بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن پاک نے افراد اور اقوام کی زندگی میں بار بار واقع ہونے والی اس صورت حال کو بڑے مختصر مگر جامع انداز میں بیان فرما دیا ہے کہ انسان اپنے طور پر طرح طرح کی منصوبہ سازیاں اور تدبیریں کرتا ہے مگر بالآخر اللہ ہے جس کی تدبیر غالب ہوکر رہتی ہے۔ وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔
پاکستان کی تاریخ میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر کی کارفرمائی کا نظارہ ہم نے بار بار دیکھا ہے اور اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخاب کے فیصلہ کن مرحلے میں پاکستان کو شمالی وزیرستان پر فوج کشی کی آگ میں دھکیلنے اور اس سے امریکی ووٹروں کے دل جیتنے کا جو شاطرانہ منصوبہ بنایا گیا تھا وہ کانچ کے گھر کی طرح پاش پاش ہو گیا ہے۔
۱۴؍اگست پاکستانی قوم کے لیے خوشی اور شکر کا ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ اس سال عین اس دن، امریکا کے ڈیفنس سیکرٹری لیون پانیٹا نے امریکی عوام کو یہ مژدہ سنایا کہ پاکستان اور امریکا کی اعلیٰ فوجی اور سیاسی قیادت نے اس امر پر اتفاق کرلیا ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں جلد فوجی آپریشن شروع کردے گا اور اس طرح امریکی حکام کے الفاظ میں: ’’تاریخ کے سب سے زیادہ عرصے تک مؤخر کیے جانے والے اقدام‘‘ (most delayed operation) کا آغاز ہوجائے گا۔ اس کے لیے پاکستان پر دبائو اور لالچ دونوں حربوں کے استعمال کے ساتھ امریکی کانگریس کی طرف سے امریکی سیکرٹری خارجہ کو ’حقانی نیٹ ورک‘ کو افغانستان پر فوج کشی کے ۱۱سال کے بعد ’دہشت گرد گروہ‘ قرار دینے کا مطالبہ بھی داغ دیا گیا، اور وزارتِ خارجہ نے ۳۰ دن کے اندر اس راز کو، اس گروہ کے بارے میں جس سے سیاسی مذاکرات کے لیے سرتوڑ کوشش کی جارہی تھی فاش کردیا ہے جسے ۱۱سال سے اپنے سینے میں چھپایا ہوا تھا۔
یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ ۱۴؍اگست ۲۰۱۲ء ہی کو کاکول اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل پرویز کیانی نے پاکستان کی آزادی، سلامتی اور اسلامی شناخت کے بارے میں کچھ بڑی دل کش باتوں کے ساتھ بڑے چپکے سے یہ بھی ارشاد فرمادیا کہ انتہاپسندی ایک قسم کا شرک ہے، دہشت گردی اسی ذہنیت کی پیداوار ہے، اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل امریکا کی نہیں ہماری اپنی جنگ ہے، اور ہے تو بڑا ہی مشکل اور تکلیف دہ کام، لیکن فوج کو خود اپنی قوم کے خلاف بھی لام بندی کرنا پڑجاتی ہے۔ البتہ اتنی گنجایش رکھی کہ اس کام کے لیے قوم کی تائید اور سیاسی قیادت کی سرپرستی ضروری ہے۔ ملک کی لبرل اور امریکا نواز لابی نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر شمالی وزیرستان پر لشکرکشی کے لیے مہم چلا دی اور پی پی پی اور اے این پی کی قیادت نے کبھی ہلکے سُروں میں اور کبھی اُونچی آواز سے اسی لَے میں لَے ملانا شروع کر دی۔ اب یہ بھی ایک معما ہے کہ عین اس ماحول میں سوات کی ایک معصوم بچی پر اور اس کی دو سہیلیوں پر حملہ ہوتا ہے اور حسب ِ سابق پاکستانی طالبان نے اس کی نہ صرف ذمہ داری بھی قبول کرلی بلکہ اس کا جواز بھی بڑھ چڑھ کر پیش کردیا۔
پاکستان کی دینی اور سیاسی قیادت نے بجاطور پر اس ظالمانہ حملے کی بھرپور مذمت کی اور پوری قوم نے یک زبان ہوکر اس خلافِ اسلام اور خلافِ انسانیت کارروائی کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے مطابق قرارِ واقعی سزا کے دیے جانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس معصوم بچی کا نام استعمال کرکے شمالی وزیرستان میں فوج کشی کے لیے ایک دوسرا ہی نقشۂ جنگ تیار کر لیا گیا۔ امریکی قیادت، ناٹو کے جرنیل اور سیاست دان، عالمی میڈیا، خود پاکستان کی پی پی اور اس کے اتحادیوں کی قیادت اور لبرل امریکی لابی سب نے یک زبان ہوکر اس مطالبے کی تائید کی اور وزیرداخلہ نے صاف لفظوں میں فوجی آپریشن کا بھاشن دے ڈالا۔ اس بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ محض اتفاق تھا یا کسی سازش کا حصہ، یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ایک معصوم لڑکی کے ساتھ اس ظلم کو، اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ایک کاری وار کیاگیا لیکن اللہ کی مشیت کااپنا نظام ہے۔ قوم کے باشعور افراد، خصوصیت سے دینی قیادت، بالغ نظر صحافی اور کئی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اس کھیل کا بروقت توڑ کیا۔ غلط کو غلط کہا اور پوری قوت سے کہا، مگر اس ظالمانہ اقدام کی آڑ میں، ملک کو ایک نئی جنگ کے جہنم میں دھکیلنے کے جس خطرناک کھیل کا آغاز ہونے والا تھا، اسے ناکام بنا دیا اور وہی وزیرداخلہ جو تلوار نکال کر حملے کے لیے پَر تول رہے تھے یوٹرن لیتے نظر آئے اور زرداری صاحب بھی قومی اتفاق راے کے مفقود ہونے کا نوحہ کرنے لگے۔
پاکستانی اور مغربی میڈیا اور خصوصیت سے سوشل میڈیا پر اب جو کچھ آگیا ہے، اس نے پورے کھیل کے سارے ہی پہلو کھول کر سامنے رکھ دیے ہیں اور اس خونیں ڈرامے کے تمام ہی کرداروں کے چہروں سے پردہ اُٹھا دیا ہے۔ ہم صرف ریکارڈ کی خاطر تین افراد کی شہادت اور تجزیہ پاکستانی قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کے غوروفکر کے لیے بیان کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم اس صحافی، یعنی سید عرفان اشرف کی شہادت اور اس کے احساسِ ندامت کو پیش کرنا چاہتے ہیں جس نے وہ پہلی دستاویزی فلم (documentary) بنائی جس میں ۱۱سال کی معصوم بچی کے جذبات محض تعلیم سے اس کی محبت کے تذکرے کی خاطر ریکارڈ کیے گئے تھے اور پھر اس سے کیا کیا گل کھلائے گئے اس پر خود اس کا کیا احساس ہے۔ سید عرفان اشرف اس وقت امریکا کی سائوتھ اِیلی نوئس (Illinois) یونی ورسٹی (بمقام کاربون ڈیل) سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ان کا مضمونPredatory Politics and Malala ڈان، کراچی میں شائع ہوا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک معصوم سے تعلیمی منصوبے کے ذریعے سیاست کاری کے کیاکیا گل کھلائے گئے اور میڈیا اور میڈیا کی ڈورہلانے والے سیاسی شاطر کیا کیا کھیل کھیلتے ہیں:
پھر دوبارہ مشق ہم سب کے لیے تہلکہ آمیز تھی۔ پس اس نے مجھے صحافیانہ اخلاقیات سے بھی اندھا کر دیا اور اپنے دوست ضیاء الدین کی حفاظت سے بھی۔ مجھے یہ احساس ایک بار بھی نہ ہوا کہ اس صورت حال میں نوعمر ملالہ کے لیے خطرہ ہے۔ یہ جزوی بات تھی اس لیے کہ دستاویزی فلم تعلیم سے متعلق تھی اور فلم کے مختلف حصوں کی وڈیو بنانا روز کا معمول تھا۔ مجھے مسئلے کی نوعیت کی شدت کا احساس اس وقت ہوا جب نیویارک ٹائمز نے Class Dismissed کے نام سے ایک مختصر دستاویزی فلم جاری کی۔ آدم بی الیک اور میری مشترکہ پیش کش پر مبنی اس فلم نے جو ضیاء الدین کے گھر اور اسکول میں بنائی گئی اور جس میں ملالہ مرکزی کردار تھی، غیرملکی ناظرین کو بہت متاثر کیا۔ اسی وقت سے اس خوف نے مجھے گھیر لیا کہ اس طرح ملالہ ایک دہشت ناک دشمن کے سامنے expose ہوگئی ہے۔ جب میں اسے ٹیلی ویژن پر دیکھتا تھا تو یہ خوف احساسِ جرم میں بدل جاتا تھا۔
اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منصوبوں سے الگ کرلیا۔ پھر میڈیا نے اگلے تین برس میں ملالہ کی تعلیم کی حمایت کو تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف ایک بھرپور مہم میں بدلنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ سیاست دان ملالہ کی جواں توانائیوں کواستعمال کرنے میں میڈیا کی مدد کے لیے اس جھگڑے میں کود پڑے۔ TTP مخالف ایک مضبوط ڈھانچا اس کے نازک کاندھوں پر کھڑا کردیا گیا۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ یہ میڈیا کے کردار کے بارے میں تشویش کا باعث ہے کہ یہ نوجوانوں کو کس طرح ایک گندی جنگ میں گھسیٹ لاتا ہے جو معصوم لوگوں کے لیے ہولناک نتائج کا باعث ہے۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ گذشتہ عشرے میں اگر عوام کی بڑھتی ہوئی وابستگی نے ایک طرف سیاست دانوں کو اپنی بڑی بڑی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے سموک سکرین مہیا کی ہے، تو دوسری طرف ان قربانیوں نے سیکورٹی فورسز کو ایک مشکل دشمن کے ساتھ آنکھ مچولی جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
ایک مسئلے سے دوسرے مسئلے تک میڈیا کے ذریعے مبالغے کے ساتھ مسائل کو بڑھایا جاتا ہے، جب کہ لوگ مذمت کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس ظالمانہ سیاست سے حقیقت مجروح ہوجاتی ہے اور خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں عسکریت کو فروغ ملتا ہے۔ سیکورٹی آپریشن واضح طور پر مؤثر ہوتے ہیں اور ورکنگ فارمولا مسلح دستوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ اُس علاقے کے ۹۰ فی صد حصے پر کنٹرول حاصل کرلیں اور بقیہ عسکریت پسندوں کے لیے چھوڑ دیں۔ معاملات کی یہ گنجلک کیفیت، برسرِاقتدار اشرافیہ کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ تنازعے کو طول دے سکیں، لیکن وہ عسکریت کو شکست نہیں دے سکتے۔ مرکزی رَو کی سیاسی جماعتیں یہ برداشت نہیں کرسکتیں کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے منظر پر اُبھر کر سامنے آئیں اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے واضح پالیسی کا اعلان کریں۔ پس اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ میں کون جیتے گا؟ کیا اس تنازعے کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے مزید شہریوں کے خون کی ضرورت ہے؟ (ڈان، کراچی، ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)
اس دل خراش داستان کا ایک پہلو یہ ہے۔ ایک دوسرا پہلو بھی غورطلب ہے جسے خاصی تفصیل کے ساتھ ڈیو لنڈوف (Dave Lindorff) نے کاؤنٹر پنچ کی ۱۸؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں پیش کیا اور جو عالمی طاقتوں اور اربابِ سیاست کے دوغلے پن (duplicity) اور بے ضمیری (hypocracy) کا آئینہ دار ہے:
افغانستان اور پاکستان میں پچھلے ہفتے چھے بچوں پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ تین نوبالغ (teenage) لڑکیاں پاکستان میں جن میں سے ایک ملالہ یوسف زئی شدید زخمی ہوئی۔ دوسرا حملہ افغانستان کے ہلمند صوبہ کی تحصیل ناوا میں جس میں امریکی ہوائی جہاز کے حملے میں تین بچے ہلاک ہوئے: ۱۳سالہ بارجان، ۱۰سالہ سردار ولی اور ۸سالہ خان بی بی۔ تینوں ایک ہی خاندان کے چراغ تھے جو اپنے گھر کے لیے ایندھن کے لیے گوبر جمع کر رہے تھے۔ تین پاکستانی بچوں پر حملہ طالبان نے کیا (گو، وہ بچ گئیں) اور افغانستان میں تین معصوم بچوں پر حملہ امریکا کی فوج نے کیا جسے اپنے ٹھیک ٹھیک نشانے (precision attack) پر ناز ہے اور تینوں جان کی بازی ہار گئے۔
اس دوسری تفصیل سے کئی سوالات فوری طور پر اُبھرتے ہیں: سب سے پہلے، یہ اگر تین بچے اس قدر قریب تھے کہ وہ اس ’تیر بہ ہدف‘ حملے سے مارے جاتے تو پھر یقینی طور پر وہ اتنے قریب بھی تھے کہ طالبان مجاہدین کی کارروائی کی نگرانی کرنے والے جہاز کو بھی نظر آجاتے اور اُس فضائی حملے کی ضرورت ہی نہ پڑتی جس کا بندوبست کیا گیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ امریکا الزامی طور پر کوشش کر رہا ہے کہ شہریوں کی جان کے اِتلاف کو کم کرے۔ اب فرض کرلیجیے کہ فضائی حملے متقابل فوجوں کی جھڑپ (rules of engagement) کے قانون کے مطابق کیے جارہے ہیں، تب بھی حملوں کی اجازت اُس وقت ہوتی ہے جب ’امریکا یا اتحادی افواج کے لیے خطرہ منڈلا رہا ہو۔
LED کی تنصیب کس طرح منڈلاتا ہوا خطرہ بن گئی؟ اگر حقیقی مقام معلوم ہو، اُس علاقے کے فوجی دستوں کو خبردار کیا جاسکتاہے۔ LED ہٹایا بھی جاسکتاہے اور اُڑایا بھی جاسکتا ہے۔ شناخت کردہ LED منڈلاتا ہوا خطرہ نہیں ہوسکتا۔ امریکی ذرائع ابلاغ، تین پاکستانی لڑکیوں اور حوصلہ مند لڑکیوں کی تعلیم کے باب میں وکیل ملالہ پر حملے کی کوریج کرتے ہوئے لبریز دکھائی دیتے ہیں۔ تین افغان بچوں کی موت پر یہ سب کچھ نہیں ہوا، تاہم نیویارک ٹائمز نے ایک نام نہاد حملے میں مقبوضہ افغان اتحادیوں کے ہاتھوں ہلاکت پر امریکی فوجیوں کی ’سبز پر نیلی اموات‘٭ نامی مضمون کے اختتام کے نزدیک چند پیراگراف لگادیے۔
پاکستان اور امریکا، دو ایسے ممالک ہیں کہ جہاں بچوں پر ہونے والے دو حملوں کا ردعمل انتہائی واضح طور پر مختلف ہے۔ ملالہ اور اُس کی دو ہم جماعت ساتھیوں پر حملے کے بعد پاکستان میں ہزاروں پاکستانی سڑکوں پر نکل آئے تاکہ طالبان جنونیوں کے اقدام پر احتجاج ریکارڈ کراسکیں اور اُن کی گرفتاری اور اُن کو سزا دینے کا مطالبہ کرسکیں (جرم میں معاونت کرنے والے دو ملزموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے)۔ حکومت ِ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ قرار پانے والے قاتلوں کو سزا دی جائے گی۔ نیز ملالہ کی برطانیہ میں ایک بہتر اور محفوظ ہسپتال میں منتقلی کے اخراجات بھی برداشت کیے ہیں۔ دوسری دو لڑکیوں کے تحفظ کے لیے بھی مسلح گارڈ فراہم کردیے گئے ہیں۔
اسی اثنا میں، امریکا میں بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن کی اپنی ملٹری نے تین افغان بچوں کو بھون کر رکھ دیا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اگر اُنھیں اس کا علم ہوبھی جاتا، تب بھی وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتے۔سڑکوں پر ایسے بھرپور مظاہرے نہ ہوتے جن میں مطالبہ کیا جاتا کہ فضائی حملے بند کیے جائیں اور ڈرون حملے کے ذریعے قتل کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ صرف ۲۸ فی صد امریکی کہتے ہیں کہ اُنھیں ڈرون کے ذریعے حملے جاری رکھنے پر اعتراض ہے۔اگرچہ یہ واضح ہے کہ ڈرون حملے سیکڑوں___ شاید ہزاروں معصوم شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان میں اسکول کی لڑکیوں پر حملہ کرنے والوں کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔ یقینی طور پر اُن کو مکروہ جرم کی پاداش میں قید کی سزا ملے گی، یہ سلوک اُس پائلٹ اور حملہ کرنے والے افراد کے ساتھ نہ کیا جائے گا جنھوں نے اس ہلاکت خیز حملے میں حصہ لیا جس کے باعث تین افغان بچے زندگی سے محروم ہوگئے۔
واپسی پر اُن کا خیرمقدم ، اُن سے ملنے والے جنگ سے واپس آنے والے ’ہیرو‘ کے طور پر کریںگے۔ لوگ اُن کے قریب سے گزریںگے اور کہیں گے: ’’آپ کی خدمات پر آپ کا شکریہ‘‘۔ چاہے اُس خدمت میں معصوم بچوں کو ہلاک کرنے کی ’خدمت‘ بھی شامل ہو۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ جن تین بچوں کو نشانہ بنا کر امریکی فوجیوں نے ہلاک کرنے کا جو اقدام کیا ہے وہ افغان حکومت کے ساتھ، قوت کے استعمال کے جن اصولوں پر اُنھوں نے اتفاق کر رکھا ہے، اُس کی بھی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اگرچہ ٹائمز نے جو شہ سرخی لگائی ہے اُس کا عنوان ہے: ’’اتحادیوں کے حملے میں افغان بچوں کی ہلاکت پرسوالات اُٹھائے گئے‘‘ لیکن اس سوال کا ذکر کہیں نہیں ملتا؟ نہ ٹائمز نے ہی ایمان داری سے یہ رپورٹ کیا کہ یہ امریکی حملہ تھا، جوابی حملہ نہیں تھا۔(کاؤنٹر پنچ،۱۸ ؍اکتوبر۲۰۱۲ئ)
لیکن بات صرف ان چھے بچوں تک محدود نہیں۔ صرف پاکستان میں ڈرون حملوں سے امریکی یونی ورسٹی کی تحقیق کے مطابق ۳ہزار۳سو سے زیادہ افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں جن میں سے صرف ۴۱ کے بارے میں معلومات ہیں کہ ان کا کوئی تعلق القاعدہ یا طالبان سے تھا۔ ۹۸ فی صد عام شہری تھے جن میں سیکڑوں بچے شہید ہوئے۔ یہی خونیں داستان افغانستان کی ہے، عراق کی ہے، کشمیر کی ہے، فلسطین کی ہے، برما کی ہے___ اور نہ معلوم کہاں کہاں روے زمین پر معصوم انسانوں کا خون اسی طرح بہایا جارہا ہے اور ظالم کا ہاتھ روکنے والا اور قاتل کو قرارواقعی سزا دینے والا کوئی نہیں۔ کیا یہی ہے تہذیب و تمدن کا عروج اور جمہوریت کا فروغ؟
اس سارے گھنائونے کھیل کو کیا نام دیا جائے؟ پاکستان کے ایک سابق نام ور سفیر اور تجزیہ نگار جناب آصف ایزدی نیوز انٹرنیشنل میں اپنے مضمون Malala and the Terrorist Mindset میں یہ کڑوا سچ بڑے صاف الفاظ میں رقم کرتے ہیں:
سینٹ میں ایک تقریر کے دوران وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ ملالہ پر حملے کے پیچھے ’کارفرما ذہن‘ کے ساتھ جنگ کی جائے۔ اُنھیں یہ ضرور جان لینا چاہیے کہ دہشت گردی کے تخلیقی سبب کی تلاش ایک کے بعد دوسری پاکستانی حکومت کی اُن پالیسیوں میں ملے گی جن کی وجہ سے تنخواہوں میں بہت بڑا فرق ہے، بدعنوانی کا چلن ہے اور عام آدمی کو تعلیم اور سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں شرکت کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ جب تک ان مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاتا، اس ذہنی رویے کے، جس کی اُنھوں نے نشان دہی کی ہے، پھلنے پھولنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور کسی بھی قسم کا فوجی آپریشن نہ صرف بے نتیجہ بلکہ ضرر رساں ہو گا۔
ملالہ ایک بچہ سپاہی ہے جسے ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کے پروپیگنڈا محاذ پر غیرمسلح اورتنہا روانہ کردیا گیا۔ اُس کے لیے وہی کردار طے کیا گیا جو طالبان کے ۱۵/ ۱۸ برس کے خودکش بم باروں کا ہوتا ہے، تاہم اُس کے بچ جانے کے امکانات نسبتاً بہتر تھے۔ یہ معجزے سے کم نہیں کہ وہ ابھی تک ہمارے پاس ہے۔
ملالہ اس قدر کم عمر ہے کہ اُس کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کس کے خلاف کام کر رہی ہے اور اُس کی اپنی ذات کے لیے اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ ملالہ پر جو کچھ گزری ہے اُس کی ذمہ داری مکمل طور پر اُن کے سر ہے جنھوں نے اُ س نظریہ پرستی کا تنفرانہ استحصال کیا، صرف اس لیے کہ اس طریقے سے وہ اسٹرے ٹیجک اہداف اور سیاسی مقاصد حاصل کرسکیں۔
ایک طرف، جب کہ ہم دعاگو ہیں کہ وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے، ہمیں اُن کو یہ اجازت نہ دینی چاہیے کہ وہ اپنے گناہ کو مذمت کے خنک دار بیانات سے چھپائیں یا گولی مارنے کے افسوس ناک واقعے کو، ہمارے ملک میں قتل عام اور تنازعات میں گہرا دھکیلنے کے لیے استعمال کریں۔ (نیوز انٹرنیشنل، ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)
ملالہ بلاشبہہ ایک مظلوم بچی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم سب اس کی صحت یابی اور روشن مستقبل کے لیے دعاگو ہیں لیکن وہ صرف اس لیے مظلوم نہیں کہ اس معصوم بچی پر قاتلانہ حملہ ہوا، بلکہ وہ اس لیے بھی مظلوم ہے کہ اس بچی کو کون کون اور کس کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گولی کے نشانے پر لگنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس بچی کو دنیا بھر کے لیے معجزانہ طور پر بچالیا اور یہ بھی اس کا کرم ہے کہ پاکستان کو جس آگ میں دھکیلنے اور پاکستان اور افغان قوم کے ایک بڑے حصے کو تصادم، منافرت، بدلے اور نہ ختم ہونے والی جنگ کی آگ میں دھکیلنے اور امریکی انتخابات میں اس خونیں کھیل کو ایک شعبدے کے طور پر استعمال کرنے کا جو شیطانی منصوبہ بنایا گیا تھا وہ خاک میں مل گیا۔وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)
الحمدللہ! وہ سیاہ بادل جو مطلع پر چھا گئے تھے چھٹ گئے ہیں مگر کیا خطرہ فی الحقیقت ٹل گیا؟ جہاں ہمیں اللہ کی رحمت اور اعانت پر پورا بھروسا ہے، وہیں اس امر کا اِدراک بھی ضروری ہے کہ پاکستان شدید اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے جن کا اِدراک اور مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی اور مؤثر کارفرمائی ازبس ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہم بہت ہی اختصار کے ساتھ چند گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے بلاشبہہ دہشت گردی ایک جرم ہے، خواہ اس کا ارتکاب افراد کریں، یا گروہ یا حکومتیں۔ دہشت گردی انسانی تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے اور اس کا مقابلہ بھی کیا گیا ہے اور کامیابی سے افراد اور معاشرے کو اس سے محفوظ کیا گیا ہے۔ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کا نیویارک کے ٹریڈٹاور اور واشنگٹن کے پینٹاگان پر حملہ دہشت گردی کے اندوہناک واقعات تھے مگر دہشت گردی کا آغاز نہ اس واقعہ سے ہوا اور نہ اس کے نتیجے میں دہشت گردی کی نوعیت میں کوئی جوہری فرق ہی واقع ہوا۔ البتہ امریکا نے اس واقعے کو جنگ کا نام دے کر اور اس کے مقابلے کے لیے قانون، افہام و تفہیم، تعلیم اور اصلاحِ احوال کے لیے سیاسی اور معاشی تدابیر کا مجرب راستہ اختیار کرنے کے بجاے، جنگ اور قوت کے بے محابا استعمال کا حربہ استعمال کیا اور پوری دنیا کو ان ۱۱برسوں میں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کو دہشت گردی اور جنگ کو جنگ رکھا جائے اور سیاسی مسائل کے عسکری حل کی جو خون آشام حماقت کی گئی ہے، اس سے جلد از جلد نجات پانے کا راستہ نکالا جائے۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جس طرح دہشت گردی اور جنگ کو خلط ملط کیا گیا ہے اسی طرح دہشت گردی اور تشدد، اور تشدد اور انتہاپسندی اور انتہاپسندی اور جدت کو گڈمڈ کرنا ژولیدہ فکری اور کوتاہ اندیشی کا تباہ کن شاہکار ہے۔ ان میں سے ہراصطلاح کا اپنا مفہوم ہے اور ہرایک کا اپنا کردار ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں ردعمل دینے (respond) کا اپنا انداز ہے۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس خطرناک مغالطے کا نتیجہ ہے کہ بات ذہنی رویے اور سوچ (mindset) کی کرتے ہیں اور اس کے مقابلے کے لیے اقدام فوج کشی تجویز کرتے ہیں، حالانکہ خیالات کا مقابلہ خیالات سے، نظریات کا نظریات سے، دعوے کا دلیل سے کیا جاتا ہے، ڈنڈے اور گولی سے نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں دہشت گردی کا مقابلہ اس سے بڑی دہشت گردی سے کرنے کی جب بھی کوشش کی گئی ہے، وہ ناکام رہی ہے۔ دل اور دماغ کی جنگ دلیل اور نظریات کے ذریعے جیتی جاتی ہے۔ سیاسی، معاشی اور سماجی بنیادوں پر رُونما ہونے والے تشدد کا مداوا بھی ان اسباب کو دُور کر کے ہی کیا جاسکتا ہے، جو لوگوں کے اختلافات اور شکایات کو تصادم اور تشددکی طرف لے جانے کا باعث ہوتے ہیں۔ امریکا کے محکمۂ دفاع کا ایک ہمدرد تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن ہے جس نے اس موضوع پر اپنی تحقیق کے نتائج میں نمایاں طور پر یہ بات کہی ہے کہ دہشت گردی کا حل قوت کا استعمال نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سیاسی معاملہ بندی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ مائیکل شینک لندن کے اخبار دی گارڈین (۲۵جولائی۲۰۱۲ئ) میں اپنے مضمون بعنوان The Costly Errors of American Wars میں لکھتا ہے:
ہماری جنگیں اس قدر مہنگی کیوں ہوچکی ہیں؟ امریکی وزارتِ دفاع سے قربت رکھنے والی رینڈ کارپوریشن کی راے ہے کہ ۸۴ فی صد دہشت گردتنظیموں کو ختم کرنے یا بے دست و پا کرنے میں پولیس ، سراغ رسانی اور مذاکرات انتہائی اہم اسٹرے ٹیجک اقدامات کررہے ہیں، جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خطیر وسائل، بھاری فوجی اور فضائی لائولشکر کی قدر کر رہے ہیں، بشمول ۴۰،۴۰؍ارب ڈالر والی مشترکہ حملہ کرنے والی مہنگی آنٹرمز۔ یہ اسٹرے ٹیجک ہتھیار تیزی سے حرکت کرنے والے اور جگہ جگہ پائے جانے والے گروہوں کے مقابلے میں غیرمؤثر ہیں۔ اس قدر انحصار کیوں؟ چونکہ دفاعی صنعت نے ہرریاست میں اور کم و بیش کانگریس کے ہر ڈسٹرکٹ میں ایسے آپریشن شروع کیے ہیں اور چونکہ اُس کی لابی واشنگٹن میں انتہائی طاقت ور ہے۔ رینڈ نے جو تجویز کیا ہے ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے اور بہت کم اخراجات میں کئی اور ممالک میں صلاحیت پروان چڑھانا چاہیے۔
امریکی افواج کے ادارے رائل یونائیٹڈ اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور مستقبل کے بارے میں کوئی افہام و تفہیم (understanding) ایسی مشکل بات نہیں ہے۔ طالبان میں گفت و شنید کے راستے کو اختیار کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ اسی طرح شریعت کی تعبیر، تعلیم اور خصوصیت سے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں وہ اتنے کٹّر اور انتہاپسند نہیں جتنا کہ ہمیں خطرہ ہے۔ اور پھر اس رپورٹ میں صاف الفاظ میں عسکری راستے کی جگہ سیاسی راستے کے امکانات کا ذکر کیاگیا ہے:
مذاکرات کے ذریعے اُن غلط فہمیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کی وجہ سے تنازعے نے آگ پکڑ لی ہے۔ جیساکہ شورشوں (insurgencies) سے نجات کے کئی اور واقعات میں ہوا۔ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے تشدد کی شدت اور ہونے والے واقعات کی تعداد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ بصورتِ دیگر تشدد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ چونکہ طالبان اور طاقت رکھنے والے دیگر گروہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ناٹو کی ہنگامی روانگی کے بعد خلا کو بھریں، افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کی جو خامیاں ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں توقع رکھنا چاہیے کہ طالبان کا دیہی شہری جنوب، جنوب مشرق اور مغرب میں کنٹرول بڑھ جائے گا۔ اس تمام سے واضح ہوجاتا ہے کہ راے عامہ کے سروے اور تحقیق کیوں ظاہر کرتے ہیں کہ افغانوں کی غالب اکثریت چاہے مرد ہوں یا عورتیں، مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ اہمیت اس چیز کو دی جائے کہ کسی بھی شرط کے بغیر کثیرجماعتی ٹھوس بنیاد رکھنے والے کھلے مذاکرات کا اہتمام کیا جائے۔ جس رفتار سے فوجی دستوں اور امداد میں کمی آرہی ہے۔ اسی رفتار سے عالمی برادری کی مختلف جماعتوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت، امن کے عمل کے قیام اور ۲۰۰۱ء کے بعد حاصل ہونے والے فوائد سمیٹنے میں واقع ہورہی ہے۔ متفقہ مصالحت کاروں اور ثالثوں کی موجودگی، مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ اب موجود نہیں ہیں۔ پاکستان کے تعاون کے بغیر کوئی بھی ذریعہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو مذاکرات میں ایک نشست ملے یا نہ ملے، اس کے افسران کو لازمی طور پر مذاکرات میں شریک رہنا چاہیے۔ جوں جوں مذاکرات قوت حاصل کریں گے اُسی قدر شمالی اور وسطی افغان سیاسی گروہ اِن میں شمولیت اختیار کرتے رہیں گے۔ (ملاحظہ ہو Matt Waldman کا مضمون بعنوان Why It's Time for Talks with the Taliban ، دی گارڈین، ۱۰ستمبر ۲۰۱۲ئ)
امریکی قیادت طاقت کا کتنا ہی استعمال کیوں نہ کرڈالے سیاسی حل کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ حالات کی اصلاح کے لیے پاکستان ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن وہ کردار شمالی وزیرستان میں جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے سے ادا نہیں ہوسکتا۔ وہ جنگ کی آگ کو ٹھنڈاکرنے سے ہی ہوسکتا ہے، لیکن دانا اور طاقت کے نشے میں مست نادان میں فرق یہ ہی ہے کہ نادان پہلے حالات کو بگاڑتا ہے اور پھر وہی کچھ کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو دانائی کا تقاضا ہے کہ ؎
ہرچہ دانا کند، کند ناداں
لیک بعد از خرابیِ بسیار
(ترجمہ: جو کچھ دانا کرتا ہے، نادان بھی بالآخر وہی کچھ کرتا ہے، لیکن خرابی بسیار کے بعد )۔
یہی وہ حکمت عملی ہے جو پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنی تین متفقہ قراردادوں میں طے کی ہے اور جس کی تفصیل پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے ایک واضح نقشۂ کار کی شکل میں مرتب کی ہے لیکن اکتوبر ۲۰۰۸ئ، اپریل ۲۰۰۹ء ، مئی ۲۰۱۱ء اور اپریل ۲۰۱۲ء کی ان تمام ہدایات کوعملاً ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور امریکا کے اشارئہ چشم و آبرو اور ترغیب وترہیب (carrot & stick) دونوں کے بے محابا استعمال کے نتیجے میں ملک کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیاگیا اور اسے مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کی مہم امریکا، امریکی لابی، اور امریکا کی باج گزار قیادت پوری قوت سے چلارہی ہے۔
امریکا عراق اور افغانستان میں ناکام رہا ہے۔ عراق کو جلتا ہوا اور تباہ حال چھوڑ کر رخصت ہوگیا ہے اور افغانستان کو تباہ و برباد کر کے اور خود اپنے فوجیوں کی ۲ہزار اور ناٹو کی ۸۰۰ سے زیادہ ہلاکتوں، نیز ان سے ۱۰گنا زیادہ کے شدید مجروح ہونے اور دماغی اور جسمانی امراض اور محرومیوں کا نشانہ بنانے، خود ان دونوں مظلوم ممالک کے ۲لاکھ سے زیادہ افراد کو لقمۂ اجل بنانے، لاکھوں کو بے گھر کرنے اور خود اپنے ۴ہزار ارب ڈالر سے زیادہ پھونک دینے کے باوجود ناکام و نامراد واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں دیکھتا ہے۔ لیکن اس پر بضد ہے کہ مسئلے کا عسکری حل ہی تھوپنے کی کوشش جاری رکھے گا اور پاکستان کو اپنے برادر ہمسایہ ملک اور اس کے باسیوں سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں اُلجھا کر جائے گا۔ ویسے تو ۲۰۱۴ء میں فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن امریکا کے سیاسی تجزیہ نگار اور تھنک ٹینک یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انخلا اس سے پہلے کیا جائے۔
نیویارک ٹائمز نے ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں اپنی تاریخ کا طویل ترین اداریہ لکھا ہے جو ۱۸۵۶ الفاظ پر مشتمل ہے اور اس کا ماحصل یہ ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جاسکتی، اس لیے جلد واپسی کا راستہ اختیار کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ ۲۰۱۳ء کے آخیر تک امریکی اور ناٹو کی افواج واپس آجائیں۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل فاگ راسموسن(Fog Rasmussen) نے بھی اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ۲۰۱۴ء سے پہلے ہوجانا چاہیے۔ اسی راے کا اظہار کابل میں برطانیہ کے سفیر نے کیا ہے۔ فرانس نے ۲۰۱۲ء ہی کے اختتام تک اپنی فوجوں کی واپسی کااعلان کردیا ہے۔ ان حالات میں اصل ایشو جنگ کو بڑھانا نہیں، اسے سمیٹنا اور ختم کرنا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے اداریے کے یہ الفاظ امریکا اور ناٹو کے اس وقت کے ذہن کی پوری عکاسی کرتے ہیں:
ریاست ہاے متحدہ امریکا کی افواج کے لیے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ افغانستان چھوڑ دیں (کیونکہ) امریکا صدر اوباما کے محدود مقاصد کو حاصل نہ کرسکے گا اور جنگ کو طول دینے کا مقصد صرف یہ ہوگا کہ نقصان بڑھ جائے۔
اس سوچ کو فروغ دینے میں عسکری اہداف میں ناکامی، اور بڑھتی ہوئی معاشی قیمت اور امریکا اور یورپی ممالک کے روزافزوں مالیاتی خساروں کے علاوہ راے عامہ کی تبدیلی اور خود افغان عوام ہی نہیں، ان افغان افواج تک کے ہلاکت خیز حملے ہیں جن کی تربیت امریکی افواج نے کی ہے اور جن کو آیندہ افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔
ان حالات میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنا صرف اپنی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، اور اس جنگ کو اپنی جنگ کہنا حقائق کا منہ چڑانا اور عوام کے، جن کی ۹۷ فی صد عظیم اکثریت امریکی فوجی کارروائیوں کی مخالف ہے، کے منہ پر طمانچا مارنا ہے۔
اصول اور سیاسی حکمت عملی، دونوں ہی اعتبار سے اس سے بڑا خسارے کا کوئی اور سودا نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخارمحمد چودھری نے اس ہفتے ’قیامِ امن بذریعہ قانون‘ کے موضوع پر ایک نہایت پُرمغز خطبہ دیا ہے جس میں ’دہشت گردی کے نام پر جنگ‘ کی حکمت عملی کے مقابلے میں انصاف، آئین اور قانون کی بالادستی پر مبنی حکمت عملی کا نقشہ پیش کیا ہے۔ پارلیمنٹ نے جو خطوطِ کار طے کیے تھے اور چیف جسٹس نے جن کو اپنے انداز میں بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ اس آگ سے نکلنے اور ملک و قوم کو امن اور خوش حالی کے راستے پر گامزن کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔
اگر پاکستان آج ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہے جن میں امن ایک سہانا خواب لگتاہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ماضی میں کیے گئے گناہوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔ یہ ایک ناگوار حقیقت ہے کہ عرصۂ دراز سے ہم نے اپنے آئین کے ساتھ وہ برتائو نہیں کیا جس کا وہ حق دار تھا۔ قانون کی ناتواں حکمرانی نے عسکری نظریات کو جنم دیا۔ جو قومیں آئین کااحترام کرتی اور اسے حقیقی طور پر نافذ کرتی ہیں، وہ چیلنجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور تنازعات کا تصفیہ کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ آئین شکنی اور قانون کی حکمرانی سے انحراف نے ہمیں بھٹکا دیا اور قانون کی حکمرانی کو پاکستان میں نابود کیا۔ یہی وہ اسباب ہیں جنھوں نے تشدد اور لاقانونیت کی فضا قائم کی۔
ان حقائق کی روشنی میں جناب چیف جسٹس نے پارلیمنٹ سے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے حتمی طور پر عسکری تنظیموں کے بارے میں قانون سازی کرے اور حکومت ضروری اقدام کرے۔ ساتھ ہی انھوں نے صاف الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر پائی جانے والی بدامنی کا اصل سبب بھی ظلم اوربے انصافی ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ:
پیچیدہ اور جڑوں تک پہنچے ہوئے جھگڑوں نے دہشت گردی، ماوراے عدالت قتل، انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور دیگر برائیوں کو جنم دیا ہے، جو انتہاپسندی اور بنیادپرستی کی افزایش کرتے ہوئے عالمی امن کو مسخ کرنے کی وجہ بن رہی ہیں۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قانون، امن اور تہذیب کی اصولی تعلیمات کو بنیاد بناتے ہوئے افراد اور ریاستوں کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کیا جائے اور ان مواقع کو تلاش کیا جائے جو عالمی امن کے قیام میں مددگار ہوں۔ قانون کی حکمرانی کے ذریعے امن کا قیام چاہے مقامی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر،تنازعات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمیشہ انتہائی مفید ثابت ہوا ہے۔ میری راے میں تنازعات میں اُلجھے ہوئے لوگوں کے مابین حقیقی امن منصفانہ تصفیے کی بدولت ہی قائم ہوسکتا ہے۔ اور یہ تصفیہ متحارب جماعتوں کے لیے تب ہی قابلِ قبول ہوگا جب انھیں یقین ہو کہ اسے جائز اور قانونی طریقے سے بروے کار لایا جارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتاہے کہ کوئی بھی تصفیہ جس کی پشت پر قانون کی ضمانت نہ ہو، وہ دیرپا نہیں ہوگا اور ایسے منصفانہ تصفیے کے بغیر قیامِ امن ناممکن ہے۔
زمینی حقائق، عالمی حالات اور تاریخی تجربات سب کا حتمی تقاضا ہے کہ پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جلد از جلد امریکا کی اس جنگ سے نکلے اور خود امریکا کو دوٹوک انداز میں مشورہ دے کہ جتنی جلد افغانستان سے اپنی اور ناٹوافواج کی واپسی کا اہتمام کرے، یہ جتنا پاکستان اور امریکا کے مفاد میں ہے اتنا ہی افغانستان اور اس پورے علاقے کے لیے بہتر ہے۔ اس کے لیے تمام متعلقہ قوتوں سے مذاکرات کا جلد از جلد آغاز ہونا چاہیے۔ افغانستان میں بیرونی مداخلت کے تمام راستوں کو بند کیا جائے اور افغانستان کی تمام دینی اور سیاسی قوتوں کی باہم مشاورت سے ایک ایسا سیاسی انتظام کہا جائے جسے افغان تسلیم کریں، اور جس کی باگ ڈور بھی انھی کے ہاتھ میں ہو۔ پھر اس کو عملاً نافذ کرنے کا اہتمام بھی کیا جائے۔ پاکستان اس میں ایک شفاف انداز میں شریک ہو اور افغان عوام کی نگاہ میں، امریکا کے مفادات کے نگہبان کی حیثیت سے نہیں، بلکہ پاکستان اور افغانستان دو برادر مسلم ممالک کے مشترک مفادات کا نقیب بنے۔ امن کا راستہ انصاف اور حقوق کے احترام ہی سے مسخر کیا جاسکتا ہے۔
آخری بات ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے جس طرح جنرل پرویزمشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور امریکی مفادات کو مشرف سے بھی زیادہ بڑھ کر آگے بڑھایا، اس سے اسے نہ ملک میں ساکھ (credibility) حاصل ہے اور نہ افغان عوام اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں جلداز جلد نئے انتخابات نہایت شفاف انداز میں منعقد کیے جائیں تاکہ عوام ایک نئی قابلِ اعتماد اور بالغ نظر قیادت کو برسرِاقتدار لاسکیں جو امریکا سے بھی باعزت دوستی کا راستہ اختیار کرے، ملک کی معیشت کو عوام دوستی اور خدمت خلق کی بنیادوں پر استوار کرے، اور افغانستان کے مسئلے کا بھی افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب سیاسی حل نکالنے کی کوشش کرے۔ ایک حقیقی آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرے جسے پوری قوم کی تائید حاصل ہو۔ اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ سینیٹ کی کمیٹی براے دفاع کے ایک اجلاس میں ڈیفنس سیکرٹری جناب لیفٹیننٹ جنرل (ر) آصف یٰسین ملک نے پہلی بار کھل کر اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف کی اجازت سے ۲۰؍اگست ۲۰۰۱ء سے شمسی ایئربیس امریکا کے زیراستعمال تھا اور وہ وہاں سے پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کرتا رہا۔ اس ایئربیس سے یہ سلسلہ ۱۱دسمبر ۲۰۱۱ء کو ختم ہوا۔ واضح رہے کہ اس شرمناک دور میں موجودہ حکومت کے پورے چار سال بھی شامل ہیں۔ جنرل صاحب نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ:the attacks were carried out with the governments approval. (ڈان، ۲۲اکتوبر ۲۰۱۲ئ)
فوجی اور سیاسی قیادت دونوں اس پورے عرصے میںامریکی ڈرون حملوں میں پاکستانی حکومت کی شراکت اور اجازت کا انکار کرتے رہے اور قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے متعدد اجلاسوں میں، جن میں راقم الحروف شریک تھا، ہرسطح کے ذمہ داروں نے پاکستان کی شراکت داری سے برملا انکار کیا اور دعویٰ کیا کہ حکومت کی اجازت اور تائید ان حملوں میں شامل نہیں۔ لیکن اب اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے، جو قوم اور پارلیمنٹ سے دھوکا اور ایک قومی جرم ہے جس کا پارلیمنٹ اور عدالت کو قرارواقعی نوٹس لینا چاہیے۔ لیکن ان سب حالات کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں جلد از جلد نئے منصفانہ انتخابات کا اہتمام کیا جائے تاکہ عوام ان لوگوں سے نجات پاسکیں جنھوں نے قوم کو امریکا کی غلامی میں دے دیا اور امریکا کی جنگ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ خود اپنی قوم کے خلاف فوج کشی کی اور امریکا کو خود ہماری اپنی سرزمین سے ہم پر ہی گولہ باری کا موقع دیا اور اس کی سرپرستی کی۔
قوم اور دستور سے غداری اور کس چیز کا نام ہے!
کتابچہ دستیاب ہے، تقسیم عام کے لیے ۸۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲