گذشتہ تین برس سے شام خون آشام ہے۔ یہ خون آشامی آمر بشارالاسد کی ہرقیمت پر اقتدارسے چمٹے رہنے کی ہوس کا نتیجہ ہے۔امریکا ہو یا روس، شام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ایک طاقت بشار کی حمایت کرتی ہے تو دوسری اپوزیشن کی۔ بھیڑیوں کی اس جنگ میں نشانہ بے گناہ عوام بن رہے ہیں۔ اس جنگ کا نتیجہ ہے کہ یہ آگ بجھنے میں نہیں آرہی۔ لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہجرت پر مجبور ہیں۔
سنٹر فار ڈاکومنٹیشن فار وائی لیشنز (Centre for Documentation for Violations ) کے مطابق ۲۲جنوری ۲۰۱۴ء تک ۹۷ہزار۵سو۷، جب کہ سیرین ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ایک لاکھ۳۰ہزار ۴سو۳۳ ہلاکتیں ہوئیں اور یہ عام شامی ہیں جو جاں بحق ہوئے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ان تین سالوں میں فوج اور پولیس کے ۳۲ہزار۱۳، پیراملٹری فورسز کے ۱۹ہزار۷سو۲۹ ؍ افراد خانہ جنگی کی نذر ہوئے۔ اسی طرح ریف دمشق میں ۲۲ہزار۸سو۹۷، الیپو میں ۱۶ہزار۵۴، حمص میں ۱۳ہزار۴سو۶۹، ادلب میں ۱۰ہزار۲۷، درعا میں ۸ہزار۳۴ اور دمشق میں ۷ہزارایک سو۳۷، حلب میں ۱۲ہزار۶سو۴۳، حماۃ میں ۵ہزار۷سو۵۵ لاشیں دفن کی جاچکی ہیں۔ خانہ جنگی کے باعث بیرونِ ملک نقل مکانی یا ہجرت کرنے والوں کی تعداد ۲۲لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ یو ایس ایڈ کے مطابق اندرونِ ملک ہجرت کرنے اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد ۶۳لاکھ سے زائد ہے۔ بیرونِ ملک رجسٹرڈ شامی پناہ گزین مختلف ملکوں میں قائم کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔لبنان میں ۱۰لاکھ ، اُردن میں ۶لاکھ، ترکی میں۵لاکھ، عراق میں۲لاکھ، مصر میں ایک لاکھ اور کچھ دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہیں، جب کہ ایک لاکھ ۳۰ہزار شامی گرفتار یا لاپتا ہیں۔
شامی پناہ گزین اسرائیل کے علاوہ تمام پڑوسی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد یورپ میں بھی پناہ گزین ہے۔ نیوزویک نے یورپ منتقل ہونے والوں کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔یورپ کا رویہ پناہ گزینوں کے ساتھ بخل کا رہا ہے، اور اس نے انھیں پناہ دینے کے بجاے گریزکا رویہ اختیار کیا ہے۔تاہم، کچھ ایسے یورپی ممالک بھی ہیں جنھوں نے آگے بڑھ کر تعاون کیا جن میں جرمنی سرفہرست ہے۔ جرمنی میں ۱۰ہزار سے زائد لوگ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پناہ گزینوں کا زیادہ تر دبائو لبنان پر ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ لبنان میں مقیم شامی مہاجرین کو بالعموم اور بچوں کو بالخصوص سخت قحط کا سامنا ہے۔مصر کی فوجی حکومت کا رویہ بھی پناہ نہ دینے کا رہا جس کے باعث پناہ گزینوں نے ادھر کم ہی رُخ کیا۔ اقوام متحدہ کی نومبر۲۰۱۳ء کی رپورٹ کے مطابق یہ لوگ سخت سردی، خوراک کی قلت، صحت کی سہولتوں سے محرومی کے باعث انتہائی کسمپرسی، مفلوک الحالی، غربت اور بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزین کیمپوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے ہیں جو اس کُل تعداد کے نصف سے زائد ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد ۱۰لاکھ سے زائد ہے۔ بچوں کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کیمپوں میں تعلیم کی وہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں جو ہونی چاہییں، نیز یہ بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کیمپوں میں زندگی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ویسے بھی کیمپوں میں کیا سہولیات میسر ہوسکتی ہیں!
بشار نے اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے خلاف طاقت کا بے محابا استعمال کیا۔ لاٹھی، گولی، آنسوگیس، گرفتاریاں، بکتربندگاڑیاں اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ جنگی جہازوں، توپوں اور میزائلوں سے بم باری کے ذریعے عام آبادیوں، اسکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا، حتیٰ کہ پناہ گزینوں کے کیمپ بھی اس دست برد سے محفوظ نہ رہے۔ بشار حکومت کے وحشیانہ تشدد، انسانیت سوز مظالم سے قیدی بھی نہ بچے۔
قفقاز سنٹر کی ۲۱جنوری کی رپورٹ جسے ترک ایجنسی (Anadolu) نے جاری کیا ، کے مطابق ملٹری پولیس میں ۱۳سال تک کام کرنے والا اہل کار ’قیصر‘ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر زیرحراست تشدد سے ہلاک ہونے والوں کی دو سال تک تصاویر بناتا رہا۔ اس نے ۱۱ہزار لاشوں کی ۵۵ہزار تصاویر بنائیں۔ تعذیب خانوں سے لاشیں ملٹری ہسپتال لائی جاتیں، جہاں ہرلاش پر کوڈ لگایا جاتا اور فلیش ڈرائیو (flash drive) کے ذریعے ان تصاویر کو حکومتی ریکارڈ میں بھیج دیا جاتا۔ یہ تصاویر اُتارنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اعلیٰ حکام کو یقین دلایا جائے کہ زیرحراست ملزمان کو رہا نہیں کیا گیا، بلکہ ہلاک کردیا گیا ہے، جب کہ لواحقین کو بتایا جاتا کہ قیدی دل کے دورے یا سانس کی تکلیف سے ہلاک ہوا ہے۔ دوسال تک قیصر یہ فوٹوگرافی کرتا رہا۔ دوسال کے بعد تنگ آکر اس نے اپوزیشن سے رابطہ کیا اور بشار حکومت کا یہ ظلم دنیا کے سامنے آسکا۔
قیصر کے مطابق روزانہ ۵۰ کے لگ بھگ لاشیں آتیں۔ تصاویر سے ہونے والی عکاسی کے مطابق زیرحراست افراد بھوک، پیاس، وحشیانہ تشدد، گلا گھونٹنے،بجلی کے جھٹکوں اور لوہے اور بجلی کے تاروں سے باندھنے سے ہلاک ہوئے۔ لندن کی ایک لیبارٹری نے ۲۶ہزار تصاویر کا معائنہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ تصاویر درست ہیں، ان میں کمپیوٹر کے ذریعے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن اس مسئلے کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لے جانا چاہتی ہے۔
ایک جائزے کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں ۱۲لاکھ سے زائد گھر تباہی کا نشانہ بنے۔ شہر کے شہر کھنڈر بن گئے، جابجا لاشوں کے ڈھیر اور ویرانی ملک کامقدر بن گئی ہے۔ اس صورت حال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پناہ گزینوں کی حالت قابلِ رحم اور تشویش ناک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ۶۸لاکھ افراد ہنوز امداد و تعاون کے منتظر ہیں، جب کہ اندرونِ ملک بھی ایک بڑی تعداد کو امداد درکار ہے۔ امریکا، یورپ اور عرب ممالک اربوں ڈالر امداد دے چکے ہیں لیکن یہ امداد اُونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔
۱۵جنوری ۲۰۱۴ء کو دنیا کے ۶۰ کے لگ بھگ ممالک نے اقوامِ متحدہ کی ڈونرز کانفرنس میں شرکت کی۔ اقوام متحدہ نے شام کی خانہ جنگی سے متاثر ہونے والے ایک کروڑ ۳۰لاکھ شامی مہاجرین کے لیے ۵ء۶ ؍ارب ڈالر کی اپیل کی مگر اس میں صرف ۴ء۱؍ ارب ڈالر کے وعدے ہوئے،جب کہ ۵۰۰ ملین ڈالر صرف کویت نے دینے کا وعدہ کیا۔
دمشق کے جنوب میں واقع فلسطینیوں کے ایک مہاجرکیمپ ’یرموک‘کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں جو بہت ہولناک ہیں۔ یہ کیمپ گذشتہ تین ماہ سے حکومتی افواج کے محاصرے میں ہے۔ ہرقسم کی اشیاے خوردونوش کیمپ میں جانے سے روکی جاتی ہیں ۔ کیمپ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ محصور ہیں۔ مسلسل محاصرے کے باعث اشیاے خوردونوش ختم ہوچکی ہیں۔ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بچے بھوک کے باعث بلکتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ مہاجر کیمپ کی مسجد کے امام و خطیب نے اس کیفیت میں حرام جانوروں کا گوشت کھانے کا فتویٰ دے دیا ہے۔
برطانیہ میں مقیم سرجن ڈاکٹر عمرجبار جنھوں نے ایک خیراتی ادارے ہینڈان ہینڈ میں شام کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا اور کئی بار امدادی سرگرمیوں کے لیے شام گئے۔ان کا کہنا ہے کہ شام میںتنازعے کے باعث ایک نسل تباہ ہوچکی ہے۔ آپ تصور کریں کہ اگر آپ کا بچہ تین سال سے سکول نہ گیا ہو اور آپ گھر سے باہر روزگار کے لیے نہ جاسکیں، تو کیا عالم ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ہے کہ انسانیت کی خاطر سوچا جائے۔ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام بند ہونا چاہیے۔
شامی بحران پر جنوری میں ہونے والے جنیواٹو مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ مذاکرات کا دوسرا دور اس لحاظ سے ناکام رہا کہ فریقین کو اس میں بنیادی مقصد طے کرنے میں ناکامی ہوئی۔ انھی مذاکرات میں شام کی عبوری حکومت کا طریقۂ کار طے ہونا تھا۔ جنیواوَن کی طرح یہ مذاکرات بھی اقوامِ متحدہ کے تحت منعقد ہوئے۔ جون ۲۰۱۲ء میں منعقد ہونے والے جنیوا ون مذاکرات میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ ۴۰ممالک کے وزراے خارجہ نے شرکت کی تھی جس میں عرب لیگ کے ۲۲ممالک بھی شریک تھے۔ جنیواٹو مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی شامی اپوزیشن کے وفد نے اس پر اعتراضات کر کے شامل ہونے سے انکار کردیا۔ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کے دبائو پر اپوزیشن نے شرکت کی۔ ان مذاکرات کا پہلا دور سوئٹزرلینڈ کے قصبے مونٹرو میں منعقد ہوا، جب کہ دوسرا دور تین دن بعد جنیوا میں منعقد ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔ مذاکرات کو اس وقت سخت نقصان پہنچا جب اقوام متحدہ نے ایران کو دعوت دے کر واپس لے لی۔ ایران کو مذاکرات کی دعوت دے کر واپس لینے کی وجہ مبصرین یہ بیان کرتے ہیں کہ ایران بشارالاسد کا زبردست حامی ہے۔ اس وجہ سے وہ مذاکرات پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ ایران جنیوا وَن مذاکرات کے عبوری حکومت کے فیصلے کا مخالف تھا۔ اس موقع پر شامی حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کا آغاز تو ہوا، لیکن کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے براے شام لحذر براہیمی نے بشارحکومت کو جنیوا میں ہونے والی اس دوسری کانفرنس کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے کہا: ’’شامی حکومت ملک میں خانہ جنگی ختم کروانے میں سنجیدہ نہیں‘‘۔
شام کی صورت حال خوف ناک اور الم ناک ہے۔ تین سال کی خونریزی اور خانہ جنگی کے نتیجے میں کوئی فریق اتنا طاقت ور نہیں رہا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے اور دوسرے کو شکست دے سکے۔ عالمی طاقتیں دل چسپی لیتیں تو یہ مسئلہ اب تک حل ہوچکا ہوتا لیکن عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں اور اُمت مسلمہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، غیروں کے لیے ترنوالہ اور زبوں حالی کا شکار ہے۔
بشار نے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جس سے وہ اپنے طاقت ور عالمی حلیف روس کو بڑی کامیابی سے اپنے حق میں استعمال کرپایا۔ اسی طرح ایران اور حزب اللہ کی بھرپور اخلاقی، سیاسی اور عسکری تائید حاصل کی، جس نے اسے مشرق وسطیٰ پر پڑنے والے دبائوسے بچایا اور وہ انتہائی بے دردی سے اپنے شہریوں پر قوت استعمال کرپایا۔ ترک صدر عبداللہ گل نے انتباہ کیا ہے کہ اگر عالمی برادر ی نے شام میں خانہ جنگی رکوانے کی کوشش نہ کی تو شام مشرق وسطیٰ کا افغانستان بن جائے گا۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مطابق شام کو پُرآشوب رکھنا مغربی منصوبے کا حصہ ہے۔مسلم دنیا اور مسلم حکمرانوں کا کردار افسوس ناک رہا ہے اور عالمی ضمیر سو رہا ہے۔ اسلامی تحریکوں نے اُمت کو جگانے اور بیدار کرنے کے لیے آواز ضرور بلند کی ہے لیکن یہ آواز بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی ہے۔
شامی مہاجرین کی مظلومی و بے بسی اور بے چارگی کو اُجاگر کرنے اور ان کی امداد کے لیے معروف صحافی اور نومسلم مریم ریڈلے نے بھی گذشتہ دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ انھوں نے اُمت مسلمہ کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ شام کو آج ہمارے آنسوئوں کی نہیں ہمارے مال اور دعائوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان مظلوموں کے لیے اور کچھ نہیں کرسکتے تو اتنا تو ہمارے بس میں ہے کہ ہم ان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں!
مضمون نگار سے رابطے کے لیے: www.ghazinaama.com.pk
مرزا شوق نے کتنی سچی بات کہی ہے ؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ جو دنیا میں آیا وہ جانے ہی کے لیے آیا،کسی کو ا س سے مفر نہیں۔ سابق امیر ضلع راولپنڈی، سابق ایم این اے، سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ راجا محمد ظہیر خان بھی اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو وفا کرگئے۔ ۲؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو وہ اپنے رب کے حضور پہنچ گئے، انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
جماعت اسلامی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کش مکش ان کا طرۂ امتیاز ۔ان کی ساری زندگی دعوت کے ابلاغ میں گزری۔ دعوتی خطوط کا خاص اہتمام کرتے ۔ دعوتی کام کو جماعتی زندگی کی جان قرار دیتے۔ دعوت اور تربیت پر خصوصی توجہ دیتے۔ ایک مردِدرویش، جس کا ظاہر و باطن ایک تھا، جو خوش گفتار ، خوش پوشاک اور خوش خوراک تھا۔ دعوتِ دین کے لیے ہمہ وقت مصروفِ کار اور سرگرم رہنے والا جفاکش آدمی تھا۔ اﷲ نے ان کو بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے نواز اتھااور انھوںنے اپنی ان خوبیوں کو اﷲ کے دین کی اقامت کے لیے خوب استعمال کیا۔ وہ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ،پاک دل و پاک باز انسان تھے۔ حقیقت میں وہ بے چین روح تھے۔ ان کی شخصیت بے پناہ خوبیوں کا مرقع تھی، جن کو وہ اقامت دین کے لیے استعمال میں لاتے۔ ان کے مقاصد جلیل اور ادا دلفریب تھی۔ اقبا ل کے کتنے ہی اشعار ان پر راست آتے ہیں۔ جماعت میں آنے سے پہلے بلدیہ میں ملازم رہے۔ سینما دیکھنے کے شوقین تھے، مگر جب جماعت کا لٹریچر پڑھا اور جماعت میں آگئے تو سینما کا منہ نہیں دیکھا۔ کبھی کبھی کہتے تھے کہ ایک سینما دیکھنے والا، آج امیر ضلع ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس طرح کایا پلٹ ہوگی اور زندگی کا رنگ ڈھنگ بدل جائے گا۔ یہ خدا کی دین ہے جسے دے۔
انھوں نے اقامت دین کے اس راستے کی طرف قدم بڑھائے تو پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ۔ مشکلات برداشت کیں ، لاٹھیاں کھائیں ، جیل گئے ، مگر جواس راستے پر چلنے کا عزم ایک مرتبہ کیا تو پھر پر تمام عمر ثابت قدمی ، اُولو العزمی اور استقامت کے ساتھ اس راستے پر چلتے رہے۔ ’’وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے‘‘ ان کا خاص وصف قرار پایا۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں ’مرجع خلائق‘ تھے، خلق خدا کی خدمت کرنے والے اور ان کے حقوق کے لیے لڑ جانے والے، مجلسی انسان تھے۔ لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے ،گپ شپ کرتے اور انھیں اپنا بنالیتے۔ تحریکی گپ شپ ان کا خصوصی وصف تھا جس سے دل سوزی و رعنائی کا اظہار ہوتا۔ سید مودودیؒ کے ساتھ بھی ان کاقریبی تعلق اور خصوصی رابطہ رہا۔ گوجر خاں سے ملاقات اور عصری مجالس میں شرکت کے لیے خاص طور پر لاہور آتے، اور سید سے براہ راست کسب فیض کرتے۔
راجا محمد ظہیر خان ۱۹۷۳ء میںجماعت کے رکن بنے۔ ۱۹۸۳ء میں پہلی مرتبہ امیر ضلع اور ۸۸میںپہلی مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے۔امیر ضلع بنے تو راولپنڈی کا قریہ قریہ اور گائوں گائوں چھان مارا۔ گوجر خان کے گردو نواح میں پیدل، سائیکل اور گاڑی کے ذریعے ہر جگہ پہنچے۔ رات کو کہیں جگہ مل جاتی فبہا ورنہ مسجد میں قیام کرتے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ دو تین ساتھی مل کر صبح سویرے گائوں سے نکل جاتے۔ کھیتوں، دکانوں، بازاروں اور گھروں میں ملاقاتیں کرتے ۔ لٹریچر ان کے ساتھ ہوتا جسے تقسیم کرتے جاتے۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس دوران اس قافلہ میں نئے ساتھی شامل ہوجاتے اور پرانے ساتھی واپس لوٹتے جاتے مگر راجا صاحب ہر قافلے اور وفد کے ساتھ ہوتے بلکہ اس کی جان ہوتے ۔ دعوتی ملاقاتوں کے دوران رابطے میں آنے والوں کو دعوتی خطوط لکھتے، ذاتی رابطہ رکھتے ۔ دعوتی ملاقاتوں کے دوران معاشرے کے چیدہ چیدہ اور مضبوط لوگ تلاش کرتے۔ نوجوان ان کا خاص ہدف ہوتے۔ محبت کا اظہار کرتے اور نوجوان ان کے ساتھ وابستہ ہوتے چلے جاتے۔ وہ ان کے ساتھ روابط رکھتے ان کو جماعت کی رکنیت کے مراحل طے کراتے۔ رکن بننے والوں سے خو د آخری ملاقات کرتے ۔ اسی طرح کارکنان کے ذاتی مسائل ہوں یا خاندان کے دل چسپی لیتے،جماعتی مسائل کے ساتھ گھریلو اور ذاتی مسائل تک سے واقفیت حاصل کرتے، رہنمائی کرتے اور اس دوران گھر کے جن افراد سے رابطہ ہوتا ان کو بھی مسلسل اپنے رابطے میں رکھتے۔ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ترغیب اورحوصلہ دلاتے۔ جو ان کو ایک مرتبہ مل لیتا انھی کا ہوجاتا۔ مکمل توجہ اور انہماک سے ان کی بات سنتے ۔ بچے اور بوڑھے اور جوان یکساں ان سے متاثرے ہوتے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا تعلق محسوس کرتے ۔ دل کی بات کرتے۔
انھوں نے اپنے دور امارت تحصیل گوجر خان کے زمانے میں اسلامی بستیاں بسانے اور قرآن و سنت کے مطابق بستیوں کا ماحول بنانے پر کام کا آغاز کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بستیوں کے رہنے والے اپنے ماحول کو اﷲ کے دین کے رنگ میں رنگیں ۔ اپنے ذاتی اور اجتماعی فیصلے قرآن و سنت کی روشنی میں کریں۔ زمین کے تنازعات ہوں یا عزیز واقارب اور رشتہ داروں کے گھر ، گلی ، محلہ یا عدالت و تھانہ کے، ان کی کوشش تھی کہ یہ سارے مسائل ان اسلامی بستیوں میں جرگے کے ذریعے اسلامی شریعت کے مطابق حل ہوں اور اس کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔
وہ ضلع راولپنڈی کے۱۰سال تک امیررہے۔ اس زمانے میں انھوں نے ضلع بھر میں دعوت کے کام کو خو ب پھیلایا۔ ان کے نزدیک سید مودودیؒکے لٹریچر کی تقسیم دعوت کا بہترین اور عمدہ ذریعہ تھا۔ اس کا خاص اہتمام کرتے۔ وہ ایم این اے منتخب ہونے کے بعد عوامی مسائل کے حل کے ساتھ دعوت کے ابلاغ کے لیے متحرک رہتے۔ لوگوں کے مادی مسائل کے ساتھ ساتھ وہ ان کے روحانی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ ایم این اے بنے تو اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی زمین فروخت کرتے رہے۔ لیکن ان کے ضمیر نے کبھی یہ گوارا نہ کیا تھا کہ وہ کمیشن کھائیں یا لقمۂ حرام سے فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے تنگی ترشی تو برداشت کی مگر رزق حلال کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔
بطور امیر ضلع نہایت شفیق اور مہربان انسان تھے۔ دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ بہت اچھے رہے۔ کبھی اُف تک نہیں کہا۔ نماز کے سخت پابند تھے۔ صبح سب سے پہلے مسجد میں پہنچتے۔ صحافیوں کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے رہے۔ معروف صحافی مختار حسن صاحب نے کسی موقع پر کہا کہ راجا صاحب امیر ضلع بنے تو ہم صحافیوںکو بھی جماعت کے دفتر آنے کا موقع ملا، ورنہ اس سے پہلے جماعت کے دفتر کم ہی آنا ہوتا۔
وہ گفتگو بہت اچھی کرتے ، قرآن و حدیث سے مزین، اشعار کا استعمال ، دلسوزی، ان کی گفتگو کے خاص جوہر تھے جو صرف الفاظ کے پیکر نہیں تراشتے بلکہ ان کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ ایسے ہوتا تھا جیسے دل سے نکل رہا ہے۔ ان کی گفتگو اور عمل جذبۂ اخلاص سے معمور ہوتے۔ ضلع راولپنڈی اور اس کے گردو نواح بالخصوص کشمیر تک میں درس قرآن اور خطاب کے لیے بلائے جاتے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو شخصیت بھی وجیہہ عطا فرمائی تھی۔ اپنی شخصیت کو بھی وہ اقامت دین کے لیے استعمال میں لاتے۔ وہ اصلاً فنا فی التحریک تھے۔ خطہ پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے راجا محمد ظہیر خان اس خطے میں تحریک اسلامی کی مضبوط او ر توانا آواز تھے۔ وہ بہادر اور جری انسان تھے۔ جو دل میں ہوتا وہی زبان پر ہوتا اور اس کے اظہار سے نہ چوکتے۔ چاہے اس کے لیے انھیں کتنی ہی قربانی دینا پڑے۔جہاں ان کی شخصیت وجیہہ اور حسین و جمیل تھی وہیں وہ اچھے لباس کے بھی شائق تھے۔ ان کا لباس ان کے اعلیٰ ذوق کا آئینہ دار ہوتا ۔وہ خوش خوراک تھے اور کھانے کا بھی خوب ذوق رکھتے تھے لیکن اس ضمن میں خاص احتیاط کرتے۔ یہ اخراجات اپنی جیب سے کرتے اور اس کا خاص اہتمام کرتے، کہ ان اخراجات کا بار جماعت پر نہ پڑے۔ کھانے پینے کی اچھی اچھی دکانوں کا ان کو پتا ہوتا۔ ان کی اس نفاست کے چرچے قومی اسمبلی میں بھی رہے۔ اچھا کھاتے، خوب کھاتے اور کھانے کا حق ادا کرتے۔ شوریٰ کے اجلاسوں میں بھی ان کی راے بہت نپی تلی ہوتی۔ ان کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ قرآن وحدیث کے مطالعے کے ساتھ اسلامی تحریک، اور دنیاے اسلام کے حوالے سے عمدہ معلومات ان کے پاس ہوتیں جن کو وہ اپنی گفتگو کا حصہ بناتے۔
راجا محمد ظہیر رخصت ہوگئے ہیں۔ سید مودودیؒ کے چمن کے پھول،پرانے بادہ کشانِ محبت رخصت ہوتے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے فریضہ اقامت دین کی جدوجہد کو اختیار کیا تو اخلاص ، مکمل آمادگی اور جذبہ صادق کے ساتھ۔ اور اپنی تمام صلاحیتیں اور قابلیتیں اس راستے میں لگادیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو منزل کی جانب مسلسل بڑھتے رہنے اور چلتے چلے جانے کا سراغ دے گئے۔ وہ اپنے حصے کی شمع روشن کرگئے اور ہمیں یہ پیغام دے گئے ہیں کہ اب تمھیں روشنی کے اس سفر کو جاری رکھنا ہے۔
مستقبل کا مؤرخ جب آج کے پاکستان کی اور خصوصاً عدلیہ کی تاریخ لکھے گا ، تو موجودہ سپریم کورٹ کے ازخود، یعنی سوموٹو (suo moto) نوٹس کو خصوصی مقام دے گا۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ نے اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے معلوم نہیں کن کن دائروں میں انصاف دینے اور اصلاح کرنے کی ’حتی المقدور‘ کوشش کی ہے۔ اسی سلسلے میں ان تین نومسلم خواتین فریال بی بی، حفصہ بی بی اور حلیمہ بی بی کا مسئلہ حل کرنا بھی ہے جس پر سندھ کی ہندو آبادی اور ہماری سیکولر غیرحکومتی تنظیموں (این جی اوز) کی طرف سے بڑی گرد اُڑائی جارہی تھی اور پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا جا رہا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان تین خواتین کو تین ہفتے دارالامان میں رکھا تاکہ وہ آزادانہ سوچ بچار کریں۔ پھر جب وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئیں تو انھیں موقع دیا کہ رجسٹرار کے کمرے میں بغیر کسی دبائو کے اپنے موقف کا حلفیہ بیان دیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اسلام برضا و رغبت قبول کیا ہے۔
ان خواتین کے اسلام قبول کرنے کی وجہ ہندو معاشرے کے خصوصی حالات ہوں یا کچھ اور، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کل پوری دنیا میں اسلام قبول کرنے کی ایک لہر ہے۔ جتنا جتنا اسلام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، اتنا ہی لوگوں میں اسلام کی حقیقت جاننے کا شوق پیدا ہوتا ہے، اور جب وہ اس فطری دین کے قریب آتے ہیں تو اپنے ماضی کے مذہب کو ترک کرکے شعوری فیصلے کے تحت اسے قبول کرتے ہیں۔ اس پر دشمنانِ اسلام جو بھی واویلا کریں، وہ اسلام کے روشن چہرے کو گہنا نہیں سکتے۔ وہ حساب لگاتے ہیں کہ ۲۰۵۰ء تک یورپ یوریبیا (Euarabia) ہوجائے گا ۔ امریکا میں برطانیہ اور فرانس میں اتنے اتنے لوگ ہرسال اسلام قبول کر رہے ہیں، مسجدوں اور اسلامی مراکز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماسکو میں بھی نئی مسجدیں تعمیر ہورہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خود بھارت کے بارے میں مسلسل خبریں آتی ہیں کہ وہاں ہندو بڑی تعداد میں مسلمان ہورہے ہیں لیکن ان چیزوں کی عام اشاعت نہیں کی جاتی کہ بھارت کی ’سیکولر‘ ہندو ریاست کا ردعمل اُبھر کر سامنے نہ آئے۔
پاکستان کے موجودہ حالات کچھ بھی ہوگئے ہوں، اس کے قیام کی جدوجہد، قیام کا مقصد، اس کا دستور، اس کی قراردادمقاصد، سب اسے ۲۰ویں صدی میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست بتاتے ہیں جسے اس کے پہلے وزیراعظم کے بقول ’انسانیت کے لیے روشنی کا مینار‘ بننا تھا۔ ہمارے سفارت خانوں کو پاکستان کے مفادات کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ متعلقہ ملک میں دعوتِ اسلامی کے فروغ کی کوششیں بھی کرنا چاہییں اور انھیں اس کے لیے بجٹ ملنا چاہیے۔ خود پاکستان کے اندر ریاست کا یہ فریضہ ہونا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان زندگی گزارنے کے لیے آسانیاں بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں کو اسلام کی طرف دعوت دے۔ کسی جبرو اِکراہ کے بغیر اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہیں تو اس کی سہولت بہم پہنچائے ،اور انھیں سابقہ مذہب کے علَم برداروں اور رشتہ داروں کے ظلم سے بچائے۔
حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ ایسا نہ ہو کہ غیرمسلم اقلیتیں اپنے بالغ افراد کو ظلم و جبر اور پابندیاں لگا کر اپنے مذہب سے وابستہ رکھیں اور انھیں ہدایت کے راستے پر جانے نہ دیں۔ سندھ میں تین بالغ ہندو لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے پر ان کی برادری کے مزاحمت کرنے کی کوئی توجیہہ بیان کی جاسکتی ہے، خواہ وہ معقول ہو یا نہ ہو، لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں کو کیا تکلیف ہوئی کہ انھوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ پیپلزپارٹی کے ایم این اے ان کے وکیل بن کر آگئے۔ این جی اوز کو تو جیسے ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق مزے آگئے اور بیرونی آقائوں کا نمک حلال کرنے کا موقع ملا۔ اپنے اسلام پر تو غالباً شرمندہ ہی ہوتے ہوں گے، لیکن ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنے اثرورسوخ سے پاکستان میں ایسا قانون بنوا دیں کہ اقلیتی فرقے کا کوئی فرد اسلام قبول نہ کرسکے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو سیکولر کہتے ہیں، آزادیِ راے کے علَم بردار ہیں لیکن اُسی حد تک جو وہ بتائیں۔ کوئی بالغ فرد اپنی آزادانہ راے سے اسلام قبول کرے تو یہ انھیں قبول نہیں۔ اس واقعے نے پاکستانی عوام کے سامنے ان کا حقیقی چہرہ کھول کر رکھ دیا ہے کہ یہ کہنے کو مسلمان اور پاکستانی ہیں، لیکن پاکستان کی اسلامی بنیادوں کا انکار کرتے ہیں اور تاریخ مسخ کر کے قائداعظم علیہ الرحمہ پر بہتان لگاتے ہیں کہ وہ سیکولر پاکستان کے علَم بردار تھے (العیاذ باللّٰہ)۔