اُمتِ مسلمہ اس اعتبار سے بڑی خوش نصیب ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام بے پایاں ہی نہیں، بڑی حد تک منفرد اور بے مثال بھی ہیں۔ قرآن اور اسوۂ رسولؐاگر الطاف و عنایات کی اس کہکشاں کے آفتاب و مہتاب ہیں، تو نماز، زکوٰۃ، روزہ، رمضان، لیلۃ القدر، حج، عمرہ اور جہاد اس کے روشن اور تابناک ستارے ہیں، جن سے نہ صرف یہ کہ حُسنِ کائنات اور جمالِ ہستی دوبالا ہے، بلکہ نور کے یہ مینار، دکھی انسانیت کی رہنمائی اور منزل مقصود کی طرف رہبری کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔
ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں یا حال کے اداروں اور تجربات کا جائزہ لیں، صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کی اور خود امت مسلمہ کی ہدایت اور اس کے ذریعے باقی انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو انتظام زمین و آسمان کے خالق اور مالک نے مرتب فرمایا ہے، وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ آقا کی ہر نعمت یکتا اور عظیم ہے اور اس کی ہر نوازش، نور کا منبع اور زندگی کی پیام بر ہے۔
اگر رب کریم و رحیم کے ان الطاف و عنایات کے باوجود اُمت کا حال پریشان ہے اور انسانیت کے ستارے گردش میں ہیں، تو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے! سوچنے کی بات ہے کہ بگاڑ کہاں کہاں سے دَر آیا ہے؟ اور کوتاہی اور کمی کس کس مقام پر ہوئی ہے کہ آب حیات کی موجودگی کے باوجود یہ اُمت صحت مند اور باعزت زندگی، توانائی اور تابندگی سے محروم ہے۔ چاند اور سورج ضوفشاں ہیں، لیکن تاریکی چھٹنے کا نام نہیں لیتی۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا (اپنا احتساب کر لو قبل اس کے تمھارا احتساب کیا جائے) کی روشنی میں احتساب کیا جائے۔ تجدید عہد اور خود احتسابی کے لیے تھوڑا سا وقت، امت کے سوچنے سمجھنے والے تمام افراد، مرد اور عورتیں، انفرادی اور اجتماعی طور پر نکالیں۔ پوری دیانت داری سے جائزہ لیں کہ نماز دن میں پانچ مرتبہ اور روزہ سال میں ایک ماہ اور پھر ہرذی استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر حج زندگی میںکم از کم ایک بار فرض کیا گیا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ بندہ ہرلمحے اور ہرحال میں رب کو یاد رکھنے، اس کی معیت میں زندگی گزارنے کی سعی و جہد کرے، اور اس طرح دینی اور دنیاوی، روحانی اور جسمانی ہر قسم کے بے پناہ و بے شمار فوائد اور برکتوں سے اُمت اور اس کے ہر ہر فرد کا دامن بھر جائے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس کے وہ اثرات جو مطلوب و موعود ہیں، وہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کیوں رونما نہیں ہو رہے؟
اسلام اور دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے تصور عبادت میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں میں عبادت محض پوجا پاٹ کا ایک نظام بن کر رہ گئی ہے، یا دنیاوی زندگی سے کٹ کر اپنے اپنے خدا سے لو لگانے کے لیے مراقبہ، نفس کشی، مجاہدات وریاضات یا چند ذہنی اور بدنی التزامات کا نام ہے، جن سے دیوتا کو خوش کیا جاسکے اور اس طرح اخروی نجات حاصل ہو سکے۔
اس کے برعکس اسلام کا تصور یہ ہے کہ عبادت ہی دراصل وہ مقصد ہے، جس کے لیے انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo(ذاریات۵۱:۵۶) ’’میںنے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔ عبادت ہی کی زندگی کی طرف ان کو بلایا گیا ہے: یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o(البقرہ۲:۲۱)،’’ لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمھارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے تاکہ تم تقویٰ کی زندگی حاصل کرسکو‘‘۔ رب کی اس بندگی کی طرف ساری انسانیت کو، خصوصاً پہلے انبیاؑ کی اُمتوں کو، دعوت دی گئی ہے: قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ( اٰل عمرٰن۳:۶۴)،’’اے نبیؐ، کہو، اے اہل کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں‘‘۔
یہ عبادت محض چند مراسم عبادت تک محدود نہیں، اگرچہ متعین عبادات اس کے ستون اور مقصود بالذات سنگ میل ہیں۔ اسلام کا تصور عبادت یہ ہے کہ انسان کی ساری زندگی، اللہ کی بندگی میں بسر ہو۔ ہمارا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، آرام اور محنت، حضرو سفر، غرض سب کچھ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے قانون اور ہدایت کی پابندی میں ہو اور زندگی کا جو مشن اور شب و روز کے لیے جو ترجیحات ہمارے مالک اور آقا نے مقرر کی ہیں، پوری زندگی انھی کے مطابق بسر کی جائے۔
گویا اسلام اور عبادت ہم معنی اور ایک ہی طرز زندگی کے دو عنوان ہیں۔ اسلام انسان کی پوری زندگی کو عبادت میں تبدیل کردینا چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی اللہ کی عبادت سے خالی نہ ہو۔ کلمہ شہادت کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی یہ بات لازم آجاتی ہے کہ جس اللہ کو انسان نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے، اس کا بندہ بن کر پوری زندگی گزارے۔ گویا کامیاب زندگی عبادت گزار بندہ بن کر رہنے ہی سے عبارت ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بندہ نفس کی خواہشات پر قابو پائے اور اپنے جسم و جان اور قلب و نظر کی تمام صلاحیتیں زندگی کے اُن مقاصد کے حصول کے لیے صرف کرے، جو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ نے متعین کر دیے ہیں۔
ہر مرد اور عورت جو بندگی کا راستہ اختیار کرے، اس کے اخلاق اور سیرت و کردار اُن سانچوں میں ڈھل جائیں، جو شریعت نے مقرر کیے ہیں۔ دنیوی زندگی میں، جہاں قدم قدم پر آزمایش اور راہ حق سے پھسل جانے کے مواقع پیش آتے ہیں، بندہ حیوانی اور شیطانی طرزِعمل سے بچتے ہوئے، اور پورے شعور اور ارادے سے بندگیِ رب کی راہ پر گام زن رہے۔ یہ ہے وہ چیز جو رب کو پسند ہے۔ یہ عبادت کی روح اور اس کا جوہر بھی ہے اور پوری زندگی میں اس کا مظہر اور مطلوب بھی۔
پوری زندگی کا اس طرح عبادت کا مظہر بن جانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایمان کی لازوال قوت کے ساتھ ساتھ بڑی زبردست اور ہمہ گیرذہنی، روحانی، بدنی، انفرادی اور اجتماعی تربیت کی ضرورت ہے، تاکہ فکر و نظر میں بھی یہ انقلاب مستحکم ہو جائے اور انفرادی اور اجتماعی سیرت و کردار بھی ایسے پیمانوں میں ڈھل جائیں، جو فرد اور ملت کو اس عبادت کے لیے تیار کرسکیں۔
منصوص عبادات: نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، عمرہ، ذکر، استغفار اور دعا ایسا ہی انسان مطلوب اور امت بنانے کا ذریعہ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یہ خود بھی عبادت ہیں اور پوری زندگی کو عبادت بنانے کا ذریعہ بھی۔ یہ خود بھی مالک کو پسند اور محبوب ہیں اور انسان کو مالک کا پسندیدہ اور محبوب بندہ بنانے کا ذریعہ بھی ہیں، تاکہ وہ مالک کے بتائے ہوئے محبوب اور مطلوب مشن___ دعوت الیٰ الخیر، شہادت حق، امربالمعروف، نہی عن المنکر، قیام قسط اور نصرت دین کے لیے سرگرم عمل ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان عبادات کو ارکان اسلام کہا گیا ہے، یعنی یہ وہ ستون ہیں، جن پر اسلامی زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم نے ان ربّانی ستونوں کا تعلق اس رحمانی عمارت سے منقطع کر دیا ہے اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ ستون ہی عمارت ہیں اور بس ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
عبادت اور شریعت کا تعلق
دوسری چیز عبادات کا شریعت کے پورے نظام سے ربط اور تعلق ہے، جہاں: ایمان، احتساب اور تقویٰ عبادات کے جسم میں جان ڈالنے کا وظیفہ انجام دیتے ہیں اور ان کے بغیر وہ بس ایک رسم اور ایک عادت رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ان عبادات کا ربط و تعلق پوری شریعت اور اسلامی نظام زندگی سے کٹ جائے، تو یہ اس پرزہ کی مانند ہو جاتی ہیں، جو خواہ خود حرکت کر لے مگر پوری مشین کو چلانے میں اس کا کردار غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔ نیز پوری مشینری سے جو تقویت ان اجزا کو ملتی ہے، وہ بھی مفقود رہتی ہے۔
اس وقت امت مسلمہ کا المیہ ہی یہ ہے کہ عبادات کے ستون تو موجود ہیں، لیکن ان ستونوں کو جس عمارت کو اٹھانا اور سنبھالنا ہے، وہ موجود نہیں ہے۔ جب تک وہ عمارت وجود میں نہیں آتی یہ ستون ان درختوں کی مانند ہیں، جن کا تنا تو موجود ہے، مگر پتے، پھول اور پھل ناپید ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج انسان کو جس کش مکش اور جدوجہد کے لیے تیار کرتے ہیں، وہ انفرادی سطح پر سیرت سازی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کی تنظیم و تشکیل اور زندگی کے ہر شعبے میں شریعت کے مطابق حالات کی صورت گری کے بغیر اپنے اصل اہداف کو نہیں پا سکتے۔ نظام زندگی کی تصویر ان کے بغیر نامکمل ہے۔ شریعت کے کتنے ہی احکام اور قوانین ہیں، جو اجتماعی زندگی کی اصلاح اور معاشرت، معیشت، عدالت اور حکومت پر اسلامی شریعت کی بالادستی کے بغیر نافذ العمل نہیں ہوسکتے، جس کے نتیجے میں زندگی دوئی اور تضاد کا شکار اور شترگر بگی کا نمونہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امت اس بگاڑ کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے، جو کچھ معاملات میں اللہ کی ہدایت کی پیروی اور کچھ میں اس سے اغماض بلکہ بغاوت کے نتیجے میں ہوتا ہے اور جس پر اللہ رب العزت نے بندوں پر یہ چارج شیٹ لگائی تھی:
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (البقرہ۲:۸۵)،تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اورآخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیردیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی سخت وعید ہے۔ اُمت کی کمزوریوں، تضادات اور تباہ حالیوں میں بڑا دخل ان تضادات کا ہے جن میں یہ مبتلا ہے اور جو بیک وقت اللہ اور اہرمن، ایمان اور کفر، دین اور سیکولرزم سے رشتہ استوار کرنے سے عبارت ہے۔
عبادتوں کے غیر مؤثر ہونے کی ایک اور وجہ نظام احتساب کا فقدان اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے مجرمانہ غفلت کا چلن ہے۔ قرآن پاک میں اس امت کی جو امتیازی خصوصیات بیان ہوئی ہیں، ان میں تین بہت نمایاں ہیں: یہ اُمت ایک اُمت ہے، یہ امت وسط ہے اور یہ اُمت ایک مشن اور دعوت کی علم بردار ہے، جو صاحب شریعت امت اور اس شریعت اور پیغام کی تمام انسانیت کے لیے گواہ اور شاہد اور اس کی نصرت اور غلبے کے لیے جدوجہد کی ذمہ دار ہے۔
یہی وہ تین خصوصیات ہیں جو اس اُمت کے امت ابراہیمی سے تسلسل کی ضامن ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ (المومنون ۲۳:۵۲) ’’اور یہ تمھاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو‘‘ ۔
دوسری اور تیسری خصوصیت کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الْرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا o (البقرہ ۲:۱۴۳)، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمتِ وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔‘‘
وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَج ٍط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ط ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ لا مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ط ھُوَ مَوْلٰکُمْج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o (الحج۲۲:۷۸)اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جائو اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا، اور اس (قرآن) میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسولؐ تم پرگواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہوجائو۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (اٰل عمران۳:۱۱۰، مزید ملاحظہ ہو ۳:۱۰۶)
اُمت کے اس مشن اور کردار کے تعین کے ساتھ ساتھ یہ بھی صاف لفظوں میں بتا دیا کہ نیکی محض دین داری کے نام پر ایک خاص طرح کی وضع قطع اور طاعت اور بندگی کے محدود اعمال میں نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کی ہدایت کے مطابق ڈھالنے، اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں جان اور مال سے جہاد کرنے میں ہے۔ صرف اسی راستے کو اختیار کرنے سے ہماری عبادتیں حقیقی معنی میں ثمر آور ہو سکیں گی اور دنیا خوف اور بھوک کے عفریتوں سے محفوظ ہو کر حقیقی امن گاہ بن سکے گی:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ لا وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ واٰتَی الزَّکٰوۃَ ج وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ج وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo(البقرہ۲:۱۷۷)نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یامغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں،کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست بازلوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ o کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَo (المائدہ ۵:۷۷-۷۸)بنی اسرائیل میں جن لوگوںنے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائودؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، برا طرز عمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔
اور حضور اکرمؐ نے تنبیہ فرمائی کہ:’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ضرور ایسا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیجے۔ پھر تم اس سے دعائیں کرو گے اور تمھاری دعائیں قبول نہ ہوں گی‘‘۔ (ترمذی)
اسی طرح حضوؐرنے فرمایا:’’جو شخص کسی قوم میں رہتا ہو اور ان کے اندر رہ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتا ہو، اور وہ لوگ اس کے اس طرز عمل کے بدلنے کی قدرت رکھتے ہوں، لیکن اس کے باوجود نہ بدلیں تو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے دنیا ہی میں ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
اور قرآن میں اس امت کو مخاطب کرکے صاف لفظوں میں متنبہ کر دیا گیا کہ اگر برائی کا مقابلہ نہ کرو گے، تو محض تمھاری نیکی اور تمھاری عبادتیں تم کو تباہی سے نہ بچا سکیں گی:
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo (انفال۸:۲۵)’’اور بچو اس فنتے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
قرآن و حدیث کے ان واضح ارشادات،ا حکام اور تنبیہات سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہماری عبادتیں، ہماری دعائیں اور ہماری نیکیاں اسی وقت دنیا میں اپنے ثمرات اورحسنات سے زندگی کا دامن بھر سکیں گی، جب ہم فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر امت کے سپرد کردہ مشن دعوت الیٰ الخیر، شہادت حق، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جان اور مال سے جہاد اور اداے حقوق کی ذمہ داری کو کماحقہ ادا کریں گے۔اگر اس میں ہم کوتاہی برتتے ہیں تو پھر انفرادی نیکیوں کے باوجود ہم فتنے کا شکار ہونے اوراللہ کے عذاب کی مار سے نہیں بچ سکیں گے اور ہماری دعائیں بے اثر ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے حالات سے بچائے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امت اور اس کے برسرِاختیار طبقے بڑی غفلت اور بڑی نادانی سے ان خطرات کی طرف بڑھ رہے ہیں جن سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبہ کیا تھا۔ ان حالات میں امت کو تباہی سے بچانے کا راستہ عبادتوں کے ساتھ احقاق حق، ابطال باطل اور اقامت دین کی جدوجہد میں جان اورمال کی بازی لگا دینا ہے۔
اس خلفشار کا ایک پہلو نظام اقتدار کا سند جواز (Legitimacy)سے محروم ہونا اور مسلم ممالک میں بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی کا فقدان اور نظام شوریٰ کا عدم وجود ہے۔ اسلام میں اقتدار کے لیے سند جواز دو ہی چیزوں سے حاصل ہوتا ہے، یعنی: شریعت کی بالادستی اور ارباب اقتدار کا امت کا امین اور معتمد علیہ ہونا، جو شوریٰ کے ذریعے وجود میں آئے اور نظام زندگی کواللہ کی ہدایت کی روشنی میں چلائے۔ آج مسلم دنیا میں سیاسی آزادی کے حصول کے بعد بھی بیش تر ممالک میں جواز کی یہ دونوں بنیادیں ناپید ہیں۔ پھر اجتماعی زندگی اسلام کی برکتوں اور نعمتوں سے کیسے شادکام ہو اور دشمن کے مقابلے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کیسے بنے؟ ؎
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گُلستاں پیدا
عبادت کے اسلامی تصور کی تفہیم اور انسانی زندگی میں اس کے گہرے اور ہمہ گیر انقلابی کردار کو سمجھنے کے لیے حج کی حقیقت اور اس کے پیغام پر تدبر کی نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ ویسے تو جتنی بار بھی انسان کو حج بیت اللہ اور عمرہ کی سعادت حاصل ہو، وہ اس کی خوش نصیبی ہے۔ لیکن صرف ایک بار ہرصاحب استطاعت پر اسے فرض کرنے میں غوروفکر کا یہ پہلو بھی پایا جاتا ہے کہ زندگی میں ایک بار بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ اس تجربے سے گزرنے سے عبودیت کے سارے ہی پہلوئوں سے انسان ہم آغوش ہو سکتا ہے اور اس سے اس کی زندگی میں وہ تبدیلیاں رُونما ہوسکتی ہیں جو اسے پوری زندگی راہِ حق پر قائم رکھ سکیں۔
حج ایک جامع ہے: عبادت کے جملہ مراسم و آداب کا، اور اسلام کی عالم گیر اور ازلی دعوت کے نمایاں ترین تاریخی پہلوئوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے دھارے کو عبدیت کی راہ پر رواں دواں کرنے کے لیے یہ تجربہ اگر اپنے پورے آداب کے ساتھ ایک بار بھی ہو جائے، تو یہ اتنا قوی اور جان دار ہے کہ پھر عیدالاضحی کی تجدید کے ساتھ ساری زندگی اس رخ پر بسر ہو سکتی ہے۔
حج کے لغوی معنی ’زیارت کا ارادہ‘ کرنے کے ہیں۔ حج کو ’حج‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں انسان ان متعین دنوں میں (۸تا۱۳ذوالحجہ) جو اس کے لیے مقرر کیے گئے ہیں (عمرہ یا زیارت کسی وقت بھی ہو سکتی ہے) کعبۃ اللہ کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے اور مناسک حج ادا کرتا ہے۔ حج ہربالغ اور صاحب ِاستطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بارفرض کیا گیا ہے اور جو شخص حج کی طاقت (جسمانی اور مالی) رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتا، وہ ایک عظیم ترین سعادت ہی سے محروم نہیں رہتا، بلکہ اپنے مسلمان ہونے کو بھی عملاً جھٹلاتا ہے:وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَo(اٰل عمرٰن۳:۹۷)‘ ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اورجو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے، تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ اس آیت کریمہ میں قدرت رکھنے کے باوجود قصداً حج نہ کرنے کو کفر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
آں حضوؐر نے بھی یہی بات صراحت سے فرمائی ہے:’’جو شخص زاد راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو اور پھر حج نہ کرے، تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنا یکساں ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
وہ مسلمان عورت یا مرد جو تمام احکام اور آداب کے ساتھ حج کا فریضہ انجام دیتا ہے، اس کے بارے میں شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’حج اور عمرہ گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتے ہیں، جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل اور کھوٹ کو صاف کر دیتی ہے، اورجو مومن اس دن (یعنی عرفہ کا دن) احرام کی حالت میں گزارتا ہے، اس کا سورج جب ڈوبتا ہے تو اس کے گناہوں کو لے کر ڈوبتا ہے‘‘۔ (نسائی و ترمذی)
سرور کائناتؐ نے فرمایا: ’’جس نے صرف اللہ کے لیے حج کیا، اور اس میں ہوس رانی اور گناہ نہ کیا، تو وہ ایسا ہو کر لوٹا، جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا۔‘‘
غور کرنے کی بات ہے کہ حج کی وہ کیا اہمیت اور خصوصیت ہے، کہ جس کی بنا پر ایک طرف قصداً اس کے کرنے کے انکار کو کفر کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کی ادایگی کو پچھلے گناہوں سے پاکی کاضامن قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد بالکل ایک نئی پاک و صاف زندگی کا باب کھول دیا گیا ہے؟
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ حج کا کعبہ سے تعلق ہے، جو زمین پر اللہ کا گھر، امت مسلمہ اورانسانیت کا مرکزومحور اور رب کعبہ سے خصوصی نسبت رکھتا ہے۔ حج کی اصل بیت اللہ کی زیارت اور اسوۂ ابراہیمی کا تجربہ اور تجدید ہے۔ اس پورے عمل میں ایک طرف دعوت اسلامی کے سارے تاریخی مراحل سے انسان کو گزار دیا جاتا ہے، تو دوسری طرف تمام منصوص عبادات کی روح اور ان کے خلاصے کو بھی اس میں سمو دیا گیاہے۔ اس طرح یہ مراسم عبادات کا جامع اور ایک جلوے میں ہزار جلوں کی تجلی گاہ بن جاتا ہے۔
کعبہ، اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر اور بندوں کی پہلی عبادت گاہ ہے، جو توحید کی علامت اور رب کے حضور بندگی کے لیے پہلی سجدہ گاہ ہے۔ زمین پر انسان کے سفر عبودیت اور شمال و جنوب سب اطراف کے رہنے والے اسی کی طرف رخ کرکے اپنے مالک کو پکارتے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس نے اسے بندگی کا محور اور ملت اسلامیہ کا مرکز بنا دیاہے۔ اس گھر کی زیارت حج کا مقصودو مطلوب ہے تاکہ بیت اللہ کی زیارت سے رب بیت اللہ سے رشتہ استوار کیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کی زمین پر اس سادہ تعمیر سے زیادہ حسین، دیدہ زیب اور ایمان افروز مقام کوئی دوسرا نہیں۔
دوسرا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ کعبہ بیت اللہ ہی نہیں ہے، اس کے ساتھ اللہ کے برگزیدہ نبی ابوالانبیا حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ کی دعوت حق، شانِ اطاعت و فدائیت اور یکسوئی اور قربانی کے مثالی نمونوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ اللہ کے حکم سے انھی برگزیدہ انبیاؑ نے بیت اللہ کی موجودہ تعمیر مکمل کی تھی۔ اس پر بیت عتیق اور مکہ کے گردونواح کے چپے چپے پر اسوۂ ابراہیمی کے نقوش ثبت ہیں۔ دعوت اسلامی کی تاریخ میں حضرت ابراہیمؑ کی زندگی اور عالمی مساعی ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے ایمان و یقین، اطاعت و سپردگی، عبودیت و فدویت، ایثار وقربانی اور جہد مسلسل کا وہ نمونہ پیش کیا، جو ہمیشہ کے لیے روشنی کا مینار ہے۔
اللہ سے آپ کی محبت اور اللہ کا آپ کو اپنا ’خلیل‘[دوست] کہنا وہ شرف ہے، جس نے آپ کو پوری انسانیت کا محبوب بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس انسان کامل پر نبوت کے سلسلۃ الذہب کا خاتمہ اور تکمیل ہوئی وہ اور آپ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور حضوؐر پر درود وسلام کے ساتھ اگر کسی نبی کی طرف مسلسل درود وسلام کی سوغات بھیجی جاتی ہے، وہ حضرت ابراہیمؑ ہیں:
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی ٰالِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی ٰالِ اِبْرَاہِیْمَ
حضرت ابراہیمؑ کو یہ مقام ان کے مثالی کردار کی وجہ سے حاصل ہوا۔ ان کو آزمایشوں کی کسوٹی پر بار بار پرکھا گیا، اور وہ ہر بار آزمایش کی کٹھالی سے کامیاب و کامران نکلے۔ انھوں نے عین عالم جوانی میں اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اپنی قوم کے بت کدے میں اذان دی اور ان بتوں کو پاش پاش کر دیا، جن کو انھوں نے معبود بنا رکھا تھا۔
جب حضرت ابراہیمؑ کو دین آبا کی توہین کی پاداش میں آگ میں ڈالا گیا تو ’’بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘‘۔ فرعون نے جب اپنے جبرواقتدار کا سہارا لے کر اپنی الوہیت کا دعویٰ کیا، تو انھوں نے برہان قاطع سے اس کو لاجواب کر دیا اور اپنی جان کی کوئی پرواتک نہ کی۔ جب انھیں دعوت حق پھیلانے کے لیے اپنے خاندان، قوم اور وطن سب کچھ چھوڑنے اور اللہ کے لیے ہجرت کرنے کا حکم ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر کمربستہ ہو گئے اور چار دانگ عالم میں اللہ کے کلمے کو پہنچانے کے لیے مصروف دعوت و جہاد ہو گئے۔ اور پھر جب ان کو اپنے محبوب لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حکم ملا، تو بلاتوقف اس کی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ حکم الٰہی کی تعمیل، دعوت حق کی تشریح و توضیح اور آقا کی مرضی اور محبوب کے اشارۂ چشم و ابرو پر سب کچھ قربان کردینے کی یہی وہ ادا ہے، جس نے جاں بازی، جاں نثاری اور جاں سپاری کی وہ روشن مثال قائم کی، جو اسوۂ ابراہیمی ؑ کی اصل اور انسانیت کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نمونہ اورمعیار بنا دی گئی۔
حج اسی تاریخ دعوت وعزیمت کی یاد دہانی اور اس تاریخ کو از سر نورقم کرنے کی دعوت اور اس کے لیے تیاری کی مشق ہے۔ حج کا مقصد اللہ کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کے حقیقی حج کے ساتھ تشبہ اختیار کرکے ان کے نمونۂ ایمان و للہیت، جذبۂ عبدیت اور کمال فدویت و فدائیت کو یاد کرنا اور ان کی روشن مثال سے خود اپنے اندر ایمان، اطاعت اور ایثار و قربانی کے جذبے کی آبیاری کرنا ہے۔ مالک کی پکار پر لبیک کہنا اور ساری زندگی کو پوری آمادگی شوق اور وارفتگی سے اس کی رضا طلبی کے لیے وقف کر دینا ہے:
لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ ،اے اللہ! میں حاضر ہوں، میرے اللہ، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ حمد تیری ہی ہے، نعمتیں تیری ہی دین ہیں اور بادشاہی اور اقتدار صرف تیرا ہی ہے، اور ان سب میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
یہ صرف ایام حج کا تلبیہ اور ترانہ ہی نہیں ہے،بلکہ اللہ کے بندوں کے لیے پوری زندگی کا وظیفہ ہے۔ یہ مالک کے حضور مکمل سپردگی کاعہد ہے۔ اپنے اللہ کے سامنے خود جس کی مثال اورنمونہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضور اکرمؐ نے انسانیت کے سامنے رکھا۔ حج کا اصل سبق اور پیغام اپنے اللہ کے سامنے یہی خود سپردگی ہے۔ ستم ہے کہ ہم زبان سے یہ تلبیہ ادا کرتے ہیں لیکن اللہ کی وحدانیت کی گواہی کے ساتھ اس میں جن تین صفاتِ الٰہی پر توجہ کو مرکوز کیا ہے ان پر غور نہیں کرتے، یعنی حمد کا مستحق صرف اللہ ہے، ہرنعمت اللہ کی طرف سے ہے، اور اقتدار اور بادشاہی اللہ اور صرف اللہ کی ہے۔ لہُ الملک کا اس تلبیہ کا آخری اعلان ہونا اپنے اندر جو معنویت رکھتا ہے افسوس آج وہ آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔
حج کے مناسک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر بار اور کاروبار کو چھوڑنے، سفر کی صعوبتیں انگیز کرنے اور روایتی لباس ترک کرکے احرام کے فقیرانہ لباس زیب تن کرنے سے لے کر طواف، سعی، وقوف عرفات، مزدلفہ کی شب باشی، منیٰ کا قیام، قربانی، رمی جمار اور حلق (سر کے بال منڈوانا) تک ہر چیز سے بندگی کی تصویر ابھرتی ہے۔ ان میں سے ہر عمل کی اسوۂ ابراہیمی کے کسی نہ کسی پہلو سے نسبت ہے۔ للہیت، سپردگی، اطاعت اور فداکاری کی شان ہر ہر عمل سے نمایاں ہے اور یہی حج کی اصل رمز ہے اور اس پورے تجربے میں تعلیم و تربیت کا بڑا مؤثر سامان ہے، تاکہ بندہ یہاں سے یہ سبق لے جائے کہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہی ہمارا راستہ، ان کا نمونہ ہی ہمارے لیے نمونہ، اور اس راستے پر چلنا اور اس نمونے کا اتباع ہی ہماری زندگی کا مقصود ہوگا اور اس راہ میں ہمارے قدم کبھی سُست نہیں پڑیں گے۔
حج پر غور وفکر کا تیسرا پہلو اس کی جامعیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حج تمام ہی مراسم عبادت کا جامع ہے۔ نماز کا آغاز اگر نیت کی درستی، قبلے کے استقبال اور بدن کی طہارت سے ہوتا ہے اور اس کی روح ذکر الٰہی ہے، تو حج پہلے ہی مرحلے سے ان سب کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ بیت اللہ کی طرف رخ ہی نہیں اس کا قصد اور اس کی طرف سفر،اور پھر اس کا طواف اور اس کی طرف سجدے ہی سجدے، احرام اور جسم اور روح کی طہارت اور حج کی نیت سے لے کر طواف وداع تک ذکر ہی ذکر۔ نماز اگر فحش اور منکرات سے روکنے کا ہتھیار ہے، تو احرام بھی فحش اورمنکرات کے باب میں ایک حصار ہے۔
حج کے پورے عمل کو خواہش نفس سے پاک کرنا اور گناہوں سے بچانا، آداب حج کا حصہ ہے۔ زکوٰۃ مالی عبادت ہے، جو ایک طرف حب دنیا اور حبِ دولت سے انسان کو بچاتی ہے تو دوسری طرف معاشرے سے بھوک اور غربت کو مٹانے اور معاشی عدم مساوات کو کم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ حج میں بھی انسان کو کثیر مالی قربانی کرنا پڑتی ہے۔ صرف زاد راہ اور قربانی ہی کے لیے نہیں بلکہ ایک عرصے کے لیے ترکِ معاش اور اہل خاندان کے لیے معاش کے انتظام کی شکل میں۔
احرام پوری امت کے لیے مساوات کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتا ہے اور امیرغریب، بادشاہ فقیر، سب ایک ہی لباس میں آجاتے ہیں۔ روزے کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کرنا، ضبط نفس کی تربیت دینا، جسمانی مشقت انگیز کرنے کے لیے تیار کرنا، تعلقات زن و شو سے احتراز (صرف دن ہی میں نہیں، حج کی راتوں میں بھی)، بے آرامی اور ذکر کی کثرت کی فضا بنانا ہے۔ حج میں یہ سب اپنے اپنے انداز میں موجود ہیں۔
روزے کو قرآن سے خصوصی نسبت ہے۔ حج میںبھی قرآن کی تلاوت اور مقاماتِ نزول قرآن کی زیارت، روزے کے ان پہلوئوں کا لطف پیدا کر دیتے ہیں۔ نماز کی باجماعت ادایگی، زکوٰۃ کی بیت المال کے نظام کے ذریعے منظم تقسیم اور روزے کو ایک ہی مبارک مہینے میں تمام اُمت کے لیے فرض کرنے میں اجتماعیت کی جو شان ہے، حج اس کی معراج ہے۔ غرض اس ایک عبادت میں، جو بالعموم کئی مہینوں پر پھیلی ہوئی ہے اور سفر کی جدید سہولتوں کے باوجود کئی ہفتوں کا اعتکاف اور انہماک تو لازماً چاہتی ہے۔ عبادت کے تمام ہی مراسم اور ان کے اہداف کسی نہ کسی شکل میں جمع کردیے گئے ہیں، جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد اوریادگار تجربہ ہے۔
حج کا ایک اور منفرد پہلو امت کی وحدت اور انسانیت کے ایک خاندان اور برادری ہونے کو نمایاں کرنا ہے۔ رنگ، نسل، وطن، زبان، مرزبوم، سماجی تنوع، معاشی تفاوت، غرض ہر فرق ختم ہو جاتا ہے۔ ایک اللہ کے ماننے والے بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے لیے دنیا کے گوشتے گوشے سے ایک مرکز پر جمع ہوتے ہیں اور ایک خاندان کی طرح ایک امام کی قیادت میں ایک ہی تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے دن رات ساتھ گزارتے ہیں۔
تہذیب وتمدن کے سارے خول اتر جاتے ہیں اور صرف للہیت اور انسانیت کا نمونہ پیش کرتے ہیں اور ان سب کا آخری ہدف اللہ کی رضا کا حصول، زمین پر اس کی مرضی پوری کرنے کا عزم، استخلاف فی الارض کے مشن کی تنفیذ کے جذبے کو تازہ کرنا اور دین کی دعوت اور نصرت کی جدوجہد میں زندگی وقف کرنے کا داعیہ اجاگر کرنا بن جاتا ہے۔ یہ وہ انقلابی مقصد ہے، جس کے لیے اس امت کو برپا کیا گیا اور اس کی تذکیر حج کا اصل وظیفہ ہے۔
’’خانہ کعبہ اس دنیا میں عرش الٰہی کا سایہ اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کا نقطۂ قدم ہے… یہ وہ منبع ہے، جہاں سے حق پرستی کا چشمہ ابلا، اور اس نے تمام دنیا کو سیراب کیا۔ یہ روحانی علم و معرفت کا وہ مطلع ہے، جس کی کرنوں نے زمین کے ذرے ذرے کو درخشاں کیا۔ یہ وہ جغرافیائی شیرازہ ہے، جس میں ملت کے وہ تمام افراد بندھے ہوئے ہیں، جو مختلف ملکوں اور اقلیتوں میں بستے ہیں، مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف لباس پہنتے ہیں، مختلف تمدنوں میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر وہ سب کے سب، باوجود ان فطری اختلافات اور طبعی امتیازات کے، ایک ہی خانہ کعبہ کے گرد چکر لگاتے ہیں، اور ایک ہی قبلے کو اپنا مرکز سمجھتے ہیں اور ایک ہی مقام کو اُم القریٰ مان کر وطنیت، قومیت، تمدن ومعاشرت، رنگ روپ اور دوسرے تمام امتیازات کو مٹا کر، ایک ہی وطن، ایک ہی قومیت (آلِ ابراہیمؑ) ایک ہی تمدن و معاشرت (ملت ابراہیمی) اور ایک ہی زبان (عربی) میں متحد ہو جاتے ہیں۔
’’لوگ آج یہ خواب دیکھتے ہیں کہ قومیت وو طنیت کی تنگ نائیوں سے نکل کر وہ انسانی برادری کے وسعت آباد میں داخل ہوں، مگر ملت ابراہیمی کی ابتدائی دعوت اور ملت محمدیؐ کی تجدیدی پکارنے سیکڑوں ہزاروں برس پہلے اس خواب کو دیکھا اور دنیا کے سامنے اس کی تعبیر پیش کی۔ لوگ آج تمام دنیا کے لیے ایک واحد زبان کے ایجادوکوشش میں مصروف ہیں، مگر خانہ کعبہ کی مرکزیت کے فیصلے نے آلِ ابراہیمؑ کے لیے مدت دراز سے اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔ لوگ آج دنیا کی قوموں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ایک ورلڈ کانفرنس یا عالم گیر مجلس کے انعقاد کے درپے ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ساڑھے [چودہ صدیوں] سے یہ مجلس دنیا میں قائم ہے اور اسلام کے علم، تمدن، مذہب اور اخلاق کی وحدت کی علم بردار ہے۔
’’مسلمان ڈیڑھ سو برس تک جب تک ایک نظم حکومت یا خلافت کے ماتحت رہے، یہ حج کا موسم ان کے سیاسی اور تنظیمی ادارے کا سب سے بڑا عنصر رہا۔ یہ وہ زمانہ ہوتا تھا، جس میں اُمور خلافت کے تمام اہم معاملات طے پاتے تھے۔ اسپین سے لے کر سندھ تک مختلف ملکوںکے حکام اور والی جمع ہوتے تھے، اور خلیفہ کے سامنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور طریق عمل طے کرتے تھے، اور مختلف ملکوں کی رعایا آکر اگر اپنے والیوں اور حاکموں سے کچھ شکایتیں ہوتی تھیں، تو ان کو خلیفہ کی عدالت میں پیش کرتی تھیں، اور انصاف پاتی تھیں۔
’’اسلام کے احکام اور مسائل جودم کے دم میں اور سال ہا سال دُور دراز اقلیموں، ملکوں اور شہروں میں اس وقت پھیل سکے، جب سفر اور آمدورفت کا مسئلہ آسان نہ تھا۔ اس کا اصل راز یہ سالانہ حج کا اجتماع ہے اور خود رسولؐ اللہ نے اپنا آخری حج جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، اسی اصول پر کیا۔ وہ انسان جو تیرہ برس تک مکہ میں یکہ و تنہا رہا، ۲۳برس کے بعد وہ موقع آیا جب اس نے تقریباً ایک لاکھ کے مجمع کو بیک وقت خطاب کیا اور سب نے سَمْعاً وَ طَاعَۃً کہا۔ آپؐ کے بعد خلفاے راشدینؓ اور دوسرے خلفا کے زمانے میں صحابہ کرامؓ اور ائمہ اعلام نے اسی طرح سال بہ سال جمع ہو کر احکام اسلام کی تلقین و تبلیغ کی خدمت ادا کی، اس کا نتیجہ تھا کہ نت نئے واقعات اور مسائل کے متعلق، دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام کے جوابی احکام اور فتوے پہنچتے رہے اور پہنچتے رہتے ہیں‘‘۔(سیدسلیمان ندوی، سیرت النبیؐ، پنجم، ص۲۱۹،۳۲۱)
ہم نے مولانا سید سلیمان ندویؒ کی تحریر سے یہ طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ حج کے اس منفرد پہلو کو ایک روایتی عالم دین کے الفاظ میں اجاگر کریں۔ ورنہ محدود مذہبی ذہن رکھنے والے تو اس پر ’دین کی سیاسی تعبیر‘یا ’سیاسی اسلام‘ کی پھبتی کستے نہیں تھکتے۔ حالانکہ یہ اسلام کا ایک ایسا اعجاز اور تاریخی کارنامہ ہے، جس پر مخالف بھی ششدر رہ جاتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پیش تر شائع ہونے والی اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیامیں مقالہ نگار رابرٹ بیانشی (Robert Bianchi) کے یہ جملے قابلِ غور ہیں(انگریزی سے ترجمہ):
دنیا کی تمام زیارتوں میں حج منفرد بھی ہے اور اہم ترین بھی۔ عیسائیت اور ہندومت کے قدیم اور اعلیٰ ترقی یافتہ بین الاقوامی زیارت کے نظاموں سے مقابلہ کیا جائے تو عقیدے کی مرکزیت، جغرافیائی ارتکاز اور تاریخی تسلسل کے لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔(اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ ( اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۵ئ، جلد۲،ص۱۸۸)، ’حج‘)
اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو جس طرح حفظِ قرآن، کتابت وتعلیم قرآن اور رمضان المبارک میں قرآن سے تجدید تعلق نے اللہ کی کتاب کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح حج نے اسلام کی اصل روح…للہیت، عبدیت اور امت کی وحدت اور اخوت کو اس طرح ایک تاریخی نظام میں پرو دیا ہے۔ ایک ادارے کے طور پر یہ روایت اپنے مرکز سے پوری دنیا میں اور ایک نسل سے دوسری نسل اورایک دور سے دوسرے دور کی طرف برابر منتقل ہو رہی ہے اور ان شاء اللہ تاابد ہوتی رہے گی۔
پس اگر میں یہ کہوں تو بے جانہ ہوگا کہ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم ہے، اسی طرح حج کا زمانہ تمام روے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے حکیم ودانا نے ایسا بے نظیر انتظام کر دیا ہے کہ ان شاء اللہ قیامت تک اسلام کی عالم گیر تحریک مٹ نہیں سکتی۔ دنیا کے حالات خواہ کتنے ہی بگڑ جائیں اور زمانہ کتنا ہی خراب ہو جائے، مگر یہ کعبے کامرکز اسلامی دنیا کے جسم میں کچھ اس طرح رکھ دیا گیا ہے، جیسے انسان کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے، آدمی مر نہیں سکتا، چاہے بیماریوں کی وجہ سے وہ ہلنے تک کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ بالکل اسی طرح اسلامی دنیا کا یہ دل بھی ہر سال اس کی دُور دراز رگوں سے خون کھینچتا رہتا ہے اور پھر اس کو رگ رگ تک پھیلادیتا ہے۔ جب تک اس دل کی یہ حرکت جاری ہے اور جب تک خون کے کھینچنے اور پھیلنے کا سلسلہ چل رہا ہے، اس وقت تک یہ بالکل محال ہے کہ اس جسم کی زندگی ختم ہو جائے، خواہ بیماریوں سے یہ کتنا ہی زار ونزار ہو۔(خطبات،چہارم،ص۲۴۵-۲۴۶)
حج کی یہ برکتیں اورمنافع ہیں کہ ساری خرابیوں کے باوجود اس امت میں زندگی اور حرارت ہے۔ اگر شر کی قوتیں ہر طرف سے حملہ آور ہیں تو حق کی قوتیں بھی مدافعت، مزاحمت اور پیش رفت میں سرگرمِ عمل ہیں، اور یہ سب اس کے باوجود ہے کہ حج اور تمام ہی عبادات، مختلف وجوہ سے اپنے اثرات بکمال و تمام پیدا نہیں کر پا رہیں اور اسلام نے تجدید واصلاح کا جو نظام بنایا ہے وہ بڑی حد تک مفلوج ہے۔
بلاشبہہ امت میں نیک نفوس بھی موجود ہیں اور چند متحرک گروہ بھی، جو دین کو اس کی اصل اسپرٹ میں قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی امت غفلت اور دین کے بارے میں بے توجہی کا شکار ہے۔ خصوصیت سے بااثر طبقات، جدید تعلیم یافتہ لوگ اوربرسرِاقتدار عناصر اپنی ذمہ داریوں سے غافل، نفس پرستی اور دنیا داری میں مگن اور قیامِ دین اور احیاے شریعت سے کنارہ کش ہیں۔
عبادتیں بڑی حد تک اپنی اصل روح سے عاری اور محض رسم اور عادت بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت اور شریعت کی موجودگی، نماز روزہ، زکوٰۃ اور حج کی پاس داری، مسجدوں اور مدرسوں کے قیام و انصرام اور دعوتی اور تبلیغی اجتماعات کی ریل پیل کے باوجود نمازیں اثر سے خالی ہیں، روزے تقویٰ کی فصل بہار پیدا نہیں کر پا رہے، زکوٰۃ معاشی اور سماجی انصاف کے قیام پر منتج نہیں ہو رہی، اور حج میں لاکھوں کے اجتماع کے باوجود ملت کے جسم میں تازہ خون نہیں آ رہا اور بدن فساد خون کا شکار ہے۔
تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود جو مثبت اثرات حج اور دوسری عبادات کے رونما ہورہے ہیں، ان کے اعتراف اور ان پر اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ہم امت کے تمام ہی ارکان کو، اور خصوصیت سے اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر اور دینی اجتماعی قیادت کو ان اسباب کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں، جن کی وجہ سے پوری عبادتیں پوری طرح اپنے ثمرات پیدا نہیں کر پا رہیں۔
سب سے پہلی چیز عبادات کی ظاہری ادایگی اور ان کی اصل روح اور دین کی تعلیمات اور اصلاح کی مجموعی اسکیم میں ان کا رول اور کردار ہے۔ مذہب اور ثقافت کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک انقلابی تصور اس وقت تک انقلابی رہتا ہے، جب تک اس کی اصل روح بیدار رہتی ہے اور وہ محض ایک رسم اور بے جان جسم نہیں بن جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت نے نیت کی اصلاح اور ہر عبادت کے ایمان اور احتساب کے ساتھ انجام دینے کو بڑی اہمیت دی ہے۔
آج مسلمانوں کا بڑا بنیادی مسئلہ دین سے ناواقفیت، عمومی جہالت اور تعلیم کی پستی ہے، حالانکہ اسلام تو آیا ہی ایک تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے لیے تھا اور حصول علم کو ہر مسلمان مرد اورعورت کے لیے واجب قرار دیا گیا تھا۔ عبادات اور خصوصیت سے حج کے غیر مؤثر ہونے میں بڑا دخل ان عبادات کو بلا سمجھے ادا کرنے کا مرض ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ قرآن کی تعلیم، دین و شریعت سے واقفیت اور نظام زندگی میں ان کے کردار کا پورا پورا فہم و ادراک پیدا کیا جائے۔ محض حفظ کرکے چند سورتوں کو نہ دہرا لیا جائے،بلکہ ہر عبادت کو پوری طرح سمجھ کر، الفاظ کے معنی کا پورا پورا ادراک کرکے اور ہر عبادت کو اس کے مقصد اور منشا کے مکمل شعور کے ساتھ اس کو ادا کیا جائے۔ علم کا یہ حصول ہر فرد کی ذمہ داری بھی ہے اور معاشرے کے تمام بااثر افراد کی بھی(یہاں ہم حفظ کرنے کی فضیلت اور کلماتِ قرآنی کے دہرانے کی فضیلت اور اعزازکا درجہ کم تر نہیں کر رہے بلکہ اس کی تاثیر اور اثر پذیری میں اضافے کے لیے مفہوم اور معانی تک رسائی کی اہمیت واضح کر رہے ہیں)۔
حضوؐرنے فرمایا ہے کہ: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلَّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتَہِ (بخاری، ۸۹۳)، تم میں سے ہر ایک چرواہے کے مانند ہے اور ہر ایک اپنے اپنے ریوڑ کے بارے میں جواب دہ ہے۔ جس کے معانی یہ ہیں کہ ماں، باپ، استاد، گھر کے بزرگ، محلے کے پنچ، معاشرے کے لیڈر، مملکت کے ذمہ دار سب کی ذمہ داری ہے کہ جہالت کی اس وبا سے قوم کو نجات دلائیں۔ تعلیمی انقلاب، اصلاحِ احوال کی طرف پہلا قدم ہے۔
اس تعلیمی انقلاب کے تین پہلو ہیں:
عبادات سکڑ کر اگر صرف رسوم و رواج بن جائیں اور جنھیں اللہ سے ملاقات کا ذریعہ اورمناجات کا وسیلہ ہونا چاہیے، وہ محض ایک بے روح اور بے جان عادت کی شکل اختیار کر لے، تو وہ زندگی میں کوئی تبدیلی کیسے لا سکتی ہے۔ آج ہماری نمازیں، ہمارے روزے اور ہمارے حج اس وجہ سے بے اثر ہو گئے ہیں کہ ہم نے ان کو بس ایک رسم، ایک عادت، ایک جسدِ بے روح بنادیا ہے اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم عبادات کا حق ادا کر رہے ہیں۔
شیخ عثمان بن علی ہجویریؒ [م:۲۵ستمبر۱۰۷۲ئ]کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ: ’’ایک صاحب حضرت جنید بغدادی[م:۹۱۰ئ] کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے پوچھا: کہاں سے آرہے ہو؟ جواب ملا: حج سے واپس آ رہا ہوں۔ پوچھا: حج کر چکے؟ عرض کیا: کر چکا۔ پوچھا: جس وقت گھر سے روانہ ہوئے اور عزیزوں سے جدا ہوئے تھے، اپنے تمام گناہوں سے بھی مفارقت کی نیت کرلی تھی؟ کہا: نہیں یہ تو نہیں کیا تھا۔ فرمایا: بس سفر پر روانہ ہی نہیں ہوئے! پھر فرمایا:کیا راہ میں جوں جوں تمھارا جسم منزلیں طے کر رہا تھا، تمھارا قلب بھی قربِ حق کی منازل طے کرنے میں مصروف تھا؟ جواب دیا: یہ تو نہیں ہوا… ارشاد ہوا: پھر تم نے سفرِ حج کی منزلیں طے ہی نہیں کیں۔ پھر یہ پوچھا کہ جس وقت احرام کے لیے اپنے جسم کو کپڑوں سے خالی کیا تھا، اس وقت اپنے نفس سے بھی صفات بشریہ کا لباس اتارا تھا؟ کہا: یہ تو نہیں کیا تھا۔ ارشاد ہوا: پھر تم نے احرام باندھا ہی نہیں۔ پھر پوچھا: جب عرفات کے وقوف اور مزدلفہ کے قیام میں اپنی مراد کو پہنچ چکے تو خواہشات نفسانی کے ترک کا بھی عہد کیا تھا؟ کہا: یہ تو نہیںکیا۔ ارشاد ہوا: پھر عرفات اور مزدلفہ میں تم حاضر ہی نہیں ہوئے۔ پھر پوچھا: قربانی کے وقت اپنے نفس کی گردن پر بھی چھری چلائی تھی؟ کہا: یہ تو نہیں کیا۔ ارشاد ہوا: تم نے قربانی نہیں کی۔ اسی طرح سارے سوال پوچھنے کے بعد شیخ نے آخر میں فرمایا کہ ’’تمھارا حج کرنا، نہ کرنا برابر رہا، اب پھر جائو اور صحیح طریقے پر حج کرو‘‘۔
دین کی تعلیم، عبادات کی تعلیم اور ان کی حقیقی روح کا شعور پیدا کرنا ہی تعلیم کی اصل ہے۔ ضروری ہے کہ امت کے تمام افراد کو تعلیم وتعلّم کے تمام قدیم اور جدید ذرائع استعمال کرکے دین کی بنیادی تعلیمات اور ان کی حقیقی روح اور مطلوبہ نتائج سے روشناس کیا جائے۔ تب ہی ہماری عبادات پوری طرح ثمر آور ہو سکتی ہیں۔ ورنہ خدشہ ہے کہ عبادات ہی نہیں ہر دینی عمل، ایمان، احتساب اور تقویٰ کے بغیر بے جان اور غیر مؤثر رہے گا، اور حج جیسی جامع بھی غیرمؤثر ہوکر رہ جاتی ہے۔