اکتوبر ۲۰۱۱

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اکتوبر ۲۰۱۱ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ہم صفہ میں تھے۔ آپؐ نے فرمایا: تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ بغحان یا عقیق کی طرف جائے اور دو عمدہ اونٹنیاں، گناہ اور قطع رحمی کے بغیر، لے کر آجائے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم سب اس بات کو پسند کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تم میں سے کوئی مسجد میںکیوں نہیںجاتا ہے کہ دو آیتیں سیکھے یا پڑھے جو دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں، تین آیتیں سیکھے جو تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں، چار آیتیں سیکھے جو چار اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ اسی طرح آیتوں کی ہر تعداد اُسی تعداد میںاونٹنیوں سے بہتر ہے۔ (مسلم)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے ایک آدمی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب اپنے گھر آئے تو تین عظیم، موٹی، گابھن اونٹنیاں اس کے گھر پر کھڑی ہوں؟ ہم نے عرض کیا: ہاں، یارسول اللہ! آپ نے فرمایا: تم میں سے ایک آدمی جوتین آیتیں اپنی نماز میں پڑھتا ہے وہ ان تین گابھن، عظیم اور موٹی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ (مسلم)

عربوں میں گابھن اونٹنی بڑی دولت شمار ہوتی تھی، جس گھر میں یہ اونٹنی ہو اسے زیادہ مال دارسمجھا جاتا تھا، اگرچہ اونٹ بھی بڑی دولت تھی لیکن اونٹنی کے مقابلے میں وہ کم قیمت ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک اور اس کے سیکھنے کی اہمیت کو ایسی مثال سے واضح فرمایا کہ ذہن میں راسخ ہو جائے۔  آپؐ نے فرمایا کہ جس چیز کو تم بڑی دولت سمجھتے ہو، قرآن پاک کی چند آیات اس سے زیادہ بڑی دولت ہیں۔ ہم روزانہ پانچ اوقات کی نماز میں سورۂ فاتحہ ہر رکعت میں بار بار پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ہم روزانہ کتنی بڑی کمائی کرتے ہیں۔ اتنی بڑی کمائی کسی بازار میں نہیں، بلکہ مسجد میں نماز پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر کاروبار میں سستی نہیں تو نماز میں سستی کیوں کی جائے؟قرآن پاک کی آیات ایمان کی تجدید کرتی ہیں، عمل صالح پر آمادہ کرتی ہیں، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارتی ہیں اور اطمینان قلب کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔(الرعد۱۴:۲۸) ’’سنو! اللہ کے ذکر سے دلوں میں اطمینان پیدا ہوتا ہے۔‘‘ قرآن پاک سب سے اونچے درجے کا ذکر ہے۔ اسے سمجھ کر پڑھا جائے تو نورٌ علیٰ نورہے۔ آج کے زمانے میں تو قرآن پاک کا سمجھنا بھی آسان ہو گیا ہے۔ تفسیر تفہیم القرآن کو پڑھ کر یا سن کر ہر خاص و عام سمجھ سکتا ہے۔ نیزاونٹ یا اونٹنیاں اور دنیا کی دولت تو فانی ہے لیکن قرآن پاک کی دولت باقی ہے۔ یہ  قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا، راستے کو روشن کرے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں جوپریشانیاں ہیں ان کا ازالہ قرآن پاک کی طرف رجوع میں ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر قرآن پاک سے وابستہ ہو جائیںتو وہ تمام مصائب، ظلم و زیادتیاں جن سے ہم دو چار ہیں ختم ہو جائیں۔

بات کو قرآن تک کیوں محدود کیا جائے۔ اللہ کے رسول نے دنیا اور آخرت کے لیے دو ایسی علامتیں بیان کیں کہ ہمارے سامنے جیسے دونوں متشکل ہو کر آ گئیں۔ آپ اونٹنی کے بجاے نئے ماڈل کی گاڑیاں سمجھ لیں، اور آیت کے بجاے اخروی نفع کے لیے کیا جانے والا کوئی کام۔ دنیا اور آخرت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ دنیا کو ترجیح دینا مولانا مودودی کے الفاظ میں ’’عظیم الشان حماقت‘‘ ہے مگر انسان کو، ہم کو کیا ہو گیا ہے کہ ہماری ساری بھاگ دوڑ اور ریجھنا دنیا کے لیے ہے اور آخرت کے لیے سارے عذر اور معذرتیں اور بے نیازی! اللہ ہم پر رحم کرے۔


حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ! آپؐ کے مواعظ اور تعلیم کا وافر حصہ مردوں نے سمیٹ لیا اور ہم عورتیں اس سے محروم رہ گئیں۔ آپؐ ہمارے لیے ایک دن مقرر فرمائیں جس میں ہمیں اپنے علمی اور تربیتی فیض سے نوازیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: فلاں دن اور فلاں مقام پر تم سب جمع ہو جائو۔ چنانچہ خواتین مقررہ دن اور جگہ میں جمع ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اورانھیں اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم کی تعلیم دی۔ پھر آپؐ نے فرمایا: تم میں سے جو عورت تین بچے آگے بھیجے وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے پردہ اور رکاوٹ بن جائیں گے۔ ایک خاتون نے سوال کیاکہ اگر کسی نے دو بچے آگے بھیجے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس پر آپؐ تھوڑی دیر خاموش ہوئے۔ عورت نے اس دوران میں اپنی بات دہرائی۔ تب آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا: اوردو بچے بھی پردہ اور رکاوٹ ہوں گے۔(بخاری)

خواتین کو تحصیل علم کا کتنا شوق تھا اس کا انداز اس حدیث سے ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی تعلیم کا بھی اہتمام فرمایا۔ انھیں علیحدہ وقت بھی دیا، اورازواج مطہرات کے ذریعے ان کی تعلیم کا انتظام فرمایا۔ خواتین الگ سے بھی آپؐ سے سوال کے لیے حاضر ہوتیں اور کبھی اجتماعی شکل میں آجاتیں۔ اس طرح صحابہ کرامؓ کی طرح صحابیاتؓ نے بھی علمی میدان میں بڑا مقام پیدا کیا۔ خواتین نے قرآن پاک بھی حفظ کیا اور احادیث نبویہ بھی یاد کیں اور علمی میدان میں اس قدر آگے بڑھیں کہ ان سے خواتین کی طرح بعض اوقات مرد بھی علمی فیض حاصل کرتے اور ان کے فتاویٰ پر عمل کرتے۔

مومن کی یہ عجیب شان ہے کہ اس دنیا میں اسے جو تکلیف بھی پہنچے، اگر وہ اسے من جانب اللہ سمجھے اور صبر سے کام لے تو وہ اس کی آخرت کے لیے سرمایہ بن جاتی ہے۔ اولاد کا رخصت ہوجانا کتنا بڑا صدمہ ہے، اور کسی ماں کے لیے اپنے بچے سے جدائی! صدمے کا کوئی اندازہ کیا جا سکتا ہے!! ایک نہیں، دو، دو نہیں، تین بچّے۔ آپ اندازہ تو کریں اس ماں کی رنج و غم کی کیفیت کا۔ مگر وہ صبر کرے، جزع و فزع نہ کرے، اللہ کی مرضی پر راضی رہے۔ کتنا بڑا مقام ہے! بندی کی یہی بندگی دوزخ سے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پھر دیکھیے، شاید کسی نے دو بچے بھیجے تھے، وہ اپنے لیے بھی خوش خبری چاہتی ہے۔ آپؐ توقف کرتے ہیں، دوبارہ پوچھتی ہے۔پھر آپ اسے بھی آگ سے رکاوٹ کی خوش خبری    دیتے ہیں۔ یقینا کوئی ایک کے لیے بھی پوچھتا تو محروم نہ رکھا جاتا۔


حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تکبر، خیانت اور دوسروں کے دَین کے بوجھ سے آزاد ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔(ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

یہ تین چیزیں جنت میں داخلے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ تکبر تو اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی میں شریک ہونے کی صفت ہے، اور خیانت پوری ملت کے مال کا بوجھ اپنے اوپر اٹھانا ہے، اور دَیْن (اور قرض) کسی خاص شخص کے مال کو تلف کرنا ہے۔ آخرت میں ملت اور کوئی فرد اپنا حق چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ اس لیے اولاً: خیانت سے اجتناب کرے اور اگر مرتکب ہو جائے تو بیت المال میں اسے واپس لوٹا دے۔ اسی طرح دَین (اور قرض) کے بوجھ سے بھی بچنے کی کوشش کرے اور یہ بوجھ لینا پڑ جائے تو اس سے جلد از جلد جان چھڑانے کی تدبیر کرے۔


حضرت محمد بن عبداللہ بن جحشؓ سے روایت ہے کہ ہم مسجد کے صحن میں جہاں پر جنازے پڑھے جاتے تھے بیٹھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے درمیان میں تشریف لائے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہیں اوپر اٹھائیں پھر نیچے کیں اور اپنا ہاتھ مبارک اپنی پیشانی پر رکھا۔ پھر فرمایا: سبحان اللہ: کتنی زیادہ سخت وعید اتاری گئی۔ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن رات خاموش رہے تو خیر ہی ہمارے سامنے آیا۔ محمد بن جحشؓ کہتے ہیں، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یارسول ؐاللہ! وہ کیا سخت وعید ہے جو اتاری گئی؟ آپؐ نے فرمایا: ’دَین‘ کے بارے میں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میں محمد کی جان ہے، اگر آدمی اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زندہ ہو، پھر قتل کیا جائے پھر زندہ ہو، پھر قتل کیا جائے پھر زندہ ہو، پھر قتل کیا جائے پھر زندہ ہو اس حال میں کہ اس پر ’دَیْن‘ ہو تو وہ جنت میں داخل نہ ہو گا یہاں تک کہ اس کا دَین اور قرض ادا کر دیا جائے۔ (مسند احمد)

جو چیز بار بار فی سبیل اللہ شہید ہونے کے باوجود ادایگی کے بغیر معاف نہ ہو،شہادت بھی اس کا کفارہ نہ بن سکے، اس سے زیادہ سخت و عید دوسری کون سی ہو سکتی ہے! دَین کا کفارہ دَین کی ادایگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

آج کل قرضوں اور دیون کی ادایگی کے سلسلے میں بہت زیادہ تساہل سے کام لیا جاتا ہے۔ جو انتہائی خطر ناک رویہ ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو اس برائی سے پاک و صاف کرنے کی طرف توجہ کریں اور اسے معمولی جرم سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔


حضرت عبداللہ بن ابی ربیعہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ۴۰ ہزار قرض لیا۔ اس کے بعد آپ کے پاس مال آیا تو آپ نے مجھے دیدیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے تیری اہل اور مال میں برکت عطا فرمائے۔ (نسائی)

جب آپ اپنا قرض ادا کریں، تو اچھی طرح سے کریں، اس میںشامل ہے کہ قرض خواہ کا شکریہ اداکریں۔ اور ہم مسلمان محض شکر یہ ادا نہیں کرتے، شکریے کے آداب میں دعا دینا شامل ہے۔  رسول اللہ نے عبداللہ بن ابی ربیعہ کے ۴۰ہزار ادا کیے تو اہل وعیال اور مال میں برکت کی دعا دی۔  اس کا ایک ضمنی پہلو یہ ہے کہ اولاد ہو اور اس کی تعلیم و تربیت کے لیے رقم بھی ہو۔