ہرکہانی پڑھنے کے لائق ہے۔ ہم پیدایشی مسلمانوں پر یہ عجب اثر کرتی ہیں، دل گداز ہوتا ہے اور آنسو قابو میں نہیں رہتے۔ یہ دین کی قدر کرنے والے ہیں اور ہم ناقدرے ہیں۔ پھلت مظفر نگر یوپی (بھارت) سے ایک رسالہ ارمغان نکلتا ہے جس میں یہ کہانیاں آتی ہیں۔ اس کتاب کی پہلی تین جلدیں نظر سے نہیں گزریں۔ اس کتاب کا ہر واقعہ اپنے اندر بڑے سبق لیے ہوئے ہے۔ ہدایت کے یہ سفر ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی کتابیں بہت عام ہوجائیں، ہر پڑھنے والا پڑھے تو اُمید ہے کہ پیدایشی/ خاندانی مسلمانوں کا ایمان بیدا رہوگا اور معاشرے پر خوش گوار اثرات پڑیں گے۔ (م- س)
دنیا میں ذہنی دبائو اور افسردگی (ڈیپریشن) کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق خدشہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں ہر پانچواں شخص اس مرض کا شکار ہو گا، مگر پاکستان میں ابھی سے ۴۴ فی صد لوگ اس مرض کی گرفت میں ہیں۔ یہ مرض آگے بڑھ کر جرم یا خودکشی پر منتج ہوتا ہے۔ زیرنظر کتاب میں ڈیپریشن کا اہم محرک مادہ پرستی، حسد اور دولت و شہرت کے حصول میں ناکامی کو قرار دیا گیا ہے۔ اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ڈیپریشن یا نفسیاتی امراض کا سبب صرف غربت نہیں ہے، اس لیے کہ مغربی ممالک میں خوش حالی کے باوجود ذہنی امراض اور خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ صرف امریکا میں ہرسال ۴۰ لاکھ افراد ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور امریکا میں دنیا میں سب سے زیادہ سکون آور ادویات تیار کی جاتی ہیں (ص ۳۲)۔ دراصل تمام تر ترقی کے باوجود انسان کا اضطراب اور بے چینی، زندگی کا مقصد واضح نہ ہونے اور خدا سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ مصنف،مغربی ماہرینِ نفسیات کی آرا اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ڈیپریشن کا علاج بتاتے اورعمل کی راہیں سجھاتے ہیں۔ قرآنی آیات اور احادیث کا برمحل استعمال کتاب کی خوبی ہے۔ اسلام کس طرح سے رہنمائی اور سکون کا باعث بنتا ہے، اس حوالے سے نومسلموں کے ایمان افروز واقعات بھی درج ہیں۔(امجد عباسی)
ماہر نفسیات ارشد جاوید کے بقول ان کی ’زندگی بدلنے والی‘ یہ دسویں کتاب (نویں: روزمرہ آداب) اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند وناپسند کی روشنی میں اچھے اور بُرے مسلمان کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ہر عنوان کے تحت پسندوناپسند کے حوالے سے آیات اور احادیث پیش کی گئی ہیں۔ پہلے دو ابواب جہنم اور جنت کے بعد ایمانیات، عبادات اور زندگی کے ہر دائرے سے متعلق متفرق موضوعات ہیں۔ اخلاقیات کے (نمبر۴۹) بعد ۲۲ذیلی عنوانات کے تحت جھوٹ، غیبت، فضول خرچی، قول و فعل میں تضاد وغیرہ بیان ہوئے ہیں۔ علم دینے کے لیے اچھی کتاب ہے، لیکن ہمارا مسئلہ نہ جاننے کا نہیں، نہ کرنے کا ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے (لیکن طبیعت اِدھر نہیں آتی) لیکن لوگ، یعنی مسلمان، بُرے مسلمان رہنے پر خوش اور مطمئن ہیں بلکہ اچھے مسلمانوں کو احمق سمجھتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل کیا کتابوں سے ہوجائے گا؟ عنوان بہت بُرا لگا، بھلا مسلمان بھی بُرا ہوتا ہے؟ (م - س)
یہ کتاب شیخ فتح اللہ گولن کی عربی تصنیف القدر فی ضوء الکتاب والسنۃ کا ترجمہ ہے۔ شیخ فتح اللہ نے عربی میں کئی کتب تصنیف کی ہیں جن میں سے اکثر کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں کیا جاچکا ہے۔ تقدیر کے مسئلے پر یہ کتاب مساجد میں دیے گئے مواعظ اور طلبہ اور مریدین کے لیے منعقد کی گئی خصوصی مجالس میں سوالات و جوابات کا مجموعہ ہے۔ تقدیر پر ایمان لانا ایمان کے چھے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ تقدیر کے مسئلے کا تعلق انسان کے جزئی ارادے سے ہے۔ اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی اور فطری تقاضوں کے حوالے سے عام فہم انداز میں بحث کی گئی ہے اور تقدیر سے متعلق سوالات اوران کے جوابات کی صورت میں بھی گفتگو ہے۔ تقدیر کے مسئلے کو سمجھنے میں یہ کتاب مفید ہوگی۔ مولانا مودودیؒ کی تصنیف مسئلہ جبروقدر کا مطالعہ مسئلے کے تمام پہلوئوں کوواضح کر دے گا، ان شاء اللہ! (شہزاد الحسن چشتی)
معاصر ایرانی فارسی ادب کے بارے میں یہ ایک نصابی فارسی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے۔ مصنف نے اسے مدرسوں اور یونی ورسٹیوں کے فارسی زبان و ادب کے طلبہ کی ضرورت کے تحت ایک ’معاون‘ (help book) کی صورت میںتیار کیا ہے۔ زیادہ تر حصہ قریبی زمانے کے فارسی ادبی جائزے پر مشتمل ہے، جس میں فارسی داستان نویسی، زمانہ انقلاب کی نثر، ڈراما نگاری، ادبیات اور نظری علوم میں تحقیق، فارسی میں صحافت کے ارتقا اور بچوں اور نوجوانوں کے ادب کا احاطہ کیا گیا ہے، لیکن مقدمے میں کلاسیکی ادوار کا تعارف بھی شامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مصنف نے تاریخ ادب فارسی کے دریا کو ساڑھے تین صفحات کے کوزے میں بند کر دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مصنف (پ: ۱۹۳۶ء) تہران کی بعض جامعات و کلیات میں مختلف تدریسی، تحقیقی اور انتظامی مناصب پر فائز رہے۔ آج کل مرکزِ مطالعاتِ اسلامی، مک گل یونی ورسٹی کینیڈا میں پروفیسر ہیں۔ اگرچہ زیرنظر پانچویں اڈیشن کے دیباچے میں خاصے کسر و انکسار کا اظہار کیا گیاہے مگر مترجم کے بقول یہ ان کی سب سے زیادہ مقبول، کثیرالاشاعت اور اپنے موضوع پر کلیدی اور معتبر کتابوں میں سے ہے جو مدرسوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کے ساتھ ساتھ فارسی ادب کے اساتذہ اور عام قارئین کے لیے بھی ایک معلومات افزا اور چشم کشا کتاب ہے۔ مترجم فارسی زبان وادب کے فاضل قادر الکلام شاعر اور معروف استاد ہیں۔ ان حوالوں سے ان کی دیگر خدماتِ علمی و ادبی کی طرح یہ خدمت بھی قابلِ تحسین ہے۔ (ر- ہ)
طبیعیات کی یہ نصابی کتب بی، ایس، سی(آنرز) اور ایم ایس سی نصاب کے مطابق اردو میں تحریر کی گئی ہیں۔ ادارہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے اور یہ قابلِ قدر بات ہے کہ سائنسی علوم میں سے اکثر پر پہلے ہی قومی زبان اردومیں کتب شائع کی جا چکی ہیں۔ اب یہ تین کتب طبیعیات پر شائع کی گئی ہیں۔ اردو یونی ورسٹی اور ان کتب کے مؤلفین اساتذہ قابلِ مبارک باد ہیں۔ طبیعیات کی زیر تبصرہ کتب عمدہ اور سلیس اردو میں تحریر کی گئی ہیں اور دقیق عنوانات کی تشریح آسان اور قابل فہم انداز میں اس طرح کی گئی ہے کہ نہ صرف طلبہ کو سمجھنے میں آسانی ہو بلکہ جو لوگ بھی طبیعیات سے دل چسپی رکھتے ہیں وہ بھی بآسانی سمجھ سکیں۔ ان کتب میں مساوات اور ریاضی کی حسابی تفصیلات، جو اس طرح کی کتب کے لیے ضروری ہیں، واضح طور پر مناسب مقامات پر موضوع کے سمجھنے کے لیے دی گئی ہیں۔ انگریزی اصطلاحات کے اردو مترادفات جامعہ کراچی اور مقتدرہ قومی زبان کے وضع کردہ استعمال کیے گئے ہیں۔
ان سائنسی کتب میں اسلامی طرز فکر کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ الحادی تہذیب نے مقبول نقطۂ نظر یہ بنا دیا ہے کہ جیسے اس کائنات میں سب کچھ خدا جیسی کسی ہستی کے بغیر اپنے آپ ہورہاہے۔ مسلمان اہل علم اور سائنس دان بھی ذاتی عقیدہ درست رکھتے ہوں، صاحب ایمان ہوں، لیکن اس نوعیت کی سائنسی کتب لکھتے ہوئے مغربی، یعنی الحادی انداز ہی اختیار کرتے ہیں حالانکہ جو کچھ بیان کرتے ہیں دراصل اللہ تعالیٰ کے قوانین ہیں۔ سائنس تو ہے ہی آیاتِ الٰہی کا بیان۔ مسلمان اہل قلم کو ان کتب کی تصنیف اس طرح اور اس انداز سے کرنا چاہیے کہ طالب علم کائنات کی اصل حقیقت سے آشنا ہو، اور سائنس کا مطالعہ اس کا ایمان مضبوط کرے۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اس نوعیت کی ایک فزکس کی نمونے کی کتاب لکھی تو انھی قوانین کو God's Lawکہہ کر بیان کیا۔ اتنی سی بات سے پورا منظر نامہ بدل گیا۔سائنس الحاد کے بجاے ایمان کی پیغام بر بن گئی۔ مسلم اُمہ کو مستقبل میں جو چیلنج درپیش ہیںنئی نسل کو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی نقطۂ نظر سے لکھی گئی کتابوں کی ضرورت ہے ہمارے اساتذہ کو سائنسی و وفنی درسی اور غیر درسی کتب میں بلکہ درس و تدریس کے دوران میں بھی اسلامی نقطۂ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ (ش-ح- چ)