ڈاکٹر حسن الترابی کا شمار عالمِ عرب اور اُمت مسلمہ کے مردانِ جری میں ہوتا ہے۔ وہ فکروتربیت اور میدانِ سیاست کے بھی ممتاز فرد تھے۔ وہ سیاسی و دینی رہنما اور صاحب ِ دانش انسان تھے۔ اُن کا شمار اسلامی سیاست کے قائدینِ تجدید میں بھی ہوتا ہے۔ عالم، مفکر، داعی، مجاہد اور عزم و جزم سے لبریز یہ شخصیت ۵مارچ ۲۰۱۶ء کو ۸۴برس کی عمر میں ہم سے جدا ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
وہ سوڈان اور عالمِ اسلام کی چند بڑی اور نمایاں فکری و سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے۔ ۱۹۹۶ء میں نجات انقلاب کے زمانے میں سوڈانی پارلیمنٹ کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۸ء میں حکمران جماعت قومی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل چُنے گئے۔ خرطوم یونی ورسٹی میں پہلے بحیثیت استاد اور پھر انسانی حقوق کالج کے پرنسپل کے طور پر کام کیا۔ جولائی ۱۹۷۹ء میں دستور پر نظرثانی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ بنے۔ پھر وزیرعدل بنائے گئے۔ ۱۹۸۸ء میں سوڈان کے نائب وزیراعظم اور صادق المہدی کی حکومت میں وزیرخارجہ مقرر ہوئے۔ بعدازاں ان کے اور صدر عمرالبشیر کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ یہ اختلاف اس قدر بڑھا کہ ۱۹۹۹ء میں حکومت میں دراڑیں پڑگئیں۔ حسن الترابی حکومتی اور جماعتی مناصب سے برطرف کر دیے گئے۔ ۲۰۰۱ء میں انھوں نے اپنی جماعت قومی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔
حسن الترابی اخوانی تاریخ کے تیسرے ’حسن‘ ہیں۔ حسنِ اوّل: حسن البنا شہید، حسنِ ثانی: حسن الہضیبی اور حسنِ ثالث: حسن الترابی ہیں، یعنی خالص اور اصل سوڈانی حسن الترابی!
ڈاکٹر حسن الترابی نے قرآنِ مجید بچپن ہی میں حفظ کرلیا تھا۔ انھوں نے عربی زبان اور شرعی علوم کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مغرب میں اعلیٰ تعلیم پائی مگر اس کے باوجود اُن کی اصل اسلامی فکر اپنی نہاد پر قائم رہی۔ انھوں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ پھر سوربون یونی ورسٹی فرانس سے ڈاکٹریٹ کی۔ انگریزی ، فرانسیسی، جرمن اور عربی زبانوں پر انھیں کامل عبور حاصل تھا۔ اس جدت کے باوجود وہ عمربھر سوڈانی عرب مسلمان کی شناخت کے ساتھ زندہ رہے۔
حسن الترابی متحرک شخصیت تھے۔ سُستی و کاہلی اور تھکان کا اُن کی زندگی میں گزر نہیں تھا۔ وہ طویل نیند اور آرام کے عادی نہ تھے۔ وہ آزاد مرد تھے۔ اُن کی فکر آزاد تھی، اُن کے ارادے آزاد تھے۔ اُن کے فیصلے آزاد ہوتے تھے۔ وہ روشن عقل کے مالک تھے۔ اُن کی زبان فصیح تھی۔ اُن کا چہرہ اصل سوڈانی چہرہ تھا۔ کسی تکلف کے بغیر ہمیشہ، مسکراتا چہرہ!
صادق المہدی کی ہمشیرہ سے اُن کی شادی ہوئی۔ وہ اُن کی بہترین شریکِ حیات ثابت ہوئیں۔ اخوان کے ساتھ حکمت عملی کی سطح پر اُن کا اختلاف رہا۔ دراصل حسن الترابی کا تحریک کے مقابلے میں اپنا ایک فلسفہ تھا جو اخوان کی تحریک کے عمومی لائحہ عمل سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں تھا۔ انھوں نے اخوان کی عالمی تنظیم سے کہا کہ ہمیں ہمارے اُن بعض اقدامات اور فیصلوں میں معذور سمجھا جائے جو بسااوقات مقامی، علاقائی اور سیاسی حالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم طے شدہ پالیسی کے مطابق اُن کو قائم رکھیں، اُس پالیسی کے پابند ہوں، یا اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ پھر برسوں اسی طرز پر معاملات چلتے رہے۔
حسن الترابی نے سوڈانی جماعت کی قیادت اچھے وقتوں میں بھی کی اور مشکل حالات میں بھی وہی سرخیل رہے۔ اُن کے ساتھ بس ایک گروہ تھا۔ اگرچہ اُن میں سے بھی بعض لوگ اُن مخالفتوں کا سامنا نہ کرسکے جن کا اخوان کی روایات پر چلنے کے معاملے میں حسن الترابی کو اپنے اجتہاد کی بنیاد پر کرنا پڑا۔ دراصل ان معاملات میں لوگوں کی طبائع اور رجحانات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض لوگ سیاست اور فکر میں روایت سے ہٹنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے۔
شیخ الترابی کو میں نے فہم وفراست میں نہایت باریک بین پایا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں نہایت حساس طبیعت عطا کی تھی۔ اُن کا ایمان گہرا اور علم پختہ تھا۔ ہماری گفتگو کا موضوع اُمت کے حالات، مسائل اور اُن کا سدباب ہوتا۔ مسلمانوں کے حالات، اُن کی بیداری اور اُن کی دعوت میں ترقی اور بہتری کے طریقوں اور راستوں پر بحث و تمحیص ہوتی۔
۱۹۸۵ء میں پہلی مرتبہ مَیں ترابی صاحب سے بیروت میں ملا۔ اُس وقت وہ بھرپور جوان تھے۔ اس سے پہلے وہ قومی تحریک کی قیادت کرچکے تھے جس کے نتیجے میں عبود کی صدارت میں قائم فوجی حکوت کا خاتمہ ہوا تھا اور سوڈان میں سول حکومت قائم ہوئی۔
ڈاکٹر حسن الترابی اور اُن کے متعدد ساتھیوں کو النمیری کے دورِ حکومت میں ایک عرصہ پابند سلاسل رکھا گیا۔ پھر حکومت کی اُن کے ساتھ یہ بات چیت طے پائی کہ حکومت اور وہ مل کر کام کریں تاکہ ایک دوسرے سے استفادہ ممکن ہوسکے۔ حکومت نے انھیں بعض مناصب قبول کرنے کی تجویز پیش کی جو انھوں نے مان لی۔ دراصل وہ مرحلہ وار کام کرنے پر یقین رکھتے تھے۔
ہم سوڈان کے اُس قومی اجتماع میں شریک تھے جس کا اعلان النمیری نے اسلامی قانون سازی کی غرض سے کیا تھا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اور اُن کی جماعت پوری قوت کے ساتھ اس بہت بڑے مارچ میں شریک تھے۔ اس اجتماع کو ’ملین مارچ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ میں اور شیخ صلاح ابواسماعیلؒ ایک بلندعمارت سے اس مارچ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ انسانوں کا جمِ غفیر تھا۔ لوگ شریعت، اسلام اور قرآن کے لیے پوری طاقت اور گرم جوشی کے ساتھ نعرے لگا رہے تھے۔ ہمارے آنسو جاری تھے اور ہم کہہ رہے تھے: کیا ہمارے لیے بھی قاہرہ میں ایسا دن آئے گا؟
پھر سوڈان میں حالات بہت جلد بدل گئے۔ دراصل عسکری انقلاب کے پاس کوئی فکری، تربیتی اور اخلاقی لائحہ عمل نہیں تھا، لہٰذا تبدیلی ناگزیر تھی۔ اس کے جواب میں پھر ایک عسکری انقلاب آیا لیکن یہ صاف شفاف اور پُرامن انقلاب تھا۔ اس کی قیادت جنرل عبدالرحمن سوارالذہب کررہے تھے۔ وہ صاحب ِ اخلاق اور امن پسند انسان تھے۔ تقویٰ و پرہیزگاری اور حکومت و سلطنت میں ایثار و قربانی میں ضرب المثل تھے۔ وہ ایک سال بعد ہی مشترک حکومت کے قیام پر اُتر آئے۔
سیاسی بساط لپیٹ دیے جانے کے بعد ضروری تھا کہ اب ملک میں حکومتی اُمور پر مضبوط گرفت رکھنے والا کوئی طاقت ور فرد سامنے آتا۔ ڈاکٹر حسن الترابی اپنے وژن اور دُوراندیشی کے اعتبار سے ایسی صفات کے حامل لوگوں میں سرفہرست تھے۔ لہٰذا انھوں نے قد م آگے بڑھایا اور فوجیوں کے ایک گروہ کو منتخب کیا جن میں عمرالبشیر سب سے نمایاں تھے۔ اس نازک موقعے پر اگر حسن الترابی قدم نہ اُٹھاتے تو اشتراکی اور بعثی پہل کر جاتے۔ آغاز میں ان لوگوں نے مسلح انقلاب کی کوشش کی تھی لیکن اُن کی یہ کوشش کچل دی گئی تھی۔
حسن الترابی ماضی جیسی عزیمت کے حامل مرد تھے۔ وہ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّل عَلَی اللّٰہِ کی عملی تصویر تھے۔ انھیں کسی شاعر کا یہ قول بہت پسند تھا:
اِذَا کُنْتَ ذَا رَأیٍ فَکُنْ ذَا عَزِیْمَۃٍ
فَاِنَّ فَسَادَ الرَّأْیِ أَنْ تَتَرَدَّدَا
وَاِنْ کُنْتَ ذَا عَزْمٍ فَانْفِذْہُ عَاجِلًا
فَاِنَّ فَسَادَ الْعَزْمِ أَنْ یَتَقَیَّدَا
(اگر تم صاحب راے ہو تو صاحب ِ عزم بھی بنو، کیونکہ تمھارا متردد رہنا تمھاری راے کو تباہ کردے گا۔ اگر تم صاحب ِ عزم ہو تو جتنا جلد ہوسکے اسے نافذ کرو، کیونکہ التوا عزم کو تباہ کردیتا ہے)۔
سوڈان کے مسلم نوجوان حسن الترابی کے گرد جمع ہوئے اور پورے سوڈان میں اُن کو اسلامی تحریک کے لیے اپنا قائد منتخب کرلیا۔ جب وہ انقلاب برپا ہوا جس کے اسباب اسی شخص نے پیدا کیے تھے اور خود ہی پوری حکمت کے ساتھ اس کی قیادت کی تھی اور اس میں سرخ روئی بھی نصیب ہوگئی تھی، اس وقت انھوں نے جیل جانا گوارا کرلیا اور جیل کے اندر سے ہی تحریری ذریعے سے معاملات چلاتے رہے۔ اس کے بعد ترابی صاحب نمودار ہوئے اور جیل سے باہر آگئے۔ یہی وہ موقع ہے جب ترابی صاحب، عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ انھوں نے باہر کے لوگوں کو سوڈان بلایا۔ میں بھی اُن لوگوں میں شامل تھا۔
۱- اس بات پر پختہ ایمان کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ شریعت اور تربیت ہمارا عمومی منہج ہے۔
۲- یہ یقین کہ ’قوموں کی آزادی‘ اسلامی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے جس کے لیے ہم مصروفِ جہاد ہیں۔
۳- فکروتعبیر کی آزادی اور ظلم و استبداد کی مزاحمت بنیادی فرائض ہیں۔
۴- مسئلۂ فلسطین اصل مسئلہ ہے۔ اس میں کسی کمزوری کا مظاہرہ جائز نہیں۔ اس کا دفاع فرض ہے۔
۵- عدلِ اجتماعی کے قیام اور بدعنوانی اور مظالم کے خاتمے کے لیے لڑنا اسلام کا جزولاینفک ہے۔
۶- مشرق و مغرب میں پھیلی اُمت مسلمہ اُمت واحدہ ہے۔ اس کا انتشار جائز نہیں۔
۷- ہر امن پسند کے لیے ہم امن پسند ہیں۔ ہمارا ہاتھ اُس کے ہاتھوں میں ہوگا، مگر اُس کے ہم دشمن ہیں جو ہم سے دشمنی کرے۔
۸- تمام تر انسانیت اولادِ آدم ہے۔ سب کے سب بھائی بھائی ہیں۔ ان کے اُوپر فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت اور تعاون کریں۔
ڈاکٹر حسن الترابی وہ شخصیت ہیں جن کے مقام و مرتبے اور احیاے اسلام کے لیے اُن کی مساعی کا ہم انکار نہیں کرسکتے۔ سوڈان میں اسلامی تحریک کے لیے اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ صہیونی اور صلیبی ریشہ دوانیوں کے خلاف اُن کی مزاحمت قابلِ ذکر ہے۔ سیکولرزم اور لادینیت کے خلاف اُن کی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، اس تمام تر کے باوجود وہ معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ بعض مسائل میں اُن کے تفردات ضرور تھے ؎
وَمَنْ ذَا الَّذِیْ تُرضٰی سَجَایَاہُ کُلُّھَا
کَفَی الْمَرْئُ فَضْلًا أَنْ تُعَدَّ مَعَائِبُہُ
(کون ہے جس کی تمام صفات و عادات قابلِ قبول ہوں۔ کسی آدمی کے بلند مقام و مرتبے کے لیے یہی کافی ہے کہ اُس کے معائب گنے جاسکتے ہوں، بے شمار نہ ہوں)۔
میں نے متعدد مسائل میں ترابی صاحب سے اختلاف کیا۔ اپنے فتاویٰ کی پانچویں جلد میں اُن مسائل کو میں نے شامل کیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ڈاکٹر ترابی کو کوئی وقعت نہ دی جائے اور اُن کے اجتہادات کو نظرانداز کردیا جائے۔ وہ مسلمانوں اور عربوں کے بطلِ حُریت رہے۔ لوگ اُن کے حلقے میں آتے جاتے رہے مگر وہ عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے فکری، دعوتی، تربیتی اور جہادی و سیاسی سطح پر صفِ اوّل کی قیادت میں شامل تھے۔ اُن کی وہ تالیفات، افکار و معارف اور توجیہات جن سے اُن کے شاگردوں اور ساتھیوں نے استفادہ کیا وہ مرتب و مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اسی کے لیے وہ مصروفِ عمل تھے۔ اُسی کے لیے اجتہاد کیا اور مجتہد کے لیے تو درستی پر دو اجر ہیں، اور غلطی پر ایک۔ اُن کی رحلت اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہرحال ایک نقصان ہے۔
حسن الترابی کے اندر ایک خوبی اور خصوصیت تھی جو اُن کے علاوہ کسی اور سیاست دان میں نہیں تھی۔ وہ یہ کہ وہ محض سیاسی لیڈر نہیں تھے بلکہ فقہ و دعوت کے غیرمعمولی عالم بھی تھے۔ اُن کے تمام اعمال اور نقطہ ہاے نظر میں ایک فکر نظر آتی تھی۔ اُن کی فکر کا سرچشمہ اسلام تھا، یعنی قرآن و سنت اور انھی دو سرچشموں سے بننے والے اصول، مقاصد اور قواعد ان کی فکر کا ماخذ اور مصدر ہوتے تھے۔
حسن الترابی کی متعدد تصانیف، مقالات اور مختلف موضوعات پر لیکچر موجود ہیں۔ اُن کی چند تصانیف کے نام:m قضایا الوحدۃ والحریۃ (۱۹۸۰ئ) m تجدید اُصول الفقہ (۱۹۸۱ئ) m تجدید الفکر الاسلامی (۱۹۸۲ئ) m الاشکال الناظمۃ لدولۃ اسلامیۃ معاصرۃ (۱۹۸۲ئ) m تجدید الدین(۱۹۸۴ئ) m منھجیۃ التشریع (۱۹۸۷ئ) mالمصطلحات السیاسیۃ فی الاسلام (۲۰۰۰ئ)
ڈاکٹر حسن الترابی علم و ایمان سے لبریز شخصیت، فساد و بدعنوانی اور سرکشی کے خلاف مزاحمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ وہ صلیبی اور مادی جابروں اور متکبروں کے سامنے ڈٹ جانے کے عزم و ہمت کا نام تھے۔ اُنھوں نے ہر طرح کے ظلم و استبداد سے ٹکر لی خواہ وہ اشتراکیت کی صورت میں تھا یا سرمایہ داری کے رنگ میں۔ ان بڑے بڑے ظالم اور استبدادی نظاموں اور قوتوں کی مزاحمت انھوں نے معمول کی زندگی کے ذریعے کرنا پسند کی۔ بلندوبالا محلات میں رہنا انھوں نے گوارا نہ کیا، نہ شاہانہ اور امیرانہ گاڑیوں میں گھومنا ان کی خواہش رہی۔ وہ سہولتوں بھری زندگی گزارنے کے بھی متمنی نہ رہے۔ وہ عام آدمی کی طرح زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ وہ نرم گرم سے اسی طرح متاثر ہونا پسند کرتے تھے جس طرح عام لوگ ہوتے ہیں۔
اسی بنا پر تو کش مکش کو انھوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا اور جس بات کو حق سمجھا بلاخوف و خطر کہہ دیا۔ باطل سے صرف تصادم اُن کا ہدف نہ تھا بلکہ اُسے مغلوب کرنا اُن کا عزم ہوتا تھا۔ اُن کی اس خاصیت نے انھیں اپنے اُن ساتھیوں اور شاگردوں کے ساتھ بھی متصادم رکھا جن کو اُنھوں نے کٹیا سے محلات تک اور فرش سے عرش پر پہنچایا۔وہ زندگی بھر حراست سے جیل اور جیل سے حراست میں منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ اُنھیں اپنے گھر میں زندگی گزارنے کی فرصت ہی نہ دی گئی۔ اُن کی عمر ۸۰سال ہوچکی تھی اور وہ مسلسل جیل میں بند تھے۔
ڈاکٹر حسن الترابی دل کے غنی تھے۔ جیساکہ حدیث میں آیا ہے: لَیْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرْضِ ، اِنَّمَا الغِنَی غِنَی النَّفْسِ’’امیری مال و دولت کی کثرت کا نام نہیں، یہ تو دل کی بے نیازی کا نام ہے‘‘۔ میں نے دوحہ میں سوڈان کے سفیر سے سنا کہ خرطوم میں حسن الترابی کا اپنا مکان نہیں تھا۔ اللہ اکبر! ___رہنما، عالم، متعدد کتب کا مصنف حسن الترابی سادہ سے مکان کا بھی مالک نہیں۔ انھوں نے کئی بار ہمیں اپنے گھر بلایا اور ہم نے وہاں سوڈان کے مشہور و معروف کھانے کھائے۔ اُن کے نمکین و شیریں ماکولات سے ہم شکم سیر ہوئے۔ اس کے باوجود واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ بنک میں رکھواتے۔ شہر سے باہر بھی کوئی زمینی جایداد نہ تھی حالانکہ یہ چیزیں تو عموماً لوگوں کے پاس ہوتی ہیں۔
برادرم حسن! تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی ہو۔ اس سرزمین کو سلام جس نے تجھے جنم دیا۔ اللہ تمھیں، تمھارے بیٹوں، بھائیوں اور ساتھیوں کو بھی برکت سے نوازے۔ زندگی میں انھوں نے تمھارے ساتھ اتفاق کیا ہو یا تمھاری مخالفت کی ہو، یہ سب تمھارے ساتھ شاہراہِ مستقیم پر تھے۔ اللہ برادرم ابراہیم السنوسی کا بھی حامی و ناصر ہو جو اَب جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔
ہم اپنے عزیز بھائی حسن الترابی کے لیے دعاگو ہیں کہ انھوں نے اللہ کے دین اور اُمت محمدی کے لیے جو جدوجہد کی اُس پر اللہ تعالیٰ انھیں بہترین جزا عطا فرمائے۔ اُن کی مغفرت فرمائے، اُن پر رحم فرمائے۔ انھیں اپنے پاس صالحین میں قبول فرما لے۔ اُن کی اجتہادی لغزشوں کو معاف فرمائے۔ اللہ اُن کی آل اولاد اور رفقا کے اندر سے اُن کا بہترین جانشین اُٹھائے۔
(ماخذ: www.qaradawi.net)