پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | نومبر ۲۰۱۲ | مقالہ خصوصی
دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اوراُن لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں___ کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں___ اور وہ اس آزمایش کے ذریعے سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کردینا چاہتا تھا۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔ تم تو موت کی تمنائیں کر رہے تھے! مگر یہ اُس وقت کی بات تھی جب موت سامنے نہ آئی تھی، لو اب وہ تمھارے سامنے آگئی اور تم نے اُسے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزرچکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مرجائیں یاقتل کردیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پائوں پھر جائو گے؟ یاد رکھو! جو اُلٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکرگزار بندے بن کر رہیں گے انھیں وہ اس کی جزا دے گا۔ کوئی ذی رُوح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔ جو شخص ثوابِ دنیا کے ارادے سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثوابِ آخرت کے ارادے سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم اُن کی جزا ضرور عطا کریں گے۔ اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں اُن پر پڑیں اُن سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے، انھوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہیں ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔(اٰل عمرٰن ۳: ۱۳۹-۱۴۶)
سورۂ آل عمران کی سات آیات میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہر دور میں تحریکِ اسلامی کو پیش آنے والے مطالبات، مشکلات، مغالطے اور ان سے نجات حاصل کرنے کی حکمت عملی کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ حق کے متلاشی جب ایک مرتبہ شعوری طور پر اسلام کی دعوت کو قبول کرلیتے ہیںتو فطری طور پر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ جس حق کو انھوں نے پہچان کر حاصل کیا ہے، اب اس کا نفاذ اور اس کی سربلندی کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ ایک ماہر انجینیر جب سورج کی شعاعوں سے چلنے والی ایک موٹرکار ایجاد کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ اپنی سالہا سال کی محنت کو سڑک پر دندناتا ہوا بھی دیکھے۔ وہ اسے محض کاغذ پر یا اپنے کمپیوٹر پر دیکھ کر خوش نہیں ہوتا۔ یہی مشکل تحریکی قیادت اور کارکنوں کو درپیش آتی ہے۔
ایک تحریک اگر ۷۰برس سے حق کی دعوت دے رہی ہو اور اس کے بعد بھی کروڑوں کی آبادی میں اس کا انسانی اثاثہ بمشکل ۵۰ہزار یا حد سے حد ایک لاکھ افراد ہوں تو اس کا یہ سوچنا معقول نظر آتا ہے۔ جو لوگ باطل، طاغوت اور کفر کی دعوت دیتے ہیں، عصبیتوں کی طرف بلاتے ہیں، ذاتی مالی فائدے کا لالچ دے کر لاکھوں کروڑوں افراد کی حمایت حاصل کرلیتے ہیں وہ دنیا میں کامیاب ہیں۔ ان کے پاس اقتدار ہے، پارلیمنٹ میں اکثریت ہے، عوامی عہدے ہیں۔ ان کا حکم مقامی انتظامیہ پر چل رہا ہے۔ اور جو حق کے متوالے، دن رات اللہ کے دین کی دعوت دینے میں مصروف ہوں ان کے پاس نہ قیمتی گاڑیاں ہوں، نہ ان کے مکانات کئی کئی ایکڑ پر تعمیر ہوئے ہوں، نہ ان کو پارلیمنٹ میں بھاری وزن سمجھا جائے۔
یہ وہ پیش آنے والے مغالطے، مایوس کرنے والے مشاہدات اور غیرمحسوس طور پر قوتِ عمل کو مفلوج کردینے والے وسوسے ہیں جنھیں طبی زبان میں ’وائرس‘ کہا جاتاہے۔ یہ وسوسے غیرمحسوس طور پر تحریکی قیادت ہو یا کارکن، ان کے دل و دماغ میں داخل ہوجاتے ہیں اور پھر انسان کو یہ غم کھانا شروع کردیتا ہے کہ وہ کس طرح کسی شارٹ کٹ، کسی سیاسی کرتب، جوڑتوڑ، سیاسی نعرے یا اتحاد کے ذریعے ثوابِ دنیا کو حاصل کرلے۔
ایک لمحے کے لیے رُک کر جائزہ لیا جائے تو جو بات آغاز میں فرمائی گئی ہے وہ تحریکی قیادت اور کارکنوں کے لیے چونکا دینے والی بات ہے یعنی تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ۔ کسی کی وقتی مقبولیت، وسائل پر قابض ہونا، پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرلینا ایسا ہی ہے جیسے بدر کی فتح کے بعد اُحد اور حنین کی آزمایش و امتحان۔ اور اس کا مقصد بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے بیان فرما دیا کہ وہ چاہتاہے کہ اپنے ان مخلص بندوں کو چھانٹ لے جو دعوتِ اسلامی سے بغیر کسی مفاد اور ذاتی شہرت کے وابستہ ہوئے ہیں ۔ جن کے لیے کارکن ہونا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ جو نہ عہدوں کی خواہش رکھتے ہیں اور نہ ان کے حصول کے لیے جوڑتوڑ اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا تھا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں‘‘۔ یہ فرمانے کے بعد ایک انتہائی اہم اور کانٹے کی بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ اس آزمایش کی گھڑی میں کفروباطل کے ساتھ مقابلے میں جو اہلِ ایمان شہید ہوئے، دراصل اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی جماعت میں سے کچھ کو یہ اعزاز بخشناچاہتا تھا___ آج بھی پاکستان ہو یا کوئی اور ملک، تحریک اسلامی کے بعض مخلص کارکن دہشت گردوں کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید ہوتے رہے ہیں___ کہ وہ جس دعوت کو لے کر اُٹھے تھے اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔
لیکن دوسرا اہم پہلو جس کی طرف صاحب ِتفہیم القرآن متوجہ کرتے ہیں، یہ ہے کہ ’’اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور منافقین کے اُس مخلوط گروہ میں سے جس پر تم ا س وقت مشتمل ہو، ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو حقیقت میں شہدا علی الناس ہیں، یعنی اس منصب جلیل کے اہل ہیں جس پر ہم نے اُمت مسلمہ کو سرفراز کیا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن،ج۱، ص ۲۹۰)
اگر تحریکی کارکنوں کا تعلق قرآن کریم سے قریبی ہوگا تو ہرچوٹ کھانے کے بعد، ہر ظاہری ناکامی کے بعد ان کے عزمِ شہدا علی الناس میں اضافہ ہوگا اور اگر ان کا زاویۂ نظر بھی یہ ہوجائے کہ وہ کسی طرح عددی قوت کے سہارے اپنے ’ثوابِ دنیا‘ کو حاصل کرلیں تو پھر ان پر مایوسی اور پژمردگی کے اثرات ہونے لازمی ہیں۔ مقصد کے حصول میں شبہہ، منزل کے دُور ہونے کا احساس، کوششوں کے باوجود مطلوبہ مقام تک نہ پہنچنے کی حسرت اس نفسیاتی بلکہ وسوساتی کیفیت کے فطری نتائج ہیں۔
پھر یہ بات بیان کی جارہی ہے کہ جس جنت، یعنی اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس دنیا میں جدوجہد کی جارہی ہے وہ محض ۷۰سال کی کوشش سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے تو ۹۰۰سال کی جدوجہد بھی شاید قلیل ہو۔ لیکن جن اعلیٰ مقام افراد نے ۹۰۰ سال اپنی دعوت کی کامیابی کے لیے جدوجہد کی، ان کا نام آج ان کی استقامت ، پُراُمیدی، رب پر اعتماد و بھروسے اور اللہ کی نصرت پر یقین کی بنا پر زندہ ہے۔ اگر مقصود ’ثوابِ آخرت ہے‘ تو پھر ثوابِ دنیا میںتاخیر بلکہ بعض اوقات اس کا حاصل نہ کرپانا بھی نہ تو ناکامی ہے اور نہ مایوسی کی علت۔
ان آیاتِ مبارکہ کے تناظر میں آج تحریکِ اسلامی کے ہرکارکن، متفق اور ہمدرد کے لیے جو اصل بات سوچنے کی ہے وہ اس کا خود اپنا احتسابی جائزہ لینا ہے کہ کیا وہ شہدا علی الناس کی تعریف میں آتا ہے؟ کیا اس کی پسند، ناپسند، جڑنا اور کٹنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے یا اس میں ’ثوابِ دینا‘ کہیں نہ کہیں داخل ہوگیا ہے، اور غیرمحسوس طور پر وہ بھی معاشرتی مقام (status)، منصب اور سیاسی دوڑ میں آگے نکل جانے کے پُرکشش سراب میں تو گرفتار نہیں ہو رہا؟ اپنی ذات کو خود جانچنے کا پیمانہ اُس حدیث صحیح میں بیان کردیاگیا ہے جس کو حضرت ابوامامہؓ نے روایت کیا ہے: ’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا ‘‘۔(بخاری)
وہ بہت سے سوالات جو آئے دن ہمارے ذہنوں میں اُٹھتے رہتے ہیں اور نتیجتاً مایوسی، وسوسے اور مغالطے پیدا کرتے ہیں۔ اگر قرآن کریم میں ان کا جواب تلاش کیا جائے تو اس کتاب و حکمت کی محض دو تین آیات نہ صرف ان کا جواب بلکہ پیش آنے والے مسائل کے حل کی حکمت عملی بھی سمجھا دیتی ہیں۔
قوموں کا عروج و زوال، کسی دعوت کا قبولیت ِ عام حاصل ہونا اور لوگوں کا جوق در جوق اس میں شامل ہونا اس کی کامیابی کاتنہا معیار نہیں ہے۔ ایک دعوتِ حق برس ہا برس کے مسلسل عمل کے باوجود محدود تعداد میں افراد کو متاثر کرسکتی ہے اور وہی دعوت بعض اوقات کم وقت میں تیزی سے اثرانداز ہوسکتی ہے۔ نہ ان دو کیفیات میں کوئی تضاد ہے، نہ ایک یا دوسری کیفیت کامیابی یا ناکامی کا حتمی فیصلہ کرسکتی ہے۔
جس پہلو پر ہرلمحے توجہ کی ضرورت ہے وہ دعوت کا مرکزی نکتہ ہے۔ یعنی کیا دعوت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے قیام کی دعوت ہے یا اس میں وہ بہت سے خدا بھی شامل ہوگئے ہیں جنھیں ہم اقتدار، دولت، منفعت، شہرت، تسلیم کیے جانے کی خواہش، نفس کی تسکین وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ کام ایک فرد خود ہی کرسکتا ہے لیکن یہی کام تحریکات کو اجتماعی احتساب کی شکل میں کرنا لازمی ہے۔ تحریک کا ہرفیصلہ، اس کی ہرپالیسی ابدی طور پر نہ تو درست ہوسکتی ہے اور نہ غلط۔ ایک حکمت عملی جو آج درست ہو، تبدیلیِ حالات کی بنا پر آیندہ کسی مرحلے میں غلط ہوسکتی ہے۔ وقتی طور پر، مخصوص اہداف کے لیے دیگر قوتوں کے ساتھ اتحاد کو نہیں کہا جاسکتا اور نہ کسی وقتی اتحاد کی بناپر تحریک کو قیامت تک کسی غلط فیصلے کے لیے موردِالزام ٹھیرایا جاسکتا ہے، اس لیے تحریکی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاملات پر بغیر کسی حجاب کے کھل کر اجتماعی طور پر پالیسی یا حکمت عملی کا احتساب کرے، اور جہاں پالیسی میں کوئی جھول پایا جائے اس کی بروقت اصلاح کی جائے۔ اصلاح کرنا، اللہ کی طرف لوٹنا اور غلطی کا اعتراف کرنا، تحریک کی عظمت کی نشانی ہے۔ فیصلے میں عجلت یا تاخیر انسانی عقل کے محدود ہونے کی بنا پر ایک فطری عمل ہے۔ اس میں کسی فیصلے کے بروقت یا درست ہونے کا اعتراف کرنا اصلاح کی طرف پہلا قدم ہے۔ جس چیز پر کوئی گفتگو نہیں ہوسکتی، وہ قرآن و سنت کا بتایا ہوا مقصد حیات ہے۔
تخلیق انسان کے وقت ہی انسان اور فرشتوں کو یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ اسے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا ؑ نے اپنی دعوت کا بنیادی نکتہ قرار دیا، اور خاص طور پر انبیاے کرام کے طریق دعوت اور تبدیلیِ اقتدار کی حکمت کے حوالے سے قرآن کریم جہاں جہاں ہمیں متوجہ کرتا ہے وہ واضح طور پر اس پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت یوسف ؑنے اپنے جیل کے ساتھیوں سے جو ایک طاغوتی ملوکیت پر مبنی نظام کے تحت جیل میں آپ کے ہمراہ اپنی مدت گزار رہے تھے یہی سوال تو کیا تھا کہ کیا بہت سے خدا بہتر ہیں یا صرف اللہ وحدہٗ لاشریک۔ آج کے تناظر میں یہی سوال اگر کیا جاتا تو یوں کیا جاتا کہ کیا سیاست کا خدا مغربی لادینی جمہوریت کو ہونا چاہیے؟ اور معیشت کا خدا استحصالی سودی نظام، اور ہرلمحے غربت میں اضافہ کرنے والی تجارتی سرگرمی کو ہونا چاہیے؟ کیا ثقافت کا خدا ہندووانہ اور مغربی تہذیب میں پائی جانے والی فحاشی، عریانی اور تشدد کو ہونا چاہیے؟ اور کیا معاشرت میں برادری خدا ہے، نسب، ذات اور دولت کی کثرت بنیاد ہے کہ اس کی پرستش کی جائے؟ کیا تعلیم کا خدا مادی منفعت ہے کہ تعلیم کا مقصد ہی یہ ہو کہ ایک فرد کس طرح معاشی میدان میں دوسروں سے آگے نکل سکتا ہے، یا مذہب کے شعبے میں خدا رہبانیت کی تعلیم ہے کہ ایک شخص اپنا گھربار، کاروبار، تعلقات چھوڑ کر جنگل بیابان میں جاکر بیٹھ جائے یا کسی لمبے تبلیغی سفر پر نکل جائے اور اپنے گھر، معاشرے اور ملک کو شیطان کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟ یا اس کی معیشت ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا تعلیم، ہرہرشعبۂ حیات میں وہ صرف اُس بات کو مانے جو خالق انسان نے انسانوں پر اپنے خصوصی رحم و کرم، رحمت و محبت کی بنا پر ہدایت، بُرہان، تذکرہ اور الفرقان کی شکل میں نازل کردی ہے؟___ اور اس طرح ہرہرشعبۂ حیات میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، قدرت و اقتدار کو عملاً نافذ کردیا جائے۔ حضرت یوسف ؑ کے قصے میں اسی پہلو کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا اور فرمایا گیا کہ ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ حاکمیت اور اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو:
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (یوسف ۱۲:۴۰) ، فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سواتم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ جس بات کا مطالبہ انسان سے کیا جا رہا ہے، کائنات کی ہرشے اللہ تعالیٰ کی اُس حاکمیت کا اقرار جب سے اس کا وجود ہے رضامندی کے ساتھ یا ناپسندیدگی اور مجبوری کے ساتھ اس حاکمیت اور اقتدار کوتسلیم کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحدانیت اور حاکمیت کی گواہی دے رہی ہے۔چنانچہ ارحم الراحمین فرماتا ہے:
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ o قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۸۳-۸۵)، اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟ اے نبیؐ، کہو کہ’’ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، اُن تعلیمات کو بھی مانتے ہیں، جو ابراہیم ؑ،اسماعیل ؑ، اسحاقؑ، یعقوب ؑ اور اولادِیعقوب ؑ پر نازل ہوئی تھیں،اور اُن ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان اور مُسلم ہیں۔ اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
توحید کو عملاً اختیار کرنے کے ساتھ جب تک عملی طور پر اپنے تمام معاملات میں اللہ کے بھیجے ہوئے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرہرعمل کو اختیار کرنے کی نیت اور کوشش نہ کی جائے ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ قرآن کریم نے دوٹوک انداز میں یہ وضاحت کردی کہ اللہ کی بندگی اور حاکمیت کے ساتھ اللہ کے رسول کی اطاعت اور پیروی اور سنت کو حتمی اور تشریعی سمجھے اور نافذ کیے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا:
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا o (النساء ۴:۵۹)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو۔ اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
اس اطاعت ِ رسولؐ کو نہ صرف مطلوب اور مثبت رویہ قرار دیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اگر رسولؐ کے فیصلے، ارشاد اور عمل کے بارے میں کسی تردد یا تحفظ کا اظہارکیا گیا تو یہ ایمان کو ضائع کردینے کے مترادف ہوگا اور ایسا عمل یا تو منافق کا ہوگا یا کافروفاسق کا۔ فرمایا گیا:
وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo (النساء ۴:۶۱)، اور جب ان سے کہا جاتا ہے آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آئو رسولؐ کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔
ایمان کی اس اوّلین بنیاد کا قریبی تعلق اُس کیفیت سے ہے جس کی طرف آیت مبارکہ کے آغاز میں اشارہ کیا گیا، یعنی انسان کا اپنی کوششوں کو متوقع طور پر کامیاب نہ دیکھنے کے نتیجے میں دل شکستہ اور غمگین ہوجانا۔ کسی بھی تحریک میں اگر جدوجہد کرتے ہوئے ۷۰سال نہیں صرف ۱۰ سال ہی گزرے ہوں تو اعلیٰ تربیت یافتہ افراد بھی پکار اُٹھتے ہیں: وہ مدد کب آئے گی جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟متی نصراللّٰہ؟ اس سوال کے پس منظر میں وہ شیطانی وسوسہ مخفی ہوتا ہے جو دل کو شکستہ اور غمگین کرتا ہے۔ اللہ اور رسولؐ پر پورے ایمان کے دعوے کے ساتھ اعلیٰ ترین تربیت یافتہ ہوں یا عام کارکن، اس سوال کا اُٹھنا حیرت انگیز نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے اس سوال کے اُٹھنے پر نہ قیادت کو اور نہ مجموعی طور پر جماعت کو حیرت ہونی چاہیے۔ ہاں، جو بات ضروری ہے وہ اس زمینی حقیقت کا اقرار کرتے ہوئے اس کا قرآن و سنت میں حل تلاش کرنا ہے۔ قیادت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عزم، ولولے اور اعتماد کو کارکنوں کے ساتھ مسلسل تبادلۂ خیال کے ذریعے ان تک منتقل کرے اور کسی لمحے تھکن، سُستی اور مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دے۔ چنانچہ مثبت اور تعمیری طرزِ فکر کے ساتھ مروجہ طریقوں کا جائزہ اور نئے طریقوں کا استعمال کرنا ہی مسئلے کا حل ہے۔ اندرونی تنقید کا نہ صرف برداشت کرنا بلکہ دعوت دے کر تنقید پر آمادہ کرنا اور پھر بغیر مدافعانہ طرزِعمل کے مشاورت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنا تحریک سے جمود، تھکن اور سُستی کو دُور کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
تحریک میں قیادت اور کارکن کے درمیان اصل رشتہ ایمان اور زندگی کے مقصد کے اشتراک کا ہے۔ یہ محض کوئی انتظامی معاملہ نہیں ہے، نہ یہ حاکم اور محکوم کا سا رشتہ ہے، اس لیے جب تک تحریک کے کارکن اور قیادت ایمان کی یکساں سطح پر نہ ہوں، جمود ، سُستی اور رفتار ِ کارمیں کمی کا حل نہیں ہوسکتا۔ ایمان کے اس مقام تک لانے کے لیے نہ صرف قرآن و سنت سے تعلق بلکہ نظامِ عبادت کا قیام اور نظامِ عبادت کی روشنی میں معاملات میں شفافیت، امانت، سچائی اور پاسِ عہد پر عمل کیا جانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ اگر فکری اور شعوری طور پر ایمان کا تصور تو ذہن میں ہو لیکن اس کا اثر عبادات میں نہ ہو، اور اگر عبادات کا اہتمام ہو، نماز باجماعت ادا کی جارہی ہو، نوافل کا اہتمام بھی ہو رہا ہو، لیکن مالی معاملات، خاندانی ذمہ داریوں، کاروباری تعلقات میں،حتیٰ کہ غیرتحریکی افراد کے حقوق و فرائض کی ادایگی میں غفلت ہو، اور ان معاملات میں اللہ کی رضا کے ساتھ دیگر مقاصد شامل ہوجائیں تو قیادت اور کارکن میں فاصلہ پیدا ہونا ایک فطری عمل ہوگا،اور حزن اور نااُمیدی کسی نہ کسی حوالے سے تحریک میں داخل ہوجائے گی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت کا وعدہ ذہن سے محو ہوجانے کے بعد یاس ومحرومی اور مستقبل کے دھندلانے کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔
ایمان، دل شکستگی اور مایوسی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایسے موقع پر بھی جب داعیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن غار کے دہانے پہنچ جاتے ہیں، غار سے بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے، اس وقت بھی حوصلہ ہارنے کا کوئی جواز قرآن میں نہیں پایا جاتا ۔ ایسی آزمایش کی صورت میں بھی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پر ایمان، بھروسا اور اس کی نصرت پر اعتماد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ گویا ایسے حالات میں جب بظاہر کوئی متبادل سیاسی حل (option) نظر نہ آتا ہو، اللہ پر ایمان کا مطلب استقامت کا اختیار کرنا ہے اور بغیر نااُمیدی اور دل شکستگی کے اُمید، عزم اور یقین کے ساتھ راہِ حق پر آگے بڑھتے رہنا ہی اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
نااُمیدی، فضا کا گرد آلود ہونا اور منزل کا دھندلا جانا ایمان کے منافی ہے۔ اس لیے جس لمحے بھی تحریک کے کارکنوں کو یہ احساس ہو کہ منزل قریب کیوں نہیں آرہی، اور کتنا انتظار کرنا ہوگا، ظالم و جابر کب تک فرماں روائی کرتے رہیں گے؟ فوری طور پر ایمان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی، اور عزمِ نو کے ساتھ قیادت اور کارکنوں کو رجوع الی اللہ اور اتباعِ رسولؐ سے سہارا لینا ہوگا۔ اسلام نام ہی اُمید اور کامیابی پر یقین کا ہے۔ یہ اپنے آپ کو تمام تصورات کی بندگی سے نکال کر صرف اور صرف رب کریم کی بندگی میں لے آنے کا نام ہے۔
سفر کی طوالت ، دوسروں کو بظاہر منزل سے قریب دیکھنا ہر حساس انسان میں یہ سوچ پیدا کرسکتا ہے کہ جو شریکِ سفر نہیں وہ تو منزل پر پہنچتے نظر آرہے ہیں، اور جو آبلہ پا ہونے کے باوجود سنگلاخ وادیوں کے تپتے ہوئے فرش پر چل رہے ہوں، وہ ابھی تک منزل کی طرف رواں دواں ہی ہوں؟ آخر ایسا کیوں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا نہ اُبھرنا غیرفطری ہوگا۔ اس لیے اس قسم کے سوالات سے پریشان ہونے کے بجاے یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی کہ کیا اس کام کے لیے جو مادی اور انسانی وسائل اور تربیت یافتہ افراد کی جماعت مطلوب ہے، اسے ہم پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں؟ کیا سمت کا تعین درست ہے؟ کیا جن قریبی اہداف کو منزل سمجھ لیا ہے وہی منزل ہیں، یا منزل اور مقصد رب کریم کی رضا ہے اور اقتدار و حکومت محض اس کا ایک ذریعہ ہے۔
ایک اور اہم پیغام جو اس آیت مبارکہ میں تحریکی کارکنوں اور قیادت کے لیے قابلِ غور ہے اس کا تعلق آزمایش سے ہے۔ یوں تو مسلمان کی تمام زندگی ہی ایک آزمایش و امتحان ہے، دن اور رات کا کون سا لمحہ ہوگا جب مومن کی آزمایش نہ کی جارہی ہو، لیکن تحریکی زندگی میں یہ آزمایش مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے۔ کبھی یہ کثرت کی شکل میں ہوتی ہے اور کبھی قلت کی شکل میں۔ بعض اوقات ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے تعداد کے لحاظ سے اپنا مطلوبہ ہدف بڑی حد تک حاصل کرلیا ہے اور حلقۂ اثر کو وسیع کرلیا ہے، جب کہ اگر وسیع تر منظرنامے میں دیکھاجائے تو شاید آبادی کے صرف چند فی صد تک ہی ہماری بات پہنچی ہوتی ہے۔ کبھی ہم یہ دیکھ کرکہ ۱۸کروڑ افراد میں سے صرف ایک یا دو فی صد تک بات پہنچی ہے، تو ہم اپنی قوت کو غیرمؤثر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ قرآن کریم جو اصول ہماری ہدایت کے لیے بیان کرتا ہے وہ اس منفی فکر کی تردید کرتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ o اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (انفال ۸: ۶۵-۶۶)
اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰ افراد صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب رہیں گے اور اگر ۱۰۰ آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری ہوں گے۔ کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے، اچھا اب اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کردیا۔ اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں سے ۱۰۰آدمی صابر ہوں تو ۲۰۰ پر اور ہزار دو ہزار پر غالب آئیں گے اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔
تعداد کی قلت و کثرت سے زیادہ اہم اور بنیادی چیز صبرواستقامت ہے۔ قلت تعداد سے بے پروا ہوکر جب ایک جماعت شہادتِ حق کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہے تو پھر حزن و پریشانی اس کے آس پاس بھی نہیں پھٹک سکتے۔ وہ وسائل کی کمی کے باوجود اپنے سے بہت بڑے طاغوت پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت سے غالب آکر رہتی ہے۔ قرآن یہ چاہتا ہے کہ تحریکی کارکن چاہے ہلکے ہوں یا بھاری ، وہ نتائج سے بے پروا ہوکر وسائل کا انتظار کیے بغیر جو کچھ ان کے پاس ہو اسی کے ساتھ میدان میں نکل کھڑے ہوں:
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (التوبہ ۹:۴۱) نکلو ،خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
جب جماعت اہلِ ایمان یہ طرزِعمل اختیار کرے گی تو پھر فرشتوں کے پّرے کے پّرے ان کی استعانت کے لیے آشامل ہوں گے:
کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً (البقرہ ۲:۲۴۹) بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔
اپنی قوت کو کم تر سمجھنا یا اس پر ناز کرنا، دونوں رویے ایمان کے منافی ہیں۔ یہ طرزِفکر بھی آزمایش کی ایک شکل ہے۔
وہ آزمایشیں جن سے تحریکاتِ اسلامی ہر دور میں گزری ہیں یکساں طور پر اہمیت رکھتی ہیں جن میں قیدوبند اور شہادت شامل ہیں لیکن ان کے علی الرغم آزمایش کی اور بہت سی شکلیں ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر بڑی اور چھوٹی آزمایش میں تحریکی قیادت اور کارکن کا وظیفہ حسبی اللّٰہ، علیہ توکلت، ونعم الوکیل ہو کیونکہ نعم المولیٰ اور نعم الوکیل سے بڑھ کر اور کوئی سہارا اور وسیلہ نہیں ہوسکتا۔ تحریکات کی عمر میں ۴۰سال تو صحیح طور پر بلوغت تک پہنچنے ہی میں لگ جاتے ہیں۔ اگر کوئی تحریک اس سے قبل بالغ ہوجائے تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے۔
ایمان کے تقاضوں میں استقامت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم ظلم، طغیان، شرک، کفر اور ضلالت کو دُور کرنے کے لیے اللہ کے بندوں کو دعوتِ حق دیتے ہوئے اُن عملی مسائل کے حل کے لیے کہاں تک کوشاں رہے ہیں جن کے بوجھ نے ان کی کمر دہری کردی ہے۔ کیا غربت کے خاتمے کے لیے جو انسان کو شرک پر مجبور کردیتی ہے، کیا پانی کی فراہمی، بجلی کے بحران سے نجات، کیا روزگار کی فراہمی اور عوام کی صحت سے متعلق مسائل میں ہم نے اتنی ہی پیش رفت کی ہے جتنی تنظیمی اجتماعات کی شکل میں کی گئی ہے؟ایمان کا ایک تقاضا اللہ کے بندوں کی خدمت صرف اللہ کو خوش کرنے کے لیے ہے۔
انسانی مسائل میں فکری اور اعتقادی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل، وسائل کی غیرعادلانہ تقسیم، صحت، غربت اور تعلیم کے حوالے سے اللہ کے بندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جہاد کیے بغیر ہم مکمل دین پر عمل نہیں کرسکتے۔اللہ کے حقو ق کے ساتھ اللہ کے بندوں کے حقوق کو یکساں اہمیت دینا تحریکِ اسلامی کی ایک ایمانی ضرورت ہے۔