تحریک طالبان کے ساتھ مذکرات ہونے چاہییں یا اس کے خلاف آپریشن؟ بیک وقت مذاکرات اورآپریشن کافیصلہ سود مندہوگا یا نہیں؟ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہونے چاہییں یا کسی شرط کے بغیر؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر جگہ موضوع بحث ہیںاور پاکستان کی سلامتی و بقا کو درپیش خطرات کو ان کی کامیابی و ناکامی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
بلاشبہ دہشت گردی اس وقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس عفریت نے ریاست اور معاشرے کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکا نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ افغانستان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ اس جنگ میںجو اصلاً اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھی،پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر شامل ہوا تھا۔ ہم نے اس جنگ میں شمولیت کے وقت ہی آگاہ کر دیا تھا کہ افغانستان بہانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔وقت اور حالات نے ہمارے موقف کو ثابت کر دیا ہے۔ اس مذموم جنگ کو اب ۱۲ سال ہونے کو ہیں، اور جس دن سے ہم اس میں شامل ہوئے ، اسی دن سے تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ ملک کے ہر کونے میں دہشت گردی پھیل گئی ہے، اوراس کی جتنی قسمیں ہو سکتی ہیں، وہ سب ہمارے ملک میں موجود ہیں اور دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔فرقہ وارانہ اور مسلکی دہشت گردی بھی موجود ہے، لسانی و علاقائی دہشت گردی بھی روز افزوں ہے،بھتہ و لینڈمافیا بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، بھارتی دہشت گردی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے، اور امریکی دہشت گردی بھی پھن پھیلائے کھڑی ہے۔
میاں محمد نوازشریف کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق وہ اس جنگ سے نکلنے کے لیے ایک ٹھوس اور مربوط لائحہ عمل قوم کے سامنے پیش کریں گے۔ اگرچہ ایک عرصے تک حکومت کی طرف سے اس پر خاموشی رہی مگر دبائو بڑھا تو وزیراعظم نے پہلے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس نے دہشت گردی سے نجات کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، اور بعد ازاں قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے امن کو آخری موقع دینے اور مذاکرات کا اعلان کیا۔ چنانچہ حکومت اور طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور اس حوالے سے ابتدائی ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکرات کا یہ سلسلہ رک گیا۔ اب حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس میں بیک وقت مذاکرات اور آپریشن کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے خیال میں پالیسی جو بھی ہو، دہشت گردی کا سدباب اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک ڈور کا سرا ہاتھ نہ آئے اور ڈور کا سرا ’دہشت گردی کے نام پرامریکی جنگ‘ ہے۔ امریکا خطے میں موجود رہا اور نام نہاد جنگ جاری رہی تو صحیح معنوں میں کوئی پالیسی کارگر نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ امریکا اور بھارت مل کر افغانستان کے راستے سے بھی اور براہ راست پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھی اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں، اور اس کو بھڑکائے رکھنے کے لیے مذہب، فرقے، لسانیت اور علاقائیت، ہر طرح کے کارڈز اور ذرائع اور وسائل استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان کااصل المیہ یہ ہے کہ اس نے امریکی خوشنودی کی خاطر اس جنگ میں ۱۰۰؍ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا۔ انفرا سٹرکچر تباہ ہو گیا،معیشت اور معاش دونوں بربادی کی نذر ہو گئے اور قوم کا مستقبل دائو پر لگ گیا۔ حساس ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کر دیے گئے،انٹیلی جنس نیٹ ورک فراہم کیا گیا ،لاجسٹک سپورٹ دی گئی اور ہر قسم کی مراعات مہیا کی گئیں، لیکن اس کا صلہ یہ دیا گیا کہ نہ صرف پاکستان پر ڈبل گیم اور دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا بلکہ امریکا نے بڑے آرام سے ایبٹ آباد آپریشن کیا۔سلالہ پر حملہ کرکے فوجی جوان شہید کیے، ڈرون سے میزائل برساکر ہزاروں لوگوں کوقتل کیا، افغانستان میں بھارت کو تخریبی سرگرمیاں منظم کرنے کی اجازت دی اور پاکستانی سرزمین پرخود اس کے ریمنڈڈیوس نیٹ ورک جیسے درجنوںـ نیٹ ورک کام کرتے ہیں۔ اگر امریکا اس خطے میں موجود رہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر یہ سارا کھیل بھی جاری رہتا ہے اور ہم اس کا حصہ بنے رہتے ہیں، تو کوئی اچھی سے اچھی پالیسی بھی کارگر نہیں ہوسکے گی۔
سنجیدہ حلقے حکومت اور ریاستی اداروں کو بارہا متوجہ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں امن و امان کے قیام اور ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دیا جائے، اور امریکی مفاد کو قومی مفاد قرار دینے کے دھوکے سے نکل کر صحیح معنوں میںاپنے مفاد کو ملحوظخاطر رکھ کر پالیسی بنائی جائے۔ اس پالیسی کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ امریکی جنگ سے فوری طور پر باہر نکلنے کا اعلان کیا جائے۔ اس ایک اعلان سے ہی دہشت گردی اور افراتفری میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ پھر فاٹا سے بلوچستان تک مذاکرات کے ذریعے معاملات اور مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر بعض گروہ امریکی و بھارتی شہ پر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے باز نہ آئیں تو قانون کے مطابق آہنی ہاتھ سے ان کا قلع قمع کرنا چاہیے۔
پہلے پیپلزپارٹی اوراب ن لیگ کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے جتنے مشترکہ اجلاس ہوئے ہیں، وزراے اعظم نے آل پارٹیز کانفرنسز بلائی ہیں یا مختلف سیاسی جماعتوں نے اس کا اہتمام کیا ہے، ان سب کی متفقہ قراردادوں میں مسئلے کے فوجی حل کی مخالفت کی گئی ہے اور مذاکرات کو مسئلے کا حل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام کار ہے، انھوں نے پارلیمنٹ اور عوام کے جذبات کو یکسر نظرانداز کر تے ہوئے امریکا کے اشارہ چشم و ابرو پر عملاً انھیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ بطور ایک سیاسی جماعت کے ،جماعت اسلامی نے مسلسل مذاکرات کے حق اور فوجی آپریشن کی مخالفت میں بات کی ہے۔ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے جماعت اسلامی آج نہیں ہمیشہ سے فوجی آپریشن کی مخالفت کرتی آرہی ہے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کی بات کرتی رہی ہے، کیونکہ اس سے معاملات پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف جاتے ہیں۔ فوج اور عوام میں خلیج بڑھتی ہے، اور ملک دولخت ہو جاتاہے۔ مشرقی پاکستان، بلوچستان، کراچی، فاٹا، کہیں بھی اس سے قبل فوجی آپریشن سے مثبت نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔ ایک اورآپریشن سے کیسے مثبت نتائج حاصل کیے جاسکیں گے۔ ماضی سے سبق حاصل کرنے کے بجاے ایک اور آپریشن کو نسخۂ کیمیا سمجھنا دانش مندی نہیں ہے۔ عاقبت نااندیش قیادت اورملک دشمن قوتیں فوجی آپریشن کے ذریعے حالات کو ایک ناقابلِ واپسی مقام پر لے جانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ جس طرح اس حکمت عملی کے نتیجے میں ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت ہوا، اسی طرح ایک بار پھر وہ اپنے انھی مکروہ عزائم کو پورا کرسکیں۔
سیاسی و فوجی قیادت اِن کیمرہ اجلاسوں اور نجی محافل میں امریکا اور بھارت کی ان سازشوں کا ذکر کرتی ہے لیکن ان کا سدباب کرنے کے لیے عملاً کچھ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔ امریکا و بھارت کی اب بھی یہی خواہش ہے کہ افواجِ پاکستان کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا جائے، جہاں سے وہ نکل نہ پائے، ملک انتشار اور انارکی کا شکار ہو،اور اس کی آڑ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو عالمی کنٹرول میں لینے اور اس کے حصے بخرے کرنے کا کھیل کھیلا جائے، نیز جموں و کشمیر میں جاری جدوجہد کو نقصان پہنچے اور بھارت خطے کے تھانیدار اور بالادست قوت کے طور پر سامنے آئے۔ وقت آگیا ہے کہ غیر ملکی ہاتھ کو نہ صرف پوری قوت کے ساتھ بے نقاب کیا جائے بلکہ اسے توڑنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔
سیاسی و فوجی قیادت جن میں وفاقی وزرا اور جرنیل شامل ہیں، ایک عرصے سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ : ’’بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے‘‘۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ نہ تو بھارت سے باضابطہ طور پر کبھی احتجاج کیا گیا ہے اور نہ عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا گیا ہے۔ حال ہی میں ایک دفعہ پھر مسلح افواج کے ترجمان نے ’را‘ اور سی آئی اے کا نام لے کر یہ کہا ہے کہ ان کے کارندے پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہیں۔ وزارت داخلہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھارت کی تخریب کاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ امریکی سرپرستی میں ہونے والی بھارتی مداخلت کاری پر پارلیمنٹ کے ذریعے قوم کو اعتماد میں لے اور قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو ثبوت مہیا کرے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ اگر امریکی وبھارتی گٹھ جوڑ اور اس کی اس شرانگیزی کو طشت از بام کر دیا جائے تو میڈیا سے لے کر دہشت گردوںتک، اور این جی اوز سے لے کر آلہ کار سیاست دانوں تک، ان کے طرف دار چہرے قوم کے سامنے آجائیں گے۔
ہمارے خیال میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے صورت حال کی نزاکت اور سنگینی کا احساس کرتے ہوئے مذاکرات کو موقع دینے کا دانش مندانہ فیصلہ کیا اوراشتعال انگیزی اور مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود اب تک انھوں نے اس حوالے سے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بعض ناخوش گوار واقعات کی وجہ سے مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوا تو ہماری طرف سے انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ تعطل کے خاتمے کے لیے وہ خود آگے بڑھیں اور طالبان اور حکومتی کمیٹیوں سے خود ملاقات کرکے ملک میں امن کی راہ ہموار کریں۔ اس ملاقات میں وہ چاہیں تو فوج کے نمایندے بھی شامل کرسکتے ہیں۔ انھیں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ امریکا اپنے حلیف ناٹو کے ۴۶ممالک کی افواج اور جدید ترین اسلحے اور سازوسامان کے استعمال کے باوجود پچھلے ۱۲برسوں سے افغانستان کو فتح کرنے میں ناکام رہا ہے۔آج امریکا اور افغان قیادت دونوں بعد از خرابی بسیار یہ راگ الاپنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ امن مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اگر فوجی قوت اور بندوق کی طاقت سے امن آنا ہوتا تو امریکا اور ناٹو افواج کب کا افغانستان کو فتح کر چکی ہوتیں۔
نئی قومی سلامتی پالیسی کے تناظر میں حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ کہ: جو گروہ دہشت گردی کے مرتکب ہوں گے، ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور جومذاکرات کرنا چاہیں گے ان کے ساتھ مذاکرات ہوںگے، بظاہر متوازن پالیسی کا عکاس ہے ۔لیکن اس میں فیصلہ کن چیز یہ طے ہونا ہے کہ دہشت گرد کون ہیں اور مذاکرات کی میز پر کس کو بلایا جائے؟ ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس تمام ایجنسیاں موجود ہیں جو اس سلسلے میں رہنمائی بھی کرسکتی ہیں اور تعاون بھی دے سکتی ہیں۔
میاں محمد نواز شریف چاہیں تواپنا ایک با اختیار وفد افغانستان کے طالبان اور ملا عمر سے رابطے کے لیے بھیج کر، ملک میں امن کی بحالی کے لیے ان سے مددلے سکتے ہیں۔ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے اب تو امریکا بھی نہیں شرما رہا اور یہ وہی طالبان ہیں جن کے ساتھ میاں نوازشریف کی سابقہ حکومت کے ریاستی اور سفارتی تعلقات تھے۔ ان سے رابطہ کاری میں میاں صاحب کو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رابطہ معاملات کو افہام و تفہیم کی پٹڑی پر لانے اور اصلی اور نقلی طالبان کی پہچان میں مددگار بن سکے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی خفیہ ہاتھ ایسا ہے، جو حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی سبوتاژ کر دیتاہے۔ حکومت کو ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مہمند ایجنسی کے واقعے اور طالبان کے اس الزام کہ’’ ان کے ساتھیوں کی لاشیں پھینکی جارہی ہیں ‘‘کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانی چاہیے۔ مہمند ایجنسی میں ایف سی کے ۲۳؍ اہل کاروں کی شہادت اور ان کی لاشوں کی مبینہ بے حرمتی پر ہمیں شدید رنج ہے، اس کی ہم نے پرزور مذمت کی ہے اور ہمیں شہید اہل کاروں کے پس ماندگان سے دلی ہمدردی ہے۔ حکومت اور درد دل رکھنے والے تمام طبقات کو کھلی آنکھوں اور کھلے کانوں سے ایسی قوتوں کو قوم کے سامنے لانا چاہیے، جو مذاکراتی عمل کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھناچاہتیں اور جن کی پوری کوشش ہے کہ فوج اور طالبان کو آپس میں لڑا یا جائے اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں خوںریزی کا بازار گرم ہو۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ دونوں نے یہ کہاہے کہ جب بھی مذاکرات کسی اہم موڑ پر پہنچتے ہیں، کسی نادیدہ قوت کی طرف سے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیںجس سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں، تو پھر وزیراعظم ہی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان شرانگیز قوتوں کی نشان دہی اور ان کے سدباب کے لیے مئوثر اقدامات کریں۔بلا لحاظ اس سے کہ ان کا تعلق کس فریق یا گروہ سے ہے۔
مذاکرات مخالف قوتیں یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ مذاکرات ناکام ہوںگے اور اس کے بعد ان کے ایجنڈے کے مطابق ملٹری آپریشن شروع ہوجائے گا۔مذاکراتی عمل کو کسی تعطل کے بغیر آگے بڑھتا دیکھ کر ان کی نیندیں اڑ گئی تھیں اور وہ اس عمل میں رکاوٹیں پیداکرنے کے لیے ملک میں افواہ سازی کے ذریعے افراتفرای پھیلانے میں مصروف دیکھی گئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حا لات میں پوری قوم کو مذاکراتی کمیٹیوں کی پشت پر کھڑا نظر آنا چاہیے تاکہ حکومت کسی دبائو کے بغیر مذاکراتی عمل کو آگے بڑھاتی رہے۔اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اصل مذاکرات حکومت اور طالبان کے درمیان ہی ہوں گے۔طالبان کمیٹی کے نام سے کام کرنے والی موجودہ کمیٹی صرف رابطہ کار اور مددگار کا کردار ادا کررہی ہے ،تاکہ حکومت اور طالبان کے درمیان پائے جانے والے خدشات دُورکرکے مذاکرات کے ماحول کو ساز گار بنایا جائے۔ امریکا اور بھارت کی تمام تر سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجودمذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں، لیکن سیکولر اور اسلام مخالف لابی قوم کے اندر نااُمیدی اور مایوسی پھیلا رہی ہے،اور حکومت کو فوجی آپریشن کی طرف دھکیلنے کی ’خدمت‘ انجام دے رہی ہے۔
ایف سی اہل کاروں کی شہادت کے روح فرسا واقعے کے بعد جو ’جوابی کارروائیاں‘ کی گئی ہیں، دہشت گردوں کوبھی اس سے نقصان پہنچا ہوگا لیکن شنید یہی ہے کہ عام آباد ی اس سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ مہذب معاشرے میں عام شہریوں کو دوران جنگ بھی اندھا دھند بمباری کی لپیٹ میں لینے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔کوئی ایسی مثال بھی ہمارے سامنے نہیں ہے کہ جس میں ایک ریاست نے اپنے ہی شہریوں کے خلاف فضائی قوت اور بھاری بمباری کا استعمال کیا ہو، یہاں تک کہ کشمیر پر قابض بھارتی افواج نے بھی ایسا نہیں کیاہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مجرموں اور عوام الناس کی جانوں سے کھیلنے والے قاتلوں کی گرفت ضروری ہے اور ان کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے مگر یہ کارروائی قانون اور ضابطے کے مطابق ہی ہو، ایف ۱۶ اور کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نہیں۔بڑے آرام سے یہ کہہ دینا کہ اس بمباری کے نتیجے میں صرف مجرمین اور دہشت گرد نشانہ بن رہے ہیں، ایک جسارت اور زمینی حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ہمارے نزدیک حکومت کا یہ دعوی درست نہیں ہے۔ معمولی سی دانش رکھنے والا انسان بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کبھی جیٹ طیاروں کے ذریعے نہیں ہوا کرتی۔ اس سے خوف اور تباہی پھیلتی ہے، دہشت کی فضا بنتی اور افراتفری جنم لیتی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ آزاد میڈیا کے لیے حالات کی صحیح صحیح رپورٹنگ کا دروازہ بند کردیا گیا ہے، اور ستم ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نوحہ کر رہے ہیں کہ میران شاہ میں سویلین آبادی اور عورتیں اور بچے نشانہ بن رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے امن کی خواہش کو بعض عناصرمنفی رنگ دے کر جماعت اسلامی پر طالبان کی نمایندگی کرنے کے بے سروپا الزام لگا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے گھنائونے ایجنڈے کو پورا کرسکیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور امت کی امیدوں کا مرکز و محور سمجھتی ہے ۔ملکی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی کی قربانیوں کی پوری قوم معترف ہے اورہم ملک میں قیام امن کے دل و جان سے خواہاں ہیں، نیز اس سلسلے میں ہماری مسلح افواج نے جو بھی مثبت خدمات انجام دی ہیں، ان پر ہمیں اور پوری قوم کو فخرہے۔ البتہ دستور کا احترام اور انصاف کے اصولوں کی مکمل پاس داری سب کے لیے ضروری اور ملک کے استحکام اور بقا کے لیے مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔
جماعت اسلامی آئینی، دستوری اور جمہوری طریقے سے حکومتوں کی تبدیلی اور قانون سازی کی علَم بردار اور ملک میں خفیہ انجمن سازی اور تشدد کے ذریعے کسی ہدف کو حاصل کرنے کی مخالف ہے۔ اس ضمن میں اس کا دستور، تاریخ اور عمل گواہ ہے۔جماعت اسلامی کی اپنے ملک میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مختلف انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔ اس سے ہونے والا نقصان نفسیاتی، فکری اور اخلاقی بھی ہوتاہے اور مادی و جسمانی بھی۔ اس کا علاج اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوتا، جب تک آپریشن ختم نہ ہو۔
فوجی آپریشن سے ایک بڑا مسئلہ نقل مکانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قبل ازیں بھی سوات اور فاٹا سے لوگوں نے ہجرت کی تھی اور پوری دنیا میں اپنے ملک کے اندر ہونے والی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔اس وقت بھی جتنے بڑے پیمانے پر شمالی اور جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی ہورہی ہے وہ ایک انسانی المیے سے کم نہیں ہے۔ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اگر لوگ ہجرت پر مجبور کر دیے جائیں ، ان کے گھروں کو مسمار اور مستقبل کو تاراج کر دیا جائے اوران کے بچوں کا جینا دوبھر کر دیا جائے، تو ایسی جگہ سے قانون کا احترام کرنے والوں کی نہیں بلکہ دہشت گردی اور انتقام لینے والوں کی کھیپ ہی کے رونما ہونے کا امکان زیادہ ہے ۔ حکومتی کارپردازوں کویہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہجرت کرنے والے لوگ تاجک اور ازبک نہیںبلکہ پاکستانی ہیں اور بے بسی و بے چارگی اور درماندگی میں اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کو بالخصوص اور مرکزی حکومت کو بالعموم اس معاملے میں آگے بڑھنا چاہیے اور بے گھر ہونے والوں کوہر ممکن سہولتیں فراہم کرنی چاہییں۔ جماعت اسلامی بھی اس سلسلے میں مقدوربھر کوششیں کررہی ہے اور الخدمت فائونڈیشن نے اس سلسلے میں پیش رفت کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ جو نیٹ ورک حکومت کا ہوسکتا ہے اس کو فوری طور پر بروے کار آنا چاہیے، تاکہ سردی کی شدت اور گھر بارچھوڑنے کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کا مقابلہ کیا جاسکے اور سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔ مہاجرین کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر وسائل اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے وہ حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے، بالخصوص وفاقی حکومت۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے ان علاقوں سے نکلنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی کی طرف ہجرت کر جاتی تھی۔اور وہاں عزیز و اقارب اور کسی جاننے والے کے ہاں ان کو پناہ مل جاتی تھی لیکن اب خود کراچی آپریشن کی زد میں ہے۔ طالبانائزیشن کے نعرے کے سایے میںاگرفاٹا کے لوگ وہاں آئیں گے اور دکھائی دیں گے تو بڑی آسانی سے گرفتار کرلیے جائیں گے یا انھیں دیگر مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ سندھ حکومت اور ایم کیو ایم نے بھی ان کی کراچی آنے کی مخالفت کی ہے ۔
ایم کیو ایم فوجی آپریشن کی بڑی حامی ہے، اور طالبان سے مذاکرات کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہے۔ بجاے اس کے کہ وہ مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہتی، اس کے قائد نے مہاجرین کا استقبال کرنے کے بجاے فوج کا استقبال کرنے کا عندیہ دیا، آئین توڑنے کی بات کی اور جرنیلوں کو دعوت دی کہ وہ ایک دفعہ پھر اقتدار پر قبضہ کرلیں۔ ایک جانب طالبان کو آئین شکن کہہ کر پوری قوت انھیں اور ان کے آس پاس رہنے والے بے گناہ شہریوں کو کچل دینے کے لیے بیانات کی آگ اگلی جارہی ہے، تو دوسری طرف ایسی نفرت انگیز آگ بھڑکانے والے اسی گروہ کے لندن میں بیٹھے لیڈر نے علی الاعلان آئین کو تسلیم نہ کرنے کی بات کی، حالانکہ وہ اسمبلیوں کے اندر موجود ہیں۔ اس دفعہ وہ بظاہر حکومت میں شریک نہیں ہیں، مگر کارِ حکومت میں ان کی رسائی اور نازبرداری کا سب کواندازہ ہے۔ان کا نمایندہ سندھ کے گورنر ہائوس میں اسی طرح کارفرما ہے جس طرح وہ جنرل مشرف اور جناب آصف زرداری کے زمانے میں جلوہ افروز تھے۔ واضح رہے کہ موصوف اس سے پہلے ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۳ء تک کم از کم چار بار پہلے بھی فوج کو دعوت اقدام دے چکے ہیں اور اپنی مکمل تائید کا یقین دلا چکے ہیں۔ اس قابلِ مذمت بیان میں پورے جمہوری اور انتخابی دائرے اور نظام کو لپیٹ دینے کا عنوان موجود ہے۔اور یہ اس پس منظر میں ہے کہ جب باربار کے تلخ تجربات کے بعد عوام ، اعلیٰ عدالتیں اور معاشرے کے دیگر طبقات یکسو ہیں کہ سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت میں کوئی خیر نہیں ہے اور ملک کا مستقبل جمہوریت اور صرف جمہوریت سے وابستہ ہے۔ آج جو جمہوری رویے پورے معاشرے کے اندر فروغ پارہے ہیں، کچھ خامیوں کے باوجود ان جمہوری رویوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔
ان سنگین حالات میں اہل علم بالخصوص علماے کرام کو آگے آنا چاہیے اورآئین و جمہوریت کے حوالے سے ہونے والی بحث اور گتھیوں کو سلجھانے میں اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔ جو کام وہ کرسکتے ہیں، کوئی اور نہیں کر سکتا۔علماے کرام کواس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ پاکستان کے آئین کی کیا حیثیت ہے؟اس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ شریعت کس طرح نافذ ہوتی ہے؟ شریعت سے تعلق رکھنا، حُب ِالٰہی اور حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار رہناہم سب کا ایمان ہے، لیکن یہ بات اہل علم ہی بتا سکتے ہیں کہ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کا طریقہ وہ نہیں ہے، جو اختیار کیا گیا ہے اور جس کا یہاں اور وہاں اعلان کیا جا رہا ہے۔علماے کرام کو اسلام اور شریعت کے وکیلِ صفائی کا کردار ادا کرنا چاہیے اور غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جو لوگ فوجی آپریشن کے حامی ہیں، ان کا خیال ہے کہ آپریشن تو شریعت کے خلاف ہو رہا ہے، اس لیے اچھا کام ہے۔ اور ان کے لیے سکون کا باعث ہے۔
۱۹۷۳ء کا آئین بنانے والوں میں وہ جید علما شامل تھے، جنھیں آج کے علما اپنا استاد مانتے ہیں۔ مولانا ظفراحمد انصاری، مولانا مفتی محمود ،مولانا عبدالحق ،مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر غفور احمد جیسی قدآور قومی شخصیات آئین ساز کمیٹی میں شامل تھیں۔ وہ کیسے قرآن و سنت کے منافی آئین کو تسلیم کر سکتی تھیں۔ آئین کو غیر اسلامی کہنے کے بجاے آئین پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ جس آئین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہوگا اور اس کا آئین قرآن و سنت کے تابع ہوگا، اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا قومی یک جہتی کے لیے مضر ہے۔ قوم ۷۳ء کے آئین پر متحد ہے۔ اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود حکمران غیر آئینی ہتھکنڈوں کو چھوڑ کر آئین کی بالا دستی کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرلیں اور اس پر خلوص سے عمل پیرا ہوں۔ یادرہے کہ اس آئین کو توڑنے والوں میں سب سے پیش پیش سیکولر اور ریاست کے اسلامی تشخص کے مخالف افراد اور گروہ ہیں، اور یہی وہ طبقات ہیں بشمول امریکی اور بھارتی لابی کے سرخیل اور قادیانی عناصر، جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو پس پشت ڈالنے اور اسے غیر متعلق بنانے کے خواہشمند ہیں۔ اس لیے اس دستور کو مشتبہ بنانے والوں اوراس کے مطابق کام نہ کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کا راستہ صاف کر رہے ہیں؟
۱۹۷۳ء کا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہے۔اگر حکومت آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کردے تو طالبان سمیت کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ آئین پر عمل درآمد کی راہ میں خود جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے رکاوٹیں ڈالیں ۔برسرِاقتدار جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیکولرسٹوں اور وڈیروں نے آئین شکنی کا رویہ اختیار کیا۔ قرآن و سنت کے تابع پاکستان کے آئین کی مسلسل پامالی اور بے حرمتی سے ملک کے بارے میں بے آئین سرزمین کا تاثر پیدا کیا۔حکمران طبقوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے ملک و قوم کو مقروض کیا اور پھر قرض دینے والے عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات مانتے ہوئے عوام کش پالیسیاں بنائی گئیں۔ ایسا کرتے وقت آئین، اسلام، عوام اور انسانی قدروں میں سے کسی بھی چیز کی پروا نہیں کی گئی۔جب آئین و قانون کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اور تمام فیصلے بیرونی دبائو کے تحت کیے جائیں گے، تو آئینی ادارے کمزور اور تابع مہمل ہوں گے، اور عوام کا ان اداروں پر اعتماد ختم ہوجائے گا۔آج پاکستان میں بہترین آئین کی موجودگی کے باوجود عوام کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں، جب کہ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیاں قومی مفادات کے بجاے امریکی و بھارتی مفادات کو سامنے رکھ کر بنائی جارہی ہیں۔ ایسی صورت میں نہ امن آسکتا ہے اور نہ عوام کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔
پاکستان کی اسلامی شناخت کونہ کوئی پہلے بدل سکا ہے اور ان شاء اللہ نہ آیندہ بدل سکے گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسی نام سے قائم اور وابستہ رہے گا۔اسلامی شریعت، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا نام ہے ،جوکسی کی خواہشات پر بدلے نہیں جاسکتے۔ ملّی وحدت اور قومی یک جہتی کے لیے اسلام سے متصادم رویوں کو ترک کرناضروری اورمذاکرات مخالف قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار اداکرنا ہر ذمہ دار شہر ی کا فرض ہے۔جماعت اسلامی کی ساری جدوجہد کا مقصد ملک میں امن اور اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔ امن قائم ہوگا تو شریعت آئے گی اور آئین پر بھی عمل ہوگا۔