یہ سنت ہی ہے جس کی برکت سے شریعت اسلامیہ کے شجرئہ طیّبہ کے سارے اجزا ایک ہم آہنگ نظام میں مربوط رہ کر کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی جہالت پر سر دھنیے جنھوں نے اس کے بالکل برعکس یہ پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ سنت ہمارے قانونی نظام میں اختلاف افتراق کا باعث بنی ہے۔ ان حضرات کو یہ موٹی سی حقیقت سجھائی نہ دے سکی کہ سنّت ماضی و مستقبل کا رشتہ ملاتی ہے اور تاریخ کے سارے اَدوار کو جوڑ کر ایک کُل بناتی ہے اور سنت ہی ہے جو زمین کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے مسلمانوں میں فکری وحدت اور تمدنی ہم آہنگی برقرار رکھتی ہے۔۱؎ اسی کوتاہ فہمی کے ساتھ یہ حضرات اسلامی قانون کی اس ریڑھ کی ہڈی کو چُور چُور کرنے اُٹھے ہیں۔
اس حقیقت کو جدید طبقے کے اندر سب سے بڑھ کر اور شاید سب سے پہلے اقبال نے سمجھا۔ وہ مثنوی اسرار و رُموز میں واضح کرتا ہے کہ ملّت کا اجتماعی وجود قائم ہی نبوت کے فیضان سے ہے۔ فرد کی زندگی تو خدا پر ایمان لانے سے بن سکتی ہے لیکن ملّت کا ظہور نبوت کے وسیلے سے ہوتا ہے۔ نبی ؑ کی تربیت، نبی ؑ کا اسوہ، نبی ؑ کی سنت افراد کو باہم دگر مربوط کر کے اجتماعیت کے پیکر میں لاتی ہے۔ خدا کا رسول وہ مرکز ہے جس کے گرد اشخاص اور طبقے اور قومیں اور نسلیں سمٹ کر ایک وحدت کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ:
___________
معنیٔ دیدارِ آں ’آخر زماںؐ،
حکمِ اُو برخویشتن کردن رواں
در جہاں زی چوں رسولِؐ انس و جاں
تاچو او باشی قبولِ انس و جاں
بازخود را بیں ہمیں دیدارِ اوست
سنتِ او مبر از اسرار اوست
وہ ’فلسفہ زدہ سیّدزادے‘ کو نصیحت کرتا ہے کہ ’دل در سخنِ محمدی بند‘ ۔ وہ حضرت میاں میر کی تعریف میں کہتا ہے کہ ’برطریق مصطفی محکم پئے!‘ وہ حضوؐر کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ’آنکہ بے اوطے نمی گرد دسبل‘۔ وہ ایک عالمِ دین کو ناقدانہ خطاب میں کہتا ہے کہ ’بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘ اور ساتھ ہی انتباہ کرتا ہے کہ اگر یہ نہیں تو پھر جو کچھ ہے ’بولہبی‘ ہے۔ اب یہ پرلے درجے کی ستم ظریفی ہے کہ اس اقبال کو منکرِحدیث اور مخالفِ سنت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، (عائلی کمیشن کی رپورٹ)، ترجمان القرآن، جلد۴۶، عدد۶،ذی الحجہ ۱۳۷۵ھ، ستمبر۱۹۵۶ئ، ص۳۶۷-۳۶۹ )
مگسل از ختم الرسل ایامِ خویش
تکیہ کم کن برفن و بر گامِ خویش
از ’مقامِ اُو‘ اگر دور ایستی
از میانِ معشرِ ما نیستی
دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم
زیں جہت بایک دیگر پیوستہ ایم
رشتۂ مایک تولایش بس است
چشم ما را کیف صہبائش بس است
شکوہ سنجِ سختی آئیں مشو
از ’حدودِمصطفی‘ بیروں مرو
عاشقی! محکم شو ’از تقلیدِ یارؐ،
تا کمندِ تو کند یزداں شکار
___________
معنیٔ دیدارِ آں ’آخر زماںؐ،
حکمِ اُو برخویشتن کردن رواں
در جہاں زی چوں رسولِؐ انس و جاں
تاچو او باشی قبولِ انس و جاں
بازخود را بیں ہمیں دیدارِ اوست
سنتِ او مبر از اسرار اوست
وہ ’فلسفہ زدہ سیّدزادے‘ کو نصیحت کرتا ہے کہ ’دل در سخنِ محمدی بند‘ ۔ وہ حضرت میاں میر کی تعریف میں کہتا ہے کہ ’برطریق مصطفی محکم پئے!‘ وہ حضوؐر کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ’آنکہ بے اوطے نمی گرد دسبل‘۔ وہ ایک عالمِ دین کو ناقدانہ خطاب میں کہتا ہے کہ ’بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘ اور ساتھ ہی انتباہ کرتا ہے کہ اگر یہ نہیں تو پھر جو کچھ ہے ’بولہبی‘ ہے۔ اب یہ پرلے درجے کی ستم ظریفی ہے کہ اس اقبال کو منکرِحدیث اور مخالفِ سنت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
(’اشارات‘ ، نعیم صدیقی، (عائلی کمیشن کی رپورٹ)، ترجمان القران، جلد۴۶، عدد۶،ذی الحجہ ۱۳۷۵ھ، ستمبر۱۹۵۶ئ، ص۳۶۷-۳۶۹ )