جنوری ۲۰۱۱

فہرست مضامین

الجزائر، مصر اور سوڈان

عبد الغفار عزیز | جنوری ۲۰۱۱ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

الجزائر: اسیروں سے یک جھتی

قومی ترانہ کیا ہے، پورا اعلانِ بغاوت اور اعلانِ جہاد ہے۔ میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی اور ملک کے قومی ترانے میں استعماری ملک کا نام لے کر اسے چیلنج کیا ہوگا۔ الجزائر کے قومی ترانے میں دو مرتبہ فرانس کا نام لے کر اس سے نجات حاصل کرنے پر اظہارِ فخروانبساط کیا گیا ہے:

یَافَرنَسْا قَدْ مَضٰی وَقْتُ الْعِتَاب
وَطَوَیْنَاہ کَمَا یُطْوٰی الْکِتَاب

یَافَرنَسْا اِنَّ ذَا یَوْمُ الحِسَاب
فَاسْتَعِدِّی وَخُذِی مِنَّا الْجَوَاب

اِنَّ فِی ثَوْرَتِنَا فَصْلَ الخِطَاب
وَعَقَدْنَا الْعَزْمَ اَنْ تَحْیَا الْجَزَائر

(او فرانس! اب وقت عتاب لد چکا، ہم نے اس دور کو کسی کاغذ کی طرح لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اوفرانس! روزِ حساب آن پہنچا۔ اب تیار ہوجائو اور ہمارا جواب سن لو۔ بے شک ہمارے انقلاب میں دوٹوک پیغام ہے۔ ہم نے پختہ عزم کرلیا ہے کہ الجزائر ہمیشہ تابندہ رہے گا۔)

کسی بھی موقع پر، کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ، حتیٰ کہ فرانسیسی ایوان ہاے اقتدار میں بھی اگر کبھی الجزائر کا قومی ترانہ بجے گا تو وہاں بھی یہی لَے اور اس کی یہی شان ہوگی۔ الجزائر سمیت بہت سے افریقی ممالک فرانسیسی استعمار کے قبضے میں رہے ہیں۔ ہرجگہ فرانسیسی زبان اور فرانسیسی تسلط کے اثرات اب بھی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں، لیکن الجزائری عوام میں فرانسیسی استعمار کے خلاف جذبات اس قدر گہرے اور ہمہ گیر ہوں گے، الجزائر خود جاکر دیکھنے سے پہلے اس کا یوں اندازہ نہ تھا۔

الجزائر جانے کا پروگرام پہلے بھی دو تین بار بنا، لیکن ہربار کسی نہ کسی ناگزیر مصروفیت کے باعث آخری لمحات میں منسوخ کرنا پڑا۔ بالآخر ۵ اور ۶ دسمبر کو الجزائر کے دارالحکومت الجزائر (ملک اور دارالحکومت کا نام ایک ہی ہے) میں استعماری جیلوں میں گرفتار قیدیوں سے یک جہتی کے لیے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ کانفرنس حکمران پارٹی ’محاذ آزادی‘ اور فلسطینی تنظیموں کے اشتراک سے منعقد ہوئی تھی۔ دنیا بھر سے ۷۰۰ کے قریب شرکا مدعو تھے۔ میزبانوں کے اعلان کے مطابق نیلسن منڈیلا کی شرکت بھی متوقع تھی، وہ تو اپنی ضعیفی کے سبب نہ آسکے، لیکن کانفرنس میں کئی اور نیلسن منڈیلا شریک تھے۔ ایسے بہت سے افراد تھے جو صہیونی، فرانسیسی، عراقی جیلوں میں طویل قید کاٹ چکے تھے۔ حزب اللہ کے سمیرالقنطار بھی تھے جنھیں اسرائیل نے ۵۴۲ سال کی قید سنائی تھی اور بالآخر ۳۰سال بعد قیدیوں کے تبادلے میں رہا کرنا پڑا۔ ایسی خواتین بھی تھیں جو ۱۰،۱۰سال سے بھی زائد عرصہ صہیونی درندوں کے نرغے میں رہیں۔ ایک ایسی خاتون بھی اپنے شوہر اور اڑھائی سالہ بچے کے ساتھ کانفرنس میں موجود تھیں جو اپنی شادی کے چند ماہ بعد گرفتار ہوگئیں۔ جیل ہی میں بچے کی ولادت ہوئی اور معصوم باغی، دنیا میں آمد کے پہلے ۲۰ماہ اپنی ماں کے ساتھ جیل ہی میں رہا۔ گویا قیدوبند اس کی گُھٹی میں شامل ہے۔ عبداللہ البرغوثی نام کے ایک قیدی کے ۷۰سالہ والد بھی موجود تھے۔ عبداللہ کو اسرائیل نے ۶۷بار عمرقید، یعنی ۱۶۷۵سال کی سزا سنائی ہے۔ ظاہر ہے نہ قیدی نے سیکڑوں سال تک جینا ہے، نہ جلادوں اور جیلروں نے، لیکن اپنی درندگی ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ صدیوں کی قید سنائی جائے۔ سفید ریش والد کی آنکھیں غمِ یعقوب کی جھلک دکھا رہی تھیں، لیکن اپنی گفتگو میں انھوں نے بیٹے سمیت آزادی و جہاد کے ہر اسیر کو یہی پیغام دیا کہ لاتحزن ان اللّٰہ معنا، ’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔

اسرائیلی جیل میں قید ۳۰ سالہ فلسطینی خاتون احلام التمیمی کے اہلِ خانہ بھی شریکِ کانفرنس تھے۔ احلام کو ۱۶بار عمرقید (۴۰۰ سال) کی سزا سنائی گئی ہے۔ صہیونی ریاست کی تاریخ میں کسی خاتون کو دی جانے والی یہ سب سے لمبی سزا ہے۔ کانفرنس میں ایک فلسطینی قیدی نائل البرغوثی کا خط بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ نائل صہیونی جیلوں کا سب سے پرانا قیدی ہے۔ ذرا جگر تھام کر سنیے کہ وہ گذشتہ ۳۳سال سے جیل میں ہے۔ اس نے اپنے خط میں لکھا تھا: ’’ہمیں زنجیروں کی پروا نہیں ہے، لیکن اگر آپ مسئلۂ فلسطین اور قیدیوں سے اظہار یک جہتی میںکمزوری دکھاتے ہیں تو اس کا دکھ شدید ہوتا ہے‘‘۔ نائل اگر آج بیت المقدس پر قابض صہیونی دشمن کو لکھ کر دے دے کہ اسے جہادِ آزادی میں حصہ لینے پر افسوس ہے، اور وہ آیندہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کرے گا، تو وہ کل رہائی پاسکتا ہے۔ لیکن وہ جانتا ہے کہ جہاں ۳۳ سال قید گزر گئی، شاید باقی عمر بھی وہیں گزر جائے گی۔ لیکن اگر آج اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل سے بے وفائی کرتے ہوئے، اس پر یہودی تسلط قبول کرلیا تو پھر جو قید شروع ہوگی وہ موت کے بعد بھی جاری رہے گی… ہمیشہ ہمیشہ کی قید… جہنم کی وادیوں کی قید!

عراق کے ابوغُرَیب جیل میں امریکی سورمائوں کی قید میں رہنے والی ۵۰سالہ خاتون بھی کانفرنس میں شریک تھیں، بتانے لگیں کہ آزادی، جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے علَم بردار امریکی درندوں نے، ہمیں کئی ماہ تک ایک تنگ بیت الخلا میں بند رکھا۔ ابوغریب میں ہونے والے مظالم کی تصویریں باہر آئیں، تذلیلِ انسانیت کی نئی تاریخ دنیا کے سامنے آئی، عالمی احتجاج ہوا، تو امریکا نے دنیا کو دکھانے کے لیے بعض عالمی تنظیموں کو ابوغُرَیب کا دورہ کروایا۔ اسی طرح کے ایک دورے کے موقع پر ہم درجنوں خواتین کو قیدخانے کی اُوپر والی منزل میں بند کر دیا گیا۔ نیچے ان زائرین کا وفد پہنچا، تو امریکی جیلر انھیں صاف ستھرے کمروں میں، نظم و ترتیب سے رکھے گئے قیدیوں کی بیرکیں دکھانے لگے۔ موقع غنیمت جان کر ہم سب خواتین نے شور مچانا شروع کر دیا۔ ٹیم کے کچھ ارکان ہم تک آن پہنچے اور حقیقت ِ حال کھل جانے پر امریکیوں کو ہمیں رہا کرنا پڑا۔ اس ادھیڑعمر خاتون نے کانفرنس ہال کے باہر، دیگر تنظیموں کی طرح عراقی قیدیوں کے بارے میں بھی ایک تصویری نمایش لگا رکھی تھی۔ ناقابلِ بیان مناظر امریکی فوجیوں کے ’مہذب‘ ہونے کی دہائی دے رہے تھے۔

کانفرنس میں معروف برطانوی پارلیمنٹیرین جارج گیلوے بھی شریک تھے۔ وہ اب تک تین قافلے غزہ لے جاچکے ہیں۔ فریڈم فلوٹیلا کے بعد وہ پورے عالمِ عرب میں ہیرو کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ اسٹیج پر آکر انھوں نے انگریزی لہجے میں ’السلامولیکم‘ سے گفتگو کا آغاز کیا تو ہر ایک نے اپنائیت کا ایک انداز محسوس کیا۔ کانفرنس کے اکثر شرکا اسے برادر جورج، جارج بھائی کہہ کر مخاطب ہورہے تھے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں غزہ کی کھلی جیل میں ۱۵لاکھ فلسطینی قیدیوں کا ذکر کیا۔  انھوں نے اس پر اظہارِ افسوس کیا کہ وکی لیکس کے ہزاروں مراسلوں میں کسی عرب حکمران نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی بات نہیں کی۔ اپنی سرگرمیوں کے بارے میں انھوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دوبرسوں میں ۵۵ امریکی شہروں میں جاکر فلسطین کے حق میں تقاریر کی ہیں۔

کانفرنس میں شریک مغربی دانش وروں میں سے ایک بڑا نام سٹینلی کوہن کا تھا۔ یہ معروف یہودی امریکی وکیل، امریکی اور اسرائیلی عدالتوں میں فلسطین کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہم تمام یہودی، فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے یکساں ذمہ دار ہیں۔ ایک امریکی شہری ہونے کی حیثیت سے ہم شرمندہ ہیں کہ ہمارا ملک صہیونی لابی کے نرغے میں گھرا ہوا ہے‘‘۔ انھوں نے مغربی حکمرانوں سے سوال کیا کہ وہ فلسطین کا دورہ کرتے بھی ہیں تو فلسطینی عوام کی منتخب حکومت سے کیوں نہیں ملتے؟ ہم تو جمہوریت کے چیمپئن ہیں۔ عیسائی جورج اور یہودی سٹینلی نے انصاف کی بات کی، تو پوری کانفرنس نے انھیں دل کھول کر داد دی۔ اس پذیرائی میں یہ اعلان شامل تھا کہ اصل دشمنی پالیسی اور اعمال سے ہے۔ یہودی اور عیسائی رہتے ہوئے بھی اگر کوئی حق کا ساتھ دے تو اس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں۔ قرآن کریم بھی دعوت دیتا ہے:

اے نبیؐ! کہو، ’’اے اہلِ کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے‘‘۔ اِس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیںتو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔(اٰل عمران ۳:۶۴)

کانفرنس صبح ۱۰ بجے شروع ہوئی تھی۔ راقم کو بھی افتتاحی سیشن میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ اسٹیج پر پہنچا تو سوا گیارہ ہورہے تھے۔ پاکستان اور الجزائر میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ عین اس وقت، یعنی تقریباً سوا چار بجے سہ پہر، اسلام آباد کے ایوانوں کے سامنے جماعت اسلامی کا دھرنا اپنے عروج پر تھا۔ اندازہ لگایا کہ اب شاید محترم امیرجماعت کا خطاب شروع ہونے کو ہوگا۔ اللہ نے توفیق دی اور اسی بات سے گفتگو کا آغاز ہوگیا کہ آج جس لمحے ہم پوری دنیا سے اس کانفرنس ہال میں جمع ہیں، اسلام آباد کی سڑکوں پر آپ کے ہزاروں بھائی اپنے امیر کی قیادت میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ وہ سب میدان میں آکر صرف صہیونی ہی نہیں، تمام استعماری جیلوں سے    بے گناہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں… شرکاے کانفرنس نے تالیوں سے اس اعلان کا استقبال کیا اور وہ سب بھی دھرنے میں شریک ہوگئے۔ پھر چند منٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے لے کر امریکی ڈرون حملوں، پاکستان کے خلاف دشمنوں کی سازشوں، کشمیر میںہندستانی استعمار کی چکّی تلے پسنے والے کشمیریوں کا ذکر کرتے ہوئے اجازت لی۔ متعدد بار شرکا بھی اپنی تالیوں سے شریکِ گفتگو رہے۔

مصر کے عام انتخابات

اسی روز (۵ دسمبر) ہی کو مصر میں انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ ہورہی تھی۔ اس لیے وہاں سے زیادہ شرکا نہیں آئے تھے۔ ویسے بھی مصر اور الجزائر کے درمیان ان دنوں تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ بدقسمتی ملاحظہ فرمایئے کہ دونوں اہم برادر ملکوں کے درمیان جھگڑا ایک فٹ بال میچ کے دوران ہوا۔ لگتا تھا میچ دونوں بھائیوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ کئی ماہ قبل ہونے والے اس حادثے کی گرمی ابھی تک فضا میں موجود تھی۔ اب بھی الجزائر کے اخبارات لکھ رہے تھے: ’’مصر سے تعلقات بحال نہیں ہوسکتے، اس نے ہمارے شہدا کی توہین کی ہے، اسے الجزائری قوم سے معافی مانگنا ہوگی‘‘۔ مصری دوستوں سے ان کے انتخابات کے بارے میں دریافت کیا تو غصے اور بے بسی کا مرقع بن گئے۔ کہنے لگے: کچھ نہ کچھ دھاندلی اور فراڈ تو شاید دنیا کے ہرالیکشن میں ہوتا ہے، لیکن ہر غیرجانب دار منصف، مصر میں انتخابی دھاندلی کو پوری دنیا میں پہلا نمبر دے گا۔

الیکشن سے کئی ماہ پہلے مصر کے تقریباً ہر شہری کو معلوم تھا، کہ اس بار الیکشن میں اپوزیشن کو ایک فی صد نمایندگی بھی نہیں لینے دی جائے گی۔ گذشتہ انتخابات پانچ مراحل میں مکمل ہوئے تھے۔ اگرچہ ان میں بھی دھاندلی اور ریاستی تشدد کی انتہا کر دی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود بھی     الاخوان المسلمون کو ۸۸ نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ مرحلہ وار انتخاب میں اخوان کو جیتنے سے روکنے میں ناکامی پر اس بار پورے ملک میں ایک ہی روز ووٹنگ تھی۔ اخوان کا ایک بھی نمایندہ پارلیمنٹ میں نہیں جانے دیا گیا۔ اپوزیشن وفد پارٹی کو تین سیٹیں دی گئی تھیں، حکومت نے پہلے ہی ہلے میں ۹۵فی صد سیٹیں جیت لیں، جب کہ ۲۰۰ سے زائد حلقوں میں حتمی فیصلہ نہ ہونے کے باعث، ایک ہفتے بعد دوبارہ پولنگ کروانے کا اعلان کیا گیا۔ ان میں اخوان کے بھی ۲۷ اُمیدواروں کے نام شامل کیے گئے۔ وفدپارٹی کے بھی چند اُمیدوار دوسرے مرحلے میں آگئے۔ وفدپارٹی نے اتوار کے روز ہونے والی پولنگ میں دھاندلی کے خلاف، منگل کے روز دوسرے مرحلے کے بائی کاٹ کا اعلان کردیا۔ اخوان کے مرشدعام نے پیر کے روز ایک تفصیلی اور پُرہجوم کانفرنس میں اپنے تفصیلی موقف کا اعلان کیا۔ انھوں نے مصری عوام اور اخوان کے اُمیدواروں اور کارکنان کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ تمام تر حکومتی جبروتشدد کے باوجود، انھوں نے میدان نہیں چھوڑا اور آج وہ ایک بھی سیٹ نہ ملنے کے باوجود دنیا میں کامیاب قرار دیے جارہے ہیں اور اللہ کے دربار میں کامیابی کا تو ادنیٰ شک نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: انتخابات میں بے نظیر دھاندلی کی وجہ سے پوری دنیا میں مصر کی بدنامی ہوئی ہے۔ اس عالمی توہین کی پوری ذمہ داری حکومت کے سر ہے۔ واضح رہے کہ مصری انتخابات میں  کھلم کھلا دھاندلی کا اعتراف خود حُسنی مبارک کے سرپرست امریکا و برطانیہ کے تقریباً تمام اخبارات نے بھی کیا۔ سب نے حُسنی ہی کی نہیں خود اس کے مغربی آقائوں کی بھی مذمت کی۔ کئی ایک نے کہا: اگر ہماری جمہوریت کی عملی مثال حُسنی مبارک، حامد کرزئی اور نوری المالکی ہی ہیں، تو اس جمہوریت کی کون تائید و حمایت کرے گا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اداریے کا عنوان رکھا: ’مسٹر حُسنی بمقابلہ مسٹر اوباما‘۔ اس نے لکھا کہ ’’مصری انتخابات نے اوباما انتظامیہ کے ان تمام اعلانات کو   بے بنیاد ثابت کردیا ہے جو وہ خطے میں تبدیلی کے حوالے سے کرتے چلے آرہے تھے‘‘۔

اخوان کے مرشدعام نے انتخابی دھاندلی کی مذمت کے ساتھ ہی ساتھ اس پہلو پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی کہ ’’اس سارے ظلم و تعدی کے باوجود ہم اپنی پُرامن جدوجہد کے راستے کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہمیں کوئی بھی قانون اور دستور سے متصادم راستے کی طرف نہیں دھکیل سکتا۔ ہمارا راستہ طے شدہ، واضح اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے آراستہ ہے۔ ہم ان شاء اللہ اسی پُرامن، دستوری راستے پر چلتے ہوئے ہی کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے‘‘۔ اخوان کے ایک تجزیہ نگار نے دل چسپ اور جامع بات کی۔ انھوں نے کہا: اگر ہمارے سامنے الیکشن لڑنے کے ۱۲؍ اہداف و مقاصد تھے،تو ہم نے ان میں سے ۱۱ حاصل کرلیے۔ الیکشن میں نشستیں حاصل کرنے کا بارہواں ہدف حاصل نہیں بھی ہوسکا تو کوئی پروا نہیں، اللہ کی رسی کو تھامے رہے تو ان شاء اللہ یہ ہدف بھی جلد اور ضرور حاصل کرلیں گے۔

ووٹنگ کے دوران جھڑپوں میں ۱۱؍افراد موت کی آغوش میں اُتار دیے گئے، سیکڑوں زخمی ہوئے، ۲ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے گئے۔ بیرونی ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کو مقید کر دیا گیا۔ کئی ٹی وی رپورٹوں کو درمیان ہی میں روک دیا گیا اور کسی عالمی مبصر کو مصر نہیں آنے دیا گیا۔ دھاندلی کی ایک جھلک ملاحظہ ہو کہ کیا چوری اور سینہ زوری ہے: حلوان نامی شہر کے بوتھ نمبر ۲۳۴ میں پولنگ ریکارڈ کے مطابق، پولنگ بند ہونے کے وقت ۳۷۸ ووٹ ڈالے گئے، کوئی ووٹ کینسل نہیں ہوا۔ جب گنتی مکمل ہوئی تو حکومتی نمایندے سیدمشعل کو ۴۶۰ اور اخوان کے نمایندے کو کوئی بھی ووٹ نہیں ملا، جب کہ دیگر اُمیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کو جمع کریں تو ۳۷۸ کاسٹ ہونے والے بوتھ کے ڈبوں سے ۹۱۰ ووٹ برآمد ہوئے۔ نہ کسی بندے کا ڈر، نہ بندوں کے رب کا خوف۔

اس پورے تناظر میں پہلے وفد پارٹی نے اور پھر اخوان نے انتخابات کے دوسرے مرحلے کا بائی کاٹ کر دیا۔ بائی کاٹ کے اعلان میں کہا گیا کہ انتخابات کے نتائج کا تو پہلے سے بھی اندازہ تھا، لیکن ہم شرکت کے جو اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے، کرلیے۔ اب ان انتخابات کو مزید بے نقاب کرنے کے لیے بائی کاٹ کر رہے ہیں۔ اب یہاں ایک مثال اُلٹی دھاندلی کی ملاحظہ ہو: جب سب نے بائی کاٹ کر دیا تو عالمی اور عرب ذرائع ابلاغ کہنے لگے کہ حکمران پارٹی کا مقابلہ حکمران پارٹی ہی سے ہورہا ہے۔ حکومت نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ نہیں، اخوان بھی انتخاب میں شریک ہے۔ بائی کاٹ کرنے والے اُمیدواروں میں سے ایک اُمیدوار کو کامیاب قرار دے دیا، یعنی پہلے ہروانے کے لیے دھاندلی اور اب جتوانے کے لیے دھاندلی۔ مصر میں آیندہ برس صدارتی انتخاب ہونا ہے، اس کا نتیجہ بھی ابھی سے معلوم ہے۔ وکی لیکس کی دستاویزات میں خود امریکی سفارت کار بھی کہہ رہے ہیں۔ ۸۲سالہ حُسنی مبارک مرتے دم تک جان نہیں چھوڑے گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی جب دنیا سے کوچ کرنا پڑا، تو اپنے بعد اپنے بیٹے جمال مبارک کے سر پر تاج رکھ کر جائے گا۔ امریکی سفارت کاروں نے اس آدھے سچ کے ساتھ باقی یہ سچ نہیں لکھا، کہ اس سارے عمل کو امریکی سرپرستی حاصل رہے گی اور امریکا اس شان دار عوامی تائید کے حامل مصری صدر کو، سالانہ ایک ارب ڈالر کی امداد پیش کرتا رہے گا۔

جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم

الجزائر کانفرنس میں سوڈانی سفیر کے مشیر قطبی المہدی بھی شریک تھے۔ ان کے ساتھ ساری گفتگو ۹جنوری کو ہونے والے ریفرنڈم کے بارے میں رہی۔ چھے سال قبل ہونے والے معاہدے کے تحت ہونے والے اس ریفرنڈم میں، جنوبی سوڈان کی آبادی کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ سوڈان ہی میں شامل رہیں گے یا وہ الگ ہونا چاہتے ہیں؟ سوڈانی حکومت نے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کی ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت جنوب میں امن قائم کرلے۔ پہلے ۱۹۵۵ء سے ۱۹۷۲ء تک کی گیارہ سالہ اور پھر ۱۹۸۳ء سے ۲۰۰۵ء تک کی ۲۲سالہ جنگ میں ۱۹ لاکھ افراد لقمۂ اجل بن چکے تھے۔ ۴۰لاکھ افراد بے گھر ہوچکے تھے، اب سوڈانی صدر مصر تھے کہ جنگ بند کرکے خطے میں امن کا سفر شروع کیا جائے۔ جنوری ۲۰۰۵ء میں صدر عمرالبشیر اور جنوبی باغی لیڈر جون گرنگ کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کی کامیابی کے لیے جنوبی رہنمائوں نے جو مانگا، انھیں دیا گیا۔ انھوں نے معاہدے کے وقت تقاضا کیا کہ ’’اقتدار اور ثروت‘‘ میں برابر حصہ دیا جائے، حکومت نے مان لیا۔ سینیرنائب صدر کا عہدہ بھی دے دیا، وزارتِ خارجہ سمیت اہم وزارتیں بھی ان کے سپرد کر دیں۔ چند سال قبل برآمد ہونے والے تیل کی آمدنی میں سے بھی ایک بڑا حصہ انھیں دے دیا۔ جنوبی آبادی کی اکثریت اس حسنِ سلوک کا اعتراف واظہار بھی کرنے لگی، لیکن براہِ راست امریکی مداخلت، ڈالروں کی بارش اور خود اسرائیلی ذمہ داران کے جنوبی علاقوں میں براجمان ہوجانے سے،   تالیفِ قلب کی یہ تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔

ریفرنڈم ہونے اور باقاعدہ نتائج آنے میں ابھی چند ہفتے باقی ہیں، لیکن تمام تر شواہد اعلان کر رہے ہیں کہ جسدِ ملّی کے دو حصے کیے جارہے ہیں۔ اب کوئی دن جاتا ہے کہ جنوبی سوڈان کا لاکھوں کلومیٹر پر مشتمل رقبہ سوڈان کے جسد سے کاٹ کر، افریقہ میں اسرائیلی اور امریکی مداخلت کا ایک نیا اڈا بنا دیا جائے گا۔ الگ جنوبی ریاست کی تشکیل سے سوڈان ہی نہیں تمام پڑوسی ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ بحیرۂ احمر کے مختصر پاٹ کے دوسری جانب سعودی سرحدیں اور جدہ کی بندرگاہ ہے۔ جنوبی ریاست کے اسی علاقے سے دریاے نیل پھوٹتا ہے۔ اسرائیل امریکا اور ان کے غلام جنوبی حکمران، مل کر پورے خطے کا پانی اپنے کنٹرول و اختیار میں کرسکتے ہیں۔ یہاں موجود تیل کے وسیع ذخائر پر بھی پوری مغربی دنیا کی رال ٹپک رہی ہے۔

تاریخ اس موقع پر ایک اور عجیب و تلخ حقیقت یاد دلا رہی ہے۔ صدر عمرالبشیر نے اقتدار سنبھالا تو انھیں سب سے پہلی مزاحمت انھی پڑوسی ممالک کی طرف سے برداشت کرنا پڑی تھی۔ مصر سمیت تمام ممالک نے امریکی پابندیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سوڈان کا محاصرہ کرڈالا تھا۔ سوڈان سخت جاں نکلا، نہ صرف حصار کی سختی برداشت کرگیا، بلکہ چین کے ساتھ مل کر تیل بھی نکال لیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سوڈان کی تقدیر بدلنے لگی۔ بس یہی بات استعمار کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ اس نے سوڈان کے حصے بخرے کرنے کے علاوہ ہر راستہ مسدود کردیا۔

سوڈان کے حصار میں دشمنوں سے بھی زیادہ فعال مصر سوچے کہ آج وہ خود سوڈان سے بھی زیادہ خطرات کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ مصر کو دریاے نیل کا عطیہ و ثمر کہا جاتا ہے۔ چند ہفتے بعد ریفرنڈم اور پھر چند ماہ بعد ہونے والے انتقالِ اقتدار سے، دریاے نیل کا منبع بھی مجہول مستقبل کا شکار ہوجائے گا۔ آج مصر سے آوازیں آرہی ہیں: کاش ہم نے آغاز میں اپنے بھائی کا گلا گھوٹنے کی حماقت نہ کی ہوتی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں برادر پڑوسی اور مسلمان ملک ہیں۔ دونوں کا نقصان، بالآخر پوری اُمتِ محمدی کا نقصان بھی ہے۔ اب مستقبل کی کوکھ سے خود امریکا و اسرائیل کو اس جرم کی کیا سزا ملتی ہے… یہ ظاہر ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

سوڈانی صدر عمرالبشیر نے اعلان کیا ہے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے بھائی ہم سے الگ ہوں، لیکن اگر انھوں نے بیرونی سازشوں کا شکار ہوکر علیحدگی ہی اختیار کی، تو ہم بھی اپنے ملک میں وہ تمام اصلاحات کرنے کے لیے آزاد ہوجائیںگے، جو ہم پہلے جنوب میں جنگ اور پھر جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے نہیں کرسکے۔

صدمے کے لمحات میں بھی سوڈانی صدر امید کے دیے جلا رہے ہیں۔ باغیوں کی خانہ جنگی میں ۱۹ لاکھ جانوں کا نقصان دوسری عالمی جنگ کے بعد شاید سب سے بڑا نقصان ہے۔ وہ اس جنگ کے شعلوں کو ہمیشہ کے لیے بجھا کر سوڈان کی تشکیلِ نو کا عزم رکھتے ہیں۔