مدحت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا موضوع، اُردو شعرو ادب میں اوائل ہی سے شامل رہا ہے۔ ترقی پسندوں نے اسے ایک مختصر عرصے کے لیے ’دیس نکالا‘ دیے رکھا لیکن جس طرح روس میں انسانی فطرت کو مسخ کرنے یا دبانے کا تجربہ ناکام رہا (اور اس کے نتیجے میں خود اشتراکی نظام روس کی تجربہ گاہ میں ناکام ثابت ہوا)، اسی طرح اُردو شعروادب سے مدحتِ رسولؐ اور نعت کی ’جلاوطنی‘ بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکی۔ گذشتہ تین چار دہائیوں سے اُردو شعرا کی کثیرتعداد نعت گوئی کی طرف بڑے والہانہ انداز میں ملتفت ہوئی ہے___ حتیٰ کہ بڑے بڑے نام وَر ترقی پسند اور لینن اور اسٹالن کی تعریف میں رطب اللسان رہنے والے نظم گو شعرا بھی نعت کہتے نظر آئے۔ ’صبح کا بھولا، شام کو گھر آجائے‘ کے مصداق، اُردو شعرا خصوصاً ترقی پسندوں کے ہاں یہ بڑی مثبت اور خوش آیند تبدیلی تھی ___ بلاشبہہ اس خوش گوار تبدیلی میں چند خارجی عوامل کا بھی ہاتھ ہے، مثلاً جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں مختلف انعامات اور اوارڈوں کے ذریعے سیرت و نعت نگاری کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ چنانچہ تب سے سیرت پر بکثرت کتابیں چھپ رہی ہیں اور نعتیہ شاعری کے مجموعے بھی بڑی تعداد میں شائع ہوتے چلے آرہے ہیں۔ بعض خوش نصیب شعرا نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر دیا، جیسے محسن کاکوروی مرحوم یا حفیظ تائب مرحوم یا لالہ صحرائی مرحوم، یا صبیح رحمانی۔
اُردو نعت کے روز افزوں ذخیرے کو دیکھ کر اُردو تحقیق کاروں کو ایک نیا موضوعِ تحقیق ہاتھ آگیا۔ چنانچہ جامعات میں اب تک سیرت و نعت نویسی پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تقریباً دودرجن تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ اسی طرح کچھ نقادوں نے ’تنقید ِ نعت‘ پر بھی قلم اُٹھایا۔
اُردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ نقد وانتقاد کے ایک عمدہ نمونے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مصنف نے سرورق پر ’شریعت ِ اسلامیہ کے تناظر میں‘ کے الفاظ لکھ کر واضح کیا ہے کہ نعت نگاری کی جانچ پرکھ کا معیار شریعت ِ اسلامیہ کے آفاقی و ابدی اصول ہیں جو ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں متعین ہوتے ہیں۔
نعت ایک شعری صنفِ ادب ہے، اس لیے اسے پرکھنے کے لیے نقدِ شعر و ادب کے اصول بھی پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے۔ مصنف تنقیدِ نعت میں ’صداقت کی پابندی‘ کو ادبیات خصوصاً اسلامی ادب کا ’اہم ترین وصف‘ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر ہم مواد یا اسلوب سے ایک چیز کو ترک کرنے پر مجبور ہوں تو اسلوب کا ترک اولیٰ ہے کیوں کہ ایک نعتیہ فن پارہ اگر اسلامی تعلیمات یا شریعتِ اسلامیہ کے مطابق نہیں تو اسلامی ادب میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، خواہ وہ کیسے ہی اعلیٰ درجے کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہو‘‘ (ص ۱۹)۔ چنانچہ فاضل مصنف نے تنقیدِ نعت کے اسی پیمانے سے بعض نعت نگاروں کی کاوشوں کا جائزہ لیا ہے۔
یہ مصنف کے ۱۰ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں اُردو نعت میں مروّجہ بعض بے اعتدالیوں، بے احتیاطیوں، آنحضوؐر کی تعریف و توصیف میں حدودِ شریعت سے تجاوز اور غُلوّ کے بعض پہلوئوں پر نقد کیا گیا ہے، مثلاً اُردو نعت میں رزم کے پہلو، شانِ الوہیت کا استخفاف، تلمیحات کا غیرمحتاط استعمال، انبیاے سابقین کی رفعتِ شان کا استقصار، نعتوں میں ’یثرب‘ کا استعمال، شاعرانہ تعلّی، ’صلعم‘ کا استعمال اور اس کے مضمرات، ضمائر کا استعمال، وغیرہ۔ مصنف نے ہرپہلو اور نکتے کی وضاحت قرآن و حدیث اور دلائل و براہین کے ساتھ کی ہے، مثلاً بتاتے ہیں کہ ’صلعم‘ گذشتہ صدی کے ایک خوش نویس کی ایجاد و اختراع ہے (ص ۲۶۴)۔ بعض نام وَر ادیبوں اور شعرا نے بھی سوچے سمجھے بغیر ’صلعم‘ کو اپنی تحریروں میں استعمال کیا ہے۔ مصنف نے بہت سی مثالیں دے کر بتایا ہے کہ نہ صرف علما، بلکہ متعدد غیرعلما (مگر صاحب الراے) ادیبوں اور محققین نے بھی ’صلعم‘ لکھنے، بولنے یا اس مہمل لفظ کو نعت میں باندھنے سے منع کیا ہے۔
ایک اور مضمون میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’تو‘، ’تم‘، ’تیرا‘ اور ’آپ‘ اور ’اُن‘ کے استعمال پر بحث کی ہے۔ ان کا خیال بجاہے کہ حضوؐر کے لیے ’آپ‘ کی ضمیر استعمال کرنا ہی صحیح ہے۔
فاضل مصنف نے اپنے سیرحاصل مقدمے میں، تنقید ِ نعت اور شریعت اسلام کی روشنی میں شعرگوئی کے اصولوں کی بڑی عمدگی سے وضاحت کی ہے۔ مصنف نے بجا کہا ہے کہ’ ’نعت نگاری کا اصل سرچشمہ قرآن کریم ہے اور باقی اس کی تشریحات اور تعبیرات ہیں‘‘ (ص ۱۳)۔ مقدمے میں مصنف نے جناب عزیز احسن اور شمس بدایوانی کی بعض تحریروں کو اپنی تنقید کی زد میں لیا ہے۔ شمس بدایونی کی کتاب اُردو نعت کا شرعی محاسبہ (۱۹۸۰ء) کے حوالے سے لکھا ہے کہ شمس صاحب نے اپنے مخصوص عقائد کی روشنی میں نعتیہ شاعری کا تجزیہ کیا ہے۔ اس طرح یہ کہ انھوں نے اپنی دانست میں اہلِ سنت والجماعت ہی کے بعض اساسی عقائد کو غیرمشروع قرار دیا ہے (ص ۱۵)۔ شمس بدایونی کی مذکورہ کتاب تو فی الوقت ہمارے سامنے نہیں ہے، مگر ہمارا خیال ہے کہ یہی ’اساسی عقائد‘ ہی بسااوقات نعت گوئی میں اُن بے اعتدالیوں اور غیرمتوازن طرزِ اظہار کا سبب بن جاتے ہیں جن پر خود رشید وارثی صاحب نے اس کتاب میں جگہ جگہ تنقید کی ہے۔ ضمناً عرض ہے کہ یہ کہنا کہ شمس بدایونی کے ’’اندازِ تحریر میںخلوص و محبت کا فقدان ہے‘‘، ایک نامناسب ’فتویٰ‘ ہے کیوں کہ ’خلوص و محبت‘ باطنی احساسات ہیں جن کے کھرے یا کھوٹے پن کا صحیح صحیح اندازہ لگانے کا کوئی ظاہری پیمانہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔
اُردو نعت گو شعرا کی بے اعتدالیوں (جو بعض اوقات مشرکانہ اظہار تک پہنچ جاتی ہیں) کے خلاف قبل ازیں بھی، بعض حضرات نے تنقیدی احتجاج کیا ہے، مثلاً رئیس نعمانی (علی گڑھ)، یا پروفیسر عبداللہ شاہین (اُردو نعت گوئی اور اس کے آداب، لاہور، ۱۹۹۹ء)۔ زیرتبصرہ کتاب اس سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے۔ اس کے دیباچہ نگار سید یحییٰ نشیط کے بعض خیالات اگرچہ محلِ نظر ہیں، مگر رشید وارثی کے مضامین بحیثیت مجموعی معتدل راست فکری کا نمونہ ہیں۔ اُردو نعت گو شعرا بتوفیق الٰہی ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور تنقیدِ نعت پر قلم اُٹھانے والے ناقدین کو بھی، یہاں سے کچھ نہ کچھ تنقیدی بصیرت مل ہی جائے گی۔ معیارِ کتابت و طباعت اطمینان بخش ہے۔ ’پرواہ‘ غلط اور ’پروا‘ صحیح ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے قرآن مجید سے زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ہدایات جمع کر دی ہیں، ان آیات کا اُردو اور انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نہایت اہم موضوعات کے متعلق قرآنی ہدایات کا گلدستہ پیش کر دیا جائے۔ فاضل مصنف نے نو ابواب میں خالق کائنات اللہ تعالیٰ، انسان کے مقصدِ زندگی، ایمان کی بنیادوں، عبادات، اللہ سے بندے کے تعلق، اخلاقِ حسنہ، خاندانی معاشرت کے اصول، حُسنِ معاشرت، معاشرتی فلاح و بہبود اور اصولِ معاش کے حوالے سے قرآنی ہدایات پیش کی ہیں۔
قرآن مجید کے متعدد اُردو تراجم مشہور ہیں۔ کسی متداول اُردو ترجمے کو اختیار کرکے دیباچے میں اس کا اظہار کردیا جاتا تو مناسب تھا۔ اس طرح ترجمے میں وہ کوتاہیاں راہ نہ پاتیں جو اس وقت پیش نظر ہیں۔ سورئہ مدثر کی آیت ۴۵ (وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الخَائِضِیْنَ) کا اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے: ’’بحث کرنے والوں کے ساتھ ہم بحث کیا کرتے تھے‘‘ (ص ۲۶۲)۔ آج اُردو زبان میں لفظ بحث کا وہ مفہوم ذہن میں نہیں آتا جس کی سنگینی کے سبب بحث کرنے والے کو جہنم میں ڈال دیا جائے۔ اس کڑی سزا کے لیے ترجمے میں کوئی ایسا لفظ لانا چاہیے جو اس عمل کی شناعت اور مذمت کو واضح کرے۔ سید مودودی نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے: ’’حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘‘ (ترجمۂ قرآن،ص ۱۴۹۷)۔ شاہ رفیع الدین نے حاشیے میں صراحت کر دی ہے کہ ’’بات میں دھنستے، یعنی ایمان کی باتوں پر انکار کرتے سب کے ساتھ مل کر‘‘(ص ۶۹۸)۔ اور شاہ عبدالقادر نے موضح قرآن میں لکھا ہے: ہم عیب جوئی کرتے تھے اور طعنہ کرتے تھے عیب ڈھونڈنے والوں کے ساتھ (ص ۶۰۵)۔ راغب اصفہانی نے خوض کے معنی لکھے ہیں: پانی میں اُترنا اور اندر تک چلے جانا۔
ایک اور مقام پر فاضل مصنف نے سود کے عنوان سے لکھا ہے: ’’بڑھا کر لینا منع ہے‘‘۔ اور سورئہ مدثر کی آیت ۶ درج کی ہے: وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُہ ’’اور کسی کو اس غرض سے مت دو کہ اُسے بڑھا کر لے سکو‘‘ (ص ۲۹۴)۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کو مال یا سود کے معنوں میں نہیں لیا بلکہ اس سے ہمت اور اولوالعزمی سکھلائی گئی ہے کہ تبلیغِ رسالت کے پیغمبرانہ کام کی انجام دہی کسی پر احسان نہیں۔ سورئہ حجرات کی آیت۶ میں فاسق کا ترجمہ شریر کیا گیا ہے (ص ۲۶۰)۔ اُردو زبان میں شریر ان معنوں میں نہیں بولا جاتا کہ فاسق کا قرآنی مفہوم سامنے آئے۔
مصنف کی کاوش لائقِ تعریف ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کی جتنی صورتیں ہیں ان کا واحد علاج اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے دستورِ حیات پر عمل کرنے میں ہے۔ ایسی کتابیں جو انسانوں کو صراطِ مستقیم کی طرف بلائیں، زیادہ سے زیادہ مطالعے میں رہنا چاہییں تاکہ عملِ صالح کا داعیہ پیدا ہوتا رہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں قرآن مجید کا عربی متن سعودی عرب میں پڑھے جانے والے قرآنِ مجید کی طرزِ کتابت سے لیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی وہی کتابت دی جائے جو ہمارے ہاں معروف ہے۔ (ظفرحجازی)
ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ طبقہ مغرب سے مرعوب ہے، مغرب کو اہل اور مسلمانوں کو نااہل سمجھتا ہے اور مغرب کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ دوسری طرف سیکولر عناصر ترقی کے لیے مغرب کی طرز پر مذہب سے بغاوت ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو ان کے شان دار ماضی سے روشناس کروایا جائے تاکہ مغرب کے مقابلے میں ان کے احساسِ کمتری کو ختم کیا جاسکے اور عظمتِ رفتہ کے حصول کے لیے وہ ایک نئے جذبے سے سرگرم ہوسکیں، اور دوسری طرف سیکولر عناصر کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو دُور کرکے مسلمانوں کو ترقی کے لیے صحیح رہنمائی دی جائے۔ زیرتبصرہ کتاب اسی ضرورت کے پیش نظر لکھی گئی ہے۔
ڈاکٹر ارشد جاوید ماہر نفسیات ہیں اور سماجی و معاشرتی مسائل پر لکھتے ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں سامنے آچکی ہیں۔ مصنف نفسیات کے ایک اہم اصول کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر آپ ایک کام پہلے کرچکے ہوں تو اسے دوبارہ بھی کرسکتے ہیں۔ تیرھویں صدی عیسوی میں منگولوں نے ہمیں تاراج کیا مگر ہم کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک بار پھر عظیم قوم بن گئے۔ اب پھر ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ ہم پہلے ایسا کرچکے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم پہلے کی طرح دل و جان سے اپنے نظریۂ حیات سے وابستہ ہوجائیں، اور ہر قضیۂ زندگی، خصوصاً اخلاقیات میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں تو عظمت ایک بار پھر ہمارے قدم چومے گی، ان شاء اللہ‘‘۔ (ص ۱۶)
سیکولر عناصر مغرب زدہ ہیں اس لیے وہ ترقی کے لیے مذہب سے بغاوت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت کے عقائد سائنسی ترقی میں رکاوٹ تھے، جب کہ اسلام غوروفکر اور کائنات میں تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن حکیم کا کم از کم آٹھواں حصہ (۷۵۰ آیات) تفکر اور تسخیر، یعنی سائنسی ٹکنالوجی سے متعلق ہے۔ عظیم یورپی مؤرخ بریفالٹ کے مطابق: ’’نیچرل سائنس اور سائنسی مزاج پیدا کرنے میں، جو نئی دنیا کی سب سے بڑی امتیازی قوت اور اس کی کامیابی کا سب سے بڑا مآخذ ہے،[اسلامی] تہذیب نے مہتم بالشان کردار ادا کیا‘‘۔ (ص ۲۰)
مسلمانوں نے یورپ کو بہت سے نئے علوم سے روشناس کروایا اور بہت سی ایجادات سامنے آئیں۔ اس کا مختصر جائزہ ایک باب: ایجادات، انکشافات اور دریافتیں، میں لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف سائنسی میدانوں مثلاً: کیمسٹری، فزکس، میکانیات، معدنیات، علمِ زراعت، ریاضیات، فلکیات، جغرافیہ، میڈیسن، تاریخ نگاری، فلسفہ، موسیقی، تعمیرات وغیرہ میں مسلمانوں کی خدمات کا الگ الگ مختصر مگر جامع تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
کتاب بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے شان دار ماضی کے خلاصے پر مبنی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کردیتا ہے۔ اہلِ علم و تحقیق اور اساتذہ کرام کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل کو سائنسی میدان میں ایک نئے جذبے سے آگے بڑھنے کے لیے رہنمائی فراہم کرسکیں۔ اگر ماضی کے تذکرے کے ساتھ ساتھ آج کی مسلم دنیا میں سائنسی ترقی کے لیے مسلمانوں کا کردار بھی زیربحث آجاتا تو کتاب کی جامعیت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ (امجد عباسی)
مصنفِ محترم نے فرائضِ منصبی (کارِ معلمی) سے سبک دوشی کے بعد، قلم و قرطاس کو اظہارِ محسوسات و جذبات کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ان کی متعدد تصنیفی و تالیفی کاوشوں کا تعارف ترجمان کے انھی صفحات میں محفوظ ہے۔ ایک سچا ’قلم کار‘ علامہ اقبال کی اس نصیحت ’’برآور ہرچہ اندر سینہ داری‘‘ کے مصداق، کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے ہی کو زندگی کی علامت سمجھتا ہے۔ زیرنظر مضامین صدیقی صاحب کے جذباتِ دعوت و تبلیغ اور اقامت ِ دین کے عکاس ہیں۔ ان کے عنوانات یقینا مختلف ہیں: (’اللہ تعالیٰ‘، ’نبی ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم‘، ’قرآنِ حکیم‘، ’دعوت و تزکیہ‘، ’داعیِ حق کی خصوصیات‘، ’قلبِ سلیم‘، ’احسان‘، ’تکبر‘، ’اللہ کی حدیں‘، ’اسلام اور جاہلیت‘ وغیرہ)۔ مگر خود مصنف کے الفاظ میں ان سب میں ’’ایک ہی روح تابندہ، ضوفشاں اور ایک ہی رنگ نمایاں ہے: صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً‘‘۔(ص۸)
مصنف نے اپنی بات کو زیادہ وقیع اور مستند بنانے کے لیے تفہیم القرآن، تدبر قرآن، تفسیر عثمانی، ترجمان القرآن اور ضیاء القرآن ایسی تفاسیر سے لمبے لمبے اقتباسات شاملِ تحریر کیے ہیں۔ مختصر یہ کہ ہرمضمون میں متعلقہ موضوع کا خلاصہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ وضاحتِ مفہوم میں کہیں کہیں علامہ اقبال کے اشعار سے بھی مدد لی ہے۔
یہ کتاب ہر اُس شخص کے لیے باعثِ استفادہ اور سودمند ہوگی جو ان مضامین کو پڑھنے کے لیے وقت نکال سکے۔(ر-ہ)
جادو اور جنات کا موضوع تاریخ کے ہر دور اور ہر معاشرے میں عام رہا ہے۔ خصوصاً معاشی اور تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ معاشروں کے تنگ دست اور ضعیف العقیدہ لوگ جادوگروں، عاملوںاور جعلی پیروں کے ہاتھوں ہمیشہ لٹتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ موضوع قلم کاروں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اور تمام بڑی زبانوں کے لٹریچر میں اس پر کتابیں موجود ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب میں مؤلف نے جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں جادو اور جنات کے وجود کا اثبات کیا ہے وہاں نام نہاد جادوگروں اور عاملوں کے طریقہ ہاے واردات کا بھی ذکر کیا ہے۔ کتاب میں جادو،جنات اور نظربد سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں اور جنات کی آسیب زدگی کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اور رہنمائی دی گئی ہے کہ ان کے اثرات سے بچنے کے لیے کون کون سی قرآنی سورتیں، آیاتِ مبارکہ، مسنون دعائیں اور وظائف ضروری ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)