پاکستان کی بقا و استحکام کے لیے نظریۂ پاکستان کی کیا اہمیت ہے؟ چراغِ راہ، نظریۂ پاکستان نمبر کے لیے مولانا مودودی کے مفصل انٹرویو سے چند اقتباس پیش ہیں جو آج بھی کھلی حقیقت ہیں۔(ادارہ)
پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اولین ضرورت و اہمیت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر ایک مسلمان قوم کا نظریہ اسلامی نہ ہو تو اور کیا ہوسکتا ہے۔ مسلمان ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ ہمارے خیالات اسلامی ہوں۔ ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو۔ معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نگاہ ڈالیں اور اپنی تہذیب، تمدن، سیاست، معیشت اور فی الجملہ اپنے پورے نظامِ زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آخر کس بنا پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے حق دار ہوسکتے ہیں۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرنا اور پھر اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں کسی غیراسلامی نظریے پر کام بھی کرنا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو ہم منافق ہیں اور دل سے مسلمان نہیں ہیں، یا پھر ہم جاہل ہیں اور اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ مسلمان ہونے کے کم سے کم منطقی تقاضے کیا ہیں؟
دوسری چیز، اس سلسلے میں یہ ہے کہ ہم نے متحدہ ہندستان میں سے پاکستان کے نام کا ایک الگ خطہ زمین کاٹ کر حاصل کرنے کے لیے جو لڑائی لڑی تھی، وہ تمام دنیا کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ کر لڑی تھی کہ ہم ایک جداگانہ تہذیب و تمدن رکھنے والی قوم ہیں۔ متحدہ ہندستان میں غیرمسلم اکثریت کے ساتھ ایک مشترک نظامِ زندگی ہم نہیں بناسکتے۔ ہمیں اپنے نظامِ زندگی کے مطابق کام کرنے کے لیے ایک الگ علاقہ چاہیے، جہاں ہم اپنی تہذیب اور اپنے تمدن اور اپنے قوانین حیات کے مطابق کام کرسکیں۔ اب ایک سخت لڑائی لڑنے کے بعد جب وہ پاکستان ہمیں حاصل ہوگیا جس کے لیے ہم نے یہ سارے پاپڑ بیلے تھے، تو یہ ایک بالکل عجیب حرکت ہوگی کہ ہم یہاں اسی تہذیب و تمدن اور نظامِ زندگی سے منہ موڑ لیں جس کا ہم نے نام لیا تھا اور وہی سب کچھ کرنا شروع کردیں جو متحدہ ہندستان میں بھی بآسانی کیا جاسکتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم تمام دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ایک جھوٹی اور مکار، یا احمق اور ابوالفضول قسم کی قوم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ آخر دنیا یہ نہ سوچے گی کہ یہ عجیب قوم ہے کہ جس مقصد کا نام لے کر یہ لڑی تھی، لڑائی میں کامیاب ہوکر اسی مقصد کو فراموش کربیٹھی اور جو کام یہ لڑے بغیر کرسکتی تھی، وہی اس نے جان و مال اور آبرو کے بے شمار نقصانات اُٹھانے کے بعد کرنا شروع کردیا۔ ہماری سوسائٹی میں جن باتوں پر بے چارے سکھوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، ہماری یہ حرکت اس سے بدرجہا زیادہ بڑھی ہوئی ہوگی اور دنیا کے سامنے ہم اپنے آپ کو ’مہاسکھ‘ کی حیثیت سے پیش کریں گے۔
تیسری چیز، اس سلسلے میں یہ ہے کہ پاکستان مختلف عناصر سے مرکب ہے اور جن عناصر سے یہ مرکب ہے، ان کے درمیان آج تک اپنی جداگانہ خصوصیات نمایاں طور پر موجود ہیں۔ ان کے اندر حقیقت میں کوئی امتزاج ایسا نہیں ہوسکا ہے، جو ان عناصر کو بالکل یک جان اور یک رنگ کرچکا ہو۔ ان کی زبانیں مختلف ہیں، لباس، عادات، طرزِ معاشرت مختلف ہے۔ نسلیں مختلف ہیں۔ ایک بڑی حد تک ان کے مفاد بھی نہ صرف مختلف بلکہ متصادم ہیں۔ ان کے اندر جداجدا ہونے کا احساس نہ صرف موجود ہے بلکہ زندہ اور متحرک ہے اور ایک ذرا سے اشارے پر بہ آسانی اُبھرآتا ہے، اور سب سے زیادہ یہ کہ پاکستان جغرافیائی حیثیت سے ایک وطن بھی نہیں ہے..... اس حالت میں پاکستان کو ایک وحدت بناکر رکھنے والی قوت سواے اسلام کے کوئی نہیں ہے۔ محض سیاسی نظام کی وحدت کوئی چیز نہیں۔کیا اسی طرح کی وحدت آسٹریا اور ہنگری میں نہ تھی؟ کیا اسی طرح کی وحدت عثمانی سلطنت میں نہ تھی؟ کیا اسی طرح کی وحدت برٹش ایمپائرمیں نہ تھی؟ اس وحدت کے بل پر مختلف الجنس عناصر کو ایک ’بنیان مرصوص‘ نہیں بنایا جاسکتا..... اب سواے ایک عقیدے اور دین کی وحدت اور اصولِ اخلاق و تہذیب کی وحدت کے اور کیا ایسی چیز ہے جو پاکستان کے مختلف عناصر کو جوڑ کر رکھ سکتی ہو؟
چوتھی اور آخری چیز، یہ ہے کہ ملک کی عظیم مسلم اکثریت، جو دراصل پاکستان کی بانی اور اس کی پشت پناہ ہے، سچے دل سے یہ ایمان رکھتی ہے کہ اس کی زندگی کے مسائل کا حل فی الواقع اسلامی نظام ہی میں ہے اور اس نظام سے بہتر کوئی دوسرا نظام نہیں ہے۔ جن لوگوں کا اصلی عقیدہ یہ نہیں ہے، جو محض مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوجانے کی وجہ سے مسلمان بنے ہوئے ہیں مگر اپنے عقائد اور خیالات اور نظریات کے اعتبار سے غیرمسلم ہوچکے ہیں، ان کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ تو بلاشبہہ یہی چاہیں گے کہ ہم اپنے ساتھ بس مسلمان کا نام لگائے رکھیں مگر کام کسی غیراسلامی نظریے پر کریں۔ لیکن ایسے لوگ آخر ہماری آبادی میں ہیں کتنے؟ مشکل سے ان کا تناسب ایک، دو یا پانچ،دس فی لاکھ ہوگا۔ آخر عقل و منطق ، یا انصاف یا جمہوریت کے کس قاعدے سے اس چھوٹی سی اقلیت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ یہاں کوئی نظامِ زندگی اس کے نظریات کے مطابق اختیار کیا جائے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اس وقت یہی چھوٹی سی اقلیت ہمارے ہاں بڑے بڑے مناصب پر مسلط رہی ہے۔ لیکن یہ حالت خواہ کتنی ہی پریشان کن ہو، بہرحال اسے کوئی حقیقی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کہ ملک میں ایسی ایک اقلیت کے برسرِاقتدار ہونے کی حیثیت ایک اجنبی قوم کے برسرِاقتدار ہونے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ انگریز بھی جب اس ملک پر حکومت کر رہا تھا تو اس کے کارفرمائوں اور کارپردازوں کی تعداد اس ملک میں اس سے زیادہ نہ تھی۔ اگر وہ اجنبی اقتدار یہاں مستحکم نہ ہوسکا تو یہ اجنبی اقتدار بھی یہاں مستحکم نہیں ہوسکتا۔ جب تک یہ اقتدار یہاں مسلط رہے گا، پاکستان کے باشندوں کی عظیم اکثریت کے جذبات، احساسات اور ان کی گہری جڑوں پر جمی ہوئی روایات سے، اس چھوٹی سی اقلیت کے منصوبے پیہم متصادم ہوتے رہیں گے۔ تصادم کی وجہ سے یہ ملک ایک انچ بھی ترقی کے راستے پر آگے نہ بڑھ سکے گا بلکہ جو کچھ پہلے کا بنا ہوا ہے وہ بھی بگڑتا چلا جائے گا۔ قوم کا دلی تعاون جس طرح بدیسی اجنبیوں کو کبھی حاصل نہ ہوسکا، اسی طرح ان دیسی اجنبیوں کو بھی کبھی حاصل نہ ہوسکے گا۔ ان کی حیثیت بالکل ایسی ہی رہے گی جیسے کوئی شخص ایک ایسے گھوڑے پر سوار ہو جو اسے سواری نہ دینا چاہتا ہو اور سوار اور سواری میں مسلسل کش مکش جاری رہے۔ اس حالت میں کسی نظریے کے مطابق بھی ہماری زندگی کے کسی مسئلے کا حل نہ ہوسکے گا، نہ اسلامی نظریے کے مطابق اور نہ غیر اسلامی نظریے کے مطابق۔ جو کچھ حکمران بنانا چاہیں گے قوم کا عدم تعاون اس کو نہ چلنے دے گا، جو کچھ قوم بنانا چاہے گی حکمرانوں کی جبری اور بعض حالات میں مسلح مزاحمت اس کو نہ چلنے دے گی۔ اس کش مکش کو کسی کا جی چاہے تو جب تک چاہے طول دیتا رہے، آخرکار پاکستان کی تعمیر کے لیے اگر کوئی کام ہوسکے گا تو اسی وقت ہوسکے گا، جب کہ قوم اور اس کے حکمرانوں کا مقصد اور مسلک ایک ہو اور وہ اسلام اور صرف اسلام ہی ہوسکتا ہے.....
ناگزیر اقدامات: سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ تو اس ملک میں جمہوریت کی [عملاً] بحالی ہے۔ اس لیے کہ اگر اس ملک کی حیثیت اس گھوڑے کی سی ہو جس کے منہ میں لگام ڈال کر ہرطاقت ور شخص اس پر زبردستی سوار ہوجائے اور اسے اپنے راستے پر چلانا شروع کردے، تو ایسی حالت میں گھوڑے غریب کے لیے یہ سوچنا ہی لاحاصل ہے کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے اور اپنی مرضی کے راستے پر جانے کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے۔ ہمیں سب سے پہلے اس حالت کو بدلنا چاہیے۔ ہم کو یہاں ایک آزاد جمہوی ماحول درکار ہے جس میں اظہارخیال، اجتماع، تنظیم اور سعی و جہد کی آزادی ہو، جس میں ہرشخص اپنے خیالات کے مطابق راے عام کو ہموار کرنے کی کوشش کرسکے، جس میں راے عام کا کسی نظریے کے حق میں ہموار ہوجانا ہی اس نظریے کے مطابق قیادت میں تبدیلی ہوجانے کے لیے کافی ہو، اور جس میں قیادت کی تبدیلی کے لیے ایک پُرامن آئینی راستہ موجود ہو۔ ایسے ماحول میں تو یہ ممکن ہے کہ مَیں اپنے نظریے کو بروے کار لانے کے لیے کچھ اقدامات سوچ سکوں، انھیں بیان کرسکوں، لوگ ان کے صحیح یا غلط ہونے کے متعلق کوئی راے قائم کرسکیں، اور جن کے نزدیک وہ صحیح ہوں وہ میرے ساتھ مل کر عملاً ان اقدامات کے لیے کوشش کرسکیں.....
یہ لازمی اور ابتدائی شرط پوری ہونے کے بعد جو اقدامات اس نظریے کو بروے کار لانے کے لیے درکار ہیں، وہ تین بڑے بڑے شعبوں پر مشتمل ہونے چاہییں، یا دوسرے الفاظ میں اس مقصد کے لیے بہ یک وقت تین سمتوں میں متوازن طریقے سے کوشش کی جانی چاہیے۔
ایک، تبلیغ و تعلیم اور تعمیرِفکر۔اس سے میری مراد یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی آبادی کو وسیع اور عمیق پیمانے پر اسلام کے عقائد، اصول، احکام اور اخلاقی و عملی تقاضوں سے آگاہ کریں۔ غیراسلامی نظریات و افکار اور نظامِ زندگی کے جو اثرات ان کے ذہن میں تھوڑے یا بہت اُتر گئے ہیں، ان کو صاف کریں۔ مختلف ذہنی طبقات کو ان کی استعداد کے مطابق یہ سمجھائیں کہ اسلام کے مطابق ہماری زندگی کے مختلف شعبوں کی تشکیل کس طرح ہونی چاہیے اور مختلف مسائلِ حیات کو کیسے حل کرنا چاہیے۔
دوسرے، اصلاح اخلاق، یعنی لوگوں کی عملی زندگی کو اسلام کے تقاضوں کے مطابق درست کرنا اور ان غیراسلامی اثرات کو عملاً ان کی زندگی سے خارج کرنا جو جہالت و جاہلیت کی وجہ سے یا قدیم غیراسلامی تقلید کے باعث یا مغربی تہذیب و تمدن کی بدولت ان کے اندر پھیلے ہوئے ہیں۔
تیسرے، نظامِ حکومت کی اصلاح، تاکہ حکومت کے ذرائع و وسائل اور اس کے قوانین اور اس کے انتظامی اختیارات اسلام کے مطابق ہماری زندگی کی تعمیرنو میں استعمال ہوسکیں، اور بالآخر ہم دنیا میں اس مشن کو پورا کرنے کے قابل ہوجائیں جو ایک اُمت مسلمہ ہونے کی حیثیت سے خدا نے ہمارے سپرد کیا ہے۔
ان تینوں شعبوں میں جس نوعیت کا کام درکار ہے، اس پر غور کرنے سے خودبخود آپ ایک چوتھی چیز کی ضرورت بھی محسوس کرلیں گے جس کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا، اور وہ یہ ہے کہ ایک گروہ ہمارے اندر ایسا ہو جو اس کام کو انجام دینے کے لیے مخلص ، صحیح الفکر اور صالح العمل کارکنوں پر مشتمل ہو۔ وہ منظم طریقے سے اس مقصد کے لیے سعی و جہد کرے، وہ خود اپنے کارکنوں کی اصلاح و تربیت کی طرف بھی متوجہ رہے اور کام کی وسعت کے ساتھ ساتھ مزید کارکن بھی پیدا کرتا رہے.....
مختصرطورپر بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری قومی زندگی پر اس نظریے کے یہ اثرات مرتب ہونے چاہییں کہ ہم من حیث القوم دنیا میں دین حق کے سچے نمایندے بن کر کھڑے ہوسکیں۔ آج تو یہ ہمارا محض دعویٰ ہی ہے کہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں، ورنہ عملاً ہم اپنی زندگی کے ہرشعبے میں وہی سب کچھ کر رہے ہیں جو کوئی غیرمسلم قوم کرتی ہے، بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے لوگ ہمیں بالکل اپنے ہی جیسا پائیں اور ہم کو اپنی نقل مطابق اصل دیکھ کر داد دیں۔ لیکن اسلامی نظامِ زندگی کو شعوری طور پر اختیار کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے اخلاق اور معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں، ادب اور فنون میں، معیشت اور مالی معاملات میں، قانون اور عدالت میں، سیاست اور بین الاقوامی رویے میں، غرض ہماری ہرچیز میں اسلام کا اثر اتنا نمایاں ہو کہ کتاب کو پڑھنے کے بجاے صرف ہمیں دیکھ کر ہی دنیا یہ جان لے کہ اسلام کیا ہے اور وہ انسان کو کیا کچھ بنانا چاہتا ہے۔(چراغِ راہ، نظریۂ پاکستان نمبر، دسمبر ۱۹۶۰ء)