مرزا شوق نے کتنی سچی بات کہی ہے ؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ جو دنیا میں آیا وہ جانے ہی کے لیے آیا،کسی کو ا س سے مفر نہیں۔ سابق امیر ضلع راولپنڈی، سابق ایم این اے، سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ راجا محمد ظہیر خان بھی اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو وفا کرگئے۔ ۲؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو وہ اپنے رب کے حضور پہنچ گئے، انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
جماعت اسلامی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کش مکش ان کا طرۂ امتیاز ۔ان کی ساری زندگی دعوت کے ابلاغ میں گزری۔ دعوتی خطوط کا خاص اہتمام کرتے ۔ دعوتی کام کو جماعتی زندگی کی جان قرار دیتے۔ دعوت اور تربیت پر خصوصی توجہ دیتے۔ ایک مردِدرویش، جس کا ظاہر و باطن ایک تھا، جو خوش گفتار ، خوش پوشاک اور خوش خوراک تھا۔ دعوتِ دین کے لیے ہمہ وقت مصروفِ کار اور سرگرم رہنے والا جفاکش آدمی تھا۔ اﷲ نے ان کو بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے نواز اتھااور انھوںنے اپنی ان خوبیوں کو اﷲ کے دین کی اقامت کے لیے خوب استعمال کیا۔ وہ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ،پاک دل و پاک باز انسان تھے۔ حقیقت میں وہ بے چین روح تھے۔ ان کی شخصیت بے پناہ خوبیوں کا مرقع تھی، جن کو وہ اقامت دین کے لیے استعمال میں لاتے۔ ان کے مقاصد جلیل اور ادا دلفریب تھی۔ اقبا ل کے کتنے ہی اشعار ان پر راست آتے ہیں۔ جماعت میں آنے سے پہلے بلدیہ میں ملازم رہے۔ سینما دیکھنے کے شوقین تھے، مگر جب جماعت کا لٹریچر پڑھا اور جماعت میں آگئے تو سینما کا منہ نہیں دیکھا۔ کبھی کبھی کہتے تھے کہ ایک سینما دیکھنے والا، آج امیر ضلع ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس طرح کایا پلٹ ہوگی اور زندگی کا رنگ ڈھنگ بدل جائے گا۔ یہ خدا کی دین ہے جسے دے۔
انھوں نے اقامت دین کے اس راستے کی طرف قدم بڑھائے تو پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ۔ مشکلات برداشت کیں ، لاٹھیاں کھائیں ، جیل گئے ، مگر جواس راستے پر چلنے کا عزم ایک مرتبہ کیا تو پھر پر تمام عمر ثابت قدمی ، اُولو العزمی اور استقامت کے ساتھ اس راستے پر چلتے رہے۔ ’’وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے‘‘ ان کا خاص وصف قرار پایا۔ سید مودودیؒ کے الفاظ میں ’مرجع خلائق‘ تھے، خلق خدا کی خدمت کرنے والے اور ان کے حقوق کے لیے لڑ جانے والے، مجلسی انسان تھے۔ لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے ،گپ شپ کرتے اور انھیں اپنا بنالیتے۔ تحریکی گپ شپ ان کا خصوصی وصف تھا جس سے دل سوزی و رعنائی کا اظہار ہوتا۔ سید مودودیؒ کے ساتھ بھی ان کاقریبی تعلق اور خصوصی رابطہ رہا۔ گوجر خاں سے ملاقات اور عصری مجالس میں شرکت کے لیے خاص طور پر لاہور آتے، اور سید سے براہ راست کسب فیض کرتے۔
راجا محمد ظہیر خان ۱۹۷۳ء میںجماعت کے رکن بنے۔ ۱۹۸۳ء میں پہلی مرتبہ امیر ضلع اور ۸۸میںپہلی مرتبہ ایم این اے منتخب ہوئے۔امیر ضلع بنے تو راولپنڈی کا قریہ قریہ اور گائوں گائوں چھان مارا۔ گوجر خان کے گردو نواح میں پیدل، سائیکل اور گاڑی کے ذریعے ہر جگہ پہنچے۔ رات کو کہیں جگہ مل جاتی فبہا ورنہ مسجد میں قیام کرتے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ دو تین ساتھی مل کر صبح سویرے گائوں سے نکل جاتے۔ کھیتوں، دکانوں، بازاروں اور گھروں میں ملاقاتیں کرتے ۔ لٹریچر ان کے ساتھ ہوتا جسے تقسیم کرتے جاتے۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس دوران اس قافلہ میں نئے ساتھی شامل ہوجاتے اور پرانے ساتھی واپس لوٹتے جاتے مگر راجا صاحب ہر قافلے اور وفد کے ساتھ ہوتے بلکہ اس کی جان ہوتے ۔ دعوتی ملاقاتوں کے دوران رابطے میں آنے والوں کو دعوتی خطوط لکھتے، ذاتی رابطہ رکھتے ۔ دعوتی ملاقاتوں کے دوران معاشرے کے چیدہ چیدہ اور مضبوط لوگ تلاش کرتے۔ نوجوان ان کا خاص ہدف ہوتے۔ محبت کا اظہار کرتے اور نوجوان ان کے ساتھ وابستہ ہوتے چلے جاتے۔ وہ ان کے ساتھ روابط رکھتے ان کو جماعت کی رکنیت کے مراحل طے کراتے۔ رکن بننے والوں سے خو د آخری ملاقات کرتے ۔ اسی طرح کارکنان کے ذاتی مسائل ہوں یا خاندان کے دل چسپی لیتے،جماعتی مسائل کے ساتھ گھریلو اور ذاتی مسائل تک سے واقفیت حاصل کرتے، رہنمائی کرتے اور اس دوران گھر کے جن افراد سے رابطہ ہوتا ان کو بھی مسلسل اپنے رابطے میں رکھتے۔ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ترغیب اورحوصلہ دلاتے۔ جو ان کو ایک مرتبہ مل لیتا انھی کا ہوجاتا۔ مکمل توجہ اور انہماک سے ان کی بات سنتے ۔ بچے اور بوڑھے اور جوان یکساں ان سے متاثرے ہوتے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا تعلق محسوس کرتے ۔ دل کی بات کرتے۔
انھوں نے اپنے دور امارت تحصیل گوجر خان کے زمانے میں اسلامی بستیاں بسانے اور قرآن و سنت کے مطابق بستیوں کا ماحول بنانے پر کام کا آغاز کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بستیوں کے رہنے والے اپنے ماحول کو اﷲ کے دین کے رنگ میں رنگیں ۔ اپنے ذاتی اور اجتماعی فیصلے قرآن و سنت کی روشنی میں کریں۔ زمین کے تنازعات ہوں یا عزیز واقارب اور رشتہ داروں کے گھر ، گلی ، محلہ یا عدالت و تھانہ کے، ان کی کوشش تھی کہ یہ سارے مسائل ان اسلامی بستیوں میں جرگے کے ذریعے اسلامی شریعت کے مطابق حل ہوں اور اس کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔
وہ ضلع راولپنڈی کے۱۰سال تک امیررہے۔ اس زمانے میں انھوں نے ضلع بھر میں دعوت کے کام کو خو ب پھیلایا۔ ان کے نزدیک سید مودودیؒکے لٹریچر کی تقسیم دعوت کا بہترین اور عمدہ ذریعہ تھا۔ اس کا خاص اہتمام کرتے۔ وہ ایم این اے منتخب ہونے کے بعد عوامی مسائل کے حل کے ساتھ دعوت کے ابلاغ کے لیے متحرک رہتے۔ لوگوں کے مادی مسائل کے ساتھ ساتھ وہ ان کے روحانی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہتے۔ ایم این اے بنے تو اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی زمین فروخت کرتے رہے۔ لیکن ان کے ضمیر نے کبھی یہ گوارا نہ کیا تھا کہ وہ کمیشن کھائیں یا لقمۂ حرام سے فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے تنگی ترشی تو برداشت کی مگر رزق حلال کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔
بطور امیر ضلع نہایت شفیق اور مہربان انسان تھے۔ دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ بہت اچھے رہے۔ کبھی اُف تک نہیں کہا۔ نماز کے سخت پابند تھے۔ صبح سب سے پہلے مسجد میں پہنچتے۔ صحافیوں کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے رہے۔ معروف صحافی مختار حسن صاحب نے کسی موقع پر کہا کہ راجا صاحب امیر ضلع بنے تو ہم صحافیوںکو بھی جماعت کے دفتر آنے کا موقع ملا، ورنہ اس سے پہلے جماعت کے دفتر کم ہی آنا ہوتا۔
وہ گفتگو بہت اچھی کرتے ، قرآن و حدیث سے مزین، اشعار کا استعمال ، دلسوزی، ان کی گفتگو کے خاص جوہر تھے جو صرف الفاظ کے پیکر نہیں تراشتے بلکہ ان کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ ایسے ہوتا تھا جیسے دل سے نکل رہا ہے۔ ان کی گفتگو اور عمل جذبۂ اخلاص سے معمور ہوتے۔ ضلع راولپنڈی اور اس کے گردو نواح بالخصوص کشمیر تک میں درس قرآن اور خطاب کے لیے بلائے جاتے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو شخصیت بھی وجیہہ عطا فرمائی تھی۔ اپنی شخصیت کو بھی وہ اقامت دین کے لیے استعمال میں لاتے۔ وہ اصلاً فنا فی التحریک تھے۔ خطہ پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے راجا محمد ظہیر خان اس خطے میں تحریک اسلامی کی مضبوط او ر توانا آواز تھے۔ وہ بہادر اور جری انسان تھے۔ جو دل میں ہوتا وہی زبان پر ہوتا اور اس کے اظہار سے نہ چوکتے۔ چاہے اس کے لیے انھیں کتنی ہی قربانی دینا پڑے۔جہاں ان کی شخصیت وجیہہ اور حسین و جمیل تھی وہیں وہ اچھے لباس کے بھی شائق تھے۔ ان کا لباس ان کے اعلیٰ ذوق کا آئینہ دار ہوتا ۔وہ خوش خوراک تھے اور کھانے کا بھی خوب ذوق رکھتے تھے لیکن اس ضمن میں خاص احتیاط کرتے۔ یہ اخراجات اپنی جیب سے کرتے اور اس کا خاص اہتمام کرتے، کہ ان اخراجات کا بار جماعت پر نہ پڑے۔ کھانے پینے کی اچھی اچھی دکانوں کا ان کو پتا ہوتا۔ ان کی اس نفاست کے چرچے قومی اسمبلی میں بھی رہے۔ اچھا کھاتے، خوب کھاتے اور کھانے کا حق ادا کرتے۔ شوریٰ کے اجلاسوں میں بھی ان کی راے بہت نپی تلی ہوتی۔ ان کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ قرآن وحدیث کے مطالعے کے ساتھ اسلامی تحریک، اور دنیاے اسلام کے حوالے سے عمدہ معلومات ان کے پاس ہوتیں جن کو وہ اپنی گفتگو کا حصہ بناتے۔
راجا محمد ظہیر رخصت ہوگئے ہیں۔ سید مودودیؒ کے چمن کے پھول،پرانے بادہ کشانِ محبت رخصت ہوتے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے فریضہ اقامت دین کی جدوجہد کو اختیار کیا تو اخلاص ، مکمل آمادگی اور جذبہ صادق کے ساتھ۔ اور اپنی تمام صلاحیتیں اور قابلیتیں اس راستے میں لگادیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو منزل کی جانب مسلسل بڑھتے رہنے اور چلتے چلے جانے کا سراغ دے گئے۔ وہ اپنے حصے کی شمع روشن کرگئے اور ہمیں یہ پیغام دے گئے ہیں کہ اب تمھیں روشنی کے اس سفر کو جاری رکھنا ہے۔