۱۹۴۲ء کا زمانہ تھا، میں زمیندارہ کالج گجرات (پنجاب) میں ایف اے کا طالب علم تھا۔ ایک روز اعلان ہوا کہ ہندستان کے ایک بہت بڑے مسلمان اسکالر کالج کے سر فضل علی ہال میں طلبہ سے خطاب کریں گے۔ اسکالر آئے، تعارف جناب ڈاکٹر محمد جہانگیر خان صاحب پرنسپل (مشہور کرکٹر) نے کرایا اور نام علامہ سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ بتایا۔ نام عجیب سا محسوس ہوا اور خطاب اس سے بھی زیادہ عجیب۔ مقرر نے طلبہ سے کہا کہ آپ میرے کچھ سوالوں کے جواب دیں گے؟ کبھی آپ نے غور کیا کہ آپ کیا ہیں؟ دنیا میں آپ کی حیثیت کیا ہے؟ کیا آپ خودمختار ہیں کہ جو چاہیں کریں یا آپ کے پیدا کرنے والے نے آپ کو کسی خاص مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا ہے؟ وہ مقصد کیا ہے؟ اگر انسان اپنے مقصد ِ زندگی سے واقف نہ ہو تو کیا وہ ایک کامیاب زندگی گزار سکتا ہے؟ وغیرہ۔ یہ اور ایسے ہی تھے وہ سوالات جن کا جواب د یے بغیر مقرر نے اپنی تقریر ختم کر دی، اور کہا کہ آپ ان سوالات کے جوابات سوچ رکھیں، میں پھر کبھی آیا تو آپ سے ان کے جوابات معلوم کروں گا۔
اِس مقرر کی سب سے پہلی تحریر جو میری نظر سے گزری وہ ایک پمفلٹ تھا ’کلمۂ طیبہ کے معنی‘ جسے پڑھ کر میرے دماغ میں مذہب کا جو ڈھانچا عام مذہبی ماحول کو دیکھ کر بنا تھا وہ ٹوٹ پھوٹ گیا۔ مجھے کچھ ایسے سوالوں کا جواب ملا جو اکثر میرے ذہن میں بے چینی پیدا کیے رکھتے تھے ۔ میں نے یہ پمفلٹ واپس کرنے کے بجاے اس کی قیمت ادا کردی۔ جس دوست نے یہ پمفلٹ لاکر دیا تھا اس سے اس حقیقتِ اسلام سیٹ کے دوسرے حصے طلب کیے جن کا مطالعہ کرنے سے دل ایمان و ایقان کی دولت سے مالا مال ہوگیا۔ مدلل طرزِ بیان، سلیس و نفیس زبان اور سائنٹفک اپروچ نے مجھ جیسے گرے پڑے انسان کو اُٹھا کر کھڑا کر دیا اور دعوتِ دین کے کام پر لگادیا۔
o پاکستان بننے کے بعد بالکل ابتدائی ایام میں آپ راولپنڈی تشریف لائے تو میں نے آپ سے دریافت کیا کہ میرے ایک دوست کانگرسی ہیں، اکثر کہتے ہیں کہ مودودیؒ نے کون سا تیر مارا ہے۔ وہی باتیں ہیں جو مولانا ابوالکلام آزاد کئی بار اِس سے اچھے انداز میں کہہ چکے ہیں۔ مولانا مودودی نے فرمایا کہ:
آپ کے دوست ٹھیک کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم سب سو رہے تھے تو اِسی شخص نے ہمیں جگایا تھا لیکن آپ اُس شخص کو کیا کہیں گے جو صبح سویرے اُٹھ کر مسجد میں اذان دے اور جب لوگ اس کی اذان سن کر نماز کے لیے مسجد میں آئیں تو وہ خود گھر جاکر سو رہے۔ اب ہم تو جیسی کیسی نماز ہمیں آتی ہے پڑھیں گے۔ اگر جگانے والا گھر جاکر سوگیا ہے تو ہمارے پاس اس کا کیا علاج ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاگے ہم انھی کی اذان سے تھے۔
o ایک دفعہ آپ سیالکوٹ ڈاکٹر اللہ رکھا مرحوم (ہومیو) کے پاس دوا لینے کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا: ’’ہومیوپیتھی طریق علاجِ طب کا تصوف ہے۔ لگ جائے تو چودہ طبق روشن اور نہ لگے تو کوئی نقصان نہیں‘‘۔
اس تبصرے کا لطف وہی لوگ اُٹھا سکتے ہیں جنھیں اس طریقۂ علاج کی خصوصیات سے کچھ واقفیت ہے۔
o جس زمانے میں مولانا امین احسن اصلاحی گروپ کی وجہ سے جماعت کے اندر سخت قسم کا خلفشار برپا تھا اور مولانا کی ہدایت کے خلاف جائزہ کمیٹی کے ارکان نے مرکزی شوریٰ کی رکنیت سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا، جن کا دعویٰ تھا کہ جماعت کی اکثریت موجودہ پالیسی سے غیرمطمئن ہے، مولانا مودودیؒ نے جماعت کی امارت سے استعفا دے دیا۔ اُس وقت تحریک ِ اسلامی کے بہی خواہ سخت اضطراب اور پریشانی کے عالم میں تھے۔ مولانا کے امارت سے مستعفی ہوجانے کے بعد حالات اور سنگین صورت اختیار کرگئے تھے۔ چنانچہ ایک رفیق نے سخت پریشانی کے عالم میں مولانا مغفور سے کہا کہ تاریخِ اسلام میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی سربراہِ حکومت یا جماعت کے امیر نے محض چند افراد کے دبائو پر اپنے منصب سے استعفا دے دیا ہو، حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ نے تو شہادت قبول کرلی مگر خلافت سے مستعفی نہیں ہوئے! مولانا نے مسکراتے ہوئے برجستہ یہ فقرہ کہا:
’’اچھا تو آپ مجھے شہید کروانا چاہتے ہیں؟‘‘ اور ساری محفل کشت ِ زعفران بن گئی۔
o خاندانی منصوبہ بندی پر اظہار راے کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا کہ: آج کے مغرب زدہ انسان کی مثال تھرڈ کلاس کے اُس مسافر کی سی ہے جو خود تو ریل گاڑی کے اندر داخل ہوجاتاہے مگر دوسرے مسافروں کے لیے دروازہ بند کردیتا ہے کہ اب اور کسی کی یہاں گنجایش نہیں ہے‘‘۔
o ماچھی گوٹھ کے پانچ روزہ اجتماع میں جماعتی پالیسی پر کھلے عام بحث کے بعد جب ارکان کو دوبارہ اپنی پسند کا امیر منتخب کرنے کا موقع دیا گیا تو مولانا کو ۹۸ فی صد ووٹ ملے۔ صرف ۱۵؍افراد نے متفرق حضرات کے حق میں اپنی راے کا استعمال کیا۔ ارکان نے ایک زبردست اضطراب اور ذہنی کوفت سے نجات حاصل کی۔ سیالکوت کے شیخ محمد فاضل صاحب مجھے ساتھ لے کر مولانا محترم کے پاس پہنچے اور بے تکلفی سے کہا: ’’مولانا ایک بہت بڑی کوفت سے ہم سب کو نجات ملی ہے، میری درخواست یہ ہے کہ آپ ایک دن کے لیے سیالکوٹ تشریف لائیں، صرف پکنک کا پروگرام ہوگا، کوئی جلسہ وغیرہ نہیں رکھا جائے گا‘‘۔ مولانا نے ہاں کردی۔ ہم نے سیالکوٹ پہنچ کر مولانا محترم کو مقررہ تاریخ سے آگاہ کردیا۔پکنک کے موقعے پر ہم ہیڈمرالہ گئے۔ بہت پُرلطف موسم تھا اور مولانا کی ہمراہی میں یہ لطف دوبالا ہوگیا۔ مولانا سے ہرموضوع پر کھل کر گفتگو رہی۔ ایک صاحب نے سوال کیا: مولانا آپ کی والدہ محترمہ زندہ ہیں؟ مولانا نے فرمایا:
خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور فرماتی ہیں کہ میرے منّے کو جماعت والوں نے خراب کر دیا ہے۔ گویا کوئی ماں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوسکتی کہ اُس کا اپنا بچہ بھی خراب ہوسکتا ہے، جب کہ حال یہ ہے کہ جماعت والوں کی مائیں مجھے روتی ہیں کہ مودودی نے ہمارے بچوں کا ستیاناس مار دیا ہے۔
o مولانا ایک دفعہ راولپنڈی تشریف لائے۔ سوال و جواب کی محفل میں ایک صاحب نے دریافت کیا: مولانا کیا آپ نے کبھی ولی اللہ دیکھا ہے؟ ولی اللہ کی پہچان کیا ہے؟ مولانا نے فرمایا: میں نے تو کل ہی ایک ولی اللہ کو دیکھاہے، فرمانے لگے:
جب مَیں ریل کے ذریعے راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچا، گاڑی رُکی اور مسافر اُترنا شروع ہوگئے تو قُلی مسافروں کا سامان اُٹھانے کے لیے چھیناجھپٹی کر رہے تھے لیکن میں نے دیکھا کہ ایک قُلی نہایت اطمینان کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا۔ اس نے سکون کے ساتھ نماز ختم کی اور کسی سامان والے مسافر کی تلاش میں ہمارے ڈبے میں آگیا۔ اُس نے مجھ سے دریافت کیا کہ سامان اُٹھوائیں گے؟ میں نے ہاں کہا اور وہ میرے سامان کے دو نگ اُٹھا کر اسٹیشن سے باہر لے آیا۔ میں نے اُسے ایک روپیہ دیا۔ اُس نے مجھے اٹھنّی واپس کردی۔ میں نے کہا کہ یہ آپ رکھ لیں۔ مگر اُس نے کہا کہ میرا حق فی نگ چار آنے ہے، وہ میں نے لے لیا ہے۔ مزید اٹھنّی مجھے نہیں چاہیے۔
o فرقہ پرستی سے بالا تر شخصیت:ایک دفعہ آپ سیالکوٹ تشریف لائے۔ اُن دنوں جماعت اسلامی کا دفتر دو بڑی جامع مسجد کے درمیان واقع تھا۔ شمال میں دو مکانات چھوڑ کر جامعہ ابراہیمیہ تھی جہاں مشہور اہلِ حدیث عالمِ دین مولانا محمد ابراہیم میر خطیب تھے اور جنوب میں بالکل متصل عمارت جامعہ حنفیہ کی تھی جہاں اُس وقت کے سیالکوٹ کے بریلوی مکتب ِ فکر کے ممتاز عالم دین مولانا محمد یوسف صاحب خطبۂ جمعہ دیتے تھے۔ ہم نے یہ طے کیا کہ ظہر کی نماز مولانا کو اہلِ حدیث مسجد میں اور عصر کی مسجد حنفیہ میں پڑھوائیں گے۔ چنانچہ مولانا سے اس فیصلے کا ذکر کیا تو آپ نے کمال خندہ پیشانی سے فرمایا کہ آپ مجھے جس مسجد میں چاہیں لے جائیں میری نماز ہرمسجد میں ہوجاتی ہے۔
o بے ریا انسان: ایک اور مرتبہ آپ سیالکوٹ تشریف لائے تو آپ کو ایک ایسے مکان میں ٹھیرایا گیا جس سے ۲۰۰گز کے فاصلے پر سڑک سے پار مسجد تھی۔مولانا کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ وہ نماز اپنی رہایش گاہ پر ہی پڑھتے تھے۔ کارکنوں نے عرض کیا: مولانا مسجد قریب ہی ہے اور اس مسجد کے خطیب تو پہلے ہی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے اگر آپ نے مسجد میں جاکر نماز نہ پڑھی تو یہ ہمارا ناک میں دم کردیں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ میں بیمار بھی ہوں اور مسافر بھی۔ شریعت نے مجھے مسجد جانے کا مکلّف نہیں کیا ہے۔ مجھے نماز خدا کی پڑھنی ہے کسی انسان کو دکھانے کے لیے نہیں۔
o صبرو استقامت:شیریں خان صاحب مرحوم ایک بڑے پُرجوش پٹھان تھے۔ کچھ عرصہ وہ مرکز میں مولانا کے ہاں دفتر کے قاصد کے طور پر رہے تھے۔ انھوں نے بتایاکہ مولانا محترم جمعہ کی نماز عام طور پر جامعہ اشرفیہ میں جاکر ادا کیا کرتے تھے۔ البتہ جب کبھی کسی وجہ سے دیر ہوجاتی تو اچھرہ میں مولانا محمدعمرصاحب اچھروی مرحوم کی مسجد میں بھی چلے جاتے۔ ایک دفعہ ایسا ہی اتفاق ہوا۔ مولانا محمد عمر، مولانا مودودی کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ انھوں نے جونہی مودودی صاحب کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا خطبہ کا رُخ فوراً ان کی طرف پھیر دیا اور نہایت تندوتیز لہجے میں مولانا مودودی صاحب پر برسنے لگے۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اِدھر مولانا مودودی صاحب کے چہرے پر نظر ڈالتا تو وہ بالکل پُرسکون تھا اور ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے خطیب صاحب مودودی صاحب کے بارے میں نہیں کسی اور کے بارے میں کف در دہان ہیں۔ میں پٹھان آدمی تھا غصے کو ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا مگر مودودی صاحب کو دیکھ کر چپکا ہو رہا۔ نماز کے بعد مسجد سے باہر آئے تو میں نے مولانا سے کہا کہ آپ بھی عجیب آدمی ہیں، اطمینان سے بیٹھے گالیاں سنتے رہے۔ آپ کو فوراً اُٹھ کر چلے جانا چاہیے تھا۔
مولانا نے ارشاد فرمایا: خان صاحب کیا ہم جمعہ کی نماز ضائع کر دیتے، ہمارا کیا گیا ہے، مولانا محمدعمر صاحب کے دل کا غبار تو نکل گیا۔
oایک بھادر انسان:۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ چھڑی تو مولانا محترم راولپنڈی میں تھے۔ مولانا جنگ کی خبر سنتے ہی واپسی کے لیے تیار ہوگئے۔ ہوائی سروس بھی بند ہوگئی تھی اور لاہور کا سارا راستہ مخدوش تھا۔ لاہور پر حملے کا بھی خطرہ یقینی تھا۔ راولپنڈی کے رفقا نے مولانا سے گزارش کی کہ آپ راولپنڈی ہی میں ٹھیریں، ہم آپ کے اہل و عیال کو یہاں بلوا لیتے ہیں، لاہور اس وقت سخت خطرے کی زد میں ہے۔ مولانا نے فرمایا: مجھے جلد از جلد لاہور میں موجود ہونا چاہیے۔ ان شاء اللہ دشمن لاہور کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ چنانچہ مولانا کی واپسی کے لیے دو گاڑیوں کا بندوبست کیا گیا اور آپ لاہور روانہ ہوگئے۔ لیکن ابھی گوجرانوالہ کے قریب پہنچے تھے کہ صدرایوب نے ملاقات کے لیے راستے ہی سے واپس راولپنڈی بلالیا، جہاں سے آپ واپس لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔
o مالی ایثار کی مثال:مولانا مودودیؒ نے جہاں اپنی ساری صلاحیتیں تحریک کے حوالے کر دی تھیں وہاں مالی طور پر بھی زبردست ایثار کیا۔ اس پہلو پر روشنی ڈالنے کے لیے اگرچہ میری معلومات براہِ راست نہیں ہیں لیکن مُشتے نمونہ از خروارے کے طور پر یہاں جماعت اسلامی کی رُودادوں سے فراہم شدہ چند معلومات پیش کی جاتی ہیں جن سے مولانا کے اس پہلو کی تابناکی کا ایک ہلکا سا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے نہ صرف اپنی ساری تصانیف کے حقوق بلکہ مکتبے میں موجود مبلغ ۶ہزار ۷۴ روپے کی کتب اور واجب الوصول رقم مبلغ ۱۷۲۰ روپے جماعت اسلامی کے بیت المال کے حوالے کردیں، اور اپنے گزارے کے لیے صرف الجہاد فی الاسلام اور رسالہ دینیات دو کتابیں اپنے پاس رکھیں یا رسالہ ترجمان القرآن آپ کی ملکیت میں رہا۔ قیامِ پاکستان تک بیت المال کے اکثر اخراجات مولانا کی کتابوں کی آمدن سے پورے ہوتے رہے۔ فروری ۱۹۴۷ء تک کتب کی فروخت سے ایک لاکھ ۱۶ہزار روپے کی آمدن ہوئی اور اس وقت مبلغ ۴ہزار ۳سو روپے کی کتب کا اسٹاک مکتبہ میں موجود تھا اور تقریباً ۱۴ہزار ۷سو روپے کی رقم واجب الوصول تھی۔ یہ سلسلہ ۱۹۵۸ء تک چلتا رہا۔ جب جماعت مالی طور پر اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی تو مولانا نے یہ کتابیں اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ کو دے دیں جن کی رائلٹی ادارہ معارف اسلامی کراچی کو منتقل کردی گئی۔ یہ ادارہ مولانا محترم نے اسلام کی تحقیق کے لیے قائم کیا تھا۔ مولانا نے یہ ایثار اس حال میں کیا کہ آپ کے پاس رہایش کے لیے اپنا مکان تک نہیں تھا اور آپ کے بچے عام کارپوریشنوں کے اسکولوں میں زیرتعلیم تھے۔ گھر کے اخراجات انتہائی سادگی اور کفایت شعاری کے ساتھ چلاتے، حتیٰ کہ قید کے ایام میں جو پانچ سال کے قریب ہوتے ہیں جماعت کی طرف سے آپ کے گھر میں اخراجات کے لیے جو رقم دی جاتی باہر آکر آپ اُسے بھی اپنے قرض کے کھاتہ میں ڈال کر لوٹا دیتے۔
oعظمت اور بے نفسی کا امتزاج:مولانا محترم کی عظیم شخصیت کا لوہا اُن کی اوائلِ عمر ہی میں مانا جاچکا تھا۔ ۱۹۱۹ء میں، جب کہ آپ کی عمر ابھی صرف ۱۶برس تھی۔ آپ نے ہفت روزہ تاج، جبل پورکی ادارت سنبھالی اور دو سال تک اُسے چلایا تاآنکہ آ پ کے ایک مضمون پر انگریز سرکار برہم ہوگئی اور یہ اخبار بند کرنا پڑا۔ ۱۹۲۱ء میں جناب مفتی کفایت اللہ مرحوم صدر جمعیت العلما ہند اور مولانا احمد سعید ناظم جماعت العلما ہند کے ایما پر آپ نے جمعیت العلما ہند کے آرگن مسلم اور الجمعیت کی ادارت سنبھالی اور کئی سال تک اِس سے منسلک رہے۔ ۱۹۲۷ء میں آپ کی معرکہ آرا کتاب الجہاد فی الاسلام منظرعام پر آئی جسے مسلم دنیا کے بڑے بڑے مفکرین اور راہنمائوں نے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ۱۹۲۹ء میں آپ نے حیدرآباد دکن میں ابومحمدمصلح مرحوم کے جریدہ ترجمان القرآن میں لکھنا شروع کیا۔
ڈاکٹر احمد توفیق جو فخر یار جنگ مرحوم سابق وزیرمالیات حیدرآباد دکن کے صاحب زادے ہیں، اپنے مضمون مطبوعہ نواے وقت میں لکھتے ہیں: یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب قرآن پڑھنا پڑھانا تو ضروری خیال کیا جاتا تھا مگر تفسیر قرآن پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا تھا۔ تفاسیر موجود ضرور تھیں مگر وہ عام لوگوں کے لیے نہیں تھیں۔ مولانا نے جس آسان اور سلیس طریقے سے ترجمان القرآن میں استشہاد کیا، وہ باتیں لوگوں کے دل کو لگیں اور اِن کا جریدہ بہت مقبول ہوا۔ حیدرآباد تو خیر ایک طرف، پورے ہندستان میں تہلکہ مچ گیا اور اس کی مانگ بڑھ گئی۔
۱۹۳۶ء میں آپ کے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں زیرتعلیم طلبہ میں بے دینی کے رجحانات پر دو مضامین چھپے۔ جس کے بعد یونی ورسٹی نے اِن کی روشنی میں بہت سے اصلاحی اقدامات کیے۔ ۱۹۳۷ء میں لاہور میں آپ کی علامہ اقبالؒ سے ملاقات ہوئی اور حیدرآباد دکن سے پنجاب منتقل ہونے کا پروگرام بنا۔ ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء میں آپ نے متحدہ قومیت کے فتنے کے خلاف اور مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنے رسالے ترجمان القرآن میں پُرجوش اور انتہائی مدلل مضامین سپردِ قلم کیے جن کے زبردست اثر سے مسلمانانِ ہند کے تمام علمی اور سیاسی حلقوں میں آپ کے زورِ قلم اور طریق استدلال کی دھوم مچ گئی۔ یوں مولانا مودودیؒ کی شخصیت نہایت خاموشی اور وقار کے ساتھ پورے ہندستان کی دینی اور سیاسی فضا پر چھاتی چلی گئی۔ پورے ملک کے مسلم تعلیمی اداروں کی طرف سے آپ کو خطاب کرنے کے لیے بلایا جانے لگا۔ انٹرکالجیٹ برادرہڈ لاہور ، انجمن تاریخ و تمدن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، ندوۃ العلما لکھنؤ، جامعہ ملّیہ دہلی، اسلامیہ کالج لاہور، ایم اے او کالج امرتسر، اسلامیہ کالج پشاور اور زمیندارہ کالج گجرات میں آپ نے جو خطبے دیے وہ آج بھی اپنے موضوع پر حرفِ آخر ہیں۔ ۱۹۴۰ء میں ایم اے او کالج امرتسر کی تقریب تقسیم اسناد سے آپ کے خطاب کا پس منظر آپ کے مقام پر روشنی ڈالتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ ادارہ پنجابن میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا متبادل خیال کیا جاتا تھا اور اس کی مجلس انتظامیہ میں اُس وقت کے ہندستان کے متمول اور اہلِ علم مسلمان شریک تھے۔ تقسیمِ اسناد کے موقعہ پر مہمانِ خصوصی کے مسئلے پر بحث ہوئی، جس میں دو نقطۂ نظر سامنے آئے ۔ بعض حضرات کا کہنا یہ تھا کہ اس موقعے پر مسلمانوں کے سیاسی لحاظ سے اہم ترین فرد کو مدعو کیا جانا چاہیے۔چنانچہ اس سلسلے میں اس وقت کے وزیراعظم سردار سکندر حیات کا نام لیا گیا۔ دوسرے حضرات کی راے یہ تھی کہ ہمیں مسلمانوں کی کسی نمایاں ترین علمی شخصیت کو بلانا چاہیے اور اس کے لیے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام پیش کیاگیا اور بالآخر فیصلہ انھی کے حق میں ہوا۔
۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ کی تمام سرگرمیاں جماعت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے اور اس کے لیے نئے نئے راستے نکالنے پر صرف ہونے لگیں، اور پاکستان بننے کے بعد اسلامی ریاست کے مقتضیات اور تفصیلات اور اسلامی دستور کی تدوین اور اسلامی قانون کے نفاذ کی طرف مڑگئیں۔ آپ نے جس میدان کا رُخ کیاوہاںاپنی صلاحیتوںکا لوہا منوایا۔ خطابت کے میدان میں آئے تو ایک منفرد آہنگ تھا۔ تنظیم و تربیت کی وادی میں پہنچے تو وہاں بھی نرالی شان تھی۔ بین الاقوامی دنیا میں قدم رکھا تو وہاں سے بھی خراجِ تحسین حاصل کیا۔ لیکن اتنی عظیم شخصیت اور اتنی ہی سادہ، نہ فخر کا شائبہ نہ علم کا غرور، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو___ حال یہ تھا کہ مجھ جیسا ایک ادنیٰ سا کارکن نہایت بے تکلفی کے ساتھ ان سے مخاطب ہوسکتا تھا۔ وہ میرے ہرقسم کے الّم غلّم سوالات کا جواب بغیر کسی ناگواری کے دیتے۔ آپ کے اندر کبھی بڑاپن محسوس نہ ہوا۔ ایسا عظمت اور بے نفسی کا حسین امتزاج کہیں ڈھونڈے مل سکتا ہے؟(تذکرہ سیّد مودودی، جلداوّل، ص ۴۶۹-۴۷۹)