تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد اگر آج سے ۵۰سال قبل کے منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالیں تو دعوت اور دعوت کے طریقوں میں کتاب کا مقام مرکزی نظر آتا ہے۔ بہت سے ایسے افراد جو تحریکی شخصیات اور دعوت سے مخالفت براے مخالفت یا سرکاری ملازمت کی بنا پر اپنے آپ کو فاصلے پر رکھنا پسند کرتے تھے، اگر محض حادثاتی طور پر انھیں تحریکی کتب میں سے کسی کتاب کے مطالعے کا موقع مل گیا، تو وہ دعوت اسلامی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان میں سے بعض محض ایسے ہی کسی حادثے کے نتیجے میں اس حد تک متاثر ہوئے کہ سرکاری ملازمت کو ترک کرکے تحریک کے ایک عام کارکن بننے پر آمادہ ہوگئے۔ کتاب اور تحریر کا یہ جادو محض ادبی اسلوب کی بناپر نہیں، بلکہ ایک بات کے حق ہونے اور حق کو بلاکسی تصنع، مداہنت یا شدت پسندی کے صرف سادہ الفاظ میں بیان کردینے کی بنا پر ہوا۔ بلاشبہہ اس میں تحریر کے پُرخلوص اور خالصتاً لِلّٰہ ہونے کا بڑا دخل ہے لیکن کتاب اور تحریر کا یہ پہلو دعوتِ اسلامی کی اشاعت اور قبولیت کا ایک ناقابلِ تردید واقعہ ہے۔
اگر غور کیا جائے تو دعوتِ اسلامی کے الہامی طریق کار میں آسمانی صحیفوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ قرآن کی جانب دعوت اس عظیم ترین کتاب کا بغور مطالعہ کرنے، اس کے مفہوم کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات کو عملی شکل دینے کی دعوت تھی۔ اسی لیے باربار پکار کر کہا گیا: فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ o اِِنْ ھُوَ اِِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ o لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ o (التکویر ۸۱:۲۶-۲۸) ، یعنی تم کدھر بھٹکے چلے جارہے ہو؟ آئو اس کتاب کی طرف! یہ کتاب تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے، تم میں سے ہراس شخص کے لیے جو راہِ راست پر چلنا چاہتا ہو۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا: ’’یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں، بلندرُتبہ ہیں، پاکیزہ ہیں، معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں‘‘۔(عبس ۸۰:۱۲-۱۶)
الکتاب کی اہمیت کو جگہ جگہ بیان کرتے ہوئے تعلیم دی گئی کہ ’’اس کا مطالعہ ٹھیرٹھیر کر ہرہرلفظ پر غور کرتے ہوئے کیا جائے‘‘ (المزمل ۷۳:۴-۵) ۔اس کی تلاوت میں بھی تیزی اور جلدی نہ اختیار کی جائے کیونکہ اس کا اصل مقصد محض ثواب کا حصول نہیں بلکہ اس کتابِ ہدایت کو سمجھ کر اسے زندگی کے معاملات میں نافذ کرنا ہے۔ اسی بنا پر بار بار یہ یاد دہانی کرائی گئی کہ یہ کتاب چونکہ ہدایت ہے اس لیے اسے سادہ اور آسان بنادیا گیا ہے تاکہ ایک عام طالب ِ حق بھی اس سے رہنمائی حاصل کرسکے۔ ’’بلاشبہہ ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان بنا دیا تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘ (الدخان ۴۴:۵۸)۔اس عظیم کتاب سے دُوری اور تعلق میں کمی نہ صرف دنیا کی زندگی میں انسان کو ہدایت سے دُور کرتی ہے بلکہ آخرت میں محرومی اور سخت جواب دہی سے دوچار کرتی ہے۔ ’’اور رسولؐ کہیں گے: اے پروردگار!میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز کیا ہوا تھا‘‘۔(الفرقان۲۵:۳۰)
قرآنِ کریم سے قریبی تعلق اور اس پر مسلسل غور تحریکِ اسلامی کی دعوت کا پہلا مطالبہ ہے۔ پورے اعتماد سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تحریکِ اسلامی، ترجمۂ قرآن، یعنی قرآن کو اپنے معاملات میں نافذ کرنے کی دعوت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک سے وابستگی اور فکر کو تازگی دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان تحریرات کا مطالعہ کیا جائے جو قرآن و سنت پر مبنی فکر کو پیش کرتی ہیں اور آج کے مسائل کے اسلامی حل کی طرف نشان دہی کرتی ہیں۔
یہ خیال بے بنیاد ہے کہ ایک تحریکی کارکن نے اگر تحریک سے تعارف کے وقت چند کتابچوں کا مطالعہ کرلیا تھا اور تحریک میں شامل ہوگیا تھا، یا نصابِ رکنیت پر سرسری نظر ڈال کر رکن بن گیا تھا اور پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ذمہ دار بھی بن گیا، تو اس کا وہ سرسری مطالعہ اسے دین کا معتبر علم دینے کے لیے کافی ہے۔
تحریک کے متحرک رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ہرکارکن متحرک فکر رکھتا ہو اور نہ صرف اساسی کتب بلکہ اسلامی مصادر سے بھی پوری واقفیت رکھتا ہو۔ تحریک جس بات کی دعوت دیتی ہے وہ محض سڑکوں پر اپنی قوت اور تعداد کا مظاہرہ نہیں ہے، بلکہ اسلام کی فکر کی برتری، تازگی اور عصری مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ بات تقاضا کرتی ہے کہ ہرلمحے قرآن کریم کے علم میں اضافہ ہو۔ اگر اُس نے تفہیم القرآن کا اوّل تا آخر مطالعہ کرلیا ہے تو خود تفہیم القرآن کی انفرادیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوگا کہ عصری تفاسیر میں سے کم از کم تین چار تفاسیر کا مطالعہ کرے۔ اور پھر دیکھے کہ قرآنِ کریم کی جامع اور عملی تعلیمات کس طرح آج کے دور میں جاری و ساری کی جاسکتی ہیں۔
اسے نہ صرف قرآن کریم بلکہ سیرتِ پاکؐ کا مطالعہ اس زاویے سے کرنا ہوگا کہ آپ ؐ کی حیاتِ مبارکہ آج کے دور کے مسائل کے بارے میں کیا ہدایات دیتی ہے، اور اس کی ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی زندگی میں اس مطالعے کے نتیجے میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہییں۔
اسے فقہ کی کم از کم اتنی معلومات ہوں کہ وہ حلال و حرام میں فرق کرسکے اور بنیادی عبادات و معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرسکے۔ ایک داعی محض ایک جوشیلا مقرر نہیں ہوتا کہ دوسروں کو گفتار میں شکست دے سکے، بلکہ اس کا اصل کام شکست دینے کی جگہ دوسرے کو جیتنا، اپنے سے قریب لانا اور مخالف کے کیمپ سے وابستہ افراد کو اپنی جماعت کی طرف راغب کرنا ہے۔ دین کی حکمت نہ کبھی یہ تھی نہ آج ہوسکتی ہے کہ مخالفین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور اپنے ہرتیز اور نوکیلے جملے سے انھیں مجروح کرکے لطف اُٹھایا جائے، بلکہ دین کا مطالبہ ہے کہ جو کل تک دشمنِ جان تھے انھیں اپنے قولِ لیّن اور حکمت و محبت سے وَلِیٌّ حَمِیْمٌ بنایا جائے۔داعی کی بات اور طرزِعمل وہ ہو جو پھول کی پتی سے ہیرے کے جگر کو دولخت کردینے والا ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیرتِ پاکؐ کا مطالعہ اسلوبِ دعوت، استقامت و صبر اور دعوت کی حکمت کو سمجھنے کے لیے کیا جائے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جو کارکن اور ذمہ داران تحریک سے ۱۰،۲۰ یا ۳۰سال سے وابستہ ہیں انھوں نے اس عرصے میں سیرتِ پاکؐ کے حوالے سے اپنی معلومات اور علم میں کتنا اضافہ کیا ہے اور سیرتِ سرورعالمؐ کے علاوہ کون سی کتاب گذشتہ دوبرسوں میں پڑھی، اور کیا واقعی سیرتِ سرورعالمؐ کو بھی اس طرح پڑھا ہے جیسا اس کا پڑھنے کا حق ہے؟
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اسلامی لٹریچر کے علاوہ اپنے زمانے کے افکار، تصورات، تحریکات کا بھی دقت ِنظر سے مطالعہ کیا جائے، اور اسلام اور اسلامی تحریکات کو جو فکری اور تہذیبی چیلنج درپیش ہیں ان کو سمجھ کر ان کے مقابلے کی علمی اور عملی استعداد پیدا کی جائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کارکن اور قیادت ان پہلوئوں سے اپنے آپ کو باخبر رکھیں اور صرف ماضی کے سرمایۂ فکر پر قناعت نہ کریں۔
تحریکِ اسلامی کی ترقی اور کامیابی کا پہلا زینہ خود داعی کی فکری ترقی سے وابستہ ہے۔ اگر مطالعہ نہیں کیا جائے گا تو ہمارا ذہن نئے زاویوں اور متبادل حل تلاش کرنے سے قاصر رہے گا اور ہم روایت کے شکنجے میں گرفتار ہوکر ایک ضابطے کی جماعت بن جائیں گے، جو دستور اور ضوابط کی تو پابند ہو لیکن دستور کی روح اور ضوابط کی حکمت سے مکمل طور پر ناآشنا ہو۔ اس کا نام جمود ہے، اس کا نام fossilization ہے ، اس کا نام قدامت پرستی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اسے روایت، اشرافیت اور تقویٰ کا نام دے کر اپنے آپ کو خوش کرلیں۔
کتاب کا کلچر جب تک زندہ رہے گا تحریک بھی زندہ اور متحرک رہے گی۔ ہر نئی آنے والی فکر ایک داعی کو قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے اور وہاں سے ہدایت حاصل کرنے پر راغب کرے گی، اور وہ اس نام نہاد عالم گیریت کے دور میں نوزائیدہ مسائل پر اجتہادی راے دے سکے گا۔ اگر اُس نے مطالعہ ترک کردیا تو وہ مقلد تو بن سکتا ہے قائد نہیں بن سکتا۔ تحریکِ اسلامی کی بنیادی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ ہرکارکن میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرسکے اور وہ ہرصورت حال سے تحریکی ذہن اور اسلام کے بتائے ہوئے اخلاقی ضابطے کی روشنی میں نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرسکے۔
تحریکات کی زندگی کا تعلق ان کی قیادت کی طرف سے مسلسل فکری غذا کا فراہم کرنا ہے۔ یہ فکری غذا نہ صرف سیاسی مسائل پر بلکہ خالصتاً علمی مسائل پر بھی یکساں طور پر ضروری ہے۔ اگر ہمارا عالمی سطح پر معاشی، معاشرتی، ابلاغی، بین الاقوامی معاملات پر مطالعہ سطحی ہوگا تو تحریک بھی دن بدن فکری محدودیت اور افلاس کا شکار ہوگی۔ اگر اس کے ساتھ صورتِ حال کچھ یوں بھی ہو کہ تحریکِ اسلامی کی قیادت نے اب سے ۵۰سال قبل جو تجزیہ اور مسائل کا حل تجویز کیا ہو، اس پر بھی تحقیقی نگاہ نہ ہو تو پھر تحریک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اس عمل کے جاری رکھنے کے لیے تحریکی قیادت کو خود اپنی مثال پیش کرنی ہوگی اور نئی فکر کی تخلیق کے ذریعے فکر کے نئے زاویوں کی طرف نشان دہی کرنی ہوگی۔ ۱۹۶۲ء میں مولانا مودودیؒ نے جس بناپر ایک تحریکی تحقیقی ادارے کی بنیاد کراچی میں رکھی تھی، اس کے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے، مَیں سمجھتا ہوں کہ ان کے سامنے ایک ایسی ٹیم کی تیاری تھی جو نہ صرف ان کی فکر کو بلکہ ان کی فکر سے آگے علم و عمل کے نئے اُفق تلاش کرے اور تحریک کی علمی ترقی میں تعمیری کردار ادا کرسکے۔
یہ مستقبل کے لیے ایک علمی اثاثہ تیار کرنے کی خواہش کا اظہار تھا۔ یہ اس عزم کا اظہار تھا کہ تحریک کو ٹھوس علمی بنیاد پر قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ، سیرت پاکؐ اور مسلم علما و مفکرین کے کاموں سے براہِ راست روشناس کرانے کے بعد نئے تحریکی لٹریچر کی تصنیف اور فکری قیادت کے لیے تیار کیا جائے۔ یہ محض مولانا کے اپنے رسائل کے ترجمے یا انھیں مختلف مجموعوں میں مرتب کردینے کا کام نہ تھا بلکہ بدلتے حالات میں جرأت، ذمہ داری اور نصوص پر مبنی علم کے ذریعے ملک اور بیرونِ ملک ہدایت کے طالب انسانوں تک دعوت پہنچانے کے لیے ایک پوری نسل کو تیار کرنے کی خواہش کا اظہار تھا۔
آج تحریک جس دور سے گزر رہی ہے اس میں نہ صرف تازہ فکر کی بلکہ جو فکر سیدمودودیؒ نے پیش کی خود اس کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سید مودودیؒ کی بعض تحریرات ایسی ہیں کہ انھیں جتنی مرتبہ پڑھا جائے اتنی مرتبہ کوئی نیا پہلو سامنے آتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ بطور ایک پالیسی کے تحریک سے وابستہ افراد میں مطالعے کی ثقافت کو حلقہ ہاے فکر کے ذریعے زندہ کیا جائے اور کھلے ذہن کے ساتھ نہ صرف تحریکی قائدین بلکہ دیگر اسلامی مصادر کے تحقیقی مطالعہ کو اختیار کیا جائے۔
دعوتِ اسلامی کا پہلا مرحلہ فکری انقلاب ہے۔ جب تک فکر تبدیل نہ ہو، معاشرتی تبدیلی، سیاسی انقلاب اور تبدیلیِ قیادت ایک زیبایش تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں بن سکتی۔ دل و دماغ کا پورے اعتماد کے ساتھ یک سو ہونا دعوتی کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ یہ مرحلہ اگر کمزور ہوگا تو آسمان کی بلندیوں تک جو عمارت بنے گی وہ ٹیڑھی اور بودی بنیاد پر ہوگی۔ اس کی ظاہری عظمت اسے زیادہ عرصہ برقرار نہیں رکھ سکتی۔ وہ زمین کی معمولی حرکت سے بلندیوں سے گر کر نشیب کی شکل میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
جس شجرطیبہ کی مثال قرآنِ کریم نے دی ہے اس کی بنیاد کتابِ عظیم پر ہے، اور کتابِ عظیم یہ حکم دیتی ہے کہ نہ صرف ایک عام کارکن اور ذمہ دار بلکہ خود ہادی اعظم ؐ اقرأ کے حکم پر عمل کریں۔ قرآن کریم اور تحریکی لٹریچر کا بغور اور باربار مطالعہ ہی تحریک کو نئی فکر کی تخلیق کی طرف اُبھار سکتا ہے۔ جب تک فکر میں ندرت اور تازگی نہ ہو، تحریک قومی اور عالمی اُفق پر مقامِ قیادت حاصل نہیں کرسکتی۔