۲۰ویںصدی کی اردو اسلامی مجلاتی صحافت نے اسلامی فکر کے تشکیلی عمل میں گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔ مئی۱۹۳۳ء سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرادارت ماہ نامہ ترجمان القرآن، حیدرآباد دکن [۱۹۳۸ء کے بعد سے لاہور] کے نئے آہنگ اور منفرد لہجے نے ایک ہی عشرے میں اہلِ دین و دانش کی توجہ کھینچ لی۔
اگست۱۹۴۷ء کے بعد جب برطانوی ہند دو ممالک، یعنی بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہوا، تو سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پاکستان ہجرت کے باعث اُس وقت سے ترجمان القرآن لاہور سے شائع ہورہا ہے۔ البتہ دعوتِ حق کی یک تخمی بہار کے وہ سفیر جو بھارت میں رہ کر چراغ ہدایت کا عَلم تھام کر نکلے تھے، انھوںنے نومبر۱۹۴۸ء میں رام پور سے ماہ نامہ زندگی کا اجرا کیا۔ گویا کہ ماہ نامہ زندگی بھارت کے معروضی حالات میں ماہ نامہ ترجمان القرآن کی صداے بازگشت لیے، علم وفضل کی منفرد علامت بن کر طلوع ہوا۔ اس کے اوّلین مدیر مولانا سید حامد علی تھے۔ بعدازاں مختلف اہل علم اس کی ادارت سے وابستہ رہے، جن میں مولانا سید احمد عروج قادری (م:۱۷مئی۱۹۸۶ئ) سب سے زیادہ عرصے تک مدیر رہے۔
زیرنظر کتاب اسی تاریخی رسالے ماہ نامہ زندگی، رام پور، اور بعد ازاں ماہ نامہ زندگی نو، نئی دہلی کے نہایت مفصل اور سائنٹی فک اشاریے پر مشتمل ہے۔ ماہ ناموں میں بہت سے قیمتی مباحث و مقالات جگہ پاتے ہیں اور ان میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد کتابی مجموعوں میں جگہ پانے سے محروم رہتی ہے۔ رسائل و جرائد کے اشاریے (Index) ان قیمتی اور بھولی بسری تحریروں کی نشان دہی کرکے، علم کے شیدائیوں کو استفادے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
اشاریہ سازی ایک فنی اور فی نفسہٖ ایک علمی کاوش کا نام ہے۔ یہ محض مضامین کی نمبر شماری کا میکانکی عمل نہیں ہے۔ اس لیے ایک اچھے اشاریے کی تدوین میں اگر کوئی صاحب علم اپنی توجہ مرکوز کرے تو وہ اشاریہ، علم کا قطب نما بن سکتا ہے۔ الحمدللہ، زیر نظر اشاریہ ایک سنجیدہ محقق، صاحب ِ نظر عالم اور متین و شفیق استاد جناب ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ جنھوںنے ہمیں ماہ نامہ زندگی/ زندگی نو کے دامن میں سمٹے خزانے تک پہنچنے میں مدد دی ہے، اور نومبر۱۹۴۸ء سے دسمبر۲۰۱۵ء تک تقریباً ۶۷برس پر پھیلے ہوئے علمی سفر کا شریکِ سفر بنایا ہے۔
اشاریے کے آئینے میں یہ صورت سامنے آتی ہے کہ: اس پورے عرصے میں کل ۵۰۶۳ تحریریں اس ماہ نامے میں شائع ہوئیں اور ۱۲۱۳ کتب رسائل پر تبصرے چھپے۔ (یعنی اوسطاً سالانہ صرف ۱۸ تبصروں کی اشاعت کا مطلب یہ ہے کہ انتخاب ونقد کا ایک معیار رکھا گیا)۔ اسی طرح ۹۲۶ اہل قلم نے پرچے کی قلمی معاونت کی، جب کہ ۱۱۶ مترجمین (عربی، فارسی، ہندی، انگریزی) نے تعاون کیا۔ اہل قلم میں سے ۲۷اصلاحی، ۴۱فلاحی اور ۴۶ندوی پہچان رکھنے والے مضمون نگار ہیں۔ محترم رضی الاسلام نے عرضِ مرتب میں پرچے کا جامع تعارف کرایا ہے۔
بایں ہمہ مؤلف کے اس علمی فیض نے ہمیں ان بیسیوں اصحابِ علم سے واقفیت بہم پہنچائی ہے، جنھوںنے مختلف علمی معرکوں میں حق کی گواہی دی اور اپنا اپنا حصہ ادا کیا۔ اسلامی فکر و دعوت سے روشناسی کے لیے یہ خوب صورت اشاریہ، اصحابِ علم کی ضرورت ہے۔ (سلیم منصورخالد)
زیرنظر کتاب میں مؤلف نے اس امر کا اہتمام کیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت صرف صحیح احادیث سے مرتب کی جائے۔ صحیح ترین احادیث کی بنیاد پر حضور اکرمؐ کی سیرت کا مطالعہ ایک قابلِ تحسین کارنامہ ہے۔ سیرت النبیؐ پر بعض کتابوں میں ہر طرح کی غلط اور صحیح روایات جمع کردی گئی ہیں۔ سیرت النبیؐ پر ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس کا ہرجز پوری صحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ فاضل مؤلف مبارک باد کے مستحق ہیں۔ مسلمانوں کو حضور اکرمؐ کا صحیح اسوئہ حسنہ ہمیشہ مطالعے میں رکھنا چاہیے تاکہ آپؐ کی صحیح سیرتِ مبارکہ اپنی تمام جزئیات کے ساتھ سامنے رہے۔ قرآنِ مجید نے یہ حکم دیا ہے کہ وَاِِنْ تُطِیعُوْہُ تَہْتَدُوْا (النور ۲۴:۵۴) ’’اس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پائو گے‘‘۔
زیرتبصرہ کتاب میں حضور اکرمؐ کی ولادت سے لے کر آپؐ کے وصال تک تمام چھوٹے بڑے واقعات ترتیب سے بیان کیے گئے ہیں۔ غزواتِ نبویؐ، وفود کی آمد، حجۃ الوداع، آپؐ کی بیماری کے حالات اور وفات حسرت آیات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔(ظفرحجازی)
علامہ اقبال کی شاعری اور افکار و تصورات کی تشریح و توضیح اور تنقید و تجزیہ ایک سدابہار موضوع ہے۔ اس کا سبب علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری کی دل کشی ہے جو ہر لکھنے والے کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ مصنف کی اقبالیات سے وابستگی دیرینہ ہے۔ ایم فل انھوں نے اقبالیات میں کیا تھا مگر اس کے بعد بھی انھوں نے اقبال کا مطالعہ جاری رکھا۔ کئی برس پہلے اس کا نتیجہ کتاب: اقبال، علامہ اقبال کیسے بنے؟ کی صورت میں سامنے آیا۔ زیرنظر، اقبال پر ان کی دوسری کتاب ہے (تیسری کتاب اقبال کی فکری جہتیں عن قریب شائع ہوگی)۔
یہ کتاب ۱۶ مضامین کا مجموعہ ہے۔ عنوانات مختلف ہیں: (شعائر اسلام اور اقبال، علامہ اقبال اور مثالی معاشرہ، اقبال اور ثقافت ِ اسلامیہ، اقبال کا تصورِ تقدیر وغیرہ) مگر سب مضامین اقبال کی بنیادی تعلیمات کو اُجاگر کرتے ہیں اور بقول مصنف: ’’اسلامی روح کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں‘‘۔ آخری پانچ مقالات رسولِ کریمؐ اور بعض انبیا ؑ (حضرت آدم ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسٰی ؑ) کے حوالے سے ہیں۔ آخری مقالے کا عنوان ہے: ’کلامِ اقبال میں انوارِ قرآن کریم‘۔ مصنف نے اشعارِ اقبال اور آیاتِ قرآنی میں مطابقت دکھاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’’کلامِ اقبال کا بیش تر حصہ قرآنِ کریم کے نکات کی تصریح و تشریح کا آئینہ دار ہے‘‘۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف اقبال کے ساتھ قرآن و حدیث اور سیرتِ پاکؐ کا بھی بہ خوبی مطالعہ رکھتے ہیں۔ پروفیسر ہارون الرشید تبسم نے دیباچے میں بتایا ہے کہ ’’کتاب کے پہلے نو مضامین ایم فل اقبالیات کے تحقیقی انداز میں تحریر کیے گئے ہیں‘‘ اور یہ ’’آنے والے محققین کے لیے انتہائی مفید ثابت‘‘ ہوں گے۔ جملہ مضامین اصولِ تحقیق کے مطابق حوالوں سے مزین ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
مصنف کہتے ہیں: ’’کوشش یہ رہی کہ ۴۰برسوں [صحافت ۱۰ سال+ریڈیو ۳۰سال]کے ان یادگار لمحات کو صفحۂ قرطاس پر دیانت داری کے ساتھ یک جا کردیا جائے‘‘۔ بلاشبہہ انھوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا ہے۔ کتاب میں ریڈیو پاکستان کے ساتھ خود مصنف کی اپنی کہانی بھی آگئی ہے۔ انورسعید نے ۱۰ برس متعدد اخبارات بشمول مشرق اور جسارت میں کام کیا۔ پھر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے اور نیوزکنٹرولر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ دیباچہ نگار رفیع الزمان زبیری کا خیال ہے کہ اگر ان کے ساتھ انصاف ہوتا تو وہ ریڈیو کے سب سے بڑے عہدے (ڈائرکٹر نیوز) سے ریٹائر ہوتے۔ جہاں تک [پاکستان میں] انصاف کا تعلق ہے انورسعید نے بتایا ہے کہ ایک مرتبہ ریڈیو سے کسی ایک فرد کی خدمات بی بی سی لندن کو مستعار دینی تھیں۔ میرا نام سرفہرست تھا۔ دوسرے نمبر پر ایک اور ساتھی (انیس صدیقی) اور تیسرے نمبر پر کوئی خاتون تھیں۔ روانگی کا وقت آیا تو خاتونِ محترم تشریف لے گئیں اور ہم دونوں منہ تکتے رہ گئے۔
انورسعید نے بھٹو کے دور کی بے انصافیوں، بے اعتدالیوں، غلط بخشیوں اور قانون شکنیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر ضیاء الحق کا دور بھی دیکھا، بطور شخص ان کی تعریف کی ہے مگر وہ ان کے ریفرنڈم کو بناوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ کتاب بقولِ مصنف: ’’ صرف میرے مشاہدات، تصورات، تجربات اور واقعات پر مبنی ہے‘‘۔ کرنل اشفاق حسین کے الفاظ میں: ’’یہ کتاب پاکستان کا خوب صورت معلومات سے پُر تعارف بھی ہے اور ۳۰سال کی تاریخ بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جب کہ جگہ جگہ خوب صورت شعروں کا برمحل استعمال کیا گیا ہے‘‘۔
انورسعید کو بیرونِ ملک جانے کے مواقع بھی ملے۔ ان میں سب سے قیمتی موقع وہ تھا جب وہ صدرمشرف کے ساتھ سعودی عرب گئے۔ سات مرتبہ حجراسود کو بوسہ دیا اور خانہ کعبہ کے اندر نوافل پڑھے۔ بعض شخصیات (جیسے محمد خان جونیجو، حکیم محمد سعید شہید، محمد صلاح الدین شہید، خالداسحاق اور ملک معراج خالد وغیرہ) کی تعریف کی ہے۔ صلاح الدین شہید پر پورا ایک باب ہے۔ کتاب بے حد دل چسپ اور لائقِ مطالعہ ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
زیرنظر کتاب ایک ڈائری ہے جو مولانا سمیع الحق نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۸۳ء تک بعض سنین کے حذف کے ساتھ ۲۸برسوں میں تحریر کی۔ ڈائری میں کُل ۹۲۴؍ اندراجات کے تحت گھر، محلے، اپنے مدرسے، شہر، ملکی اور بین الاقوامی اُمور سے متعلق اپنی دل چسپی کی یادداشتیں قلم بند کی ہیں۔ سیاسی، مذہبی، علمی، ادبی اور درس و تدریس سے متعلق ایسے اُمور بھی زیرتحریر آئے ہیں جو مصنف کی ذہنی او ر فکری شناخت کا مظہر ہیں۔
ڈائری کے اندراجات میں تنوع ہے۔ مصنف علما سے عقیدت مندانہ وابستگی پر اور سیاسی اُمور پر بات کرتے ہیں۔ میرزاہد، صدرا اور قطبی کے بارے میں ریمارکس اور بعض شخصیتوں، (سیّد سلیمان ندویؒ، مناظر احسن گیلانی ؒ، حضر ت مدنی ؒ ، حضرت لاہوریؒ )کا ذکر ہے۔اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں یہ بحث بھی ہوتی رہی کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہو یا کچھ اور؟ (ص ۷۸)۔
ڈائری میں علمی و ادبی شہ پاروں کا انتخاب بھی دیا گیا ہے۔ یہ علمی نکات ۳۶۳ عنوانات کے تحت دیے گئے ہیں۔ ان سے مصنف کے علمی و ادبی ذوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انھیں مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوبِ انشا پردازی مقابلتاً زیادہ پسند ہے۔ مولانا آزاد کے مجموعۂ خطوط کا نام نقشِ آزاد ہے جسے کمپوزر نے ’نقشِ آغاز‘ بنا دیا ہے۔ (ظفرحجازی)
تحریکِ اسلامی کا وہ قافلہ جو جماعت اسلامی کے نام سے معروف ہے، گذشتہ پون صدی سے دعوتِ دین اور تزکیۂ نفوس کے نہایت قابلِ قدر کام میں مشغول ہے۔ جماعت اسلامی یقینا دفاتر اور کتابوں کا نام نہیں بلکہ اُن سعید روحوں سے تشکیل پانے والے قافلے کا نام ہے، جس میں ہرعمر کے شیدائیانِ حق، اپنی زندگی کے بہترین لمحوں اور برسوں کو تحریک کے لیے تج دیتے ہیں اور اس طرح حق شناسی سے حق بیانی کا سفر کرتے ہوئے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہوجاتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ایسے ہی متلاشیانِ حق اور پھر علَم بردارانِ حق کی زندگیوں کے مختصر مگر دل چسپ، سبق آموز اور جذبہ انگیز تذکرے پر مشتمل ہے، جس کو تعلیمی انتظامیات کے ایک اعلیٰ آفیسر جناب مہر محمد بخش نول نے ترتیب دیا ہے۔ تقریباً ایک سو افراد کی ایک کہکشاں میں مولانا مودودیؒ سے لے کر بنگلہ دیش میں تختۂ دار کو چومنے والے جاں نثاروں کا تذکرہ ہے۔ (ان میں سے چند افراد ایسے بھی ہیں جو بقید ِ حیات ہیں)۔ اس تذکرے میں ایمان کی چاشنی اور قافلۂ حق کی خوشبو موجود ہے۔ اہم تر بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے رفقا کا تذکرہ ہے جو عام طور پر معروف و مشہور لوگوں میں شمار نہیں ہوتے، لیکن ان کی زندگیوں کے تذکرے کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس قافلے کی روشنی کو دوچند کرنے میں ان پروانوں نے کس لگن سے ایثار اور عزم و ہمت سے کام لیا۔(سلیم منصور خالد)
کہانی میں دل چسپی انسانی فطرت کا خاصا ہے ، خصوصاً بچپن او ر کہانی کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کہنے کو تو کہانی نویسی کی روایت اب بھی ہمارے ادب کا حصہ ہے، لیکن فی زمانہ جہاں بچوں کی تعلیمی ضروریات اور سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی تربیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ادب کی کمی ہے، وہاں سائنسی موضوعات بالخصوص توجہ سے محروم ہیں۔ شاید اسی ضرورت کے پیش نظر مصنفہ نے سائنسی ادب کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
زیرنظر کتاب ۱۱ کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ کہانیاں اس سے پہلے اُردو سائنس میگزین اور دیگر رسائل میں شائع ہوچکی ہیں۔ سائنسی کہانیوں کا بنیادی مقصد سائنس اور ٹکنالوجی کے بارے میں معلومات دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں سائنسی دریافتوں اور ایجادات کے امکانات کے خواب دکھا کر بچوں کے ذوق تجسس کو پروان چڑھانا ہے۔ دیباچے میں درست لکھا گیا ہے کہ ’’جب تک تخیلاتی دنیا میں تسخیر کائنات کو بیان نہیں کیا جائے گا، عملی دنیا میں اس کا ذوق پیدا نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (ص ۷)
مصنفہ نے مفید سائنسی معلومات کو پُرتجسس، عام فہم، رواں دواں اور دل چسپ انداز میں پیش کر کے قابلِ قدر کاوش کی ہے۔ کہانیوں میں ادبی محاسن کے ساتھ ساتھ سماجی اور اَخلاقی اقدار کا بھی بطورِ خاص خیال رکھا گیا ہے۔ تاہم، حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستانی بچوں کے لیے لکھی گئی ان کہانیوں کے کردار اور ماحول، ترقی یافتہ ممالک سے مستعار لیے گئے ہیں اور وہ بھی طبقہ اشرافیہ کے، جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ شاید سائنسی انکشافات ترقی یافتہ ممالک کے متمول خاندانوں کے بچوں کے چونچلے ہیں جن کا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا عام بچہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ (حمید اللّٰہ خٹک)
ادب، دل و دماغ کو متاثر کرکے نئی طرز پر استوار کرنے کا نام ہے۔ جو ادب دل و دماغ کی اصلاح کا کام کرے، نیکی اور خیر کے جذبات کو فروغ دے اور پروان چڑھائے وہی اعلیٰ اور تعمیری ادب ہے۔ صرف معاش اور جذبات و خیالات کی تسکین، آسودگی اور انگیخت کے لیے تخلیق کیا جانے والا ادب تعمیری اور اعلیٰ ادب قرار نہیں پاسکتا۔
انتظار، نجمہ ثاقب کے ۱۴ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ہرافسانہ اپنی جگہ دل چسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ بعض افسانے تقسیم برعظیم سے پہلے ہندومسلم فسادات، بعض خالص دیہاتی ماحول و معاشرے اور بعض سماجی و معاشرتی رہن سہن میں پائی جانے والی خرابیوں کو اُجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔
مصنفہ کا اندازِ بیان گرفت میں لے لینے والا، مربوط اور گہرائی پر مبنی ہے۔ افسانوں کے عنوانات، زبان و بیان، اسلوب، محاوروں کا استعمال ، گہرے اور جان دار انداز و مشاہدے کا آئینہ دار ہے۔ آنکھوں سے کیے گئے مشاہدے کو الفاظ کا ایسا جامہ پہنایا گیا ہے کہ دل چسپی اور تجسّس آخر تک برقرار رہتا ہے اور نہ افسانہ چھوڑنے کو جی چاہتا ہے اور نہ کتاب۔ ’گیارھواں کمّی‘ ہو یا ’اُدھوری کہانی‘، ’کنگن‘ ہو یا ’ابابیلیں‘ ، تمام کہانیاں فنی و تکنیکی اعتبار سے عمدہ ہیں جن کے مطالعے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اچھا ادب اور تخلیق، نیکی و خیر کے جذبات کو کیسے پروان چڑھاتا ہے۔ اسلامی ادبی محاذ پر ان افسانوں کو تازہ اور خوش گوار ہوا کا جھونکا قرار دیا جاسکتا ہے۔(عمران ظہور غازی)
اس مختصر کتابچے میں پیش لفظ کے بعد ۳۶ عنوانات کے تحت ۱۹۱۷ء سے ۲۰۰۵ء تک زینب الغزالی کی بھرپور زندگی کا عکس پیش کیا گیا ہے۔ پیش لفظ میں مصنفہ نے لکھا ہے: ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ایک طرف ایک عبادت گزار، پرہیزگار، پابند شریعت خاتون ہیں تو دوسری طرف اسلام کی داعیہ و مبلغہ بھی ہیں۔ وہ ایک جانب بہترین شعلہ بیان خطیبہ و مقررہ ہیں تو دوسری جانب نمایاں سماجی خدمت گار اور یتیم بچیوں اور بے سہارا خواتین کی ہمدرد و غم گسار ہیں۔ وہ خواتین کو مسجد سے جوڑنے والی رہبر ہیں تو دین کی نشرواشاعت کے لیے انھیں آگے بڑھ کر کام کے لیے اُبھارنے والی ہیں۔ وہ اگر میدانِ جہاد میں کھڑی نظر آتی ہیں تو علماے دین سے فیضِ علم حاصل کرتے ہوئے بھی نظر آتی ہیں۔ وہ خواتین کی اصلاح و تربیت کے لیے بے چین رہنے والی ہیں تو ان کے گھروں کو ہمہ گیر، دین کی روشنی سے منور کرنے والی بھی ہیں‘‘۔ کیا اچھا ہو کہ یہ مختصر کتاب یہاں شائع ہو اور بڑی تعداد میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد بھی پڑھیں۔(مسلم سجاد)
o الاصلاح ، مدیراعلیٰ: عزیرصالح۔ ملنے کا پتا: اصلاح انٹرنیشنل، ۱۸- وحدت روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۱۶۶۹۴-۰۴۲۔
[سیّد مودودی ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت ادارہ اصلاح انٹرنیشنل (انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز لینگویجز اینڈ ہیومینیٹیز) کا یہ ترجمان ڈاکٹر شبیراحمد منصوری کی سرپرستی میں عربی اور انگریزی میں شائع ہوتا ہے۔ آیندہ اسے ادارے کے تحقیقی مجلے کی صورت دے دی جائے گی۔ مدیر مجلہ رشیداحمد اشرفی رقم طراز ہیں کہ ٹرسٹ کے تحت چار ادارے تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں: ۱-سیّد مودودی انٹرنیشنل، انسٹی ٹیوٹ براے علوم اسلامیہ ۲-دارالقرآن الکریم (حفظ، قرأت و تجوید اور فہم قرآن) ۳- منصورہ ڈگری کالج ۴-اصلاح انٹرنیشنل۔ مستقبل کے عزائم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اصلاح انٹرنیشنل میں oکلیۃ الشریعہ والقانون oکلیۃ التعلیم وتدریب المعلمینoکلیۃ الاقتصاد الاسلامی oکلیۃ اللغات (عربی، انگریزی، فارسی، چینی وغیرہ) oکلیۃ التراجم والتصنیفoکلیۃ الدراسات الاسلامیہ کے شعبہ جات کا جلد آغاز کیا جارہا ہے۔ سیّد مودودی کے افکار کی روشنی میں یہ یقینا ڈائرکٹر ڈاکٹر شبیراحمد منصوری اور ان کے رفقا کی مخلصانہ کاوشوں کا مرہونِ منت ہے۔]