فروری کے شمارے کے مضامین کے انتخاب پر آپ کو مبارک باد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ اہم اُمور پر ہم ترجمان کے ’اشارات‘ (اداریے) کا انتظار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس دلیل کی قوت آجاتی ہے۔ وزیرستان پر ’اشارات‘ وقت کی ضرورت تھے۔ محمدبشیر جمعہ ہمیشہ عام فہم اور عملی باتیں بتاتے ہیں جس سے ہرکس و ناکس رہنمائی لے سکتا ہے۔ ان کی تحریریں بہت عمدہ ہوتی ہیں۔ ’احوالِ عالم‘ پڑھ کر تو دیر تک سکتے کی کیفیت رہی۔ ذہن کے بند دریچے جیسے وا ہوگئے۔ ’ہِگز بوسن یا خدائی ذرّہ‘ بہت عمدہ تھا! مضمون نگار اسے انگریزی میں ترجمہ کرکے انگریزی اخبارات کو ضرور بھیجیں۔سوشل میڈیا میں بلاگز پر بھی ڈالیں۔ یہ چشم کشا حقائق ایک عجب ایمانی کیفیت سے سرشار کرگئے۔ فاطمہ سابقہ لکشی بائی کی تحریر ایمانی جذبوں کی جِلا کا باعث بنی۔ ’اخباراُمت‘ اُمت بھر کی جدید سرگرمیاں اور حالات سے آگہی کاسبب بنتا ہے۔
’آپریشن شمالی وزیرستان ___ بے لاگ انتباہ!‘(فروری ۲۰۱۴ء) میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے چشم کشا حقائق بیان کیے ہیں۔ یہ امریکا کی شکست نہیں بلکہ اس نظام کی شکست ہے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر نظامِ جبر قائم ہوا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں (ناٹو افواج) کو اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ان کا برپا کیا ہوا نظام زمیں بوس ہونے کو ہے۔ اس شکست و ریخت سے عالمی سطح پر تبدیلیاں رُونما ہوں گی۔
’جمہوریت یا اسلامی انقلاب؟‘ (فروری ۲۰۱۴ء) کے تحت مولانا مودودیؒ کی رہنمائی سے اُمید و استقامت کا وہ پہلو نمایاں ہوتا ہے جو کسی بھی پُرامن اور انسانیت کی خیرخواہ جماعت یا فرد کی جدوجہد کا لازمی اور ناگزیر حصہ ہے۔ اسی درسِ استقامت کی عملی مثال محترمہ فاطمہ کے قبولِ اسلام اور پھر اُن کی کاوش سے پورے گھرانے کے قبولِ اسلام میں دکھائی دیتی ہے۔ دعوتِ دین اور اشاعت ِ دین کی ہر تحریک اور اس تحریک سے وابستہ ہرفرد کے لیے لائحہ عمل یہی ہے کہ وہ مسلسل اور پیہم پیغام دین کے ابلاغ کا حق ادا کرے اور اس کے لیے جس قدر پُرامن ذرائع اور وسائل میسر ہوں اُن سے کام لے۔
’افغانستان میں جنگ کے اثرات و نتائج‘ (فروری ۲۰۱۴ء) پروفیسر امان اللہ شادیزئی کا چشم کشا مضمون پڑھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ویت نام میں شکست کھانے کے بعد امریکی استعمار اِس وقت افغانستان میں بدترین شکست سے دوچار ہے۔ امریکا کو یہ شکست اس حال میں ہورہی ہے کہ اس کے تمام ایٹمی حلیف اپنے پورے سازوسامان سمیت اس کے ہم نوا ہیں۔ امریکا کی شکست کی وجہ سے پورا نظامِ سرمایہ داری لرزہ براندام نظرآرہا ہے یہ اس وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ مسلم مجاہدین نے عزیمت اور پامردی دکھائی ہے۔ اب وقت آرام سے بیٹھنے کا نہیں ہے بلکہ اگلے مرحلے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کا ہے تاکہ جہادافغانستان کے ثمرات کو پوری طرح سمیٹا جاسکے۔ ہمارا سیکولرمیڈیا اور بیوروکریسی اس بات پر ’انعام‘ کے حق دار ہیں کہ انھوں نے اُمت مسلمہ کو امریکا سے خوف زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
’قبولِ اسلام اور دعوت کی تڑپ‘ (فروری ۲۰۱۴ء) میں فاطمہ (سابقہ لکشمی بائی) کی داستان بہت ایمان افروز ہے اور دعوتِ دین کے لیے تڑپ اور تحریک کا باعث ہے۔ ’افغان: جنگ کے اثرات اور نتائج‘ نیز ’بنگلہ دیش جماعت اسلامی نشانہ کیوں؟‘ مفید معلومات پر مبنی ہیں۔