آپ کے تمام مضامین اعلیٰ پائے کے ہوتے ہیں، جو تعلیم و تربیت کا مؤثر ذریعہ ہیں۔ ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون ’نظامِ عدل کا قیام اور حکمت عملی‘(ستمبر۲۰۱۱ء) بلاشبہہ ایک شاہکار ہے۔ اگرتحریک سے وابستہ افراد اس پر عمل کریں اور اپنی شب و روز کی زندگی ان رہنما خطوط کے مطابق گزاریں تو تبدیلی کی اُمید کی جا سکتی ہے۔
’تربیت اولاد میں حیا کا عنصر‘ (ستمبر۲۰۱۱ء) میں بچوں کی تربیت کے لیے جدید تقاضوں کی روشنی میں اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ایک طرف حیا کے مختلف پہلو بیان کیے گئے ہیں تو دوسری طرف بے حیائی کے محرکات کی نشان دہی کے ساتھ ان کے تدارک کے لیے عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔
اس ماہ پروفیسر محمد اقبال خاں کی تحریر ’تاجکستان: پس منظر اور جدوجہد‘ (ستمبر۲۰۱۱ء) نے تو دل کو موہ لیا۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ روس کی گرفت سے آزاد ہونے والی ریاستوں سے متعلق معلومات خاصی بکھری اور نامکمل ہیں۔ تاجک باشندوں کا ذکر اکثر اخبارات میں نظر آیا، زیادہ تر بدترین حالات کا شکار اور کبھی مختلف نوعیت کے حملوں کا شکار۔ اس علاقے کے متعلق زیادہ معلومات کی خواہش تھی۔ یہ خواہش اس مضمون سے کافی حدتک پوری ہوئی۔ دکھی کر دینے والے حالات تو اس وقت پوری مسلم دنیا کا ہی المیہ ہیں لیکن تاجک عوام کا عزم یہ حوصلہ دے رہا ہے کہ ان شاء اللہ مستقبل اسلام کا ہی ہوگا، اور آزمایش کے یہ دن گزر جائیں گے!
’آج کی بدلتی دنیا اور درپیش چیلنج ‘(ستمبر۲۰۱۱ء) میںمصنف نے نہایت چابک دستی سے چند صفحات میں دنیا کے اتار چڑھائو، ان کے اسباب وعوامل اور مستقبل کے امکانات و خدشات، کیا نہیں، بیان کر دیا ہے، مگر ہم تو یہ بھی پڑھنا چاہتے ہیں کہ اس پریشان حال دنیا کے دکھوں کا مداوا وہ آب حیات ہے جو مسلمانوں کے پاس ہے۔
توجہ:’روزے کی جسمانی و نفسیاتی افادیت‘ (اگست۲۰۱۱ء) از ڈاکٹر محمد سلطان میں مضمون نگار کا تعلق ہمدرد یونی ورسٹی، دہلی سے بتایا گیا تھا جو درست نہیں۔ وہ جی سی یونی ورسٹی لاہور میں شعبہ عربی و علوم اسلامیہ کے صدرہیں۔