گذشتہ تین برس سے شام خون آشام ہے۔ یہ خون آشامی آمر بشارالاسد کی ہرقیمت پر اقتدارسے چمٹے رہنے کی ہوس کا نتیجہ ہے۔امریکا ہو یا روس، شام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ایک طاقت بشار کی حمایت کرتی ہے تو دوسری اپوزیشن کی۔ بھیڑیوں کی اس جنگ میں نشانہ بے گناہ عوام بن رہے ہیں۔ اس جنگ کا نتیجہ ہے کہ یہ آگ بجھنے میں نہیں آرہی۔ لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہجرت پر مجبور ہیں۔
سنٹر فار ڈاکومنٹیشن فار وائی لیشنز (Centre for Documentation for Violations ) کے مطابق ۲۲جنوری ۲۰۱۴ء تک ۹۷ہزار۵سو۷، جب کہ سیرین ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ایک لاکھ۳۰ہزار ۴سو۳۳ ہلاکتیں ہوئیں اور یہ عام شامی ہیں جو جاں بحق ہوئے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ان تین سالوں میں فوج اور پولیس کے ۳۲ہزار۱۳، پیراملٹری فورسز کے ۱۹ہزار۷سو۲۹ ؍ افراد خانہ جنگی کی نذر ہوئے۔ اسی طرح ریف دمشق میں ۲۲ہزار۸سو۹۷، الیپو میں ۱۶ہزار۵۴، حمص میں ۱۳ہزار۴سو۶۹، ادلب میں ۱۰ہزار۲۷، درعا میں ۸ہزار۳۴ اور دمشق میں ۷ہزارایک سو۳۷، حلب میں ۱۲ہزار۶سو۴۳، حماۃ میں ۵ہزار۷سو۵۵ لاشیں دفن کی جاچکی ہیں۔ خانہ جنگی کے باعث بیرونِ ملک نقل مکانی یا ہجرت کرنے والوں کی تعداد ۲۲لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یو ایس ایڈ کے مطابق اندرونِ ملک ہجرت کرنے اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد ۶۳لاکھ سے زائد ہے۔ بیرونِ ملک رجسٹرڈ شامی پناہ گزین مختلف ملکوں میں قائم کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔لبنان میں ۱۰لاکھ ، اُردن میں ۶لاکھ، ترکی میں۵لاکھ، عراق میں۲لاکھ، مصر میں ایک لاکھ اور کچھ دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہیں، جب کہ ایک لاکھ ۳۰ہزار شامی گرفتار یا لاپتا ہیں۔
شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد یورپ میں بھی پناہ گزین ہے۔ نیوزویک نے یورپ منتقل ہونے والوں کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔یورپ کا رویہ پناہ گزینوں کے ساتھ بخل کا رہا ہے، اور اس نے انھیں پناہ دینے کے بجاے گریزکا رویہ اختیار کیا ہے۔تاہم، کچھ ایسے یورپی ممالک بھی ہیں جنھوں نے آگے بڑھ کر تعاون کیا جن میں جرمنی سرفہرست ہے۔ جرمنی میں ۱۰ہزار سے زائد لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پناہ گزینوں کا زیادہ تر دبائو لبنان پر ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ لبنان میں مقیم شامی مہاجرین کو بالعموم اور بچوں کو بالخصوص سخت قحط کا سامنا ہے۔مصر کی فوجی حکومت کا رویہ بھی پناہ نہ دینے کا رہا جس کے باعث پناہ گزینوں نے ادھر کم ہی رُخ کیا۔ اقوام متحدہ کی نومبر۲۰۱۳ء کی رپورٹ کے مطابق یہ لوگ سخت سردی، خوراک کی قلت، صحت کی سہولتوں سے محرومی کے باعث انتہائی کسمپرسی، مفلوک الحالی، غربت اور بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے ہیں جو اس کُل تعداد کے نصف سے زائد ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد ۱۰لاکھ سے زائد ہے۔ بچوں کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کیمپوں میں تعلیم کی وہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں جو ہونی چاہییں، نیز یہ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کیمپوں میں زندگی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ویسے بھی کیمپوں میں کیا سہولیات میسر ہوسکتی ہیں!
بشار نے اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے خلاف طاقت کا بے محابا استعمال کیا۔ لاٹھی، گولی، آنسوگیس، گرفتاریاں، بکتربندگاڑیاں اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری کے ذریعے عام آبادیوں، اسکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا، حتیٰ کہ پناہ گزینوں کے کیمپ بھی اس دست برد سے محفوظ نہ رہے۔ بشار حکومت کے وحشیانہ تشدد، انسانیت سوز مظالم سے قیدی بھی نہ بچے۔
قفقاز سنٹر کی ۲۱جنوری کی رپورٹ جسے ترک ایجنسی (Anadolu) نے جاری کیا ، کے مطابق ملٹری پولیس میں ۱۳سال تک کام کرنے والا اہل کار ’قیصر‘ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر زیرحراست تشدد سے ہلاک ہونے والوں کی دو سال تک تصاویر بناتا رہا۔ اس نے ۱۱ہزار لاشوں کی ۵۵ہزار تصاویر بنائیں۔ تعذیب خانوں سے لاشیں ملٹری ہسپتال لائی جاتیں، جہاں ہرلاش پر کوڈ لگایا جاتا اور فلیش ڈرائیو (flash drive) کے ذریعے ان تصاویر کو حکومتی ریکارڈ میں بھیج دیا جاتا۔ یہ تصاویر اُتارنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اعلیٰ حکام کو یقین دلایا جائے کہ زیرحراست ملزمان کو رہا نہیں کیا گیا، بلکہ ہلاک کردیا گیا ہے، جب کہ لواحقین کو بتایا جاتا کہ قیدی دل کے دورے یا سانس کی تکلیف سے ہلاک ہوا ہے۔ دوسال تک قیصر یہ فوٹوگرافی کرتا رہا۔ دوسال کے بعد تنگ آکر اس نے اپوزیشن سے رابطہ کیا اور بشار حکومت کا یہ ظلم دنیا کے سامنے آسکا۔
قیصر کے مطابق روزانہ ۵۰ کے لگ بھگ لاشیں آتیں۔ تصاویر سے ہونے والی عکاسی کے مطابق زیرحراست افراد بھوک، پیاس، وحشیانہ تشدد، گلا گھونٹنے،بجلی کے جھٹکوں اور لوہے اور بجلی کے تاروں سے باندھنے سے ہلاک ہوئے۔ لندن کی ایک لیبارٹری نے ۲۶ہزار تصاویر کا معائنہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ تصاویر درست ہیں، ان میں کمپیوٹر کے ذریعے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن اس مسئلے کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لے جانا چاہتی ہے۔
ایک جائزے کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں ۱۲لاکھ سے زائد گھر تباہی کا نشانہ بنے۔ شہر کے شہر کھنڈر بن گئے، جابجا لاشوں کے ڈھیر اور ویرانی ملک کامقدر بن گئی ہے۔ اس صورت حال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پناہ گزینوں کی حالت قابلِ رحم اور تشویش ناک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ۶۸لاکھ افراد ہنوز امداد و تعاون کے منتظر ہیں، جب کہ اندرونِ ملک بھی ایک بڑی تعداد کو امداد درکار ہے۔ امریکا، یورپ اور عرب ممالک اربوں ڈالر امداد دے چکے ہیں لیکن یہ امداد اُونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔
۱۵جنوری ۲۰۱۴ء کو دنیا کے ۶۰ کے لگ بھگ ممالک نے اقوامِ متحدہ کی ڈونرز کانفرنس میں شرکت کی۔ اقوام متحدہ نے شام کی خانہ جنگی سے متاثر ہونے والے ایک کروڑ ۳۰لاکھ شامی مہاجرین کے لیے ۵ء۶ ؍ارب ڈالر کی اپیل کی مگر اس میں صرف ۴ء۱؍ ارب ڈالر کے وعدے ہوئے،جب کہ ۵۰۰ ملین ڈالر صرف کویت نے دینے کا وعدہ کیا۔
دمشق کے جنوب میں واقع فلسطینیوں کے ایک مہاجرکیمپ ’یرموک‘کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں جو بہت ہولناک ہیں۔ یہ کیمپ گذشتہ تین ماہ سے حکومتی افواج کے محاصرے میں ہے۔ ہرقسم کی اشیاے خوردونوش کیمپ میں جانے سے روکی جاتی ہیں ۔ کیمپ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ محصور ہیں۔ مسلسل محاصرے کے باعث اشیاے خوردونوش ختم ہوچکی ہیں۔ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بچے بھوک کے باعث بلکتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ مہاجر کیمپ کی مسجد کے امام و خطیب نے اس کیفیت میں حرام جانوروں کا گوشت کھانے کا فتویٰ دے دیا ہے۔
برطانیہ میں مقیم سرجن ڈاکٹر عمرجبار جنھوں نے ایک خیراتی ادارے ہینڈان ہینڈ میں شام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا اور کئی بار امدادی سرگرمیوں کے لیے شام گئے۔ان کا کہنا ہے کہ شام میںتنازعے کے باعث ایک نسل تباہ ہوچکی ہے۔ آپ تصور کریں کہ اگر آپ کا بچہ تین سال سے سکول نہ گیا ہو اور آپ گھر سے باہر روزگار کے لیے نہ جاسکیں، تو کیا عالم ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ہے کہ انسانیت کی خاطر سوچا جائے۔ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام بند ہونا چاہیے۔
شامی بحران پر جنوری میں ہونے والے جنیواٹو مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ مذاکرات کا دوسرا دور اس لحاظ سے ناکام رہا کہ فریقین کو اس میں بنیادی مقصد طے کرنے میں ناکامی ہوئی۔ انھی مذاکرات میں شام کی عبوری حکومت کا طریقۂ کار طے ہونا تھا۔ جنیواوَن کی طرح یہ مذاکرات بھی اقوامِ متحدہ کے تحت منعقد ہوئے۔ جون ۲۰۱۲ء میں منعقد ہونے والے جنیوا ون مذاکرات میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ ۴۰ممالک کے وزراے خارجہ نے شرکت کی تھی جس میں عرب لیگ کے ۲۲ممالک بھی شریک تھے۔ جنیواٹو مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی شامی اپوزیشن کے وفد نے اس پر اعتراضات کر کے شامل ہونے سے انکار کردیا۔ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کے دبائو پر اپوزیشن نے شرکت کی۔ ان مذاکرات کا پہلا دور سوئٹزرلینڈ کے قصبے مونٹرو میں منعقد ہوا، جب کہ دوسرا دور تین دن بعد جنیوا میں منعقد ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔ مذاکرات کو اس وقت سخت نقصان پہنچا جب اقوام متحدہ نے ایران کو دعوت دے کر واپس لے لی۔ ایران کو مذاکرات کی دعوت دے کر واپس لینے کی وجہ مبصرین یہ بیان کرتے ہیں کہ ایران بشارالاسد کا زبردست حامی ہے۔ اس وجہ سے وہ مذاکرات پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ ایران جنیوا وَن مذاکرات کے عبوری حکومت کے فیصلے کا مخالف تھا۔ اس موقع پر شامی حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کا آغاز تو ہوا، لیکن کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے براے شام لحذر براہیمی نے بشارحکومت کو جنیوا میں ہونے والی اس دوسری کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے کہا: ’’شامی حکومت ملک میں خانہ جنگی ختم کروانے میں سنجیدہ نہیں‘‘۔
شام کی صورت حال خوف ناک اور الم ناک ہے۔ تین سال کی خونریزی اور خانہ جنگی کے نتیجے میں کوئی فریق اتنا طاقت ور نہیں رہا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے اور دوسرے کو شکست دے سکے۔ عالمی طاقتیں دل چسپی لیتیں تو یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا لیکن عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں اور اُمت مسلمہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، غیروں کے لیے ترنوالہ اور زبوں حالی کا شکار ہے۔
بشار نے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جس سے وہ اپنے طاقت ور عالمی حلیف روس کو بڑی کامیابی سے اپنے حق میں استعمال کرپایا۔ اسی طرح ایران اور حزب اللہ کی بھرپور اخلاقی، سیاسی اور عسکری تائید حاصل کی، جس نے اسے مشرق وسطیٰ پر پڑنے والے دبائوسے بچایا اور وہ انتہائی بے دردی سے اپنے شہریوں پر قوت استعمال کرپایا۔ ترک صدر عبداللہ گل نے انتباہ کیا ہے کہ اگر عالمی برادر ی نے شام میں خانہ جنگی رکوانے کی کوشش نہ کی تو شام مشرق وسطیٰ کا افغانستان بن جائے گا۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق شام کو پُرآشوب رکھنا مغربی منصوبے کا حصہ ہے۔مسلم دنیا اور مسلم حکمرانوں کا کردار افسوس ناک رہا ہے اور عالمی ضمیر سو رہا ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اُمت کو جگانے اور بیدار کرنے کے لیے آواز ضرور بلند کی ہے لیکن یہ آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی ہے۔
شامی مہاجرین کی مظلومی و بے بسی اور بے چارگی کو اُجاگر کرنے اور ان کی امداد کے لیے معروف صحافی اور نومسلم مریم ریڈلے نے بھی گذشتہ دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ انھوں نے اُمت مسلمہ کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ شام کو آج ہمارے آنسوئوں کی نہیں ہمارے مال اور دعائوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان مظلوموں کے لیے اور کچھ نہیں کرسکتے تو اتنا تو ہمارے بس میں ہے کہ ہم ان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں!
مضمون نگار سے رابطے کے لیے: www.ghazinaama.com.pk