ارشاد الرحمن | نومبر ۲۰۱۲ | عالم اسلام
اسلامی تاریخ کے قدیم کتابی ورثے میں ’بلادِ شام‘ سے مراد موجودہ شام، لبنان، اُردن اور فلسطین کی سرزمین ہے۔ اس قطعۂ ارضی کو سرزمینِ انبیا ؑ بھی کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِمعراج میں اس خطے کا ذکر زمینی گزرگاہ کے طور پر ہوا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت معراج رسولؐ کے اسی زمینی مرحلۂ سفر سے متعلق ہے۔مسجداقصیٰ کے گرد وپیش کی ساری زمین کو مفسرین نے اس آیت کی روشنی میں ’ارضِ مبارکہ‘ قرار دیا ہے۔ متعدد احادیث میں بلادِشام کے فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں۔ امام احمد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام کے لیے خوش خبری ہے؟ ہم نے عرض کیا: کس بنا پر یارسولؐ اللہ؟ آپؐ نے فرمایا: اس لیے کہ رحمن کے فرشتوں نے اس کے اُوپر اپنے پَروں کا سایہ کررکھاہے۔ ایک دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قطعۂ ارض کے لیے برکت کی دعا بھی فرمائی۔
اس فضیلت کے علاوہ صلیبی جنگوں میں اسلامی فتوحات کے شان دار سلسلے میں بھی شام کا ممتاز کردار رہا۔ شامی مجاہدین نے عماد الدین زنگی اور اُن کے بعد نورالدین محمود زنگی کی سپہ سالاری میں یہ کارنامہ انجام دیا۔ پھر شامی اور مصری اتحاد نے صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں بیت المقدس اور مسجداقصیٰ کو صلیبی تسلط سے آزاد کرایا۔ اسی بناپر بلادِ شام مغربی استعمار کا ہدف ٹھیرا اور اس نے شام کی وحدت کو کئی ریاستوں میںتقسیم کر دیا۔ خلافت ِ عثمانیہ کے تحت اسے ایک صوبے کی حیثیت حاصل تھی۔ سائیکس پیکو معاہدے کی رُو سے چار مملکتوں میں بانٹ دیا گیا۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی اس تقسیم کے مطابق شام، لبنان، اُردن اور فلسطین کی مملکتیں وجود میں آئیں۔
چھٹی صدی ہجری کے معروف تجدیدی عالمِ دین شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تاتاری قوتوں کے خلاف اس علاقے کی جہادی سرگرمیوں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان میں خود شریک ہوکر فریضۂ جہاد ادا کیا۔ یہ لشکرِاسلام اس وقت تو اپنا وجود بچانے میں کامیاب ہوگیا مگر بیسویں صدی عیسوی میں وحدتِ مسلمہ کے انتشار نے صہیونی قوتوں کو یہاں پنپنے کا موقع فراہم کردیا۔ آج شام کی تحریک براے تبدیلیِ نظام کی ناکامی اسرائیل کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل شام اور مصر کے درمیان واقع ہونے کی بناپر اپنے آپ کو خطرے میں سمجھتاہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ بلادِشام کی یہ ارضِ مبارکہ کئی عشروں سے خطے کے باسیوں کے لیے جہنم بنی ہوئی ہے۔ قتل و غارت اور تباہی و بربادی کی جو تاریخ اِن علاقوں میں رقم ہوچکی ہے، تجزیہ نگاروں کے مطابق اس سے بدتر صورت حال کا مشاہدہ ممکن نہیں۔ مظالم کی داستانیں رقم کرنے والے انسان نُما ان وحشی حکمرانوں کو ’انسانیت کے ماتھے پر بدنُما داغ‘ کہا جا رہا ہے۔
آج سے ۴۲برس قبل انسانیت کے ماتھے پر یہ بدنُما داغ اس وقت لگا تھا جب حافظ الاسد خاندان نے سرزمینِ شام کے آمرمطلق کے روپ میں نظامِ حکومت سنبھالا تھا۔ اسدکے اقتدار سنبھالنے سے لے کر آج تک شامی قوم مسلسل اس قصاب خاندان کے ہاتھوں ذبح ہورہی ہے۔ اسد کی حکمرانی اُس کی شخصی آمریت اور اکثریت پر علوی فرقے کا اقلیتی تسلط تھا، جسے عالمی ضمیر نے بھی قریباً نصف صدی سے ظلم وستم کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ حافظ الاسد کو ملنے والے اقتدار کا آغاز گولان کے علاقے سے شام کی محرومی کی قیمت پر ہوا۔ اسرائیل سے اپنی شکست اور افواج کی پسپائی کا خودساختہ اعلان کرنے والے اُس وقت کے شامی وزیردفاع حافظ الاسدکا یہ فیصلہ اُس کی ذات اور خاندان کے لیے شاہانہ زندگی کی ضمانت فراہم کرگیا۔ ۴۲برس سے شام باپ بیٹے کی آمریت میں سلگ رہا ہے۔ باپ نے ۳مارچ ۱۹۷۱ء کو اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو طرح طرح کے تعذیب و تشدد اور قتل و غارت کے ذریعے اپنا محکوم بنائے رکھا۔ ۲۷جون ۱۹۸۰ء میں تدمر کے مقام پر قتلِ عام سے حافظ الاسد کے خونریز تاریخی سلسلے کا آغاز ہوا۔ پھر ۱۰مارچ ۱۹۸۰ء کو جسرالشغور کے مقام پر، ۵-۱۲؍اپریل ۱۹۸۰ء کو حماۃ شہر میں، ۱۱؍اگست ۱۹۸۰ء کی صبح عیدالفطر کے روز حلب شہر کے محلے المشارفہ میں قتل و غارت کا اعادہ کیا گیا۔ ۲فروری ۱۹۸۲ء کو تو حماۃ کے ایک بہت بڑے قتلِ عام کا تحفہ قوم کو دیا گیا۔ یہ قتل عام مسلسل ۲۰دن رہا اور اس میں ۳۰ سے ۴۰ ہزار نفوس نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ۱۵ہزار افراد لاپتا ہوگئے جن کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ ایک لاکھ شہری اپنے گھروں سے ہجرت کرجانے پر مجبور کردیے گئے کیونکہ حماۃ کے ایک تہائی مکانوں کا مکمل طور پر صفایا کردیا گیا تھا۔
۱۰؍جون ۲۰۰۰ء کو بیسویں صدی کا یہ سفاک اور ظالم حکمران موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس کا بیٹا بشارالاسد اس کی جانشینی میں صدرِ مملکت قرار پایا۔ گویا شام کا ملوکیت کے چنگل میں مستقل طور پر جھگڑتے رہنا اس کا مقدر ہے۔ شاید شامی قوم نے اکیسویں صدی کے ’عالمی انسانی حقوق‘ کے خوش نُما دور میں بھی اپنی تباہی و بربادی کا مزید رقص ابھی دیکھنا تھا، لہٰذا ۲۰۱۱ء میں عرب ممالک میں اُٹھنے والی بیداری کی لہر میں شامی قوم بھی شامل ہوگئی۔ باپ کی سفاکانہ تاریخ کو اگر بیٹا آگے نہ بڑھاتا تو جانشینی کا اہل ثابت کیسے ہوتا، لہٰذا وہ اسلحہ جو ۱۹۶۷ء میں گولان کے تنازعے پر اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے کے بعد صرف اور صرف شامی قوم کی ’سرکشی‘ کو کچلنے کے علاوہ کبھی اور کہیں استعمال نہ ہوا تھا، دوبارہ اسی شامی قوم پر آزمایا گیا۔ بیٹے نے باپ کی تلخ یاد عوام کو دلا دی بلکہ اب تو قوم مظالم کے اُس سلسلے کی روح فرسائی کو ہلکا سمجھ رہی ہے جو باپ نے قائم کیا تھا۔ کیونکہ بیٹے نے اُس سے دس قدم آگے بڑھ کر قوم کو لاشوں، ہجرتوں اور در و دیوار کی مسماری و تباہی کا تحفہ دیاہے۔
اخوان المسلمون مصر کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع کا کہنا ہے کہ شامی قوم پر فضائی اور زمینی ہرقسم کے حملے کیے جارہے ہیں۔ ٹینکوں، توپوں اور راکٹوں سے انسانوں کو تباہ کیا جارہا ہے۔گھر مسمار کیے جارہے ہیں، عزتیں پامال کی جارہی ہیں اور جایدادیں لُوٹی جارہی ہیں۔ اس سے خوف ناک اور دل سوز منظر یہ ہے کہ بچوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ انسانوں کو زندہ دفن کردیا جاتاہے، جو گرفتار ہوجائیں اُن کو بشار کی تصویر کو سجدہ کرنے اور کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر وہ انکار کریں تو بکروں کی طرح انھیں ذبح کردیا جاتا ہے۔ شہادتوں کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ (اخوان آن لائن)
واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم میں کہا گیا ہے کہ حلب جو دنیا کا قدیم ترین شہر ہے آگ کے شعلوں میں جل رہا ہے۔ بشار کی افواج دشمن کے شہریوں کو نہیں بلکہ شامی قوم کوقتل کر رہی ہیں جو حیرت انگیز ہے۔ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ بشارالاسد جس وحشیانہ طریقے سے شام کے شہروں میں تباہی و بربادی عام کر رہاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کو دوبارہ اس حالت میں لایا نہیں جاسکے گا۔
الشرق الاوسط کے مدیراعلیٰ طارق الحمید نے لکھاہے کہ ’’شام میں قتل و غارت اور تباہی و وخونریزی کا سلسلہ بد سے بدترین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے نقطۂ نظر میں متفق نہیں ہیں، بلکہ یہ کہاجانا چاہیے کہ سب کچھ واضح ہے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔بشارانتظامیہ قتل کے راستے پر چل رہی ہے، جب کہ قوم اُس کے خلاف تبدیلی کے لیے بپھری ہوئی ہے، اور ادھر بشارانتظامیہ روس، ایران اور حزب اللہ سے مدد لے رہی ہے مگر کس کے لیے؟ بے یارومددگار اور تنہا شامی قوم کو تباہ کرنے کے لیے۔ (۹؍اکتوبر۲۰۱۲ئ)
الجزیرہ نیٹ کے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ کسی کو توقع نہیں تھی کہ شام کی صورت حال اس قدر خراب ہوجائے گی اور اسلحہ ہی فیصلہ کن قوت بن جائے گا۔ ہرآواز جنگ کی آواز میں دب جائے گی،حُریت و حقوق کے علَم بردارِ سیاست اسلحہ اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ عوامی مزاحمت کے عسکریت پسندی کی طرف جانے کی وجوہات یہ ہیںکہ جب مظاہرین اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹتے دکھائی نہ دیے تو حکومت نے انھیں اسلحے کے زور سے کچلنے کی کوشش کی۔ اسلحے کا یہ استعمال یقینی بات ہے کہ فوج اور پولیس ہی کو کرنا تھا، لہٰذا فوج اور پولیس کی کثیرتعداد نے اپنی ہی قوم اور اپنے ہی خاندانوں پر اسلحہ چلانے سے انکار کر دیا اور اس جنگ میں فوج کی شرکت پر اعتراض کیا۔ جب یہ لوگ حکومت کی رخصتی کے واحد نکتے پر متفق ہوگئے تو عوام اور قوم کے ساتھ مل گئے۔ ادھر ’آزاد لشکر‘ یعنی عوامی لشکر اپنے بڑے بڑے گروپ تشکیل دے کر مظاہروں کااہتمام کر رہے تھے جن کے ساتھ وہ لوگ ملتے گئے جنھیں اپنے گھربار اور اہل و عیال کے دفاع کی فکر تھی۔ اس کے ساتھ تیسری قوت اُن افراد کی شامل ہوگئی جو تشدد پسند مذہبی انقلابی رجحان رکھتے ہیں۔ان لوگوں کی شمولیت کے باعث حکومت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چوتھی طاقت اس تحریک میں اُن لوگوں کی شامل ہوگئی جو جیلوں سے رہا ہوئے تھے یا جو جرائم پیشہ عناصر تھے۔ ان قیدیوں کو حکومت نے تحریکِ بیداری کے آغاز میں رہا کیا تھا۔ اس عوامی قوت میں بعض کمزور دل اور مُردہ ضمیر لوگ جب شریک ہوگئے تو لُوٹ مار اور چوری، ڈکیتی کی وارداتوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا۔
اس میں شک نہیں کہ بشارحکومت نے تحریکِ مزاحمت کا رُخ خود مسلح جدوجہد کی طرف موڑا ہے مگر اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ’جیش حر‘ (آزاد لشکر) اُس کے گلے کی پھانس بن جائے گا اور انتظامیہ کی تمام تر قوتوں کو بھی اس معرکے میں جھونک کر کامیابی کی اُمید دکھائی نہیں دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بشاری قوتیں شہریوںکو اجتماعی تشدد و تعذیب کے ذریعے انھیں آزاد لشکر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرر ہی ہیں۔ (الجزیرہ نیٹ، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)
الشرق الاوسط کی ایک رپورٹ سوریا: ’جمہوریۃ الخوف‘ (شام: خوف کی ریاست) میں حافظ الاسد خاندان کے حکومتی تسلط کے جاری رہنے کی ایک وجہ اُس کے جاسوسی نظام کو بتایا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق بشارانتظامیہ میں شامل افراد نے پورے ملک میں مخبری اور جاسوسی کا ایسا نظام قائم کر رکھا تھا کہ ہرشخص اپنے ساتھ رہنے اور کام کرنے والے آدمی پر اعتبار نہیں کرتاتھا۔ وہ یہی سمجھتا تھا کہ شاید یہ حکومتی ایجنسیوں کے لیے مخبری کرتا ہو۔ اس مقصد کے لیے بے روزگار نوجوانوں اور معاشی طور پر زبوں حال خاندانوں کے افراد استعما ل ہوتے رہے۔ رپورٹ میں کئی فرضی ناموں سے اُن افراد کی گواہیاں پیش کی گئی ہیں جو اس نیٹ ورک کے لیے کام کرتے رہے۔
صرف حکومتی ایجنسیاں ہی یہ کام نہیں کرتی رہیں بلکہ بعث پارٹی کا ہرکارکن یہ دھندہ کرتا رہا اور معصوم و مجبور لوگوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ مخبری کا یہ نظام اس قدر وسیع تھا کہ یہ جملہ زبان زدعام عوام تھا کہ ’’احتیاط سے بات کرو، دیواروں کے بھی کان ہیں‘‘۔
بتایا گیا کہ بشارالاسد کا بھائی جنرل ماہر الاسد فوج کے اندر بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔ مخبرین کا ایک گروہ ا س کی حرکات و سکنات نوٹ کرنے کے لیے بھی کام کرتاہے کہ کہیں وہ ’الدنیا چینل‘ تو نہیں دیکھتا جس میں حکومتی طرزِعمل پر تنقید کی جاتی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ کہیں ماہر الاسد عوام کے ساتھ نہ جاملے۔ جب صورت حال اس قدر بے اعتمادی اور خودغرضی کی حدوں کو چھونے لگے تو وہاں عوام کے خون، عزت و آبرو اورحقوق کی کیا وقعت ہوسکتی ہے۔ عوام تو عوامی مقامات، ہوٹلوں، قہوہ خانوں، گلیوں، بازاروں میں بات کرتے ہوئے بھی سوبار سوچتے ہیں کہ جس آدمی سے بات کی جارہی ہے یہ بعثی جاسوس تو نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریکِ مزاحمت کے مسلح رُخ اختیار کرجانے میں اس نظامِ جاسوسی کا خاصا دخل ہے۔ جاسوسی نظام نے ہراُس شہری کو مشکوک سمجھا جو واقعتا حکومت کے خلاف سرگرم نہیں تھا مگر انتظامیہ کے بے جا تشدد اور اذیت رسانی نے اسے ’جیشِ حُر‘ کے ساتھ جاملنے پر مجبور کیا۔ (الشرق الاوسط، ۲۸ستمبر۲۰۱۲ئ)
ہفت روزہ المجتمع نے شام کی اس داخلی جنگ کے متاثرین میں سے چند خواتین کے تاثرات اور اُن کی الَم ناک روداد شائع کی ہے۔ یہ خواتین شام کے ہمسایہ ممالک اُردن، ترکی، لبنان، الجزائر اور عراق کی سرحدوں پر موجود مہاجر کیمپوں میں ناقابلِ بیان حالات میں سانس لے رہی ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق شام کی اس اندرونی جنگ کے باعث اپنے گھربار چھوڑ کر محض اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کی خاطر ۱۰ لاکھ سے زائد لوگ ہجرت کرچکے ہیں۔ یقینا ہمسایہ ممالک کا اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرنے اور انھیں سنبھالنے کا مسئلہ معمولی نہیں ہے۔ پھر ان کیمپوں کے اندر مہاجرین کو ضروریات فراہم کرنے کا کام بھی آسان نہیں۔
اُردن کے صحرا میں زعتری، ذنبیہ اور رمثا کیمپوں میں موجود مہاجر خواتین سے المجتمع کے نمایندے نے صورت حال کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ بنیادی انسانی ضروریات بھی یہاں فراہم نہیں ہورہی ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ میں اپنے شیرخوار بچے کے لیے تین دن سے دودھ کے ایک پیکٹ کے لیے گھوم رہی ہوں مگر مجھے وہ دستیاب نہیں ہوسکا۔خواتین سے خوف و ہراس کی اس صورت حال میں ان سرحدوں کی طرف فرار کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ کوئی معمول کا سفر نہیں تھا۔ ہم پیدل چل کر ۱۰ر وز کے بعد یہاں پہنچی ہیں۔ خواتین کے یہ چھوٹے چھوٹے گروپ اپنی بچیوں بچوں کے ساتھ شام کے بڑے شہروں حمص، حماۃ،درعا، حلب وغیرہ سے جان بچاکر بھاگے اور اب ہمسایہ مالک کی سرحدوں پر یا اپنے ہی ملک کے اندر موجود کیمپوں میں بے بسی کے لمحات گزار رہی ہیں۔ سفر کی صعوبتوں کے ساتھ اب کیمپوں کے اندر ناکافی ضروریات نے ان پناہ گزینوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ وہ خواتین جو ہمسایہ ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئیں اُن کے مسائل اور مصائب کو کسی حد تک کم کرنے کی سماجی کوششیں جارہی ہیں۔
ترکی اس اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کہ اُس کی سرحدی آبادی کے شام کے گرد قبائل کے ساتھ رشتہ داری کے مراسم ہیں، اور بہت بڑی تعداد اس سرحد پر موجود ہے۔ ترکی اپنی کوشش کر رہا ہے کہ مہاجرین کے مسائل بھی حل کیے جائیں اور جلد سے جلد شامی صورت حال معمول پر لائی جائے، مگر بدقسمتی سے ترکی کو اس اندرونی جنگ میں گھسیٹنے کی پوری کوشش ہورہی ہے، بلکہ اسے ترکی کے خلاف جنگ کا بہانہ بناکر بشارانتظامیہ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش میں ہے۔ شام کو اسلحہ و بارود سپلائی کرنے والے طیارے کو جب ترکی نے اپنی سرحدوں میں داخل ہونے پراُتار لیا تومعلوم ہوا کہ روس کی طرف سے یہ اسلحہ بشارانتظامیہ کی مدد اور شامی قوم کی تباہی کے لیے جارہا تھا۔
حکومت کی تبدیلی کے لیے شروع ہونے والی تحریک عوامی مظاہروں سے جنگی کارروائیوں کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بشارانتظامیہ روس و ایران سے کمک لے رہے ہیں، اور عوامی مزاحمت عسکریت کے ذریعے اُس کا جواب دے رہی ہے۔ شام کے دُوردراز علاقوں میں بسنے والے کاشت کار بھی اس تحریک میں شامل ہوکر اپنا ’فرض‘ ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بشارانتظامیہ ملک کے بڑے شہروں کے بیش تر حصوں پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ حمص، حماۃ، حل، درعا، وہ شہر ہیں جہاں بشار کا زور ٹوٹ چکا ہے مگر حالات مکمل طور پر ’جیش حُر‘ کے قابو میں بھی نہیں آسکے۔
الشرق الاوسط کے تجزیہ نگار عبدالرحمن الراشد کے مطابق: ’’دارالحکومت دمشق کے بجاے حلب کا فتح ہونا عوامی مزاحمت کی کامیابی اور بشار کی ناکامی کا حتمی اعلان ہوگا۔ حلب انسانی تاریخ کا قدیم ترین شہر ہے۔ اس کی عمر ۱۰ہزار سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ دنیا کی ہرشہنشاہیت کا یہاں سے گزر ہوا اور اس شہر کی خاطر اُس نے جنگ لڑی۔ دنیا کی آخری سلطنت خلافت ِ عثمانیہ نے آستانہ و قاہرہ کے بعد اسے اپنا تیسرا دارالخلافہ بنایا۔یہی وجہ ہے کہ دونوں متحارب گروپوں کا زیادہ زور حلب کے اندر صَرف ہورہا ہے۔
دمشق کی صورت حال حلب کی نسبت مختلف ہے۔ یہ دارالحکومت ہونے کی بنا پر ہرطرح کے دفاعی حصار میں محفوظ ہے۔ تاہم کارروائیاں تو یہاں بھی جاری ہیں مگر یہ وقفے وقفے اور بڑی تکنیکی منصوبہ بندی کے بعد ممکن ہوتی ہیں۔ یہاں زیادہ تر کارروائیاں گوریلا ہوتی ہیں۔ ان کارروائیوں پر قابو پانا انتظامیہ کے لیے نسبتاً آسان ہے۔ دمشق کے مشکل ہدف ہونے کی بنا پر جیش حُرکا زیادہ ارتکاز حلب پر ہے۔ اگست میں حلب عوامی مزاحمت کے کنٹرول میں آنے ہی والا تھا کہ روس اور ایران کی بہت بڑی مددد نے اسے ناممکن بنادیا۔ ۱۹۵۳ء کے عسکری انتفاضہ میں بھی جب سقوطِ حلب عمل میں آیا تو پھر جلد ہی دیگر شہر جبل الدروز اور حمص بھی انتظامیہ گرفت سے آزاد ہوگئے۔ حلب کا سقوط خونریز معرکے، مزاحمت کاروں کی مردانہ وار جرأت مندی اور زخمی اہلِ شہر کے صبر کے ساتھ ہی ممکن ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انتظامیہ فوراً بے بس ہوجائے تو یہ حلب کے سقوط کے ذریعے ہی ممکن ہے، کیونکہ یہ شام کا سب سے بڑا شہر ہے اوراس کے سقوط کے بعد ہی روس اور ایران شام کے قصاب، بشارالاسد کی پشت پناہی سے ہاتھ روکنے پر مجبور ہوں گے‘‘۔ (الشرق الاوسط ،۲۹ستمبر ۲۰۱۲ئ)
ان حالات میں اخوان المسلمون مصر کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے شامی عوام کی مزاحمت کو عزیمت و استقامت اور قربانی کا معرکہ کہا ہے۔ عالمِ اسلام سے شامی قوم کی مادی و اخلاقی مدد کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے کہا: اگرچہ حالات بہت دگرگوں ہیں، سازشیں خوف ناک اور پے درپے ہیں، اور قربانی و شہادت کی مثالیں دلدوز اور اَلم ناک ہیں لیکن غلبہ قانونِ الٰہی کو ہی حاصل ہے۔ گھڑی کی سوئیوں کو اُلٹا نہیں چلایا جاسکتا۔ بے گناہ اور پاکیزہ خون رائیگاں نہیں جائے گا، بلکہ یہ عن قریب نصیب ہونے والی فتح کی بہت بڑی قیمت ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ پوری شامی قوم خالص اور مخلص ہوکر اللہ کی طرف رجوع کرچکی ہے اور رنجیدہ دلوں کی گہرائیوں سے اُٹھنے والی یہ سچی آواز ہم سن رہے ہیں: یاَاللّٰہ مَا لَنَا غَیْرَکَ یَا اللّٰہ (اللہ تیرے سوا ہمارا کوئی نہیں، اے اللہ!)۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سچی آہ و زاری اللہ کی رحمت، تائید اور نصرت کے حصول میں کامیاب ہوکر رہے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:’’اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ’’ہمارارب اللہ ہے‘‘۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کرڈالی جائیں۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اُس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیںگے، نیکی کا حکم دیںگے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ (الحج ۲۲:۳۹-۴۱)