اوّل روز سے ہم نے جماعت کے اندر روحِ تنقید کو بیدار رکھنے کی کوشش کی۔ تنقید ہی وہ چیز ہے جو ہر خرابی کی بروقت نشان دہی کرتی اور اس کی اصلاح کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کے لیے اخلاقی حیثیت سے تنقید کی وہی اہمیت ہے جو مادّی حیثیت سے صفائی کی اہمیت ہے۔ جس طرح نجاست و طہارت کی حِس مٹ جانے اور صفائی کی کوشش بند ہوجانے سے ایک بستی کا سارا ماحول گندا ہو جاتا ہے اور اس کی فضا ہر طرح کے امراض کے لیے سازگار بن جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح تنقیدی نگاہ سے خرابیوں کو دیکھنے والی آنکھیں، بیان کرنے والی زبانیں اور سننے والے کان اگر بند ہوجائیں تو جس قوم، سوسائٹی یا جماعت میں یہ حالت پیدا ہوگی وہ خرابیوں کی آماج گاہ بن کر رہے گی اور پھر اس کی اصلاح کسی طرح نہ ہوسکے گی۔ اس حقیقت سے ہم کبھی غافل نہیں ہوئے۔
ہم نے عالمِ انسانیت کی، اپنے ملک کی اور اپنی ملّت کی خرابیوں پر تنقید کرنے میں جو آزادی برتی، اُسی آزادیِ تنقید کو اپنی جماعت میں بھی برقرار رکھا تاکہ جماعت کے اندر جہاں جو خرابی بھی موجود ہو، اس کی بروقت نشان دہی ہوجائے اور اسے دُور کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ جماعت کے ہرشخص کو محض تنقید کا حق ہی حاصل نہیں ہے بلکہ یہ اس کا فرض ہے کہ کسی خرابی کو محسوس کرکے خاموش نہ رہ جائے۔ یہ بات ہر رکنِ جماعت کے اجتماعی فرائض میں داخل ہے کہ اپنے ساتھی ارکان کی ذات میں، یا ان کے جماعتی کردار میں، یا اپنی جماعت کے نظم میں، یا جماعت کے لیڈروں میں اگر وہ کوئی نقص پائے تو اسے بلاتکلف بیان کرے اور اصلاح کی دعوت دے۔ اسی طرح جن لوگوں پر تنقید کی جائے ان کو بھی اس بات کا عادی بنایاگیا ہے کہ وہ نہ صرف تنقید کو برداشت کریں، بلکہ ٹھنڈے دل سے اس پر غور کریں اور جس نقص کی نشان دہی کی گئی ہے وہ اگر واقعی موجود ہو تو اسے دُور کرنے کی طرف توجہ کریں ورنہ تنقید کرنے والے کی غلط فہمی رفع کر دیں۔ اس معاملے میں تنقید کے جائز حدود اور معقول طریقے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بسااوقات غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور ان کا کچھ نہ کچھ نقصان بھی ہمیں اُٹھانا پڑا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے کبھی جماعت میں روحِ تنقید کو خوابیدہ ہونے نہ دیا، اور اسی کا یہ فائدہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد پوری جماعت کی تربیت اور تکمیل میں مدد دے رہا ہے اور اپنی تکمیل و تربیت میں اس سے مدد پا رہا ہے۔(’اشارات‘، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد۳،۴، ربیع الاول، ربیع الآخر ۱۳۷۰ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء، ص۸،۱۲۳)