والدہ مکہ کی بڑی تاجر اور انتہائی محترم خاتون تھیں اور والد سراپا صدق و اخلاص۔ گویا پورا گھرانہ نازونعم اور مکارم اخلاق کا حسین امتزاج تھا۔ چار بیٹیوں میں سب سے بڑی زینب، سنِ زواج کو پہنچیں تو کئی اچھے گھروں سے رشتے آنے لگے لیکن اللہ کو منظور نہ ہوا، معذرت ہوتی گئی۔ ایک روز ابو العاص بن الربیع عرب روایات کے مطابق خود آئے اور درخواست پیش کی: أرید أن أتزوج زینب ابنتک الکبریٰ، ’’میں آپ کی بڑی صاحبزادی زینب سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ جواب ملا: لا أفعل حتی استأذنہا،’’میں جب تک خود ان سے نہ پوچھ لوں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔ یہ اس مبارک گھرانے کا ذکر ہے جسے خانہء نبوت کا مقام حاصل ہونے والا تھا۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر جاکر بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ابن خالتک جاء نی وقد ذکر اسمک فہل ترضینہ زوجاً لک؟ آپ کے خالہ زاد آئے ہیں اور آپ کا ذکر کررہے ہیں، کیا بطور شوہر وہ آپ کو قبول ہیں؟ حیا کی سرخی اور مسکراہٹ کی ہلکی سی لہر چہرے پر دوڑ گئی۔ آپؐ نے آنے والے کو ہاں کردی۔
ابو العاص بھی مکہ کے ایک کامیاب تاجر تھے۔ ہر موسم گرما و سرما میں ان کا تجارتی قافلہ شام کی طرف جایا کرتا تھا (رحلۃ الشتاء و الصیف)۔ ہر قافلے میں سو اونٹ ہوتے اور ہر اونٹ کے ساتھ دو ملازم۔ مکہ کے دیگر کئی لوگ بھی انھیں ہی اپنی رقوم دے دیا کرتے تھے کہ تجارت میں شریک کرلیں۔ ان کی خالہ خدیجہ بنت خویلدؓ کو ویسے بھی اپنے بھانجے سے خصوصی اُنس تھا ، تجارتی اُمور پر بھی تبادلۂ خیال رہتا۔ اب چھوٹی بہن ہالہ بنت خویلد کے گھر سے یہ بندھن بھی بندھ گیا، تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں۔ جلد ہی بیٹی کی رخصتی ہوگئی اور وجود میں آنے والا نیا کنبہ خوش و خرم زندگی گزارنے لگا۔ چند برس بعد دونوں چھوٹی بیٹیوں رقیہ اور اُم کلثوم کے نکاح بھی چچا ابو لہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہوگئے، لیکن رخصتی نہ ہوئی۔
کچھ عرصہ بعد ہی اس مبارک خانوادے کو نورِ نبوت سے نواز دیا گیا۔ ابو العاص قافلہ لے کر گئے ہوئے تھے۔ سفر سے واپس آئے تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔ مکہ داخل ہوتے ہی باپ دادا کے دین سے مختلف کسی نئے دین کی خبریں ملنے لگیں۔ گھر پہنچے تو پیار کرنے والی اہلیہ نے آغاز میں کچھ نہ بتایا۔ شوہر آرام کرچکا تو کہا: عندی لک خبر عظیم، میرے پاس آپ کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے۔ اور پھر جب تفصیل بتائی تو ابو العاص قدرے ناراض ہوگئے۔ اور یہ کہتے ہوئے گھر سے جانے لگے کہ مجھے پہلے کیوں نہ بتایا۔ اہلیہ پیچھے لپکیں اور کہا:’’ آپ تو خود جانتے ہیں کہ میرے والد صاحب صادق و امین ہیں، وہ کبھی جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ انھوں نے جب ہمیں نبوت اور وحی کا بتایا تو ہم نے فوراً ان کی تصدیق کردی۔ صرف میں ہی نہیں، امی بھی ایمان لے آئی ہیں۔ میری تینوں بہنیں، آپ کے پھوپھی زاد عثمان بن عفان، میرے چچا زاد علی ابن طالب اور آپ کے گہرے دوست ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہم جمیعا)۔ سب ایمان لے آئے ہیں۔ ابوالعاص نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا: لیکن میں اپنی قوم کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔ لوگ کہیں گے کہ کفر بآبائہ ارضائً لزوجتہ، بیوی کو خوش کرنے کے لیے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا۔ بالآخر میاں بیوی کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ دونوں ایک دوسرے پر جبراً کوئی رائے مسلط نہیں کریں گے، افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہے گا۔
وقت گزرنے لگا۔ میاں بیوی کا تعلق مثالی تھا لیکن ایمان وعقیدے کی بات ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہتی۔ کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ پہنچانے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے۔ ایک روز اپنی مجلس میں کہنے لگے:’’ تم لوگوں نے محمد کی بیٹیاں بیاہ کر انھیں اس ذمہ داری سے فارغ کررکھا ہے۔ اگر اس کی بیٹیوں کو طلاق دے کر باپ کے گھر بھیج دو تو یہی پریشانی اسے مصروف و مجبور کردے گی‘‘۔ سب کے چہرے کھل اُٹھے۔ اہل شر دوسروں کو دُکھ پہنچا کر اسی طرح خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ابولہب کے بیٹوں نے فوراً حضرت رقیہ اور اُم کلثوم رضی اللہ عنہما کو طلاق دینے کا اعلان کردیا۔ پھر وہ سب ابوالعاص کے پاس گئے اور کہا: ’’اپنی بیوی کو طلاق دے کر باپ کے گھر بھیج دو، مکہ کی جس لڑکی کی طرف اشارہ کرو گے تم سے بیاہ دی جائے گی‘‘۔ ابوالعاص نے ایک انصاف پسند اور صاحب نخوت ہونے کی حیثیت سے جواب دیا: اس کا بھلا کیا قصور ہے، لا واللّٰہ إنی لا أفارق صاحبتی: اللہ کی قسم میں اپنی شریک حیات کو طلاق نہیں دوں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منصف و دانا داماد کا یہ حسن سلوک ہمیشہ یاد رکھا۔
وقت گزرتا چلا گیا۔ آپؐ کو مکہ سے ہجرت کا حکم مل گیا۔ اس سے پہلے آپؐ کی صاحبزادی حضرت رقیہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کی زوجیت میں آکر حبشہ کی طرف ہجرت کرچکی تھیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے گزارش کی: اگر اللہ نے منع نہیں فرمایا اور اجازت ہے تو میں اپنے شوہر ہی کے ساتھ رُک جاؤں؟ آپؐ نے فرمایا: بالکل آپ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رُک سکتی ہیں۔ تب تک حضرت زینب کو پروردگار نے بیٹے (علی) اور بیٹی (اُمامہ) سے نوازا تھا۔
آپؐ کی ہجرت کے بعد چھوٹی بہن حضرت رقیہؓ اپنے شوہر حضرت عثمان بن عفانؓ کے ساتھ حبشہ سے مکہ واپس آئیں اور کچھ عرصے کے بعد وہ دوسری بار شرف ہجرت حاصل کرتے ہوئے دونوں مدینہ چلے گئے۔ اب مکہ میں زینب تھیں اور دونوں چھوٹی بہنیں اُم کلثوم اور فاطمۃؓ تھیں۔ آں حضوؐر نے مدینہ سے حضرت زید بن حارثہؓ کو بھیجا اور وہ آپؐ کی دونوں چھوٹی صاحب زادیوں کو بھی مدینہ منورہ لے گئے۔ بنات مصطفی ؐمیں سے صرف حضرت زینب مکہ میں رہ گئیں۔ شوہر اور دونوں بچوں کا ساتھ کچھ غم ہلکا کرتا تھا کہ ایک اور بڑی آزمایش آن پڑی۔ میدان بدر میں نئی تاریخ رقم ہونے جارہی تھی۔ مکہ میں ایسا ماحول تھا کہ ہر اہم فرد کا لشکر کفار میں جانا ضروری قرار دے دیا گیا۔ ابوالعاص ایمان نہ لانے کے باوجود جنگ میں جانے کے لیے تیار نہ تھے، لیکن معاشرتی دباؤ کے سامنے جھک گئے اور لشکر کے ساتھ چلے گئے۔ حضرت زینبؓ اعصاب شکن اندرونی جنگ کا شکار تھیں۔ محبت کرنے والا شوہر اور بچوں کا باپ، جان سے پیارے والد ، رحمۃ للعالمین ؐ اور آپؐ کے صحابہ کے مدمقابل ہونے جارہا تھا۔ روتے روتے حضرت زینب کے دل سے دُعا نکلی: اللہم إنی أخشی من یوم تشرق شمسہ فییتم ولدی أو أفقد أبی، ’’پروردگار مجھے اس دن کا سورج طلوع ہونے کا ڈر ہے کہ جس روز میرے بچے یتیم ہوجائیں، یا میں سایۂ پدری سے محروم ہوجاؤں‘‘۔
معرکہ بدر ختم ہوا، قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے یا گرفتار کرلیے گئے۔ انھی اسیروں میںدامادِ نبی ابوالعاص بھی تھے، لیکن انصاف کا تقاضا تھا کہ اسے بھی دیگر قیدیوں کے ساتھ اور انھی کی طرح رکھا جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو کمال حکمت و عدل پر مبنی جملہ فرمایا۔ ارشاد ہوا: واللّٰہ ما ذممناہ صہرًا، ’’و اللہ ہمیں بحیثیت داماد ان سے کوئی شکوہ نہیں‘‘۔ اس جملے میں حسنِ سلوک کا اعتراف بھی ہے، لیکن کفار کے ساتھ آنے پر بن کہے، بہت کچھ کہہ بھی دیا گیا۔ پھر طے پایا کہ اہل مکہ اپنے قیدیوں کا فدیہ دے کر انھیں رہا کرواسکتے ہیں۔ ہر قیدی کے اہل خانہ نے فدیہ بھیج کر اپنے اسیر رہا کروانا شروع کردیے۔ حضرت زینبؓ کے پاس ان کی سب سے قیمتی متاع شادی کے موقعے پر حضرت خدیجہؓ کا دیا ہوا قیمتی ہار تھا۔یہ ہار خود حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تھاجو انھوں نے آن حضوؐر سے شادی کے موقع پر پہنا تھا۔ بیٹوں کی طرح عزیز بھانجے ابوالعاص کے ساتھ بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے ماں نے ممتا کی نشانی یہی پیش کر دی۔ مدینہ میں اسیروں کے فدیے کی رقوم و متاع دیکھتے دیکھتے اچانک اہلیہ اور صاحبزادی کی مشترک نشانی پر نگاہ پڑی تو دونوں کے ساتھ گزری ساری خوب صورت یادیں تازہ ہوگئیں۔ آنکھیں نم ہوگئیں، لیکن زبان سے کچھ نہیں فرمایا۔ آپؐ سربراہ ریاست ہی نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ چاہتے تو خود کوئی فیصلہ صادر فرماسکتے تھے۔ لیکن آپؐ نے مشورے کے انداز میں صحابۂ کرام سے فرمایا: إن زینب بعثت بہذا المال لافتداء أبی العاص، فإن رأیتم أن تطلقوا لہا أسیرہا و تردواعلیہا مالہا فافعلوا،’’یہ زینب نے ابوالعاص کا فدیہ اپنی یہ متاع بھیجی ہے۔ اگر آپ حضرات چاہیں تو ان کا اسیر بھی رہا کردیں اور ان کا ہار بھی واپس بھیج دیں‘‘۔ سب نے بیک زبان کہا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! کیوں نہیں۔ آں حضوؐر نے زوجہ مرحومہ اور بیٹی کی نشانی لوٹاتے ہوئے کہا: ابو العاص! زینب سے کہو اسے احتیاط سے رکھا کرے۔ اب ایک اور بڑی سنگین و کڑی آزمایش کا سامنا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اسیر داماد کو رہا کرکے گھر بھیج رہے ہیں اور رب ذو الجلال کی طرف سے حکم آجاتا ہے کہ اب کوئی مسلم خاتون کسی مشرک اور غیر مسلم کی بیوی نہیں رہ سکتی۔ آپؐ نے ابوالعاص کو ایک جانب لے جاتے ہوئے فرمایا: إن اللّٰہ أمرنی أن أفرق بین مسلمۃ وکافر فہلا رددت إلی إبنتی؟ ’’اللہ نے مجھے مسلم خواتین اور کافر شوہروں میں علیحدگی کرنے کا حکم دیا ہے۔ میری بیٹی مجھے واپس دے دیں‘‘۔ ابو العاص نے بس اتنا جواب دیا: ٹھیک ہے۔
اسیر رہا ہو کر مکہ پہنچا۔ جان نچھاور کرنے والی اہلیہ نے اطلاع پاکر مکہ سے باہر آکر شوہر کا استقبال کیا۔ ابوالعاص نے فوراً کہا۔إنی راحل: میں جارہا ہوں؟ کہاں؟ انھوں نے دریافت کیا۔ نہیں، میں نہیں آپ لوگ جارہے ہیں۔ پھر آپؐ کا پیغام اور اللہ کا حکم سنایا تو ایمان محبت پر غالب رہا۔ حضرت زینب نے حسین یادوں سے معمور گھر، چاہنے والا شوہر اور سب کو عزیز مکہ چھوڑنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ابوالعاص ابن الربیع نے اپنے چھوٹے بھائی عمروبن الربیع سے کہا کہ زینب اور بچوں کو مکہ سے باہر چھوڑ آؤ وہاں ان کے والد صاحب کے ارسال کردہ زید بن ثابت اور ساتھی انتظار کررہے ہیں۔ عمرو نے حضرت زینب اور بچوں کو سواری پر بٹھایا۔ اپنی تیر کمان کمر سے سجائی اور دن دہاڑے مکہ سے چل نکلا۔ کفار مکہ کو میدان بدر میں لگنے والے کاری زخم ابھی تازہ تھے۔ اپنے جانی دشمن کی بیٹی اور نواسے نواسی کو یوں سکون سے جاتے دیکھا تو مشتعل ہوکر پیچھے دوڑے اور دونوں کی سواریوں کو جالیا۔ عمرو نے بھی بآواز بلند للکارا، خبردار! تم جانتے ہو میرے تیر کبھی خطا نہیں گئے۔ تم میں سے کوئی ہمارے قریب پھٹکا تو میرا تیر اپنی گردن میں پیوست پائے گا۔ اتنی دیر میں ابو سفیان بھی پہنچ گیا اور مسئلے کی سنگینی بھانپ لی۔ دانا تو تھا ہی، عمرو بن الربیع کے قریب جاکر سرگوشی کی۔ بھتیجے اپنے تیر سمیٹ رکھو، اصل میں غلطی تمھاری ہے۔ زینب بنت محمد کو یوں دن دہاڑے لے کر جانے کا مطلب ہے، تم زخمی قریش کو للکار رہے ہو۔ اگر اس ماحول میں ہم نے انھیں جانے دیا تو سارے عرب ہمیں بزدلی کا طعنہ دے گا۔ یوں کرو اب انھیں واپس گھر لے چلو۔ عرب کہیں گے قریش نے دشمن کی بیٹی کو روک لیا۔ چند روز بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجائے تو رات کی تاریکی میں خاموشی سے لے کر نکل جاؤ۔ عمرو کو بھی بات سمجھ آگئی۔ واپس چلے گئے اور پھر ایک رات اپنی سابقہ بھابھی اور بچوں کو لے کر مکہ سے نکلے اور مدینہ سے آئے ہوئے وفد کے سپرد کردیا۔
زینب ؓ مدینہ پہنچیں تو چھوٹی بہن رقیہؓ اللہ کو پیاری ہوچکی تھی۔ ان کے شوہر حضرت عثمانؓ اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم سے ذوالنورین کا لقب پاچکے تھے۔ اب منجھلی بہن اُم کلثوم ان کے گھر میں آباد تھیں۔ سب سے چھوٹی بہن فاطمۃ الزہرؓا پہلے ہی سے حضرت علیؓ ابن طالب کے ہاں تھیں۔ بحکم الٰہی ہونے والی اس علیحدگی کو چھے طویل سال گزر گئے۔ ابو العاص اس دوران مکہ ہی میں رہے۔ فتح مکہ سے کچھ پہلے پھر تجارتی قافلہ لے کر شام کے لیے روانہ ہوئے۔ خریدوفروخت کرنے کے بعد مکہ واپسی کے لیے لوٹے تو راستہ وہی تھا مدینہ کے قریب سے گزرتا ہوا۔ مسلم دستے نے مکہ جانے والا قافلہ روکنا چاہا کہ بدر و اُحد اور اَحزاب و حدیبیہ کے بعد یہی دفاعی تقاضا تھا۔ قافلے کا سامان پکڑا گیا، ساتھ جانے والے ۱۷۰ ملازمین گرفتار ہوگئے، لیکن قافلے کا مالک ابوالعاص بچ نکلا اور بچتا بچاتا رات کی تاریکی میں مدینہ داخل ہوگیا۔ اگلی صبح آپؐ نمازِ فجر کی امامت کروا رہے تھے۔ اتنے میں پیچھے سے نسوانی آواز گونجی: أیہا الناس! أنا زینب بنت محمد و قد أجرت ابالعاص فأجیروہ، ’’لوگو! میں زینب بنت محمد ہوں اور میں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے، آپ بھی انھیں پناہ دے دیں۔ نماز ختم ہونے پر آپؐ نے پیچھے مُڑ کر پوچھا: ھل سمعتم ما سمعت؟ جو کچھ میں نے سنا ہے کیا آپ نے بھی سنا ہے؟ صحابہ کرامؓ نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا: والذی نفسی بیدہ ما علمت بشيء من ذلک حتی سمعت ما سمعتموہ و إنہ یجیر من المسلمین أدناھم، ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! مجھے بھی اس پورے معاملے کا کچھ علم نہ تھا۔ میں نے بھی بس وہی سنا ہے جو آپ لوگوں نے سنا ہے اور دیکھو مسلمانوں میں سے کوئی ادنیٰ شخص بھی کسی کو پنا ہ دے دے تو وہ سب کی طرف سے پناہ ہوتی ہے۔ پھر آپؐ گھر تشریف لے گئے اور حضرت زینبؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹی ابو العاص کی مہمان داری کرو لیکن یاد رہے کہ آپ ان کے لیے حلال نہیں ہیں‘‘۔ پھر جو صحابہ ابوالعاص کا تجارتی قافلہ پکڑ کر لائے تھے، انھیں مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’آپ ان صاحب کو بخوبی جانتے ہیں۔ اگر آپ ان سے حسن سلوک کرتے ہوئے ان کا سامان لوٹا دیں تو میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ لیکن اگر آپ واپس نہ کرنا چاہیں تو وہ اللہ کی طرف سے تمھیں عطا ہونے والا سامان غنیمت ہے اور آپؐ لوگ اس کے حق دار ہیں۔ تمام صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یارسولؐ اللہ! ہم ان کا سامان انھیں لوٹاتے ہیں۔ پھر انھوں نے ابوالعاص سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: آپؐ قریش کے ایک انتہائی باعزت انسان ہیں۔ آپ رسول اکرمؐکے چچا زاد بھی ہیں اور ان کے داماد بھی، کیایہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اسلام قبول کرلیں اور یہیں رہ جائیں؟ شرعی حکم کے مطابق یہ سارا مال بھی آپ کا ہوجائے گا۔ ابوالعاص نے جواب دیا: آپ نے مجھے بہت برا مشورہ دیا۔ کیا میں اسلام کا آغاز ہی بدعہدی سے کروں۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے قافلہ تیار کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔
آں حضوؐر اور صحابہ کرامؓ کے حُسنِ سلوک سے متاثر ہوکر اب مکہ پہنچنے والا ابوالعاص اب ایک مختلف انسان تھا۔ انھوں نے وہاں پہنچ کر تمام تجارتی شرکا کو ان کا حصہ ادا کیا اور پھر اعلان کیا کہ اب جب کہ مجھ پر آپ میں سے کسی کا کوئی حق باقی نہیں رہ گیا تو سن لو کہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ و أشہد أن محمدًا عبدہ و رسولہ۔ مجھے مدینہ میں اسی بات نے اسلام لانے سے منع کیا کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ میں نے تمھارا مال ہڑپ کرنے کے لیے دین بدل لیا۔ یہ اعلان کرنے کے بعد وہ واپس مدینہ آئے اور دست نبوت پر اسلام سے سرفراز ہوگئے۔ آپ نے بھی ان کی عزت و تکریم کی اور سراپا ایمان و وفا حضرت زینب کا گھر دوبارہ آباد ہوگیا۔