اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تنوع اور اختلاف کی اساس پر پیدا کیا ہے۔ دنیا کی تمام چیزوں میں یہ کیفیت نمایاں ہے۔ نباتات اور درختوں کو دیکھیے! کوئی سبز ہے، تو کوئی زرد اور کوئی سرخ۔ ہرایک کے پتوں کے ڈیزائن الگ الگ ہیں۔ پھلوں کی جسامت اور شکل مختلف ہے۔ رنگ و روپ کے ساتھ ساتھ مزے بھی الگ الگ ہیں اور ان کے اثرات اور خاصیتیں بھی جدا جدا ہیں۔ یہی صورتِ حال جانوروں میں ہے اور یہی طرزِ تخلیق بنی نوع انسان میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کے رنگ و روپ،قدوقامت، جسمانی ساخت اور آواز میں فرق رکھا ہے، اسی طرح ان کے اندازِفکر میں بھی فرق واقع ہوا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کو سفید رنگ پسند ہے اور کسی کو سرخ، کسی کو سیاہ اور کسی کو سبز۔ کسی کی ترجیح سیب ہے اور کسی کی انار۔ کسی کو گرم موسم راس آتا ہے، کسی کو سرد موسم۔ اسی اختلافِ ذوق سے کائنات کی رنگا رنگی قائم ہے، ورنہ یہ پوری دنیا یک رنگ ہوجاتی اور جو نظارہ اس وقت ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے، آنکھیں اس سے محروم رہتیں۔
اسلام، چوں کہ دین فطرت ہے، اس لیے اس نے انسان کو فکرونظر کے اعتبار سے ایسے بے لچک احکام نہیں دیے کہ اس کے لیے غوروفکر کا کوئی میدان باقی نہ رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حق کا راستہ دکھایا اور حق پر چلنے والوں کے لیے جنت،جب کہ باطل کا راستہ اختیار کرنے والوں کے لیے دوزخ قائم کر دی۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہدایت یافتہ لوگوں کو پابند کرتا کہ وہ گمراہ لوگوں کو بزورِطاقت اللہ کے بھیجے ہوئے دین کو قبول کرنے پر مجبور کر دیں، لیکن قرآن میں ایسا حکم نہیں دیا گیا بلکہ فرمایاگیا کہ ہدایت اور گمراہی پوری طرح واضح ہے۔ اب دین کے معاملے میں کوئی جبر روا نہیں، البتہ آخرت میں انسان کے اعمال کے اعتبار سے ثواب و عذاب کا فیصلہ ہوگا:
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیط لَا انْفِصَامَ لَھَا وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (البقرہ ۲:۲۵۶) دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت ضلالت سے ممتاز ہوچکی ہے، اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرتا ہے اور اللہ پر ایمان لاتا ہے تو وہ مضبوط سہارے کو تھام لیتا ہے، ایک ایسا سہارا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اور اللہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔
انسان کو جو احکام دیے گئے ، ان میں کچھ تو وہ ہیں جن کا قرآن و حدیث سے یقینی طور پر ثبوت ہے اور ان کا مفہوم بھی اتنا واضح ہے کہ انسان کا ذہن فوراً ان کے معنی و مقصود کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ ایسے احکام فقہ کی اصطلاح میں قطعی احکام کہلاتے ہیں، یعنی ان کا ثبوت بھی یقینی ہے اور اس کلام کی اپنے معنی و مفہوم پر دلالت بھی واضح ہے۔ ان احکام کی حیثیت دین کی حدودِ اربعہ کی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے ان سے باہر چلے جانا جائز نہیں، بلکہ اس سے باہر نکلنا انسان کو دائرۂ ایمان ہی سے باہر کر دے گا، جیسے اللہ تعالیٰ کا ایک ہونا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت کا ختم ہوجانا، آپؐ کا معصوم ہونا، پانچ وقت کی نماز کا فرض ہونا، قرآن و حدیث کا دین میں حجت ہونا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے انسان کا نہیں آنا جو معصوم ہو اور جس کا قول و فعل حجت ہو، نیکوکاروں کے لیے آخرت میں جنت کا ہونا، نجات کے لیے شریعت محمدی پر ایمان کا ضروری ہونا وغیرہ۔ یہ اوراس طرح کے بہت سے عقائد و اعمال وہ ہیں، جو قرآن و حدیث سے پوری تصریح کے ساتھ ثابت ہیں، ان کا انکار بالواسطہ کتاب و سنت کا انکار کرنا ہے، اس لیے اگر کوئی شخص اس سے اختلاف کرتا ہے، تو وہ ہدایت سے محروم ہے۔
دوسرا درجہ ان احکام کا ہے، جو ایسی حدیثوں سے ثابت ہیں کہ محدثین کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کی نسبت یقین کے درجے میں نہیں ہے، یا ان کے بارے میں ایک سے زیادہ روایتیں ہیں اور ان کا مضمون ایک دوسرے سے کسی قدر مختلف ہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ اختلاف نقل کرنے والوں کی غلط فہمی کی وجہ سے واقع ہوا ہے، یا اس لیے کہ آپ کے مختلف ارشادات و معمولات کا موقع و محل الگ الگ ہے۔ راوی اس کی وضاحت نہیں کرسکا، یا اس لیے کہ ایک حکم پہلے کا ہے اور دوسرا بعد کا۔ اسی طرح بعض مسائل ثابت تو ہوتے ہیں یقینی دلیلوں سے، لیکن ان میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال ہوتا ہے، کیوں کہ ہر زبان کی طرح عربی زبان میں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں، جن کے ایک سے زیادہ مفہوم ہوسکتے ہیں، یا ایک حقیقی معنی ہوتا ہے اور تشبیہہ کے طور پر دوسرے معنی میں بھی اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے، نیز بعض احکام ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کا قرآن و حدیث میں صریحاً ذکر نہیںہوتا۔ فقہا ان کے بارے میں رسولؐ اللہ کے رفقا عالی مقام صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ سے روشنی حاصل کرتے ہیں، اور اگر ان میں اختلاف راے ہوتا ہے، تو خود کتاب و سنت سے مستنبط اُصولوں اور نظیروں کو سامنے رکھ کر راے قائم کرتے ہیں۔ یہ احکام جو اپنے ثبوت یا وضاحت کے اعتبار سے یقینی درجے کے حامل نہیں، ان کو ظنی اور اجتہادی مسائل کہا جاتا ہے۔
گذشتہ اُمتوں میں اللہ کے رسولوں اور پیغمبروں ہی کے ذریعے اللہ کے احکام کی وضاحت ہوتی تھی اور وہی اس مقام پر فائز تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی برکت سے اس اُمت کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ اس کے علما ایسے مسائل میں اجتہاد سے کام لیں، بشرطیکہ وہ احکامِ شریعت میں اجتہاد کرنے کے اہل بھی ہوں۔ آپؐ نے نہ صرف اجتہاد کی تلقین کی ہے، بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی فقیہہ کا اجتہاد درست اور صائب نکلے، تو اس کو تو دہرا اجر ہے، لیکن جس سے اجتہاد میں چوک ہوجائے وہ بھی اجر سے محروم نہیں رہے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں ان دو میں ایک اجتہاد کو غلط کہا جائے گا؟ جب کہ ہمارے سامنے یقینی طور پر کسی راے کا صحیح اور کسی کا غلط ہونا واضح نہیں ہے، تو اس سلسلے میں ایک راے یہ ہے کہ دونوں کو صائب ہی سمجھا جائے گا اور اس اختلاف راے کی حیثیت ایسی ہوگی، جیسے بعض غلطیوں کے مختلف کفارات متعین کیے گئے ہیں اور انسان کو اس کی صلاحیت اور استطاعت کے اعتبار سے کفارہ ادا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ یہ راے مختلف علما اور ہندستان کے علما میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کی ہے۔ دوسری راے یہ ہے کہ اس میں ایک ہی راے درست سمجھی جائے گی اور دوسری خطا، لیکن ہر دو نقطۂ نظر میں درستی اور نادرستی کے احتمال کو تسلیم کیا جائے گا۔ یہ زیادہ تر اہلِ علم کی راے ہے، لیکن اجتہاد میں خطا نہ دنیا میں قابلِ گرفت ہے نہ آخرت میں۔ حضرت علامہ انورشاہ کشمیری کی راے ہے کہ کن آرا میںکس فقیہہ کی راے درست تھی اور کن کی غلط؟ میدانِ حشر میں بھی اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر نہیں فرمائیں گے۔ علامہ کشمیری کی یہ راے سمجھ میں آتی ہے، کیوں کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کا اعزاز فرمائیںگے اور یہ بات کہ ان کی کمزوریوں کو حشر میں ظاہر کیا جائے، ان کے اعزاز و توقیر کے خلاف محسوس ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کی اجازت دینے اور اجتہادی غلطی کو قابلِ عفو قرار دینے میں یہ بات شامل ہے کہ شریعت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں ایک سے زیادہ راے کی گنجایش ہے اور ان میں فقہاے اُمت کے درمیان اختلاف ہو سکتا ہے، نیز یہ کوئی مذموم اور ناپسندیدہ بات نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو یہ بات منظور ہوتی کہ احکامِ شریعت میں کوئی اختلاف نہ ہو، تو جیسے قرآن میں ایمانیات کو واضح کر دیا گیا ہے، اسی طرح تمام عقائد اور اعمالِ صالحہ کو ایسی وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہو تاکہ صحابہ اور بعد کے دور میں فقہا کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا، کیوں کہ یہ بات یقینا خداے علام الغیوب کے علم میں تھی کہ میرے بندوں میں ایسے لوگ پیدا ہوںگے، جن کے درمیان اس کی تشریح و توضیح میں اختلاف ہوگا۔
یہ اختلاف راے اُمت کے لیے زحمت نہیں رحمت ہے۔ اُمت کے ایک بڑے فقیہہ علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ نے لکھا ہے کہ اس اُمت کا اتفاق حجت ِ قاطعہ ہے اور اس کا اختلاف رحمت واسعہ ہے (مقدمۃ المغنی)۔ یہ بات مختلف علما نے لکھی ہے، جن میں شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ بھی شامل ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف پیدا ہوا یا اس کی تشریح و توضیح مختلف حضرات نے الگ الگ طور پر کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا برا نہیں مانا، مثلاً غزوئہ خندق کے بعد آپؐ نے اعلان فرمایا کہ تمام لوگ بنوقریظہ کی طرف کوچ کریں اور وہیں عصر کی نماز پڑھیں۔ اب بعض حضرات نے اس کا مطلب سمجھا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ بلاتاخیر بنوقریظہ کی طرف نکل جائیں، یہ مقصد نہیں ہے کہ لازماً بنوقریظہ ہی میں نمازِ عصر ادا کی جائے، اس لیے وہ مدینہ سے فوراً روانہ ہوگئے، لیکن راستے میں نماز پڑھتے ہوئے بنوقریظہ تشریف لائے۔ بعض نے تعمیل حکمِ نبویؐ کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بنوقریظہ پہنچ کر ہی نمازِ عصر ادا کی اور ان میں سے کسی گروہ پر بھی نکیر نہیں کی گئی۔ اسی طرح آیت تیمم نازل ہونے کے بعد ایک سفر میں حضرت عمرؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ دونوں کو غسل کی ضرورت پیش آئی اور پانی میسر نہیں تھا۔ اب حضرت عمر نے اجتہاد کیا۔ ان کو خیال ہوا کہ تیمم صرف وضو کی جگہ پر کفایت کرتا ہے۔ اگر غسل واجب ہوجائے تو یہ کافی نہیں، اور حضرت عمار بن یاسرؓ اس نتیجے پر پہنچے کہ جب وضو کا تیمم، چہرہ اور ہاتھ کا مسح ہے تو غسل کا تیمم پورے بدن کا مسح ہے، اس لیے وہ ریت میں لوٹ گئے، تاکہ پورے بدن کا تیمم ہوجائے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ واقعہ پیش کیا گیا تو آپ نے کسی کی مذمت نہیں فرمائی، بلکہ فرما دیا کہ تیمم غسل کا بھی قائم مقام ہے اور ہر صورت میں تیمم کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اگر اجتہاد کی بناپر پیدا ہونے والا اختلاف مذموم و ناپسندیدہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہوتا۔
یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری اُمت بلکہ پوری انسانیت کے معلم و مربی تھے، لیکن جس مقدس گروہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست استفادے کی سعادت مقرر فرمائی تھی، وہ ہیں صحابہ کرامؓ۔ صحابہ کے درمیان سیکڑوں مسائل میں اختلاف راے پایا جاتا تھا، مگر نہ وہ اسے بُرا سمجھتے تھے اور نہ یہ ان کے درمیان باہمی محبت، تعلق، ایک دوسرے کی اقتدا اور ایک دوسرے کی خوبیوں کے اعتراف میں رکاوٹ بنتا تھا۔ عملی احکام سے زیادہ اہمیت اعتقادی احکام کی ہوتی ہے، لیکن ان میں بھی بعض امور میں صحابہ کے درمیان اختلاف راے پایا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی راے تھی کہ معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوا اور اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس سے انکار تھا۔ ان کی راے ہے کہ معراج کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل ؑکو اپنی اصل شکل میں دیکھا تھا، حالاں کہ یہ دونوں صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین اہلِ تعلق ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ چچازاد بھائی ہیں اور کم عمر ہونے کی وجہ سے شب و روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے، اور حضرت عائشہؓ نہ صرف ازواجِ مطہرات میں ہیں، بلکہ انھیں ازواج میں بھی خصوصی مقام حاصل تھا۔ اسی طرح بعض صحابہ کا خیال تھا کہ میت کے اہلِ خانہ کے میت پر رونے اور آہ و بکا کرنے کی وجہ سے میت پر عذاب ہوتا ہے، لیکن حضرت عائشہؓ اس کی قائل نہیں تھیں۔ اسی طرح بعض صحابہؓ کی راے تھی کہ مُردے سنتے ہیں اور دوسرا نقطۂ نظر تھا کہ مُردے نہیں سنتے۔ غرض کہ وہ عقائد جن پر اہلِ سنت والجماعت متفق نہیں ہیں، ان میں صحابہؓ کے دور میں بھی اختلاف رہا ہے۔
عملی مسائل میں تو اختلاف کی کثرت رہی ہے، اب تو صحابہ کے فتاویٰ اور اقوال کو کتابی شکل میں جمع بھی کر دیا گیا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے کبھی اُمت میں کوئی جدال پیدا نہیں ہوا اور اس نے ان کے دلوں کو نہیں توڑا، بلکہ بعد کے فقہا نے اس اختلاف راے کو تحسین کی نظر سے دیکھا، چنانچہ خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے منقول ہے: ’’مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں کوئی اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ اگر ہر مسئلے میں صحابہ کرامؓ کی ایک ہی راے ہوتی، تو لوگ تنگی میں پڑ جاتے، کیوں کہ صحابہ اُمت کے مقتدیٰ ہیں۔ صحابہ کے اختلاف نے سہولت پیدا کر دی کہ اُمت کے افراد اگر ان میں سے کسی راے کو قبول کرلیں تو ان کے لیے اس کی گنجایش ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہی کے ہم عصر عون بن عبداللہ ہیں۔ یہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پڑپوتے ہیں اور تابعین کے ممتاز علما میں ہیں۔ الفاظ میں کسی قدر فرق کے ساتھ یہی بات ان سے بھی منقول ہے،وہ فرماتے ہیں: ’’مجھے صحابہ کا اختلاف محبوب ہے، کیوں کہ اگر وہ کسی بات پر متفق ہوں اور اسے چھوڑ دیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے سنت ہی کو چھوڑ دیا، اور ان کے اختلاف کا فائدہ یہ ہے کہ اگر صحابۂ رسولؐ میں سے کسی راے پر عمل کیا جائے تو اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت پر عمل کرلیا‘‘۔
الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اسی طرح کی بات امام قاسم بن محمد سے بھی منقول ہے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پڑپوتے ہیں اور تابعین کے عہد کے اکابر فقہا میں ان کا شمار ہے۔
اختلافی مسائل میں فراخ چشمی، کشادہ قلبی اور اس کو اہمیت نہ دینے کا رویہ ہمیشہ سے علما کا طریقہ رہا ہے۔ مشہور محدث یحییٰ بن سعید انصاری کا قول ہے کہ اہلِ علم کے درمیان حلال و حرام کا بعض مسائل میں بھی اختلاف ہوتا رہا ہے، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس نے کسی چیز کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا، اس نے اپنے مخالف فتویٰ دینے والے کو یہ سمجھا ہو کہ اس نے اپنے لیے ہلاکت کا راستہ اختیار کیا، اور نہ ایسے امور کو حلال ہونے کا فتویٰ دینے والے دوسرے فریق کو گمراہ اور ہلاکت کا راستہ اختیار کرنے والا قرار دیا ہو۔ نہ یہ ان پر کوئی عیب لگاتا اور نہ وہ ان پر کوئی عیب لگاتا۔ اختلاف کے لفظ سے چوں کہ بظاہر ایک دوسرے سے دُور ہونے کی بُو آتی ہے، اس لیے بعض علما تو اختلاف کی تعبیر کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ نے امام احمد کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے فقہا کے اختلاف پر ایک کتاب مرتب کی اور اس کا نام کتاب الاختلاف رکھا۔ امام احمد نے فرمایا کہ اسے کتاب الاختلاف نہ کہو بلکہ یہ ’کتاب السعۃ‘ ہے۔ (مجموع الفتاویٰ، ۳۰؍۷۹)، یعنی فقہا کا اختلاف اُمت کے لیے سہولت اور گنجایش کا نام ہے۔
اختلاف کے معاملے میں وسعت اور گنجایش کی بہترین مثال امام دارالہجرہ حضرت امام مالکؒ کی ہے، جن کی کتاب موطا امام مالک حدیث کی دستیاب کتابوں میں پہلی کتاب ہے۔ ان سے عہدعباسی کے کم سے کم دو خلفا نے یہ خواہش کی کہ جیسے حضرت عثمان غنیؓ نے قرآن کو جمع فرمایا اور تمام مسلمانوں پر اس نسخے کو لازم قرار دیا، اسی طرح ہم آپ کی کتاب کو پوری اُمت پر لازم قرار دینا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی بندۂ نفس ہوتا تو اس کے لیے یہ لوگوں پر اپنی بات کو مسلط کرنے کا سنہرا موقع ہوتا، لیکن امام مالک نے اس راے کو پسند نہیں فرمایا۔ آپ نے فرمایا:
علما کا اختلاف راے اس اُمت کے حق میں اللہ کی طرف سے رحمت ہے۔ جس کے نزدیک جو نقطۂ نظر زیادہ درست ہے، وہ اس کی پیروی کرتا ہے۔ اس لیے یہ سب کے سب ہدایت پر ہیں اور ہر ایک کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ کُلِّ ھُدًی وَکُلِّ یُرِیدُاللّٰہَ (کشف الخفا،۱؍۵۶)
امام مالک کا یہ قول جہاں ان کے اخلاص و للہیت کی دلیل ہے، وہیں اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ فقہا اور محدثین اجتہادی مسائل میں اختلاف راے کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔
قلب و نظر کی اسی وسعت کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے۔ صحابہ،تابعی اور ائمہ مجتہدین کے دور میں کبھی یہ سوال پیدا نہیں ہوا کہ ہم مخالف نقطۂ نظر کے حامل شخص کے پیچھے نماز ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ امام احمد کے یہاں خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور امام مالک کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا۔ امام احمد سے مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے پچھنا لگوایا ہو، یعنی جسم کا فاسد خون نکلوایا ہو تو کیا اس کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ امام احمد نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا میں امام مالک اور سعید بن مسیب جیسے بزرگوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا؟
خون کے نکلنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کا جو نقطۂ نظر امام احمد کا ہے، یہی امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی ہے، جن میں امام ابویوسف شامل ہیں۔ انھوں نے خلیفہ ہارون الرشید کے پیچھے نماز ادا کی، حالاں کہ خلیفہ نے خون نکلوایا تھا اور امام مالک کے فتویٰ کے مطابق وضو نہیں کیا تھا۔ جب ان سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیا میں امیرالمومنین کے پیچھے نماز نہ پڑھوں؟‘‘ پھر ایک اصولی بات فرمائی کہ ایسے اختلافات کی وجہ سے ائمہ کے پیچھے نماز نہ پڑھنا اہلِ بدعت کا طریقہ ہے۔
امام ابویوسف کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ انھوں نے غسل کیا اور جمعہ کی نماز پڑھائی۔ بعد میں انھیں بتایا گیا کہ کنویں میں مُردہ چوہا پایا گیا ہے۔ امام ابویوسف کی اصل راے کے مطابق وضو درست نہیں ہوا اور ظاہر ہے کہ جب وضو ہی درست نہیں ہوا، تو اصولی طور پر نماز لوٹانی چاہیے۔ لیکن اس میں دشواری تھی، اس لیے امام ابویوسف نے نماز نہیں لوٹائی اور فرمایا: آج ہم علماے مدینہ کی راے پر عمل کرتے ہیں، جن کے نزدیک دو مٹکے سے زیادہ پانی ہو تو جب تک نجاست کے گرنے سے تبدیلی نہ پیدا ہو، پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
فقہاے شوافع کے نزدیک پرندوں کی بیٹ بھی ناپاک ہوتی ہے۔ قاضی ابوالطیب بڑے شافعی عالم تھے۔ جب جمعہ کی نماز شروع ہوئی اور انھوں نے تکبیر کہنے کا ارادہ کیا تو پرندے نے ان پر بیٹ کر دی۔ انھوں نے تحریمہ باندھ لیا اور کہا کہ آج میرا عمل امام احمد کی راے پر ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ بات اس پس منظر میں ہے کہ ان علما کی شرعی دلائل پر نظر تھی، البتہ عوام کو کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی کہ وہ جس قول پر چاہے عمل کرلیں، کیوں کہ اس سے خواہشاتِ نفس کی اتباع کا راستہ کھل جائے گا۔ لیکن اہلِ علم کو اس سلسلے میں وسیع النظر ہونا چاہیے اور فقہا کے اس اختلاف کو اس نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ حق و باطل کا اختلاف ہے، کیوں کہ سلف اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے مسائل میں مختلف نقطۂ نظر کے حاملین حق پر ہیں اور ان سب کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ ایسی وسیع القلبی کی مثالیں بعد کے ادوار میں بھی کثرت سے ملتی ہیں۔ ان دنوں حرمین شریفین میں نمازِ وتر کا جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، فقہاے احناف کے یہاں وہ درست نہیں۔ لیکن امام ابوبکر جصاص رازی، علامہ ابن ہمام ان کے استاذ شیخ سراج الدین، اور ماضی قریب کے علما میں مولانا عبدالحی فرنگی محلی وغیرہ جو اپنے اپنے عہد کے فقہاے احناف کے سرخیل رہے ہیں، کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایسے امام کی اقتدا میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس طرح کے مسائل میں اختلاف راے کو نہ بُرا سمجھیں، نہ اس کو مناظرہ اور مجادلہ کا موضوع بنائیں اور نہ ان آرا کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بے احترامی کا رویہ اختیار کریں۔