سوال: والدین کو کسی ایک بچے کی طرف میلان رکھتے ہوئے باقی بچوں کے حقوق کی حق تلفی نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے کیونکہ سب بچوں کو والدین سے یکساں نسبت ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ماں ان باتوں سے قطع نظر کسی خاص بچے کی طرف میلان رکھے،ہرمعاملے میں اس کو فوقیت دے اور دیگر اولاد کی حق تلفی کرے تو یہ غیرعادلانہ رویہ ہوگا۔ماں کا اپنے بچوں سے امتیازی رویہ اور کسی ایک بچے سے کیا گیا ترجیحی سلوک بچوں میں حسد، انتقام اور رقابت کے جذبات بھی پیدا کرتے ہیں اور محبت کے بجاے نفرت جنم لیتی ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر باقی اولاد فساد کے خدشے سے احتجاج بھی نہ کرسکے تو پھر تنائو کی کیفیت سے بچنے اور گھریلو نظام کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے کیا کیا جائے، جب کہ ماں کا احترام اپنی جگہ مقدم ہے؟
جواب: قرآن پاک میں والدین کے بارے میں ارشاد فرمایا: اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) ’’اگر تیرے پاس ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچے یا دونوں تو ان کو اُف تک نہ کہو اور ان کو جھڑکو بھی نہیں اور ان کے ساتھ عزت سے بات کرو‘‘۔ اس آیت میں ماں باپ کے بڑھاپے کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں مزاج میں سختی آجاتی ہے۔ بعض اوقات بلاوجہ بھی ماں باپ ناراض ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں فرمایا کہ پھر بھی انھیں اُف تک نہ کہو۔ ماں کا کسی ایک بیٹے کی طرف میلان ہو اور وہ اس پر اعتماد کرے اور دوسروں پر اسے ترجیح دے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ ماں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر وہ پھر بھی ایسا کرتی ہے تو بچوں کو صبر کرنا چاہیے۔ ماں نے جوان کے لیے تکلیف برداشت کی ہے، جب وہ اس کے پیٹ میں تھے اور جب وہ اس کی گود میں تھے، اور کم از کم سات سال تک خدمت کی، جب کہ وہ خود اپنی کوئی خدمت کرنے کے قابل نہ تھے، لہٰذا ماں کے احسان کا بدلہ نہیں چکایا جاسکتا۔ بچے اگر عمربھر والدین کی خدمت کرتے رہیں تب بھی ماں باپ کی خدمت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ماں باپ کی نافرمانی کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ذلیل و خوار ہو ، وہ رسوا ہو۔ عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! کون؟ آپؐ نے فرمایا: وہ بدنصیب جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر ان کی خدمت اور ان کا دل خوش کرکے جنت حاصل نہ کرے۔
بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے حق کو اپنے حق سے بھی مقدم رکھا ہے۔ نبیؐ نے جہاد کے مقابلے میں ماں باپ کی خدمت کو ترجیح دی ہے۔ ایک آدمی یمن سے ہجرت کر کے مدینہ آیا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا: کہ یمن میں تمھارا کوئی ہے؟ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا انھوں نے تمھیں اجازت دی ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: واپس جائو اور ان سے اجازت مانگو۔ اگر تمھیں اجازت دے دیں تو آئو اور جہاد میں لگ جائو، اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے رہو۔ (ابوداؤد)
اس لیے آپ ماں سے نرمی اور ادب کے ساتھ اپنا حق مانگتے رہیں۔ اگر وہ حق ادا کرے تو بہتر ورنہ صبر سے کام لیں۔ آپ کے بھائی کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ اس کے ساتھ حسد نہ کریں۔ بلاوجہ بھائی کے ساتھ حسد کرنا برادران یوسف ؑکی سیرت ہے۔وہ حضرت یوسف ؑ سے حسد کرتے تھے کہ حضرت یعقوب ؑ یوسف علیہ السلام سے زیادہ محبت رکھتے تھے۔ قرآن پاک میں ان کے اس قول کو نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا: لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَۃٌ(یوسف ۱۲:۸) ’’یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہمارے مقابلے میں زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک مضبوط جماعت ہیں‘‘۔ اگرچہ برادرانِ یوسف ؑ کو اپنے باپ حضرت یعقوب ؑ سے یہ شکایت نہ تھی کہ وہ ان کے کسی حق کو تلف کر رہے ہیں۔ حضرت یعقوب ؑ کھلانے پلانے، لباس اور پوشاک اور عطیات میں مساوات کرتے تھے اور اسلام کا یہی حکم ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ اولاد میں مساوات رکھیں، جانب داری نہ کریں۔ آپ کی والدہ میں بھائی کی طرف داری کی کمزوری پائی جاتی ہے۔ آپ ایک کام یہ کریں کہ اسے برداشت کریں۔ دوسرا یہ کہ والدہ کے لیے دعا کریں کہ وہ طرف داری نہ کریں۔ تیسرا کام یہ کہ اللہ رب العزت جو خزانوں کا مالک ہے اور ہمارا اور ہمارے ماں باپ کا رب ہے اور ماں باپ کے پاس تھوڑا بہت جو بھی ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، ماں باپ تو فقیر ہیں اور محتاج ہیں اور اللہ غنی ہے۔ آپ اللہ سے مانگیں۔ اللہ اپنے خزانوں سے آپ کو اتنا کچھ دے دے گا جس کا تصور آپ اور آپ کی والدہ نہیں کرسکتیں۔ اللہ سے تعلق بڑھائیں، اس کی عبادت میں لگ جائیں۔ اقامت دین کے لیے جدوجہد کریں ، اسلامی تحریک کا ساتھ دیں، ملک و ملّت کی خدمت کریں۔ والدہ کی بھی خدمت کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کو بھی ٹھیک کردے گا اور تمام مسائل اور مشکلات کو بھی حل کردے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی بندگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یاربنا کریم، واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (مولانا عبدالمالک)