کسی علاقائی امتیاز، جغرافیائی اساس، لسانی انفرادیت یا نامعلوم تاریخی اَدوار و آثار کی نسبت سے عمل میں نہیں آیا تھا۔ پاکستان کا قیام: کلمہ طیبہ، اسلامی تہذیبی وحدت، اور اسلامی قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔لیکن تشکیل پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد دیگر مشکلات کے ساتھ مملکت خداداد کو ایک ہمہ پہلو نظریاتی حملے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ حملہ تحریکِ پاکستان کی مسلمہ نظریاتی اساس کا رُخ موڑنے، اسے علاقائی لسانی جھمیلوں میں اُلجھانے اور اس کا تعلق ماضی بعید کے نامعلوم اَدوار سے جوڑنے کے بظاہر معصومانہ کھیل سے شروع کیا گیا ہے۔ مگر اس قدیم اور افسانوی تہذیب یا ثقافت کا اسلامی تہذیب و ثقافت، اوراسلامی فکرو طرزِ زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں بنتا۔ کچھ سادہ لوح لشکری بھی اپنی زبان، قلم اور فن کے ہتھیار لے کر اس ثقافتی حملہ آور فوج کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔ ان ثقافتیوں کو ابلاغی اور سیاسی کمک تقویت پہنچارہی ہے۔ اس طرزِفکر کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہڑپہ، موئن جودڑو اور ٹیکسلا کے کھنڈرات انسانی تاریخ کے عبرت کدے ہیں، ان سے نسبت جوڑنے والے انھی ثقافتی مضمرات کے حوالے سے یہاں پانچ مختصر مضامین یک جا پیش کیے جارہے ہیں، جن سے مسئلے کی نوعیت واضح ہوگی اور پتاچلے گا کہ ثقافت سے اظہارِ محبت کا اصل مقصد کیا ہے۔(مرتب: سلیم منصورخالد)
اُردو ادب کے ایک خوب صورت افسانے کی کہانی ایک ایسے گائوں کے گرد گھومتی ہے، جس کے باسی بارش کے پانی سے اپنی محدود زمینیں آباد کرتے ہیں۔ بارشیں رُک جائیں تو قحط سالی آجاتی ہے، جمع شدہ اناج سے گزربسر کی جاتی ہے، یا پھر کچھ عرصے کے لیے شہر کی جانب ہجرت کرکے محنت مزدوری سے پیٹ پالا جاتا ہے۔ بارانی علاقے کی اس زمین پر مٹی کے بہت سے بڑے بڑے ڈھیر ہیں، جنھیں ٹبے کہا جاتا ہے۔ ان ٹبوں کے بارے میں لوگوں کا یہ گمان ہے کہ یہاں کبھی انسان رہا کرتے تھے، شہرآباد تھے، لیکن وقت نے انھیں کھنڈر کردیا۔ قحط سالی کے زمانے میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم یہاں کے ایک ٹبے کے گرد پڑائو ڈالتی ہے اور گائوں میں سے چند لوگوں کو کھدائی کے لیے مزدور رکھ لیتی ہے۔ ایک فاقہ زدہ غریب شخص بھی ان مزدوروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ دن بھر کھدائی کے بعد وہ رات کو مزدوری لے کر گھر آتا ہے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ اسے لگتا ہے کہ اب غربت کے دن رخصت ہوگئے ۔ بیوی اکثر اس سے سوال کرتی ہے کہ تم وہاں کھدائی کرتے ہو، آخر وہ لوگ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ پہلے پہل تو اسے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ مٹی کے اندر سے ٹوٹے برتنوں کے ٹکڑے، سکّے یا کوئی اور استعمال کی چیز مل جائے تو فوراً اسے ماہرِ آثارِ قدیمہ کے سامنے لاکر پیش کردیا جاتا۔ وہ اسے صاف کرتا، ’ڈسٹلڈ واٹر‘ سے دھوتا اور اپنے سامنے رکھی ہوئی چیزوں پر ترتیب سے رکھ دیتا۔ مزدور اپنی کھدائی میں مصروف رہتے، جب کہ وہ بڑے بڑے محدب عدسوں کے ذریعے ان ٹھیکریوں کا بغور مطالعہ کرتا رہتا۔ کھدائی کا عرصہ طویل ہوتا گیا، ان چند مزدوروں کے گھر میں خوش حالی آگئی، لیکن اس مزدور کی بیوی کے سوال ختم نہ ہوئے۔ وہ پوچھتی: یہ لوگ پاگل ہیں، آخر کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ ان ٹوٹے ہوئے برتنوں سے انھیں کیا ملے گا؟ خود اس کی سمجھ میں بھی کچھ نہ آتا تھا تو بھلا وہ بیوی کو کیا بتاتا!
آخر اسے وہاں موجود ماہرین کی باتوں سے پتا چلنے لگا کہ یہ لوگ تین چار ہزار سال پرانے اس شہر میں بسنے والے لوگوں کے زیراستعمال اشیا کی تلاش میں ہیں۔ ان میں سب سے اہم ایک بہت بڑا مٹکا ہے، جس کے گیارہ ٹکڑے دریافت ہوچکے ہیں اور بارہویں کی تلاش جاری ہے، تاکہ مٹکا مکمل ہوجائے۔ تلاش طویل ہوجاتی ہے، وہ ٹکڑا نہیں ملتا، مگر مزدوروں کا رزق چلتا رہتا ہے۔ اچانک شور اُٹھتا ہے کہ وہ ٹکڑا مل گیا۔ ٹکڑا لاکر اس بڑی سی میز پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ایک دم خوشی و مسرت کی کیفیت میں ماہرین رقص کرنے لگتے ہیں۔ ان سب کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ معمول کے مطابق اگلے دن صبح مزدور کام پر آتے ہیں تو ماہرین کا سامان باندھا جا رہا ہوتا ہے، گاڑیاں تیار کھڑی ہوتی ہیں، وہ ان سب مقامی مزدوروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کچی سڑک پر دھول اُڑاتے غائب ہوجاتے ہیں۔
یہ شخص مایوس گھر واپس لوٹتا ہے۔ قحط سالی اب بھی قائم ہے۔ چند دن بچی کھچی آمدن سے گھر کا گزارا چلتا ہے، پھر فاقے شروع ہوجاتے ہیں۔ پریشان حال وہ شخص گھر کے صحن میں بیٹھا سوچوں میں گم ہے، بیوی اسے مزدوری ڈھونڈنے کے لیے کہتی ہے۔ کتنے دن اس لڑائی،ناکامی اور نامرادی میں گزر جاتے ہیں۔ نہ بارش برستی ہے، نہ مزدوری ملتی ہے اور نہ فاقے ختم ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ سخت پیاس کے عالم میں گھڑونچی پر رکھے ہوئے گھڑے کے پاس پانی پینے کے لیے آتا ہے۔ پانی پی کر گھڑا اُٹھاتا ہے اور اسے گھر کے باہر زور سے پٹخ دیتا ہے۔ بیوی غصے سے پاگل ہوجاتی ہے۔ کہتی ہے: ’ایک تو گھر میں پیسے نہیں، اُوپر سے تم نے پانی بھر کے لانے والا گھڑا بھی توڑ دیا‘۔ اس مزدور کا جواب ثقافت کے ٹھیکے داروں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑہے۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے: ’آج سے تین ہزار سال بعد جب یہ گائوں ایک ٹبہ بن چکا ہوگا تو ایسے ہی ماہرین آثارِ قدیمہ آئیں گے اور مزدوروں کو اس گھڑے کے ٹکڑوں کی تلاش میں لگائیں گے۔ یوں کتنے لوگوں کو مزدوری مل جائے گی‘۔
ثقافت کے رنگا رنگ منظر کی یہ کہانی دنیا میں ہر اس حکمران نے دہرائی ہے، جسے عوام کے دُکھوں سے کوئی دل چسپی نہ ہو، لیکن وہ چند دن کے میلوں ٹھیلوں میں ان کو مصروف کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتا ہو۔ میکائولی نے اپنی مشہور عالم کتاب Prince (شہزادہ) میں بادشاہوں کو جو مشورے دیے، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ بار بار میلوں، ٹھیلوں اور رنگارنگ تقریبات کا انعقاد کیا جائے تاکہ اس عرصے میں لوگ اپنی غربت و افلاس کے دکھوں کو بھول جائیں۔ پورا روم جب اپنی ترقی کے عروج پر تھا تو عام آدمی کی زندگی انتہائی تلخ اور مشکل تھی، لیکن اشرافیہ کے گھر کے فواروں میں بھی خوشبودار پانی استعمال ہوتا تھا۔ ان کے ہاں تہذیب و ثقافت کے نام پر ہروقت بڑی بڑی تقریبات کا اہتمام ہوتا رہتا تھا، لیکن ان غریب عوام کو چند دن تقریبات کے کھلونے سے بہلانے کے لیے رومن کھیلیں منعقد کی جاتی تھیں، جن میں بگھیوں کی دوڑ کا مقابلہ سب سے بڑا تماشا ہوتا تھا۔ اس کے لیے دریاے نیل کے ساحلوں سے باریک ریت بحری جہازوں میں منگوائی جاتی اور اس بڑے اسٹیڈیم میں بچھائی جاتی۔ صرف یہی نہیں ، ہرسال تقریباً ۱۲۰۰ مجرموں کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈالا جاتا۔ ہاتھیوں، گینڈوں، بیلوں، چیتوں اور جنگلی سوروں کی لڑائیاں ہوتیں۔ ۲۰۰خوب صورت دوشیزائوں کو پاگل نوجوانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا۔ قیدیوں کو خوراک کھلا کر پالاجاتا، ورزش کروائی جاتی۔ پھر ان کو بھوکے شیروں سے لڑنے کو کہا جاتا۔ اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد بیٹھے یہ تماشا دیکھتے۔ جب تک جشن چلتا، لوگوں کو مفت کھانا ملتا۔ یہ چند دن ایسے گزرتے جیسے پورے روم میں کوئی دُکھ نہیں، بھوک ہے نہ غربت، ننگ ہے نہ افلاس۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اس زمانے کے دانش ور، قلم کار، شاعر اور ادیب ان کھیلوں کو روم کی ثقافت کا مظہر قرار دیتے، اسے ترقی کی بنیاد اور مذہبی جکڑبندیوں سے آزادی کا زینہ تصور کرتے تھے۔
لیکن ان رنگا رنگ تقریبات کے مدح خوانوں کے درمیان ایک فلاسفر سینیکا دی ینگر بھی تھا۔ وہ ان ثقافتی بے ہودہ تقریبات کا مخالف تھا۔ اسے اپنے اردگرد بھوک، ننگ، افلاس اور غربت نظر آتی تو چیخ اُٹھتا۔ وہ سمجھتا کہ یہ سب اس بھوکی ننگی قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ وہ ان تقریبات میں شرکت نہ کرتا بلکہ اپنے گھر میں بیٹھا ان دنوں میں روتا رہتا۔ اس کے بہت سے مداح پیدا ہوگئے، یہاں تک کہ روم کے وزیراعظم کے عہدے کے برابر فرد جسے ٹرابیون کہتے تھے، وہ بھی اس کے مداحوں میں شامل ہوگیا۔ بادشاہ کو فلسفی سینیکا کی مقبولیت کا علم ہوا تو اسے دربار میں طلب کرکے اس سے پوچھا گیا کہ: ’تم ان ثقافتی تقریبات کو کیا سمجھتے ہو؟‘ اس نے کہا: ’یہ ایک مذاق ہے، جو غربت میں پسی ہوئی قوم کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘۔ بادشاہ نیرو نے حکم دیا کہ: ’تمھاری سزا یہ ہے کہ تم بھرے دربار میں اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو قتل کرو۔ دربار کے سناٹے میں وزیراعظم نے اس کی سفارش کی، لیکن ثقافت کے اس ’دشمن‘ اور روم کی ’تہذیبی روایات کے مخالف‘ کی جان کیسے بخشی جاسکتی تھی۔ اور ۶۵عیسوی میں سینیکا نے بھرے دربار میں جبری خودکشی کرلی۔ لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہ رنگارنگ تقریبات روم کے بادشاہوں کو بدترین انجام سے نہ بچاسکیں۔ ان پر شمالی افریقہ کے تہذیب سے ناآشنا قبائل ایسے چڑھ دوڑے کہ بڑے بڑے ثقافتی مراکز کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور آج وہ عبرت کے نشان کے طور پر موجود ہیں۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا۔ کسی کو ،موئن جودڑو‘(مرجانے والوں کے ٹبے) میں میلے لگانے کا شوق ہے تو کوئی جشنِ بہاراں اور سپورٹس فیسٹیول مناتا ہے۔
انجام سے بے خبر لوگ کیا تہذیب سے ناآشنا قبائل کا انتظار کر رہے ہیں؟
پاکستان اسلام کے نام پر تخلیق ہوا تھا ، اس لیے یہاں صرف اسلام کے نام پر سیاست ہونی چاہیے تھی، لیکن یہاں فوج کے نام پر سیاست ہوئی، سیکولرزم کے نام پر سیاست ہوئی، سوشلزم کے نام پر سیاست ہوئی، صوبوں کے نام پر سیاست ہوئی، زبان کے نام پر سیاست ہوئی۔ یہاں تک کہ اس چیز کے نام پر سیاست ہوئی جسے عرفِ عام میں ’کلچر‘ کہا جاتا ہے اور جس کو سب سے زیادہ غیرسیاسی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کلچر کے نام پر سیاست کی پہلی اور سب سے بڑی مثال مشرقی پاکستان [بنگلہ دیش] ہے، جہاں بنگالی زبان کو کلچر کی سب سے بڑی علامت بناکر پیش کیا گیا۔ کہا گیا کہ بنگالیوں کو اپنی زبان سے بڑی محبت ہے، اس لیے کہ بنگالی رابندرا ناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام کی زبان ہے۔ اس سلسلے میں نسل پرست بنگالیوں کا تعصب اتنا بڑھا ہوا تھا کہ ۱۹۴۸ء میں جب قائداعظم نے کہا کہ:’پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اُردو ہوگی‘ تو بنگالیوں کے ایک چھوٹے سے طبقے نے ہی اس کے خلاف احتجاج کیا۔
انھوں نے اس سلسلے میں اس بات تک پر غور نہ کیا کہ قائداعظم کی اپنی مادری زبان گجراتی ہے، وہ خود نہ اُردو رسم الخط میں اُردو پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی ساری تعلیم و تربیت انگریزی کی فضا میں ہوئی ہے۔ قائداعظم اس تعلیم و تربیت کے باعث انگریزی سے اتنے مانوس تھے کہ وہ اپنی اہلیہ تک سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔ ان حقائق کے باوجود قائداعظم کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی۔ قائداعظم کی اُردو سے یہ محبت شخصی معاملہ نہیں تھی۔ قائداعظم کو تین حقائق کا اِدراک تھا: انھیں معلوم تھا کہ عربی اور فارسی کے بعد دین اسلام اور ادب کا سب سے بڑا سرمایہ اُردو کے پاس ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ اُردو برصغیر میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ انھیں اس امر کا پورا پورا احساس تھا کہ اُردو نے دو قومی نظریے کے بعد پاکستان کی تخلیق میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، مگربنگالیوں نے ان میں سے کسی بات کا اِدراک نہ کیا۔ وہ بنگالی بنگالی کرتے رہے اور ان کی زبان کی جائز محبت، زبان کی پوجا میں تبدیل ہوگئی۔ پھر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ آج بنگلہ دیش کی عملاً سرکاری زبان بنگالی نہیں انگریزی ہے اور بنگلہ دیش کے کروڑوں شہری بھارتی فلموں کے حوالے سے اُردو کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسی کلچرپرستی ہے جو بانیِ ملک کی بات نہیں سنتی مگر ’مجبوری‘ اور ’فلموں‘ کی بات سنتی ہے۔
پاکستان میں کلچر کی سیاست کی ایک مثال الطاف حسین ہیں، جن کی اصل شکایت معاشی تھی، مگر ان کی مفاد پرستی کی سیاست نے معاشی شکایت کو کلچر کی سیاست میں ڈھال دیا۔ اُردو پورے برعظیم کی زبان تھی، مگر الطاف حسین اسے صرف مہاجروں کی زبان بناکر کھڑے ہوگئے۔ کلچر کی سیاست نے انھیں کُرتا پاجامہ پہناکر کھڑا کردیا، مگر الطاف حسین کی اُردو پرستی بھی جھوٹی تھی اور ان کا کُرتا پاجامہ بھی محض ایک دھوکا تھا۔ الطاف حسین کا اصل مسئلہ ان کی اپنی شخصیت تھی۔ چنانچہ ان کی سیاست سے پہلے مہاجر سمندر کی علامت تھے، لیکن الطاف حسین کی سیاست نے انھیں کنویں کی علامت بنادیا۔ اس علامت سے بوری بندلاشوں اور بھتّا خوری کا کلچر برآمد ہوا۔ اس سے ’پُرتشدد تہذیب‘ نے جنم لیا۔ اس سے الطاف حسین کی نام نہاد ’جلاوطنی کے تمدن‘ نے سراُبھارا۔ اس سے ’ٹیلی فونک خطاب‘ کی ’موسیقی‘ پیدا ہوئی۔ اس سے دوسری ثقافتوں کی نفرت کے آرٹ نے جنم لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کلچر کی سیاست اسی کا نام ہے؟
پاکستان میں کلچر کی سیاست کی تازہ ترین علامت بلاول زرداری ہیں۔ انھوں نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو Banistan [پابندیوں کا گھر] قرار دیا اور فرمایا کہ یہاں شادی کے عشائیوں سے لے کر یوٹیوب تک ہرچیز پر پابندی یا Ban لگا ہوا ہے۔ لیکن بلاول بھٹو کی تقریر کی اصل بات Banistan کا تصور نہیں، ان کی تقریر کی اصل بات کلچر کی سیاست ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ٹیلی ویژن کے ایک میزبان نے آصف علی زرداری کے لباس کے ’نمایشی پہلو‘ پر اعتراض کیا تھا تو آصف علی زرداری کی ثقافتی رگ پھڑک اُٹھی تھی اور انھوں نے صوبہ سندھ میں سندھی ٹوپی کا دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ بلاول زرداری نے ۱۵دسمبر۲۰۱۳ء کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اعلان کیا کہ فروری ۲۰۱۴ء کے پہلے دو ہفتوں میں سندھ میں ’سندھ کلچرل فیسٹیول‘ منایا جائے گا۔ اس موقع پر بلاول نے سندھ کی ثقافت سے جس ’تعلق‘ کا مظاہرہ کیا، وہ ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکا ہے۔ بلاول جب سندھ کے کلچر سے وابستگی کا اعلان کررہے تھے تو پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ان کی شرٹ پر ’سپرمین‘ کی علامت بنی ہوئی تھی اور بلاول زرداری انگریزی میں تقریر کر رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچرکی علامت شلوارقمیص، ٹوپی اور اجرک ہے یا پینٹ شرٹ؟سندھ کے ہیرو شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست ہیں یا سپرمین؟ اور سندھ کی زبان سندھی ہے یا انگریزی؟ ہمیں بلاول کے پینٹ شرٹ پہننے، سپرمین کی علامت کو سینے سے لگانے اور انگریزی بولنے پر اعتراض نہیں، لیکن سندھی کلچر، سندھی کلچرکی رٹ لگانے والے کو کم از کم سندھ کے کلچر سے اتنی وابستگی کا مظاہرہ تو کرنا ہی چاہیے تھا کہ وہ سندھی کلچر کے حوالے سے برپا ہونے والی تقریب میں اپنی زبان اور لباس سے ’سندھی‘ نظر آتے۔ لیکن بلاول زرداری کا مسئلہ سندھی کلچر تھوڑی ہے۔ ان کا مسئلہ تو سندھی کلچر کے نام پر سیاست ہے۔
اس کا ایک ثبوت تقریب میں کی گئی بلاول زرداری کی تقریر ہے۔ انھوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہماری تاریخ یونانیوں اور رومیوں کی طرح باثروت ہے۔ ہم دریاے سندھ کی قابلِ فخر تہذیب کے امین ہیں۔ ہم اپنی ثقافت کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا چاہتے ہیں، تاکہ دنیا کے سامنے ہماری اصل شناخت واضح ہو، نہ کہ تاریخ کی وہ درآمد شدہ اور خیالی داستان جو ہمیں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے‘‘۔
غور کیا جائے تو بلاول زرداری نے اپنی تقریر میں سندھ کے اسلامی ثقافتی ورثے اور تحریکِ پاکستان سے متعلق اس کے کردار کی دھجیاں اُڑا کر اسے دریاے سندھ میں بہا دیا ہے۔ سندھ کی ثقافتی تاریخ کے چار حصے ہیں: سندھ موئن جودڑو کی تہذیب کا مرکز ہے۔ سندھ راجا داہر کی سرزمین رہا ہے، لیکن سندھ باب الاسلام ہے اور سندھ تحریکِ پاکستان کا ایک اہم مرکز ہے۔ اِس وقت سندھ کے اسکولوں میں باب الاسلام اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ پڑھائی جارہی ہے، تو کیا بلاول کے نزدیک یہی تاریخ درآمد شدہ Fiction یا خیالی ہے؟ اگر ایسا ہے تو بلاول کھل کر اعلان کریں کہ وہ موئن جودڑو اور راجا داہر کی تہذیب کے امین ہیں، باب الاسلام اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ کے امین نہیں ہیں۔
خالص ثقافتی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو بلاول کا بیان ہولناک ہے۔ کلچر ایک کُل یا whole ہے، اور جب کوئی کسی خطے کے کلچر کو ’اپنا‘ کہتا ہے، تو وہ اس کے کُل کو اپنا کہتا ہے۔ اس اعتبار سے بلاول کو کہنا چاہیے تھا کہ ہم ایک جانب موئن جودڑو کی تہذیب کے امین ہیں اور دوسری جانب باب الاسلام کی تاریخ کے امین ہیں اور تیسری جانب ہم تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے ثقافتی تجربے کے امین ہیں۔ مگر کلچر پر گفتگو کرتے ہوئے انھیں صرف موئن جودڑو یاد آیا اور وہ باب الاسلام اور قیامِ پاٍکستان کے بعد کی ثقافت کو بھول گئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہی ان کی ’ثقافتی ایمان داری‘ ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ موئن جودڑو کی جو تہذیب سندھ کا مُردہ ماضی ہے، وہ تو بلاول زرداری کا ثقافتی ورثہ ہے،اور باب الاسلام کی جو تاریخ سندھ کا زندہ حال ہے، وہ بلاول بھٹو کی تقریر میں جگہ پانے میں ناکام ہے، بلکہ وہ اسے ’خیالی تاریخ‘ کہہ کر پکار رہے ہیں۔ بلاول نے سندھ کلچرل میلے میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانے کا بھی اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچر میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟ وہ اہلِ سندھ کو یہ بھی بتا دیتے تو اچھا ہوتا۔
سندھ میں کلچرازم کے نعرے پر بیناشاہ نے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تبصرہ کرتے ہوئے کلچر پرستوں کو بجاطور پر یاد دلا دیا ہے کہ سندھی ثقافت کی علامتیں مثلاً ٹوپی اور اجرک ترسیل کا ذریعہ ہیں، بجاے خود معنی نہیں۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ کلچر معنی سے زندہ رہتا ہے، معنی کی ترسیل کے آلے سے نہیں۔ مثال کے طور پر سندھی ٹوپی میں ماتھے کی جگہ پر موجود نشان دراصل مسجد کی محراب سے آیا ہے، اور مسجد کی محراب حرب سے ماخوذ ہے۔ یعنی سندھی ٹوپی کی محراب دراصل اسلام کے تصورِ جہاد کی علامت ہے۔ مگر یہ بات بلاول کیا بڑے بڑے سندھی قوم پرستوں کو معلوم نہیں۔ اُن کے لیے تو سندھ کی ثقافت، سیاست کا آلہ ہے اور بس۔ لیکن کلچر کی سیاست اِس وقت صرف سندھ تک محدود نہیں۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے حال ہی میں بھارتی پنجاب کا دورہ فرمایا ہے۔ اس دورے میں انھوں نے اعلان کیا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے درمیان زبان، کھانے پینے کے معاملات مشترک ہیں۔ حیرت ہے کہ میاں شہباز شریف کو دونوں ثقافتوں کی ’بنیادی چیزوں کے امتیازات‘ تو یاد نہیں، البتہ ’ثانوی چیزوں کی مماثلتیں‘ انھیں خوب نظر آرہی ہیں۔ میاں شہباز شریف اس دورے میں سکھوں کے ساتھ کتنے گھل مل گئے تھے، اس کا اندازہ اخبار میں شائع شدہ ہونے والی اس تصویر سے ہوتا ہے جس میں وہ دو سکھ بزرگوں کے درمیان موجود ہیں۔ اس تصویر کے لیے کیپشن وضع کیا جائے تو وہ اس فقرے کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا: ’اس تصویر میں شہباز شریف کون ہے؟‘
ایسی ہی ایک تصویر بلاول کے حوالے سے بھی شائع ہوئی ہے۔ اس تصویر کے لیے مناسب ترین کیپشن یہ ہے: ’اس تصویر میں سندھی کلچر کہاں ہے؟‘
’کہہ مُکرنی‘ کے معنی ہیں: ایک ہی سانس میں ایک بات کہنا اور پھر اس سے مُکر جانا۔ شاعری میں کہہ مُکرنیوں کے خالق اور خاتم امیرخسرو گزرے ہیں، لیکن سیاست میں کہہ مُکرنی ہمارے سیاست دانوں کے کردار کی شکل میں مجسم نظر آتی ہے، جس کا مظاہرہ یوں تو اہلِ وطن تشکیل پاکستان سے لے کر آج تک دیکھتے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، لیکن تازہ واردِ بساط سیاست عزیزمن بلاول زرداری نے جو مظاہرہ کیا ہے، وہ اپنی جگہ فقیدالمثال ہے۔ میری مراد عزیزم کے اُس اعلان سے ہے، جو انھوں نے تحفظ ِ ثقافت سندھ مہم کی تمہیدی تشہیر کے سلسلے میں کیا تھا، جو یہ تھا کہ: حیا ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور ہم اپنے اس پروگرام میں، اپنے اس قیمتی ورثے کے تحفظ کی مہم چلائیں گے‘۔ اس قیمتی ثقافتی ورثے یعنی حیا کی پاس داری کے عزم کا اظہار بھی عزیزم نے شایانِ شان طریقے پر اس انداز سے کیا تھا کہ عزیزم، قائداعظم کے سپید سنگِ مرمر کے مقبرے کے پس منظر میں سفید براق شلوارقمیص اور اس کے کنٹراسٹ میں سیاہ واسکٹ میں ملبوس تھے۔ زبانِ حال سے مزار قائد سے فرمایش تھی کہ: ’گواہ رہنا، گواہ رہنا‘۔
بادی النظر میں عزیزم کا یہ پُرعزم اعلان خوش آیند و مسرت افزا تھا کہ وہ اس اعلیٰ اخلاقی قدر کے پالن کا اعلان کر رہے ہیں، جسے یوں تو ایک فطری داعیے کے طور پر ہرقوم اور تہذیب نے اپنایا ہے، لیکن نبی کریم صیل اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کے مطابق ایمان کا ایک شعبہ ہے جس کے بغیر کسی کلمہ گو کا ایمان ہی نامعتبر رہتا ہے۔ نیز آپؐ نے نفسِ انسانی کو رہوار کی لگام قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’جب تو حیا سے بیگانہ ہوجائے تو جو چاہے کرتا پھر‘‘… یعنی جب یہ لگام ٹوٹ جائے تو ایمان و اخلاق کی ہرقدر کو پامال کرتا ہوا گناہ و نافرمانی کے جس عمیق گڑھے میں لڑھکتا ہوا گرنا چاہے گر جا، کوئی رکاوٹ مانع نہ ہوگی۔ اس فکری پس منظر میں عزیزم کے اس اعلان اور طرزِاعلان کو دیکھ اور سن کر حیرت انگیز خوشی ہوئی، لیکن چھٹی حِس صبااکبرآبادی مرحوم کا یہ شعر گنگناتی ہوئی محسوس ہوئی ؎
آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم
چھٹی حس کی تائید حافظے نے کی کہ برخوردار کے والد مکرم جب پیپلزپارٹی کے دورِاقتدار ثانی میں کچھ دن لندن یاترا سے واپس آئے تو لوگ یہ قطعہ پڑھتے سنائی دیے تھے کہ:
رقیبوں کو یہ خوش فہمی ہوئی تھی
کہ اگلا سامنے سے ٹل گیا ہے
میں اپنی آنکھ بنوانے گیا تھا
مرے دیدے کا پانی ڈھل گیا ہے
اور پھر ایک موقع پر جب عہدشکنی کا الزام لگا تو مذکورہ مرض کی توثیق اس دنداں شکن و دنداں نما فقرے سے کی تھی: ’’معاہدہ ہی تو تھا، کوئی قرآن و حدیث تو نہیں تھا‘‘۔ حالانکہ قرآن ہی میں ہے: ’’عہدوپیماں کے ایفا کے بارے میں لازماً بازپُرس ہوگی‘‘۔ دو روز بعد صاحبزادے کے اعلانِ تحفظ حیا کی حقیقت طشت ازبام ہوگئی۔
ہوا کی لہروں کے توسط سے ٹی وی چینل کی اسکرین پر مہم کی مہورت کی جھلکیوں میں شائقین نے وہ حیاپرور نظارہ دیکھا جس کے بارے میں نمایندے کا آنکھوں دیکھا حال ان الفاظ میں گوش گزار ہوا کہ ’’پھر اسٹیج پر مغربی طرز کے رقص نے سماں باندھ دیا‘‘۔ یہ تھا سندھی ثقافت کے قیمتی ورثے حیا کا پالن۔شاعر نے کہا تھا ؎
تھی حیا مانع فقط بندِ قبا کھلنے تک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ، ایسا کھلا
جھلکیوں میں مصرع ثانی گویا متشکل ہوکر سامنے تھا۔ کہاں حیا کے قیمتی ورثے کے تحفظ کا اعلان و ادعا، اور کہاں یہ حیاسوز منظر۔ ہم اعلان و اظہار کے اس کھلے تضاد ہی کو ایک اخلاق باختہ کہہ مُکرنی کا شاہکار سمجھ رہے تھے کہ سندھ کلچرل فیسٹیول کی تقریبات کا نصف اخباری صفحے کا اشتہار نظر سے گزرا، جس کا عنوان ہے: ’’تیرے عشق نچایا کرکے تھیا تھیا‘‘۔ ۸فروری کی تقریب میں معروف فن کاروں کے نام کے ساتھ، مقبول حیا پرور گروپ ’بے غیرت بریگیڈ‘ کا نام بطور خاص شامل تھا۔ اس اشتہار میں کمی تھی تو بس موئن جودڑو سے نکلنے والے دیوداسی رقاصہ کے مجسمے کی تصویر کی، جس کو اشتہاری مونوگرام ہونا چاہیے تھا۔
موئن جودڑو کے مقام پر عظیم الشان اسٹیج اور شائقین و شائقات کی محفل جمی دیکھ کر یاد آیا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ کے ہمراہ ایک ایسی ہی عذابِ الٰہی کا نشانہ بننے والی بستی سے گزر رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا تھا: ’’ا س نزولِ عذابِ الٰہی کے مقام سے تیزی سے گزرو‘‘ (کہ تم پر بھی اس عذاب کا سایہ نہ پڑجائے)۔ عزیزم نے موئن جودڑو کے ساتھ جس موردِ عذاب بستی ہڑپہ کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا بیڑا اُٹھایا ہے، اس کے بارے میں ہمارے کرم فرما انور مسعود نے کہا ہے ؎
عبرت کی اِک چھٹانک میسر نہ ہوسکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے
اب عزیزم حیاپروری کے نام پر اس عبرت آموز کلچر کے ’احیا‘ کا الف مخفی رکھ کر اسے ’تحفظ ِحیا‘ مہم کا نام دے رہے ہیں اور ہم قوم کی نوجوان نسل تک علامہ محمد اقبال کی یہ نصیحت پہنچانا چاہتے ہیں ؎
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
[یہ تحریر اب سے ۴۷برس پہلے اپریل ۱۹۶۸ء میں ماہ نامہ چراغ راہ، کراچی میںشائع ہوئی تھی۔ جن دوبزرگوں کے حوالے مضمون میں شامل ہیں ، وہ دونوں اردو کے مشہور ادیب تھے۔ یہاں مقصد افراد کو زیر بحث لانا نہیںبلکہ زیر مطالعہ موضوع پر تبصرہ ہے۔ مرتب]
ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کا کہنا یہ ہے کہـ:’ پاکستانی ثقافت کا بہت گہرا تعلق اس کی دھرتی سے ہے اور اس کا کچا مواد وہی ہے، جو آج سے تقریباً پانچ چھے ہزار برس قبل وادیِ سندھ کی تہذیب میں تھا۔‘ اُن کی نگاہ میں:’ آج کی پاکستانی تہذیب بھی وہی ہے جو ہڑپہ، موئن جو داڑو اور ٹیکسلا کی تہذیب تھی‘۔ اُن کے خیال میں :’وادیِ سندھ کی تہذیب کے مظاہر آج کی پاکستانی تہذیب میں نہ صرف یہ کہ موجود ہیں، بلکہ بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔‘ سوال یہ ہے کہ وہ مشترک مظاہر کون سے ہیں؟ ا ٓغا صاحب کا ایک طویل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’…مثلاً موئن جو داڑو کی تختیوں پر جس بیل گاڑی کی تصویر کندہ ہے، وہ نہایت معمولی تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی سندھ اور پنجاب کی سڑکوں پر چل رہی ہے۔ پھر ان تختیوں پر جس باریش آدمی کی شبیہ نظر آتی ہے، وہ آج بھی ہمارے کھیتوں میںہل چلاتا اورالغوزہ یا بانسری بجاتا مل جاتا ہے… اس تہذیب کے شہروں میںگلیوں کا نظام بھی آج کے بیش تر پرانی وضع کے دیہات اور شہروں میں رائج ہے۔ گندم، جو وغیرہ کو اُگانے اور اُسے محفوظ کرنے کے طریقے بھی وہی ہیں۔ یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے اور اپنے ہل کو دو بیلوں کی مدد سے چلاتے تھے۔ اس ہل میںکوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ بیلوں کی تعداد میںہی کمی بیشی ہوئی ہے۔ یہی حال اس لباس کا ہے جس میں تہہ بند(تہمد)، موئن جودڑو اور ہڑپہ کے زمانے میں بھی بڑی اہمیت حاصل تھی، اور جو آج کے پاکستانی معاشرے میں بھی سب سے زیادہ مروج ہے … تہ بند ایک ٹھیرے ہوئے زرعی معاشرے کی تخلیق ہے، جہاں حرکت فطرت کہ آہستہ روی سے ہم آہنگ ہے۔ چونکہ پاکستانی کلچر مزاجاً زرعی ہے اس لیے ہمارے ہاں تہ بند ہی اصل لباس ہے اور یہی لباس موئن جودڑو اور ہڑپہ کے زمانے میں بھی رائج تھا… وادیِ سندھ کے لوگ زراعت پیشہ تھے، گندم اور کپاس اگاتے تھے، نہاتے اور الغوزے بجاتے تھے۔ ان کے بچے انھی کھلونوں سے کھیلتے تھے، جن سے ہمارے آج کے دیہاتی بچے کھیل رہے ہیں۔ ان کے ہاں مٹی کے برتن بنانے اور انھیں استعمال کرنے کا رجحان مسلط تھا، جو آج کے پاکستانی دیہات اور شہروں میں بھی موجود ہے… گایوں، بھینسوں سے ان کی وابستگی نہایت مضبوط تھی۔ یہ ان کے معاشرے میں بڑی اہمیت رکھتی تھیں… فی الحقیقت ہمارے کلچر کے اجزائے ترکیبی میں بھینس کا عنصر بڑی اہمیت رکھتا ہے، اور اس نے ہمارے عام مزاج پر اثرات مرتسم کیے ہیں۔ کسی معاشرے کے کلچر کا جائزہ لینے کے لیے یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کہ یہ کس جانور سے وابستہ ہے … بھینس سے وابستگی غنودگی، ٹھیرائو اور جسم کی سطح پر زندہ رہنے کے عمل کو مضبوط بناتی ہے… یہی وہ بھینس ہے جو غلیظ جوہڑ کو سامنے پاکر بڑے وقار سے اس میں داخل ہوجاتی اور غلاظت میں لت پت ہو کر گھنٹوں بیٹھی اور اونگھتی رہتی ہے۔ وادیِ سندھ کی تہذیب اسی بھینس سے وابستہ تھی اور یہی روایات آج کے معاشرے تک بڑھتی چلی آتی ہے‘‘۔[تنقید اور احتساب، ۱۹۶۷ء]
بہتر یہ ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے ہم اُن اشیا کی ایک فہرست مرتب کر لیں جو آغاصاحب کے نزدیک وادیِ سندھ کے قدیم معاشرے اور آج کے پاکستانی معاشرے میں مشترک ہیں۔ یہ اشیا ہیں: بیل گاڑی، باریش آدمی، گلیاں، گندم، جو، کپاس، دو بیل (احمدشاہ پطرس بخاری والے ’دوبیل‘ نہیں) تہ بند، الغوزہ، مٹی کے برتن، گائے اور پھر سب سے بڑھ کر بھینس۔
کم و بیش اس طرح کی بات احمد ندیم قاسمی صاحب نے بھی لکھی تھی۔ موئن جودڑو کے عجائب گھر میں انھیں بیل گاڑی کا نمونہ نظر آیا، اور پھر وہی بیل گاڑی پنجاب کے دیہات کی کچی پکی سڑکوں پر رینگتی نظر آئی، تو انھوں نے بھی اس سے یہی نتیجہ نکالا تھا کہ :’موئن جو دڑو کا کلچر اور ہمارا کلچر ایک ہی ہے اور ابھی تک ہمارا رشتہ موئن جودڑوسے قائم ودائم ہے۔‘ اس طرح کسی صاحب کو ٹیکسلا میوزیم میں پانی پینے کے پیالے، گھڑے اور لوٹے آج کے پاکستانی دیہات میں بھی نظر آئے تو انھوں نے ٹیکسلا کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے اپنے آپ کو منسلک کرنے کے لیے اسے کافی وجہ جواز سمجھ لیا۔
آغا صاحب نے اور پھر قاسمی صاحب نے مشترک اشیا کی جو فہرست پیش کی ہے، اُسے تو ہم قبول کرلیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیل گاڑیوں، الغوزوں، پیالوں، گھڑوں، لوٹوں اور پھر بقول آغا صاحب: دونوں تہذیبوں میں بھینس کی مرکزی اہمیت کا اشتراک کوئی معنوی اور باطنی ربط بھی رکھتا ہے یانہیں؟ ثقافتی روایات کی ترسیل لوٹوں، بیل گاڑیوں اور بھینسوں کی سطح پر نہیں، فکری اور باطنی سطح پر ہوتی ہے۔ یہی ہے وہ سوال جسے آغا صاحب بھی زیر بحث نہیں لاتے اور نہ قاسمی صاحب اس پر توجہ دیتے ہیں۔
سیدھی سادی بات یہ ہے کہ بیل گاڑی ، گھڑے، پیالے، بھینس کایہ اشتراک اس وقت تک معتبر نہیں ہوگا، جب تک کہ ان کے بنانے اور استعمال کرنے والوں اور ہمارے درمیان فکری سطح پر کوئی باطنی اور معنوی ربط قائم نہیں ہو جاتا۔ اگر یہ ربط موجود نہیں ہے تو یہ اشتراک محض ایک زرعی معاشرے کی مادی اور معاشی ضروریات کا، دوسرے زرعی معاشرے کی مادی اور معاشی ضروریات کا اشتراک ہے، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں، اور یہ اشتراک یورپ، مشرق بعید اور مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کے کسی بھی دور میں پائے جانے والے زرعی معاشرے سے بھی ہو سکتا ہے،اس باب میں وادیِ سندھ کے قید بے معنی ہے۔ کیا امر واقعہ نہیں ہے کہ یہی گائے، بیل، گھڑے اور لوٹے معمولی سی تبدیلی کے ساتھ آپ کو مشینی دور سے قبل کے سویڈن، ناروے اور ڈنمارک کے زرعی معاشروں میں بھی مل سکتے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ معاشی ترقی کے ایک مخصوص دور کی سطح پر انسان کی روز مرہ کی مادی ضروریات اور ان متعلقات کا اشتراک ثقافتی اور تہذیبی اتحاد کے لیے اُس وقت تک وجہ جواز نہیں بن سکتا، جب تک کہ آپ کے افکار و معتقدات میں بھی کوئی گہرا تعلق نہ پایا جائے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھ لیجیے کہ ٹیکسلا میں، جس کے پیالے، گھڑے اور لوٹے آپ کو اس قدیم تہذیب سے آپ کا رشتہ جوڑتے نظر آتے ہیں،وہیں پر ۳۰۰ برس قبل مسیح چانکیہ بھی پیدا ہوا تھا۔ جس نے سیاسیات پر ارتھ شاستر جیسی شہرۂ آفاق کتاب تصنیف کی۔ اس کتاب میں اس دور کی نمایندہ سیاسی فکر کا اظہار ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ اپنے ملک پاکستان کی جغرافیائی حدود میں پیدا ہونے والے اس عظیم سیاسی مفکر کی سیاسی فکر کو اپنی قومی سیاست کا رہبر و ہادی بنانے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں؟ یا پاکستان کی موجودہ جغرافیائی حدود سے باہر پیدا ہونے والے شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء]کی سیاسی فکر ہی آپ کی توجہ اور دل چسپی کا باعث ہوگی؟
دوسرے لفظوں میں پاکستانی عوام نے ’قرار دادمقاصد‘ میں نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ سیاسی کلچر کی روح کو اپنایا ہے، یا چانکیہ کی ارتھ شاستر کو ؟اسی طرح آپ کہتے ہیں کہ موئن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیب مادی تہذیب تھی اور ا س میں ’دھرتی‘ کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ آپ اس تہذیب سے الغوزہ، بیل گاڑی اور بھینس برآمد کرکے، اس کا رشتہ موجودہ پاکستانی تہذیب سے ملاتے ہیں۔ تاہم، یہیں بالکل جائز سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وادیِ سندھ کے لوگوں کے افکار ومعتقدات کو آپ سامنے کیوں نہیں لاتے؟ ابھی تک ان کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے، اُس کے مطابق یہ لوگ مشرک تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے اور مرد اور عورت کے مخصوص اعضا کی پرستش کرتے تھے۔ کیا بیل گاڑیوں، اور الغوزوں اور بھینسوں کے علاوہ آپ اس سطح پر بھی ان سے اپنے آپ کو مربوط و متعلق سمجھتے ہیں؟
دیکھیے جناب! ادھورا دعویٰ نہ عدالت میں معتبر ہوتا ہے اور نہ فکر میں۔ ٹیکسلا، موئن جودڑو اور ہڑپہ سے اخذو اکتساب کا دعویٰ محض لوٹوں، بیل گاڑیوں اور بھینسوں تک محدود نہ رکھیے، بلکہ اس دعویٰ میں چانکیہ کی ارتھ شاستر ، اورمخصوص اعضاکی پرستش کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ کیا اس کے لیے آپ تیار ہیں؟
اس مسئلے پر ایک اور پہلو سے بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ آغاصاحب نے اپنے کسی مضمون میں کلچر کو ایک پیڑ سے تشبیہ دی تھی… گویا کلچر نامیاتی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، الم غلم عناصر کا مرکب نہیں ہوتا اور ایک نامیاتی اکائی کی حیثیت سے اس کی ہیئت تجزیاتی ہے، نہ کہ ترکیبی۔ جس طرح ایک پیڑ کے مختلف حصے یعنی جڑیں، تنا، شاخیں، پتے وغیرہ، وغیرہ ایک نامیاتی کُل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک حصہ بھی دوسرے حصوں سے الگ نہیںکیا جاسکتا، بالکل اسی طرح کلچر بھی ایک نامیاتی کل ہے، جس کے کسی ایک جزو کو باقی اجزا سے الگ کرکے نہ تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اسے کسی دوسرے کلچر سے ملایا جا سکتا ہے۔ تجزیاتی نفسیات کے بانی کارل یونگ [م:۱۹۶۱ء] کے ’اجتماعی لاشعور‘ میںلاکھ لچک سہی، لیکن اتنی بھی نہیں کہ آپ مادی ضروریات سے متعلق چند روزمرہ کے استعمال کی اشیا کو طوطم کی [یعنی تصورات] کی شکل دے کر انھیں چھے ہزار سال کی زندگی بخش دیں، لیکن جوں ہی قدیم تہذیب کی بنیاد اور اس کے فکری معتقدات کا ذکر آئے تو اس سے صاف پہلو بچاکر نکل جائیں۔ کلچر اگر ایک پیڑ اور نامیاتی کل ہے تو آپ کو اسے جڑوں، تنے، شاخوں اور پتوں سمیت قبول کرنا ہوگا، صرف جڑوں، یا تنے یا شاخوں یا پتوں کو نہیں!
آغاصاحب کے اقتباس کو ایک بار پھر غور سے پڑھیے۔ موصوف نے اس میں وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب اور جدید پاکستانی معاشرے میں جو مشترک اشیا گنوائی ہیں، واقعہ یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے محض تاریخی نوادرات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ہمارے زندہ شعور کا جزو نہیں ہے۔ چونکہ ہمارے زندہ شعور کا جزو نہیں ہے، اس لیے یہ ہم سے کچھ کہتی نہیں، اس کے پاس ہمارے لیے کوئی حیات افروز پیغام نہیں ہے۔ برعکس اس کے، ترکی یا ایران کی سرزمین میں کھدائی سے برآمد ہونے والا وہ پیالہ کہ جس پر قرآن پاک کی کوئی آیت کندہ ہے، ہمارے زندہ شعور کا جزو ہے اور اس ٹکڑے پرہمارے لیے ایک پیغام بھی ہے۔ ایک ایسا پیغام جو مختلف ادوار یا مختلف جغرافیائی معاشروں کو باہم مربوط کرتا ہے۔ شمیم احمد نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ:’جو چیز مجھے خواب میں دکھائی نہیں دیتی، وہ نہ تو میرے زندہ شعور کا جزو ہے اور نہ اجتماعی لاشعور کا حصہ، کیا آغا صاحب نے کبھی وادیِ سندھ کے لوٹوں، پیالوں یا الغوزوں کو خواب میں دیکھا ہے؟
زمین سے آغا صاحب کی محبت تو میری سمجھ میں ایک اور وجہ سے بھی آتی ہے۔ موصوف زمین دار ہیں، اور زمین دار کو اپنی زمین اور زمین کی کاشت سے متعلقہ اشیا سے جس قدر محبت ہوتی ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ لیکن یہ خالص جاگیر دارانہ طرزاحساس ہے اور جاگیر دارانہ طرز احساس کے تحت، ایک مٹتے ہوئے جاگیردارانہ معاشرے کے ذوق کو نئے دور کے تقاضوں سے کارل یونگ کے ’اجتماعی لاشعور‘ اور انتھراپالوجی (علم الانسان)کے نام پر مطابقت دینے کی کوشش بہرحال قابل تعریف نہیں ہے۔پرانے دور کے جاگیرداروں میں ایک بات تو قابل تعریف ضرور تھی اور وہ یہ، کہ وہ صرف اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے تھے یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہ بٹیر لڑا لیا کرتے تھے۔ اس کے برعکس جدید دور کا بڑا زمین دار، زمین کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ اپنے ذاتی ذوق کو عقلی استدلال عطا کرنے کے لیے ادب اور تنقید سے بھی رشتہ رکھتا ہے۔
اردو شاعری کا مزاج آغا صاحب کے نزدیک ’مادری‘ ہے، اور اس میں یہاں کی زمین کی بوباس ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری اردو شاعری میں صرف ایک صنف ایسی ہے، جس پر سے یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں بھارت کی دھرتی کی بوباس ملتی ہے اور اس میں جو فضا پیش کی جاتی ہے وہ خالصتاً مقامی ہے۔ یہ صنف ہے گیت، یعنی یہ گیت ہی وہ واحد صنف ہے جو عربی اور ایرانی شاعری کی روایت سے الگ اور ہندی اور سنسکرت شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے اور جس میں ہندو دیومالا سے اکتساب کیا گیا ہے۔ لیکن جو بات آغا صاحب بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اردو شاعری کی معراج اس کے گیتوں میں نہیں، جو ہندو دیومالا کا اکتساب کرتے ہیں، بلکہ اس کی معراج اس کی غزلیں ہیں جو عربی اور ایرانی روایت کی آئینہ دار ہیں۔ اس سے تو آغاصاحب بھی انکار نہیںکر سکتے کہ اردو شاعری کے بلندپایہ شعرا میں میر، سودا، درد، مصحفی، جرأت، انشا، ذوق، مومن، غالب، داغ، حسرت، غزل کے شاعر ہیں، اور دکنی دور کے گیتوں سے لے کر جدید ترین دور کے گیتوں تک، کوئی شاعر محض گیتوںکے بل پر عظیم نہیں بن سکا۔ اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بڑے شاعروں نے اس صنف کو قبول کیا اور غزل کو سینے سے لگایا، جو گنگا و جمنا کے بجائے دجلہ و فرات، او ربھینس کے بجاے بلبلوں کا ذکر کرتی تھی۔ اور یہ اس لیے کہ ان کے خوابوں میں گنگا و جمنا اور بھینسیں نہیں، بلکہ دجلہ و فرات اور بلبل ہی نظر آتے تھے۔
پاکستانی تہذیب میں ’دراوڑیت‘[یعنی ۳۰۰۰سال قبل مسیح آریا لوگوں کی آمد سے بھی پہلے یہاں ہندستان میں آباد دراوڑ نسل] کا پیوند لگانے والوں کے لیے سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور اس کا جواب دیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے، کہ ہندی مسلمان [جو یقینا اِن نظریہ سازوں کے آبا و اجداد تھے]برصغیر میں اپنے آٹھ نو سو سالہ قیام کے باوجود، ذہنی طور پر عرب و عجم ہی سے تحریک کیوں حاصل کرتے رہے؟ آغا صاحب تو خیر اسلامی تہذیبی روایت کے بنیادی مظاہر کو نظرانداز کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اوراردو شاعری میں ثنویت، تثلیث، اربعیت سب کچھ انھیں نظر آتا ہے اور نہیں نظر آتی تو ایک بے چاری توحید ہی نظر نہیں آتی، لیکن ایک ذہین، بنگالی ہندو، نراد چندرو چودھری [۱۸۹۷ء-۱۹۹۹ء] نے ۱۹۶۵ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Continent of Circe میںلکھا ہے کہ: ہر دورمیں ہندی مسلمانوں کی نگاہیں اسلامی مشرق وسطیٰ پر ہی مرکوز رہیں اور انھوں نے کبھی بھی نظر بھر کر اپنی زمین کو نہ دیکھا۔ نراد نے لکھا ہے:
مجھے آج تک اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار جب میں نے اپنے ضلع (میمن سنگھ) کے ایک مسلمان سے (جو ہندو سے مسلمان ہوا تھا) پوچھا کہ تمھاری نظر میں سب سے اچھا اور پسندیدہ پھل کون سا ہے تو اُس نے بے اختیار جواب دیا: ’’عراق کی کھجوریں‘‘… یقینا میرے لیے (ہندی) آموں کی یہ سوچی سمجھی توہین ناقابلِ برداشت تھی‘‘۔
اصل چیز یہ ہے کہ برصغیر کے مقامی لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو انھوں نے اس کے ساتھ ہی اپنے مشرکانہ ماضی سے قطع تعلق کرلیا اور اپنے آپ کو اس روایت سے منسلک کر لیا جو توحید کی روایت تھی اور جس کا سرچشمہ عرب سرزمین تھی۔
دن میں ایک بار غسل اورپانچ بار وضو کرنے والی اس قوم کی تہذیب کو جسے ’طہارت نصف ایمان‘ کا درس دیا گیا ہے، ’’جوہڑ میںبڑے شوق و ذوق کے ساتھ کیچڑ میں لت پت بیٹھی رہنے والی بھینس سے‘‘ تہذیبی تعلق وابستہ کرنے والے آغا صاحب سے ایک اور سوال بھی کرنے کو جی چاہتا ہے، اور وہ یہ کہ :’کیا ادب، فن اور زندگی کے دوسرے عوامل سے قطع نظر کوئی عمل ہے؟ دھرتی کی جو بوباس آپ کو اردو شاعری کے مزاج میںرچی بسی نظر آتی ہے، وہ ہندی مسلمانوں کی سیاست، ان کی معیشت، ان کی معاشرت اور سب سے بڑھ کر ان کے مذہب میں بھی نظر آنی چاہیے۔ نہ زندگی کو ٹکڑوں اور خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور نہ زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں مختلف نظریات اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
ادب اور کلچر میں دھرتی کی حرمت کے قائل خواتین و حضرات کو آگے بڑھ کر یہ بھی بتانا ہوگا کہ سیاست میں اُن کا نظریہ کیا ہے؟ یہ سوال اٹھانے کا مطلب بہت صاف اور سیدھا یہ ہے کہ ادب اور ثقافت میں دھرتی کی حرمت کے قائل افراد سیاست میں قرار داد پاکستان کے نہیں، اکھنڈ بھارت ہی کے قائل ہو سکتے ہیں۔ ادب میں دھرتی پوجا اصولی طور سیاست میں بھی دھرتی پوجا ہی رہے گی، ’قرار دادِ مقاصد‘ نہیں بن جائے گی!
آپ نے دیکھا کہ زمانہ قبل تاریخ کے آثار کی محبت میں جو سفر پاکستانی تہذیب دریافت کرنے کے لیے اختیار کیا جا رہا تھا، اس کی منزل ’’اکھنڈ بھارت‘‘ نکلی۔ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ وطنی قومیت کا یہ رجحان خطر ناک ہے۔ خطرے کا ایک پہلو تو آپ نے دیکھ لیا۔ اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، اور وہ یہ کہ لوگ نکلتے تو پاکستانی کلچر کی تلاش میں ہیں، لیکن اپنی محدود فکر کی بنا پر آخر جس چیز کو پاتے ہیں، وہ صرف مغربی پاکستان یا اس سے بھی محدود تر پنجاب کا کلچر ہے۔ بات پورے ہندستان سے شروع ہوتی ہے اور ختم کہاںہوتی ہے؟ ذرا دیکھیے:’’حقیقت یہ ہے کہ ہماری زبان اور ہمارے ادب کا خمیر اسی دھرتی سے اٹھا ہے، جسے پہلے ہندستان اور اب برصغیر پاک و ہند کہتے ہیں۔ اس صداقت کا ایک نہایت واضح ثبوت یہ ہے کہ اردو زبان جتنی بھی پنجابی سے قریب ہے اور کسی سے نہیں‘‘۔
اب اس دعوے کا ثبوت بھی ملاحظہ ہو: ’’اگر کسی پنجابی کے سامنے اردو میںبات کی جائے تو وہ فوراً سمجھ لیتا ہے، چاہے بول نہ سکے، مگر کوئی عرب یا ایرانی اردو زبان جانے بغیر اردو کے کسی ایک فقرے کا مطلب بھی سمجھ نہیں سکتا۔ یہ روزہ مرہ کی ایک بدیہی حقیقت ہے، اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اردو زبان کو نہ فارسی کہا جا سکتا ہے، نہ عربی، نہ دونوں کا مرکب، بلکہ اس کا اپنا علیحدہ وجود ہے۔جو اس دھرتی کی پیداوار ہے‘‘۔
پاکستانی تہذیب کی بحث سے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے دیکھنا اورپیش کرنا ان دانش وروں کی مجبوری ہے۔ پاکستانی تہذیب کی بنیاد ہڑپہ، موئن جودڑو اور ٹیکسلا پر ہوگی تو لازماً مشرقی پاکستان کو ایک الگ ثقافتی یونٹ قرار دینا ہوگا۔ دراصل فکر کی جس پگڈنڈی پر یہ حضرات گرامی اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں، اس کی آخری منزل یہی ہے۔ آغا صاحب اپنے رسالے ’اُردو زبان‘ کے اداریے میں رقم طراز ہیں:’’نہ صرف یہ کہ پاک وہند میںاسلام کا ورود یہاں کے باشندوںکی زندگی کو اور خاص کر اس زندگی کے ثقافتی پہلو کو کسی نئے سانچے میں نہیںڈھال سکا، بلکہ مسلمانوں او رانگریزوں کے عہد حکومت کے باوجود یہاں کے مختلف خطوں کی عوامی زندگی کے باہمی اختلافات بدستور قائم و دائم ہیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان ایک ہی ملک ہے، مگر دونوں خطوں کے باشندوں میں زبان و ادب اور کلچر کا اختلاف واضح ہے‘‘۔
اس پیراگراف کر پڑھ کر قائداعظمؒ یاد آگئے، جنھوں نے پنجاب ، سرحد، بلوچستان اور سندھ کے ساتھ ساتھ محض ثقافتی اتحاد کی بنا پر بنگال کو بھی پاکستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، اور یہ دعویٰ اپنی دلیل کی قوت کی بناپر ہندوئوں اور انگریزوں نے بھی تسلیم کر لیا تھا۔ اب پاکستان بننے کے بعد ایک صاحب قائداعظمؒ کے اس دعوے کو یوں غلط ٹھیرا رہے ہیں کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں تو ’’زبان اور کلچر کا اختلاف واضح ہے‘‘۔ حالانکہ کسی ملک کے مختلف خطوں کا وہی سیاسی اتحاد معتبر اور سیاسی اخلاقیات میں جائز سمجھا جاتا ہے، جو ثقافتی نوعیت کا اتحاد ہو اور محض نظامِ حکومت کا اشتراک ایک طاقت ور علاقے کا ایک چھوٹے اور کمزور علاقے پر قبضے کے مترادف ہوتا ہے۔ لیکن حُسنِ ظن کا تقاضا یہ ہے کہ میں ان سے اتنی بدگمانی نہ کروں اور یہ سب کچھ ان کی تحریر سے نکالنے کی کوشش نہ کروں، مگر جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کو الگ کرنا ان کامقصد نہیں بلکہ خطر ناک دانش ورانہ مجبوری ہے۔
پاکستانی تہذیب کا رشتہ ہڑپہ، ٹیکسلا اور موئن جو داڑو سے جوڑنا، اسلام کو قومیانا اور اردو کا نام پاکستانی رکھنا، یہ سب کچھ اگر حب وطن پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہاہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ حب وطن ایک تجریدی اور پیچیدہ احساس ہے جسے نظریاتی حوالوں کے بغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستانی قومیت یا تہذیب کی ہر بحث کامنتہائے مقصود پاکستان کی جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام افراد کے باہمی اتحاد کا حصول ہونا چاہیے، مگر آپ کہتے ہیں کہ ثقافتی اتحاد ہی اصل بنائے اتحاد ہے۔ یہیں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ثقافتی اتحاد کا ماخذ کیا ہے؟ اگر آپ یہاں اسلام کا نام لیتے ہیں تو مسئلہ حل ہو جاتاہے کیونکہ اسلام ہمارے ثقافتی اتحاد کا ماخذ بھی ہے اور سیاسی اتحاد کی بنیاد بھی۔
پاکستان کے تمام علاقوں میںخواہ وہ شمال مغربی سرحد [خیبر پختون خواہ]ہو یا پنجاب، بلوچستان ہو یا سندھ یا مشرقی پاکستان ، مشترک امور اور اقدار وہی ہیں، جو اسلام نے دی ہیں۔ لیکن اگر آپ اس سوال کے جواب میں ٹیکسلا، موئن جو داڑو اور، ہڑپہ کا نام لیں گے، تو یہ آپ کے بنیادی مقصد کی شکست ہوگی۔ ٹیکسلا، موئن داڑو ار ہڑپہ کی ثقافتی اہمیت اگر تسلیم بھی کر لی جائے، تو یہ بھی علاقائی ثقافت میں شمار ہوں گے، قومی ثقافت میںنہیں ڈھل سکیں گے اورعلاقائی ثقافتوں پر یوں زور دینے کا مطلب قومی اتحاد کو کمزور کرنا ہے۔
وطن سے محبت اور وطن کی زمین سے لگائو یقینا ایک صحت مند جذبہ ہے، لیکن ہمارے لیے اس محبت کا ماخذ پاکستان کی دھرتی نہیں پاکستان کانظریہ ہے۔ یہ مملکت اس لیے قیمتی ہے کہ یہ اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہے، اس لیے نہیں کہ اس دھرتی سے وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کے حوالے سے ہمارا نسلی رشتہ اور ثقافتی ربط ہے۔ وطن کی محبت جب صحت مند حدود سے آگے بڑھتی ہے تو کیا گل کھلاتی ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے دور جدید کی قوم پرستی کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنا ہی کافی ہے ۔ خود مسلمان ممالک کے مستحکم اتحاد کی راہ میں آج جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، وہ یہی وطنیت پرستی کا رجحان ہے۔
پاکستان میں آغا صاحب نے ہڑپہ، موئن جودڑو اور ٹیکسلا سے اپنا رابطہ جوڑ لیا، مصر کے صدر ناصر نے ’’ہم فرعون کی اولاد ہیں‘‘ کا نعرہ بلندکرکے فرعونوں کے بتوں کو قومیت کی بنیاد بنا لیا، اہل شام نے بھی ایک اطلاع کے مطابق ایک زمانے میں ابوجہل اکیڈمی قائم کر دی تھی۔ ایران والے بھی شاہِ ایران رضاشاہ پہلوی کے زمانے میں قبل از اسلام کے زرتشی ماضی سے رشتہ جوڑنے لگے تھے۔ اب اتنی کسر رہ گئی ہے کہ سعودی عرب کے لوگ کھدائی کرکے لات، ہبل اور عزیٰ کے بت برآمد کریں اور انھیں خانہ کعبہ میں سجا لیں کہ صاحب ہمارا ماضی تو یہی ہے! رہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ کے وقت یہ اعلان کہ’’آج جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے ہیں‘‘،آپ حسبِ منشا اس کو کوئی بھی تعبیر کرلیں، یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ کیا اس رویے کو صحت مندانہ رویہ قرار دیاجا سکتا ہے؟
باطل پرستوں کا ایک خاص حربہ اچھے ناموں کا غلط استعمال ہے۔ بدی اپنے اصلی رُوپ اور اپنے حقیقی نام کے ساتھ سامنے آتے ہوئے ہچکچاتی اور گھبراتی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ نیکی کا لبادہ اُوڑھ کر اور معصوم ناموں کا سہارا لے کر آتی ہے۔ اوّل روز سے اس کا طریقہ یہی رہا ہے اور آج بھی وہ اسی طریقے کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ بھی مشاہدے کی بات ہے کہ جھوٹ، دھوکا اور فریب، ڈپلومیسی کا رُوپ دھار کر آتے ہیں۔ فسق و فجور اور بے حیائی نے بھی ایک نیا نام تلاش کرلیا ہے اور وہ ہے ’ثقافت‘!
انسانی تاریخ میں ’ثقافت‘ یا کلچر کی اصطلاح اتنی لچر اور پوچ معنوں میں کبھی استعمال نہیں ہوئی، جن معنوں میں آج اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان الفاظ کو حقیقی معنی سے علاحدہ کرکے، ناچ رنگ اور فسق و فجور کے لیے استعمال کرنا، شیطان کی انھی کوششوں میں سے ایک ہے ، جن کے سہارے وہ انسان کودھوکا دیتا رہتا ہے۔
بے کاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
یہ ’ثقافت‘ ایک ایسے انسان کو جنم دیتی ہے، جس میں نیکی اور پاک دامنی کے ساتھ شجاعت اور حق کے لیے جینے اور مرنے کا جذبہ ہو، جو اخوت و مساوات کا علَم بردار ہو اور اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہو جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادب پیدا کرتی ہے، جو ایک طرف تو جمالیاتی ذوق کی تسکین پوری کرے اور دوسری طرف انسان کو اس کے حقیقی مشن سے آگاہ کرے اور اس کے اچھے جذبات کو اُبھارے۔
یہ ’ثقافت‘ ایک ایسی معاشرت قائم کرتی ہے جس میں انسان، انسان کا خون نہ چوسے۔ جہاں رنگ اور نسل کی جھوٹی تعریفیں نہ ہوں۔ جہاں دولت و غربت کے امتیازات نہ ہوں۔ جہاں زندگی کی نعمتیں ایک محدود طبقے کا اجارہ نہ بن کر رہ جائیں۔ جہاں ترقی کے راستے سب کے لیے کھلے ہوں۔وہ جنھیں وسائل حاصل ہیں، ان کی مدد کریں جو ان سے پیچھے رہ گئے ہیں، تاکہ سب شانہ بشانہ اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کریں۔
یہ ثقافت اپنی سرگرمیوں کا مرکز و محور مسجد کو بناتی ہے، جہاں دن میں پانچ مرتبہ مسلمان ملتے ہیں اور باہمی ربط استوار کرتے ہیں۔ یہ مسجد ہماری ثقافتی ترقی کا سرچشمہ رہی ہے۔ ہمارے فنِ تعمیر کی ساری ترقی اسی مرکز سے شروع ہوئی۔ آرٹ کی سرپرستی اس ثقافت نے بھی کی ہے، لیکن اس طرح نہیں کہ وہ انسان کے سفلی جذبات کو بھڑکائے، بلکہ اس طرح کہ اس نے مناظر فطرت کو پیش کیا ہے، حُسنِ فطرت کو نمایاں کیا ہے۔ یہاں تک کہ الفاظ سے حُسن پیدا کیا ہے۔ خطاطی، طغرانویسی اور کوزہ گری مسلمانوں کا ہی حصہ (contribution) ہیں۔ لحن و نغمہ کا ذوق یہاں بھی پایا جاتا ہے، لیکن بازاری گانوں اور تال طبلوں کی شکل میں نہیں۔ مسلمانوں نے اس کے لیے فن قراء ت کو ترقی دی اور خداے بزرگ و برتر کے کلام کو نغمہ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کھیل اور تفریح اس ثقافت نے بھی اختیار کیے، لیکن وہ نہیں جو لہوولعب اور وقت و قوت کے ضیاع سے عبارت ہیں، بلکہ وہ جو اپنی معنوی اصلیت بھی رکھتے ہیں اور جو انسان میں بہادری، شجاعت، بلندہمتی اور عالی حوصلگی پیدا کرتے ہیں۔ نیزہ بازی، تیراندازی، شہ سواری اور کشتی اس کی چند مثالیں ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ایسی مخصوص ثقافت کو زندگی کے ہرمیدان میں ترقی دی ہے۔ فطرت کے ہرتقاضے کو انھوں نے پورا کیا ہے، لیکن اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ اس میں ایسی ترقیاں کیں جو انسان کو حیرت میں ڈالتی ہیں۔ حق کی بندگی، اس کی ہدایت کی پاس داری، اس کے سامنے جواب دہی کے احساس اور انسانیت دوستی کو پروان چڑھایا۔ جب کہ فضول اور لایعنی چیزوں سے پرہیز اور تعمیری و تخلیقی جدوجہد ہماری ثقافت کی امتیازی خصوصیت ہیں۔
اگر انسان کی صلاحیتوں کو نفس اپنی جائز اور ناجائز خواہشات کی تسکین پر لگادے،تو پھر اس سے تعمیری تخلیقات نہیں ہوتیں، بلکہ انسان کا تخلیقی ذہن اور جوہر انھی خطوط پر کام کرتا اور نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے نت نئے ذرائع سوچتا ہے۔ اسلام کا کمال یہ ہے کہ وہ نفسِ انسانی کو لگام دے کر ، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو تعمیری راستے پر ڈالتا ہے اور یہ شے، نہ صرف مسلمان قوم بلکہ پوری انسانیت کی ترقی و کمال کا باعث ہے۔
لیکن کیا یہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوجائیں گے؟ جب انگریز ہماری ثقافت کو ۲۰۰سال میں نہ تبدیل کرسکے، بلکہ ہمارے ان کرم فرمائوں جیسے چند جانشین ہی پیدا کرسکے،تو پھر آخر یہ شاگرد اپنے آقائوں سے زیادہ کیا معرکے سر کرلیں گے؟ پاکستان کے مسلمان ان کے اس چیلنج کا بھی مقابلہ کریں گے اور ان شا ء اللہ کامیابی سے کریں گے۔ آنے والا وقت ہی یہ گواہی دے گا کہ کس کا نام باقی رہا۔ بغیر جڑ کے درخت لگانے کی ناکام کوشش کے نتیجے میں درخت نہیں کھڑا کیا جاسکتا۔
ڈسکو اور راک این رول ہماری ثقافت نہیں، کیبرے ہماری ثقافت نہیں، مغرب کی نقالی ہماری ثقافت نہیں، فحش تصاویر ہماری ثقافت نہیں، برہنہ مجسّمہ سازی ہماری ثقافت نہیں۔ اسی طرح جنس زدہ ادب ہماری ثقافت نہیں۔ ہماری ثقافت اسفل جذبات کی بے محابا تسکین کا نام نہیں اور یہ ثقافت انسان کو حیوان نہیں بناتی۔ ہماری ثقافت ایک پاکیزہ، ستھری، نکھری، معتدل اور ہمارے نظریات سے ہم آہنگ ثقافت ہے، اور اسی کی ترقی میں ہماری فلاح اور کامیابی مضمرہے۔
اس مرحلے پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے اس حکم نامے کا اقتباس پیش کرنا نسلِ نو کے لیے مفید ہوگا، جس میں انھوں نے ناظم تعلیمات کے نام لکھا:
سب سے پہلے تم میری اولاد کے دلوں میں ناچ گانوں اور راگ راگینوں کی نفرت پیدا کرنا، کیونکہ ان کی ابتدا شیطان کی طرف سے ہے اور ان کی انتہا خداے رحمن کی ناراضی ہے۔ اس سے دل میں نفاق اس طرح پرورش پاتا ہے، جس طرح بارش سے گھاس اُگتی ہے۔
(کتابچہ دستیاب ہے، قیمت ۱۳روپے، سیکڑے پر رعایت۔ منشورات، منصورہ، لاہور- فون: 042-35434909)