السلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو ۔ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرتا ہے اور السلام علیکم کہتا ہے تو یہ صرف اظہارِمحبت ہی نہیں دعا بھی ہے۔ دُعا کے معنوں میں یہ ایک بہترین دُعا ہے کہ تم میری طرف سے ہر طرح محفوظ رہو۔ ’السلام‘ ہر طرح کی سلامتی ، ظاہری سلامتی بھی اور باطنی سلامتی بھی، یعنی تمھاری زندگی، صحت، جان و مال ، اولاد، ایمان اور اخلاق ہر چیز سلامتی میں رہیں، کیوںکہ صرف سلام نہیں السلام ہے۔ ’ال‘ استغراق کے لیے ہے ، یعنی مکمل سلامتی۔ پھر دنیا کی نہیں آخرت کی بھی۔ اس اعتبار سے السلام علیکم بہت جامع الفاظ ہیں ۔
عربوں میں یہ رواج تھا صباح الخیر (اچھی صبح ہو)، صباح النور (روشن صبح ہو)۔ انگریزی الفاظ گڈمارننگ، گڈ ایوننگ کا مفہوم بھی وقتی سلامتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس میں دعا کا پہلو نہیں بلکہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ تمھاری صبح و شام اچھی ہو لیکن اسلام ’السلام‘ کہنے کی ہدایت کرتا ہے جو صبح و شام تک محدود نہیں مکمل سلامتی کی بات ہے اور اگر وسیع معنوں میں لیا جائے تو آخرت کی سلامتی بھی۔
ایک مسلمان مفکر کا قول ہے: وہ پوچھتے ہیں کہ تم جانتے ہو سلام کس چیز کا نام ہے؟ پھر وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سلام کرنے والا دراصل یہ کہتا ہے کہ تم میری طرف سے بالکل مطمئن رہو، بے خوف رہو، یعنی مجھ سے تمھیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
غور کریں کہ جب ہم کسی سے ملنے جاتے ہیں اور السلام علیکم کہتے ہیں اور پھر اس کو طعنے دینے لگیں، اس کو بُرا بھلا کہیں تو یوں اس کے اور اپنے اعمال کو برباد کرنے لگتے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ جھوٹ، دھوکا اور فریب کا معاملہ کرنے لگیں تو ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلام ایک ایسی یاد دہانی ہے جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ تم جس سے مل رہے ہو نہ تو اس کو تکلیف دینا مقصود ہے اور نہ اس کی جانب سے تکلیف کا امکان ہی ہے۔ شاید ہم نے سلام کی روح کو نہیں سمجھا اور کبھی شعوری طور پر سلام نہیں کیا۔ صرف ایک روایت کی طرح اظہار کرتے ہیں۔
ہم سب مسلمان ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض علاقوں میں سلام کے بجاے آداب کہنے کا رواج ہے۔ یہ ہی نہیں اس کی ادایگی کے لیے بھی مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ سیدھی ہتھیلی کو کچھ گولائی میں خم دے کر جھک کر آداب کیا جاتا ہے۔ جتنی محترم بزرگ اور عمررسیدہ ہستی کو آداب کرنا ہو اس قدر جھکتے ہیں۔ کہیں آداب عرض کیا جاتا ہے تو اس کے جواب میں جیتے رہو کی دُعا دی جاتی ہے۔ اسی طرح جوڈوکراٹے کی ابتدا میں ایک دوسرے کو جھک کر سلام کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات جلدی میں سام علیکم کہہ دیتے ہیں جس میں ’لام‘ کی ادایگی نہیں ہوتی تو معنی بدل کر موت کے ہوجاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں سلام کرتے ہوئے پائوں چھوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اسے بدتہذیبی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح پگڑی اُتار کر پیروں میں رکھنا، پیروں اور گھٹنوں کو چھونا، زبان سے سلام کرنے کے بعد مصافحہ پھر ہاتھوں کو چومنا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔
نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے جب حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا تو فرمایا: جائو سلام کرو فرشتوں کے ان گروہوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر غور سے سننا جو وہ تم کو کہیں گے۔ وہ تمھارا اور تمھاری اولاد کا سلام ہوگا۔حضرت آدم ؑ نے جاکر کہا: السلام علیکم تو انھوں نے کہا: وعلیک السلام ورحمۃ اللہ۔ جواب میں السلام علیکم سے بڑھ کر ورحمۃ اللہ اضافی کہا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تمھیں کوئی سلام کرے تو اُسے اس سے کچھ زائد دعا دو ورنہ اس کے برابر جواب تو ضرور دو۔ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض باتوں کا حکم دیا۔ بیمار کی مزاج پُرسی کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، یعنی اس میں شریک ہونے کا، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے کا، یعنی یرحمک اللہ کہنے کا، کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی فریاد رسی کرنے کا، سلام پھیلانے کا اور قسم دلانے والے کی قسم پوری کرنے کا۔ ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرے۔
حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: اے لوگو! سلام کو پھیلائو، لوگوں کو کھانا کھلائو، رشتوں کو ملائو، صلہ رحمی کرو، اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوں۔ تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجائو گے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: وہ آدمی اللہ کے زیادہ قریب ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: ’’اس شخص کا دل کبر اور تکبر سے خالی ہوتا ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے‘‘۔ ہم انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی ہمیں سلام کرے۔ اگر ایسا خیال دل میں آئے تو اسے تکبر سمجھتے ہوئے سلام میں پہل کرنی چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات سب سے زیادہ بہتر ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تم بھوکے کو کھانا کھلائو اور ہرشخص کو سلام کرو چاہے تم اسے پہچانو نہ پہچانو۔
ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم صرف ان کو سلام کرتے ہیں جنھیں پہچانتے ہیں بلکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ مجلس میں جاکر نام لے کر سلام کرتے ہیں، جب کہ ایسے موقع پر سب کو سلام کرنا چاہیے۔ ممکن ہے آپ کسی اجنبی کو اس لیے سلام نہیں کر رہے کہ آپ اسے نہیں جانتے لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سلام کرنے سے اجنبیت دُور ہوجائے، اور ہم ایک دوسرے کے شناسا بن جائیں۔ بظاہر سلام کرنا چھوٹی سی چیز ہے مگر اس کے ذریعے محبت کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اپنے گھر کے سوا کسی دوسرے کے گھر میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور اس گھر میں رہنے والوں کو سلام نہ کرلو‘‘ (النور۲۴:۲۱)۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کہا: ’’اے بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جائو تو سلام کرو، تمھارے گھر والوں پر برکت ہوگی‘‘۔ مذکورہ حکم سے ظاہر ہوا کہ گھر میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اللہ کا دیا سب کچھ ہے مگر گھر میں برکت نہیں۔ ذرا غور کریں تو ممکن ہے گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت سلام نہ کرنے اور اہلِ خانہ کے جواب نہ دینے کی وجہ سے یہ صورتِ حال پیدا ہوئی ہو۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’جب کسی مجلس میں جائو تو سلام کرو اور جب رخصت ہونے لگو تو بھی سلام کرو‘‘۔ اور فرمایا: پہلا اور دوسرا ہردو سلام ضروری اور اجر کے حساب سے برابر ہیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کتنی بار سلام کریں۔ احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کا طریقہ تو یہ تھا کہ کسی درخت کی اُوٹ سے دوبارہ ظاہر ہونے پر ایک بار پھر سلام کرتے تھے۔اس سلسلے میں نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے۔ اگر درخت یا دیوار یا پتھر کی اُوٹ سے دوبارہ سامنے آئے تو پھر سلام کرے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب کسی کو سلام کرو تو اپنا سلام اس کو سنائو۔ اس لیے کہ سلام اللہ کی طرف سے نہایت پاکیزہ اور برکت والی دُعا ہے۔ حضرت مقدادؓ فرماتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے حصے کا دودھ اُٹھا کر رکھ دیا کرتے تھے۔ جب حضور اکرمؐ تشریف لاتے تو اس طرح سلام کرتے کہ سویا ہوا بیدار نہ ہو اور جاگتا ہوا جواب دے۔
حضوؐر کسی ایسے شخص کو سلام کرنا چاہتے جو آپؐ سے فاصلے پرہوتا اور آواز پہنچنا مشکل ہوتا تو ہاتھ کے اشارے سے بھی سلام کرلیتے تھے۔ حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ آپؐ ایک دن مسجد سے گزرے تو مسجد میں خواتین کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ ایک بات سلام کرتے وقت یہ اپنانی چاہیے کہ خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے خوش دلی کے ساتھ سلام کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن حارثؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرمؐ سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں پایا۔
ایک جگہ سے دوسری جگہ، یعنی کسی دوسرے شہر یا ملک جانے والوں کے ذریعے بھی اپنے جاننے والوں کو سلام بھیجنا چاہیے۔ اسی طرح خطوط، ایس ایم ایس اور دوسرے ذرائع سے بھی سلام لکھنا چاہیے۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خطوط لکھے تو ان میں اس طرح السلام لکھا کہ سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کو اپنا لے۔ یہ طریقہ ایسے لوگوں کے لیے ہے جو دائرۂ اسلام میں نہ ہوں، جب کہ کسی بھی مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے السلام علیکم یا احسن طریقے پر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بھی لکھنا چاہیے۔ اسی طرح ٹیلی فون پر جب مخاطب سامنے نہ ہو تو گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کرنا چاہیے۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے قطع تعلق کیے رکھے، یعنی ایک ادھر منہ پھیرے ہوئے ہو تو دوسرا دوسری جانب۔ ان میں افضل وہ ہے جو سلام میں پہل کرلے۔نبی کریمؐ سے پوچھا گیا جب دو آدمی ایک دوسرے سے ملیں تو ان میں کون پہلے سلام کرے؟ آپؐ نے فرمایا: جو ان دونوں میں اللہ کے نزدیک ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سلام کرنے میں اتنی پہل کرتے کہ کوئی دوسرا ان پر سبقت نہ لے پاتا۔ چھوٹے بچوں کو سلام سکھانے کے لیے ان کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ جو بچہ بولنا سیکھ رہا ہو اس کو سلام کیا جائے اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا جائے، تو آپ دیکھیں گے وہ بچہ زبان سے سلام تو ادا نہ کرپائے گا مگر آپ کو دیکھتے ہی ہاتھ آگے بڑھا دے گا۔ سلام کی عادت ڈالنے کے لیے سلام میں پہل کی جانی چاہیے۔ حضرت انسؓ چھوٹے بچوں کے پاس سے گزرے تو انھیں سلام کیا اور کہا کہ حضور اکرمؐ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ خط میں بھی بچوں کو سلام لکھا کرتے تھے۔ عام حالت میں چھوٹوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر سلام کریں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے افراد زیادہ کو سلام میں پہل کریں۔ اسی طرح سوار پیدل چلنے والوں کو سلام کرے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اُوپر والا نیچے والے کو سلام کرے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ تکبر کا خاتمہ ہو۔
یہود و نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی سلام کرنے میں پہل نہ کریں۔ ہاں، اگر مختلف مذاہب کے لوگ مشترک بیٹھے ہوں تو سلام میں پہل کرسکتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: جب اہلِ کتاب تمھیں سلام کریں تو وعلیکم کہہ دیا کرو۔
حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ سلام برکت پر مکمل ہوجاتا ہے۔ اس سے آگے کچھ نہ بولو۔ کیوںکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ جنت حلال اور دوزخ حرام وغیرہ نہ جانے کیا کیا سلام کے ساتھ ملاتے ہیں۔
مصافحہ اور معانقہ: سلام کے علاوہ مصافحہ اور معانقہ بھی ہے۔ مصافحہ صفح سے نکلا ہے جس کا معنی ہے ہتھیلی کو ہتھیلی سے ملانا۔ ارشادرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جب تک دو بھائی ہاتھ ملائے رکھتے ہیں گناہ جھڑتے رہتے ہیں۔ ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا: تم مصافحہ کیا کرو اس سے دلوں کا کینہ ختم ہوجاتا ہے۔ تاہم، یہاں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔ سلام کریں اور ہاتھ ملائیں۔ یہ نہیں کہ ہاتھ پکڑ لیں تو چھوڑنا بھول جائیں ، اور یہ بھی نہیں کہ ہاتھ ملائیں تو اس زور سے دبائیں کہ دوسرے کی چیخ ہی نکل جائے۔ایک روایت ہے کہ فرشتے اس مسلمان پر تعجب کرتے ہیں جو دوسرے مسلمان کے پاس سے گزرتا ہے اور سلام نہیں کرتا۔
معانقہ کا مطلب ہے گردن سے گردن ملانا، یعنی گلے ملنا۔ یہ لفظ عُنق سے بنا ہے۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑتے ہوئے آتے تو آپؐ فرطِ محبت سے ان دونوں کو گلے سے لگا لیا کرتے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ بچوں سے سلام کریں تو پیار کرتے ہوئے انھیں گلے سے لگائیں۔
سلام صرف زندوں کو نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ جب قبرستان میں داخل ہوں تو اہلِ قبور کو سلام کریں اور اگر قبرستان کے پاس سے گزریں تو بھی ان کے لیے دعا کریں۔