نومبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

اخوان المسلمون، مصر اور احیاے اسلام

ڈاکٹر شائستہ پروین | نومبر ۲۰۱۲ | اسلامی تحریکیں

Responsive image Responsive image

مصر میں ۳۰ برسوں تک استبداد وآمریت کے بَل پر حکومت کرنے والے صدر محمد حسنی مبارک کو آخر کار ۱۸ دنوں کے عوامی مظاہروں کے بعد ۱۱ فروری ۲۰۱۱ء کو استعفا دینا پڑا۔ مغربی میڈیا او ر مغرب کے پروردہ عرب اخبارات و رسائل کے اسلام اور اسلامی تحریک کے خلاف زبردست   منفی پروپیگنڈے کے باوجود ملک میں ہونے والے تین مراحل میں عوامی انتخابات کا نتیجہ ۲۰۱۲ء  میں سامنے آیا، تو معلوم ہوا کہ ’اخوان المسلمون‘ نے ۴۷ فی صد (۲۳۵) اسمبلی نشستیں اور دوسری  بڑی اسلامی جماعت ’النور‘ نے۲۵ فی صد (۱۲۵) نشستیں حاصل کیں اور مغرب کے گماشتوں سیکولر رہنماؤں اور پارٹیوں کا صفایا ہوگیا۔ عوامی انتخابات میں اسلام پسندوں کی یہ عظیم الشان فتح ان کی ۸۲ سالہ تعمیری جدوجہد ، فلاحی خدمات اور صبر آزما کو ششوں کا نتیجہ ہے۔ شاہ فاروق سے لے کر  حسنی مبارک تک سب نے اخوان المسلمون پر پابندی عائد کی اور اس کے کارکنوں کو مسلسل قیدو بند اورتشد دکا نشانہ بنائے رکھا۔ ان کا جرم کیا ہے؟ ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ۔ اور اس سے بڑاگناہ ہے ان کی خدمت خلق کی مسلسل جد وجہد کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اور اللہ پر ایمان و توکّل ۔

اخوان المسلمون کا قیام اس وقت عمل میں آیا جب مصر میں وطن پرستی، قوم پرستی اور  مغرب پرستی شروع ہو گئی تھی اور روایتی اسلام اور تجدد کے درمیان ٹکراؤ شروع ہو گیا تھا، جس میں  شیخ علی عبدالرازق کی۱؎  الاسلام واصول الحکم، ڈاکٹر طہٰ حسین کی ۲؎ الشعر الجاھلی،   قاسم امین ۳؎ کی تحریر المرأۃ اور المرأ ۃ الجدیدۃ نے خاص رول ادا کیا۔ جس میں سید جمال الدین افغانی،۴؎ مفتی محمد عبدہٗ ،۵؎ سید رشید رضا،۶؎مصطفی صادق الرافعی۷؎ محمد فرید وجدی۸؎ اور      محب الدین الخطیب ۹؎ جیسے اسلام پسندوں کی کوششیں بظاہر دب کر رہ گئیں۔

۱- امام حسن البنّا شھید (۱۹۰۶ئ-۱۹۴۹ئ)

ا مام حسن البنّا کی قیادت میں ۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۹ء تک اخوان ایک نظریے اور تحریک کی شکل میں ظاہر ہوئے ۱۰؎اور پہلا دعوتی مرحلہ انتہائی خاموشی سے عمل میں آیا۔ دوسرا مرحلہ ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۵ء تک ہے۔ اس میں اخوان نے سیاسی میدان میں قدم رکھا ، سماجی اور اقتصادی پروگراموں میں توسیع کی ، ثقافتی اور جسمانی تربیت کا اہتمام کیا اور پورے ملک میں آزادی اور اسلام کا نعرہ بلند کیا۔ نتیجے کے طور پر حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے اور انگریزوں نے ان کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش کی۔ حکومت پر دباؤ ڈالا اور ہفتہ وار التعارف، الشعاع اور ماہنامہ المنار پر پابندی عائد کردی۔۱۱؎ آپ کی قیادت میں تیسرا مرحلہ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۸ء پر مشتمل ہے جس میں اخوان نے مصر کی سرحدوں سے نکل کر عالم عرب میںا پنی شاخیں قائم کیں۔ ۵ مئی ۱۹۴۶ء کو الاخوان المسلمون کے نام سے تحریک نے پہلا روز نامہ شائع کیا، جس سے استعماری حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ انگریزوں کے مکمل انخلا کا مطالبہ ہوا اور ان سے براہِ راست تصادم ہوا۔ ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو عرب لیگ کے زیر اہتمام فلسطین میں عرب فوجیں اُتریں اور یہودیوں کے خلاف جہاد شروع ہو گیا۔ اخوان نے اس جنگ میں شجاعت و بہادری کے خوب جو ہر دکھائے۔ و زیر اعظم نقراشی پاشا نے ۸دسمبر ۱۹۴۸ء کو مارشل لا آرڈی ننس نمبر ۶۳ کے ذریعے اخوان کو خلافِ قانون  قرار دے کر پورے ملک میں تشدد کا ماحول پیدا کردیا اور خود ایک نوجوان کی گولی کا نشانہ بن گیا۔  نئے وزیر اعظم عبدالہادی پاشا کے دور میں اخوان کے ہزاروں کا رکن گرفتار کر لیے گئے اور امام  حسن البنّا کو ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو خفیہ پولیس نے شبان المسلمین کے دفتر کے سامنے سر بازار شہید کردیا۔۱۲؎

۲- حسن بن اسماعیل الھضیبیؒ(۱۸۹۱ئ-۱۹۷۲ئ)

 ۱۷؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو اخوان نے ممتاز قانون دان حسن بن اسماعیل الہضیبی کو اپنا دوسرا مرشد عام منتخب کیا۔۳؎۱شیخ ہضیبی نے بحیثیت قائد، حکومتی جبروتشدد کے ردعمل میں تحریک اسلامی کو جوابی تشدد سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ قرآن و سنت کے دلائل پیش کیے اور اخوانی نوجوانوںکے ایک انتہا پسندگروہ کی تفہیم کے لیے آپ نے ایک کتاب دعاۃ لاقضاۃ ( ہم داعی ہیں، داروغہ نہیں) تصنیف کی، اور تمام آزمایشوں سے گزرنے کے باوجود ملک میں اسلامی اور جمہوری اقدار کی بحالی پرڈٹے رہے۔ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو جمال عبدالناصر پر قاتلانہ حملے کا ڈراما اسٹیج کیا گیا، اور اس کا ’الزام‘ اخوان پر لگاتے ہوئے اس کے کار کن گرفتار کر لیے گئے جن کی تعداد ۵۰ ہزار تک پہنچی۔ ۷نومبر ۱۹۵۴ء کو فوجی عدالت نے چھے ا خوانی رہنماؤں کو سزاے موت دے د ی۔ وہ چھے رہنما    یہ تھے: ۱- عبدالقادر عودہ ، نائب مرشد عام ، ۲-شیخ محمد فرغلی، مکتب الارشاد کے رکن رکین،      ۱۹۵۱ء میں معرکۂ سویز میں اخوانی دستوں کے کمانڈر ، جن کے سر کی قیمت انگریزی فوج کی ہائی کمان نے ۵ ہزار پونڈ مقرر کی تھی، ۳-یوسف طلعت، شام کی تنظیم کے نگران اعلیٰ، ۴- ابراہیم الطیب ، قاہرہ زون کی خفیہ تنظیم کے سر براہ، ۵-ہنداوی دویر ایڈوکیٹ، ۶-عبداللطیف۔

جولائی ۱۹۶۵ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں تقریباً ۲۰ ہزار سے ۵۰ہزار تک اخوان جیلوں میںڈال دیے گئے جن میں ۷۰۰ سے ۸۸۰ تک خواتین بھی شامل تھیں۔ مرشد عام حسن الہضیبی کو تین سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ طویل مدت تک قیدوبند کی آزمایش سے رہا ہوئے تو ان کی صحت تیزی سے بگڑتی گئی اور ۱۹۷۲ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ شیخ الہضیبی کی زندگی میں اخوان المسلمون بڑے نازک مراحل سے دوچار ہوئی مگر مرشد عام کی فراست اور ایمانی استقامت نے تنظیم میں لغزش نہ آنے دی۔۱۴؎

۳- سید عمر تلمسانیؒ (۱۹۰۴ئ-۱۹۸۶ئ)

حسن الہضیبی کے انتقال پُرملال کے بعد اخوان کے باہم غور وخوض کے بعد سید عمر تلمسانی تیسرے مرشد عام مقرر ہوئے۔۱۵؎جمال عبدالناصر کے بعد محمد انور سادات کا دور مصر میں قدرے  نرمی کا دور قرار دیا جاتا ہے۔ انھوںنے ناصری دور کی دہشت گردی اور ظلم وجور کا خاتمہ کیا اور  اخوانی رہنماؤں اور دوسرے قیدیوں کو بتدریج جیل خانوں سے رہا کیا ۔ سید عمر تلمسانی نے پورے دور میں تعلیمی اور تربیتی امور پر توجہ مرکوز رکھی۔ اسی دورمیں الاخوان کی پالیسی سے اختلاف رکھنے والوں نے ’الجماعات الاسلامیہ‘ کے نام سے تنظیم بنائی۔ ۱۶؎اس کے رہنما ایک نابینا خطیب اور مبلغ  شیخ عمرعبدالرحمن تھے۔ حکومت نے اس کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اس پر پابندی لگادی اور     شیخ عمرعبدالرحمن گرفتار کر لیے گئے اور ہزاروں کا رکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا، بالآخر انھیں ملک چھوڑ نا پڑا۔ ۱۹۷۹ء میں اسماعیلیہ میں الفکر الاسلامی کے موضوع پر سیمی نار ہوا، اس میں صدر مملکت نے اخوان پر اعتراضات والزامات کی بوچھاڑ کردی، جس کا سید تلمسانی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۱۷؎۱۹۸۱ء میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تو دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اخوان بلاجواز نشانہ بنے۔ اخوان سے اختلاف رکھنے والے افراد کے ہاتھوں صدر سادات کے قتل کے بعد ملک کی باگ ڈور حسنی مبارک کے ہاتھوں میں آئی۔

۱۹۸۶ء میں مرشد عام کبرسنی اور نقاہت کے باعث جوارِ رحمت الٰہی میں چلے گئے۔

۴-استاذ محمد حامد ابو النصرؒ (۱۹۱۳-۱۹۹۶ئ)

۱۹۸۶ء میں استاذ محمد حامد ابو النصرؒ کو چوتھے مرشد عام کی ذمہ داری سونپی گئی۔۱۸؎استاد محمد حامد کے ۱۰ سالہ دورِ قیادت میں اخوان نے سیاسی سطح پر غیر معمولی کا میابی حاصل کی۔ اپریل ۱۹۸۷ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے کر مصری پارلیمنٹ میں۳۶ اخوان امیدوار کامیاب ہوکر شامل ہوئے۔ ۱۹۸۹ء کی مجلس شوریٰ کے وسط مدتی اور مقامی انتخابات میں بھی اخوان نے حصہ لیا۔

۱۹۹۱ء میں اخبار الاھرام کے ایک ذیلی ادارہ سنٹر فارپولٹیکل اینڈ اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز نے مصر کے سیاسی وسماجی حالات پر ایک معروضی تجزیہ پیش کیا۔ اس رپورٹ میں اسلامی قیادت کی مقبولیت اور اخوانی کا رکنوں کے عوامی اثرات پرا ضطراب کا اظہار کیا گیا تھا۔ ۱۹۹۵ء میں  پارلیمانی انتخابات سے قبل ہی صدر حسنی مبارک نے اخوان کے ساتھ پھر داروگیر کا معاملہ کیا، اور  بیش تر اخوانی رہنماؤں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا۔ یہ واقعہ بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے کہ پہلی بار اس کیس میں ملک کے مختلف طبقوں اور تمام احزاب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ۳۵۰ وکیلوں نے اخوان کے دفاع کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ ۱۹؎

استاذ محمد حامد ابوالنصرؒ کے دور میں اخوان نے خلیجی ممالک اور عالم اسلام کے مسائل پر بڑا جرأت مندانہ اور معتدل موقف اختیار کیا اور تمام حالات کا سنجیدہ تجزیہ کر کے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا۔ استاذ ابوالنصرؒ کاپہلا بیان کویت پر عراق کے حملے کے دن ۲؍اگست ۱۹۹۰ء کو ہی شائع ہوا، جس میں عراقی جارحیت کی مذمت اور جان ومال کی تباہی پر اظہار افسوس کیا گیا تھا۔ ۲۰ جنوری ۱۹۹۱ء کو مرشدعام نے امریکی حملے کے تیسرے دن ایک اور بیان جاری کیا جس میں امریکی حملے اور   متحدہ فوجی قوتوں کی مذمت کے ساتھ اس بحران کا ذمہ دار عرب حکام کو قرار دیا۔ تیسرے مرحلے میں  عرب حکومتوں سے عوام کو آزادیِ راے اور صحت مند شورائی نظام کے قیام کی درخواست کی۔

چوتھے مرشد عام استاذ محمد حامد ابو النصرؒ نے ۱۰ سال اخوان المسلمون کی بھر پور قیادت کرکے ۲۹ شعبان ۱۴۱۶ ھ مطابق ۲۰ جنوری ۱۹۹۶ء کو عالم آخرت کی راہ لی۔ ۲۰؎

۵-استاذ مصطفی مشھورؒ (۱۹۲۱ئ-۲۰۰۲ئ)

استاذ ابو النصرؒ کی تجہیز وتکفین سے فراغت کے بعد، تمام اخوانی رہنماؤں نے پانچویں مرشد عام کی حیثیت سے استاد مصطفی مشہور کے نام پر اتفاق کرلیا۔۲۱؎استاد مصطفی مشہور ایک ادیب ، مصنف، صحافی اور خطیب بھی ہیں۔ ان کی دسیوں کتابیں اور سیکڑوں مقالات شائع ہوچکے ہیں ۔ استاد مصطفی کاسب سے اہم فکری کارنامہ قضیۂ تکفیر کا تجزیہ ہے، یعنی اسلام کے انقلابی تصور کو نہ ماننے والوں اور اس کے تقاضوں کی تکمیل سے غفلت کرنے والوں کو کافر یا مشرک قرار دینا۔ اس مسئلے پر اخوان کے دوسرے مرشد حسن اسماعیل ہضیبی نے فقہی اور قانونی پس منظر میں کلام کیا ہے، مگر آپ نے دعوتی اور سماجی تناظر میں دلائل کے ساتھ بات کی ہے جس کے مختصر نکات یہ ہیں:

۱- دوسروں کے ایمان واسلام کے بارے میں فیصلہ دینا کسی مسلمان پرواجب نہیں ہے۔

۲- ہرمسلمان کی جان ومال اور عزت وآبرو محترم ہے۔ اس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔

۳- راہِ حق کی آزمایشیں انسانی غلطیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سنت الٰہی کاحصہ ہیں۔

۴-کفر کے فتووں سے عام مسلمانوں میں نفرت اور وحشت پیدا ہوتی ہے اور وہ دعوت کے دشمن بن جاتے ہیں۔

فاضل مصنف نے اس فکری انحراف کے اسباب پر مفصل گفتگو کی ہے، جن کا اختصار اس طرح ہے: (الف) سطحی اور سرسری علم (ب) اصول اور فروع میں عدم امتیاز(ج) افراط و تفریط (د)عجلت اور بے صبری (ہ) تربیت کے بجاے سیاسی طریقے پر زور (و) اشخاص اور قائدین پر انحصار۔

آپ کا انتقال ۸ رمضان المبارک۱۴۲۲ھ مطابق۱۴؍نومبر۲۰۰۲ء کو ہوا۔۲۲؎

۶-المستثار محمد مامون الھضیبیؒ(۱۹۲۱ئ-۲۰۰۴ئ)

استاد مصطفی مشہور کی وفات کے بعد ان کے نائب مرشد عام محمد مامون الہضیبی چھٹے مرشد عام منتخب ہوئے۔ ۲۳؎اخوان المسلمون کا ابتدائی دور دعوت و تبلیغ کے ساتھ، کش مکش اور جہاد کا دور ہے۔ حسن الہضیبیؒ کا دور ابتلا و آزمایش کا دور ہے۔ شیخ عمر تلمسانی.ؒ کے دور سے سیاسی نظام میں تبدیلی ہوئی، حتیٰ کہ مصطفی مشہورؒ کے دور میں وہ تبدیلی کا ماڈل بن گیا۔ اس منہج کو فکری اور عملی اور دوسرے محاذوں پر تقویت دینے میں محمدمامون کا بڑا نمایاں حصہ ہے۔ تقریباً ۱۴ مہینے تک مرشد عام کی   ذمہ داری نبھانے کے بعد محمد مامون الہضیبی جمعۃ المبارک ۹ جنوری ۲۰۰۴ء میں انتقال فرماگئے۔

۷- استاذ محمد مھدی عاکف (۱۹۲۸ئ)

ساتویں مرشد عام کی شکل میں اخوان نے استاد محمد مہدی عاکف کو منتخب کیا۔۲۴؎۶ رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۰؍اکتوبر ۲۰۰۴ء کو مہدی عاکف نے مصر میں سیاسی اصلاحات کی دعوت دی اور افغانوں، عراقیوں اور فلسطینی عوام کی جدو جہد اور آزادی کی بھرپور حمایت کی۔ ملک کے اندرونی بحران پر مرشد عام نے گہری تشویش ظاہر کی۔ ۸ دسمبر ۲۰۰۵ء کے پارلیمانی انتخابات میںمحمدمہدی عاکف کی سربراہی میں اخوان المسلمون کے سیاسی کا رکنوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور اپنی حیران کن فتح سے مغربی میڈیا اور عرب دنیا کو ششدر کردیا۔ اسلام پسندوں کی اس انتخابی پیش رفت نے صدر حسنی مبارک، امریکا اور دوسرے ملکوں کی حکومتوں کو شش و پنج میں مبتلا کردیا۔۲۵؎

مرشد عام محمد مہدی عاکف کی سربراہی میں اخوان المسلمون مصر اور عالمِ عرب میں  احیاے اسلام کی جدو جہد میں مصروف رہی۔ بدلتے حالات میں دعوت وا قامتِ دین کی نئی راہیں انھوں نے تلاش کیں۔ آج وہ پورے اخلاص وللہیت کے ساتھ اسلامی معاشرے کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ آخر کار ۱۶؍ جنوری ۲۰۱۰ء کو مرشد عام محمد مہدی عاکف نے اپنی خرابی صحت کی بنا پر انتخاب عام کروایا اور نئے مرشد کے ہا تھوں میں تنظیم کی باگ ڈور سونپ دی۔

۸-ڈاکٹر محمد البدیع

اخوان المسلمون کے نو منتخب آٹھویں مرشدعام ڈاکٹر محمدا لبدیع نے گذشتہ ایام میں ہزاروں گرفتار ہونے والے افراد پر اظہار افسوس کیا۔ ۲۶؎ ان قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود ڈاکٹر محمد البدیع نے۱۶ جنوری ۲۰۱۰ ء کو اپنے انتخاب کے بعد پہلے خطاب میں کہا: ’’اخوان کبھی حکومت کے حریف اور دشمن نہیں رہے۔ ہم کبھی مخالفت براے مخالفت پریقین نہیں رکھتے۔ خیرمیں تعاون اور شر کی مخالفت کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے اور ہم اسی بنیاد پر حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھا تے ہیں‘‘ ۔

اپنی پوری زندگی میں اللہ کی عبادت کرنا اور زندگی کے تمام شعبوں کواس کی روشنی سے منور کرنا صرف اور صرف اخوان کی دعوت تھی۔ ۱۹۲۸ء میں قاہرہ میںپانچویں کانفرنس میں اخوان کے مشن اور دعوت کا تعارف کراتے ہوئے حسن البنّا نے فرمایا: ’’الاخوان المسلمون ایک سلفی دعوت ہے۔ اس لیے کہ اخوان اسلام کی ابتدائی صورت کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتے ہیں اور کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے اصل سرچشموں کی طرف بلاتے ہیں۔ یہ ایک سنی مسلک بھی ہے، کیوں کہ ان تمام چیزوں میں بالخصوص عقائد وعبادات میں لوگ سنت رسولؐ پر گامزن ہیں۔

  •  یہ اہلِ تصوف کا ایک گروہ بھی ہے، کیوں کہ یہ خیرکی اساس، دل کی طہارت ، نفس کی پاکیزگی، عمل پرمداومت، مخلوق سے در گزر ، اللہ کے لیے محبت اور نیکی کے لیے یگانگت کو ضروری سمجھتی ہے۔
  •  یہ ایک سیاسی تنظیم بھی ہے، کیوں کہ اس کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی اصلاح کی جائے، اس کی خارجہ پالیسی میں ترمیم کی جائے، رعایا کے اندر عزت واحترام کی روح پھونکی جائے اور آخری حد تک ان کی قومیت کی حفاظت کی جائے۔
  •   یہ ایک علمی وثقافتی انجمن بھی ہے، اس لیے کہ اخوان کے کلب فی الواقع تعلیم ومذہب کی درس گاہیں اور عقل و روح کو جِلا دینے کے ادارے ہیں۔
  •  یہ ایک معاشرتی اسکیم بھی ہے، کیوں کہ یہ معاشرے کی بیماریوں پر دھیان دیتی، ان کا علاج دریافت کرتی اور امت کو صحت مندر کھنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس طرح تصور اسلام کی جامعیت نے ہماری فکر کو اصلاحی پہلوؤں کا جامع بنادیا ہے۔ چنانچہ اخوان نے ملک کے ہر طبقے کے لیے ہمہ جہتی خدمات انجام دیں۔ اخوان نے ایک طرف تعلیم یافتہ طبقے پر توجہ دی، تو دوسری طرف کسانوں اور مزدوروں کے طبقوں میں سرگرمیاں تیز کردیں۔ قرآن وحدیث سے اسلام کا صحیح اور جامع تصور پیش کیا۔ طلبہ اور اساتذہ کے اندر دین کی روح پھونکی جس سے ہوا کا رخ ہی بدل گیا اور اہل علم وادب اسلامی نظام کی قصیدہ خوانی میں لگ گئے کہ: ’’اسلام عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی، وطن بھی ہے اور نسل بھی ، دین بھی ہے اور ریاست بھی، روحانیت بھی ہے اور عمل بھی ، قرآن بھی ہے اور تلوار بھی‘‘۔

میدان صحافت بھی اخوان کی توجہ کا مرکز رہا۔روز نامہ اخوان المسلمون،ماہنامہ المنار، ہفتہ روزہ التعارف، الشعاع، النذیر، الشھاب، الدعوۃ، المباحث جاری کیے۔  تعلیم کے میدان میں اخوان کی خدمات وسیع پیمانے پر ہیں۔ مثلاً لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے علیحدہ فنی درسگاہیں قائم کرنا، مزدوروں او ر کسانوں کے لیے شبینہ مدارس جاری کرنا، کمسن مزدور بچوں کے لیے تعلیم و تر بیت کے شعبے قائم کرنا، صنعتی تعلیم کے مراکز قائم کرنا۔ اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے معاشی کمپنیاں قائم کیں۔ طبی خدمات کے پیش نظر صرف قاہرہ میں ۱۷ شفا خانے تھے۔ زراعت کے میدان میں بھی قابل قد رخدمات انجام دیں، نیز معاشرتی خدمات کے لیے ایک مستقل بورڈ قائم تھا۔۲۷؎

اخوان المسلمون کی جماعت میں ایسے مصنف پیدا ہوئے جنھوں نے جملہ مسائل پرا سلام کی مدلل اور بے لاگ ترجمانی کی۔ ان ادیبوں نے مصر کے علاوہ شام، لبنان ، سعودی عرب، کویت، قطر، عراق ، فلسطین، اردن عالم عرب اورعالم اسلام کے دوسر ے ملکوں میں اپنی تحریروں کے تراجم کے ذریعے ہند وپاک کی اسلامی فکر کے ارتقا پر اپنے اثرات مرتب کیے ۔

سید قطبؒ (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ)

پورا نام سید قطب ابراہیم شاذلی تھا۔ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۶ کو بالاے مصر کے اسیوط شہر کے گاؤں موشا میںپیدا ہوئے۔ والد ابراہیم قطب، مصطفی کامل کی پارٹی الحزب الوطنی کے رکن تھے۔ دارالعلوم قاہرہ سے بی اے ایجو کیشن کی ڈگری حاصل کی۔ ایجو کیشن میں ایم اے کی ڈگری امریکا کے ولسنزٹیچرز کالج سے لی۔ امریکا کے قیام میں آپ نے مغربی تہذیب کی بربادی کابچشم خود مشاہدہ کیا اور اسلام پرا ن کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوا۔

ابتدا میںطہٰ حسین ، عباس محمود العقاد اور احمد حسن الزیات سے بڑے متاثر تھے، مگر بعد میں ان کے اسلوب اور افکار کے مخالف اور ناقد بن گئے۔ ۱۹۵۳ء میں الاخوان المسلمون کے مدیرر ہے، مکتب الارشاد کے رکن منتخب ہوئے ۔ بیت المقدس میں منعقد ہونے والی اسلامی کا نفرنس میں شرکت کی۔ معاشرتی بہبود کے سرکل کی طرف سے مختلف موضوعات پر لیکچر دیے۔ انھیں ۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء کو پھانسی دی گئی۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ۲۲ ہے: oفی ظلال القرآن oالعدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام oمشاھد القیامۃ فی الاسلام oالتصویر الفنی فی القرآن oالاسلام العالمی والاسلام oالمدینۃ المسحورۃ oالقصص الدینیۃoحلم الفجر oالشاطئی المجھول۲۸؎

عبدالقادر عودۃ (م:۱۹۵۴ئ)

ممتاز قانون دان شیخ عبدالقادر عودہ، اخوان المسلمون کے رہنما تھے۔ شاہ فاروق کے زمانے میں مصری عدالت کے جج مقرر ہوئے، مگر غیرالٰہی قانون کے مطابق فیصلوں کے نفاذ کے سبب اس منصب سے استعفا دے دیا۔ موصوف متعدد کتابوں کے مصنف تھے، لیکن آپ کی کتاب التشریح الجنائی الاسلامی(اسلام کا قانون فوجداری ) نے سب سے زیادہ شہرت پائی۔ آپ کی دیگر تصانیف اس طرح ہیں: 

oالاسلام وأضاعناالقانویۃ (اسلام اور ہمارا قانونی نظام) oالاسلام وأوضا عنا السیاسیۃ(اسلام اور ہماراسیاسی نظام ) oالمال والحکم فی الاسلام (اسلام میںمالیات اور حکمرانی کے اصول) oالاسلام حائر بین جھل أبنائہ وعجز علمائہ( اسلام اپنے فرزندوں کی جہالت اور اپنے علما کی کوتاہ دستی پر حیران ہے! ۲۹؎ دسمبر ۱۹۵۴ء میں جن چھے اخوانی رہنماؤں کو پھانسی کی سزادی گئی ان میں عبدالقادر عودہ شہید بھی تھے۔

مصطفٰی محمد الطحان

۱۹۳۸ء میںلبنان میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں استنبول یونی ورسٹی ترکی سے کیمیکل انجینیرنگ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۶۹ء میں عالم عرب میں موجودہ استنبول یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کی تنظیم قائم کی اور انھیں احیاے اسلام کے لیے جد وجہد کرنے پر اُبھارا۔  الاتحاد اسلامی العالمی للمنظمات الطلابیہ (IIFSO)کو یت کی تاسیس میںپیش پیش رہے۔ ۱۹۸۰ء میں اس تنظیم کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔

فکر اسلامی اور دعوتی وجہادی تحریکات پر بیسیوں کتابیں لکھیں، جن میں سے چند یہ ہیں: oالفکر الحرکی بین الا صالۃ والانحراف(تحریکی فکر۔ بنیاد پرستی اور انحراف کے درمیان)oالحرکۃ الاسلامیہ الحدیثۃ فی ترکب(ترکی میں جدید اسلامی تحریک) oالقومیۃ بین النظریہ والتطبیق(قومیت: نظریہ اور نفاذ ) oالنظام الاسلامی منھاج متفرد(اسلام: ایک منفرد نظام) oالمرأۃ فی موکب الدعوۃ (دعوت دین اور خواتین ) oنظرات فی واقع المسلمین السیاسی (مسلمانوں کی سیاسی صورت حال پر چند مباحث) ۳۰؎

ڈاکٹر طہٰ جابر العلوانی

آپ ۱۳۵۴ھ /۱۹۳۵ء میں عراق میںپیدا ہوئے۔۱۳۷۸ھ/ ۱۹۵۹ء میں جامعۃ الازہر قاہرہ سے کلیتہ الشرعیہ سے بی اے ، ایم اے اور اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اسلامی فقہ آپ کی دل چسپی کا خصوصی موضوع ہے۔ آپ کی تصانیف اس طرح ہیں: oالاجتہاد والتقلید فی الاسلام (اسلام میں اجتہاد اور تقلید) o حقوق المتھم فی الاسلام (اسلام میں ملزم اور متہم کے حقوق) oادب الاختلاف فی الاسلام(اسلام میں اختلاف کے اصول) oاصول الفقہ الاسلامی منھج بحث و معرفۃ (اسلامی فقہ کے اصول اور منہا جیات) oالأزمۃ الفکریۃ المعاصرۃ ( معاصر فکری بحران) ۳۱؎

ڈاکٹر عماد الدین خلیل

موصوف عراق کے شہر الموصل میں ۱۳۵۸ھ/ ۱۹۳۹ء میںپیدا ہوئے۔ جامعہ شمس قاہرہ سے ۱۳۸۸ھ/ ۱۹۶۸ء میں تاریخ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ آج کل صلاح الدین یونی ورسٹی اردبیل عراق کے آرٹس کالج میں اسلامی تاریخ ، منہاجیات و فلسفۂ تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ آپ ۵۰ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور سیکڑوں مقالات ومضامین لکھ چکے ہیں۔ آپ کی چند کتابیں یہ ہیں: oآفاق قرآنیہ ( قرآن آفاق) o العلم فی مواجھۃ المادیۃ (سائنس مادیت کے مقابلے میں ) o حول اعادۃ تشکیل العقل المسلم (فکر اسلامی کی تشکیل جدید) oالتفسیر الاسلامی للتاریخ (تاریخ کی اسلامی تفسیر) o دراسۃ فی السیرۃ (سیرت طیبہ پر ایک مطالعہ ) ۳۲؎

ڈاکٹر عبدالحمید احمد ابو سلیمان

سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں شوال ۱۳۵۵ھ /دسمبر۱۹۳۶ء میں آپ پیداہوئے۔ قاہر ہ کالج آف کامرس سے پولیٹیکل سائنس میں بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۷۳ء میں پنسلوانیا یونی ورسٹی سے اسلام اور بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی اہم تحریر یں یہ ہیں: oقضیۃ المنھجیۃ فی الفکر الاسلامی (فکر اسلامی میںمنہاجیات کا مسئلہ ) oأزمۃ العقل المسلم (فکر اسلامی کا بحران )۳۳؎

ڈاکٹر فتحی یکن

آپ کی پیدایش طرابلس میں ۱۹۳۳ء میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم المعہد الامریکی سے حاصل کی۔ ۱۹۷۳ء میں آپ نے کراچی یونی ورسٹی پاکستان سے اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۹۲ء میں لبنان کی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ دعوت و تحریک الاسلام کے مختلف موضوعات پرا ٓپ کی دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:oالاسلام فکرۃ وحرکۃ وانقلاب(اسلام،نظریۂ تحریک اور انقلاب ) o التربیۃ الوقائیۃ فی الاسلام (اسلام میں احتیاطی تربیت کا تصور) oمشکلات الدعوۃ والداعیۃ(دعوت اور داعیان کرم کے مسائل) oالصحوۃ الاسلامیہ مقوماتھا ومعوقاتھا(اسلامی بیداری، فرائض اور رکاوٹیں)۳۴؎

ڈاکٹر سعید رمضانؒ (۱۹۲۶ئ-۱۹۹۵ئ)

ڈاکٹر سعید رمضان مصر کے شہر طنطا میں ۱۲؍اپریل۱۹۲۶ء کو پیدا ہوئے۔ اخوانی رہنمااور عالم ڈاکٹر البہی الخولی کے ہاتھوں آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ نوجوانی میں جلاوطنی کے چند برس کراچی، پاکستان میں گزارے، جہاں پر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے قربت پیدا ہوئی۔ آپ نے ۱۹۵۹ء میں کولون یونی ورسٹی جرمنی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر رمضان نے عالمِ عرب، عالمِ اسلام اور یورپ کے بیش تر ملکوں میں اخوان کی فکر ، طریق کار اور اصولوں کو عام کیا۔ مجلہ شہاب کے بعد قاہرہ سے ماہنامہ المسلمون نکالا۔آپ کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:mThree Major Problems Confronting the World of Islam  (عالم اسلام کو در پیش تین اہم مسائل) ۳۵؎  mIslamic Law:Its Scope and Equity  (اسلامی قانون: امکانات اوراطلاق)

پروفیسر محمد قطب

استاذ محمد قطب سید قطب شہید کے چھوٹے بھائی ہیں۔ پیدایش اسی خانوادہ میں ۲۶؍اپریل ۱۹۱۹ء کو ہوئی ۔ قاہرہ یونی ورسٹی سے انگریزی زبان اور جدید علوم کی تحصیل کی۔ اس کے بعد ایجوکیشن میںڈپلو ما اور ایجو کیشن سائیکالوجی کا کورس مکمل کیا۔

پروفیسر قطب کامیدان کار ادب اور تصنیف کا رہا۔ آپ نے اسلام،دعوت اسلامی اور مسلمانان عالم کے موضوعات پر دو درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں سے چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں: oالانسان بین المادیۃ والاسلام(انسان مادہ پرستی اور اسلام کے درمیان) oمنھج الفن الاسلامی(اسلامی فن کی منہاجیات) oفی النفس والمجتمع (نفسیات اور معاشرے کا مطالعہ) oالتطور والشبات فی الحیاۃ البشریۃ(انسانی زندگی  میں جمود اور ارتقا) oقبسات من الرسول (رسول اکرمؐ کی تعلیمات کی چند جھلکیاں)۳۶؎

زینب الغزالیؒ (۱۹۱۷-۲۰۰۵ئ)

اخوان المسلمون کی اہم ادیبہ ومصنفہ کی پیدایش ۲جنوری ۱۹۱۷ء کوہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر میں اور ثانوی تعلیم کے لیے سرکاری اسکول میں داخلہ لیا، جہاں سے علم حدیث، تفسیر اوردعوہ میں سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ ۱۸ سال کی عمر میں ۱۹۳۶ء میں آپ نے ’جماعۃ السیدات المسلمات‘ کی بنیاد رکھی۔ا ٓپ کی خود نوشت ایام من حیاتی (رودادِ قفس، ترجمہ: خلیل احمد حامدی) قید وبند   کے ایام سے متعلق ہے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد اخوان کے ترجمان الدعوۃ، اور دوسرے   رسالہ لواء الاسلامکے ذریعے قلمی جہاد کا سلسلہ جاری رکھا ۔ عالم اسلامی کی یہ معروف معلمہ ، مبلغہ ۸؍اگست ۲۰۰۵ء کو خالق حقیقی سے جاملیں۔۳۷؎

شیخ محمد الغزالیؒ (۱۹۱۷ئ-۱۹۹۶ئ)

مصر کے ممتاز عالم ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۷ء میں بحیرہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ محمد الغزالی نے ۱۹۴۱ء میں جامعۃ الازہر سے فراغت حاصل کی۔ مصر میں مساجد کو نسل کے ڈائریکٹر ، اسلامی دعوۃ کے ڈائریکٹر جنرل اور وزارت اوقاف میں انڈر سکریٹری کی حیثیت میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ شیخ محمدا لغزالی نے کم وبیش ۴۰ کتابیں تصنیف کیں۔ چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں:o تأملات فی الدین والحیاۃ(دین اور زندگی کے چند مسائل پر غور وفکر) oرکائز الایمان  بین العقل والقلب(عقل وقلب کے درمیان ایمانی ذخیرے) oعقیدہ المسلم (مسلم کا عقیدہ) oالاسلام والطاقات المعطلۃ (اسلام اور معطل قوانین)oمن ھنا نعلم (یہاں سے ہمیں علم حاصل ہوتا ہے)۳۸؎

ڈاکٹر مصطفٰی السباعیؒ (۱۹۱۵-۱۹۶۴ئ)

شیخ مصطفی السباعی علما کے خانوادہ میں شہر حمص میں پیدا ہوئے۔ جامعۃ الازہرمیں داخلہ لے کر آپ نے مصر کی اسلامی وسیاسی جدو جہد میں بھر پور حصہ لیا۔ آپ کی کتابیں اس طرح ہیں: oاشتراکیہ الاسلام (اسلام کا تصور اشتراکیت) oالسیرۃ النبویۃ ۔دروس و عبر (سیرت نبویؐ ، عبرت ونصیحت کا خزینہ) oمن روائع حضارتنا (ہماری تہذیب کے   تابناک پہلو) oالمرأۃ بین الفقہ والقانون(عورت اسلامی فقہ اور جدید قوانین کے تناظر میں)۔ آپ نے تین معروف علمی جرائد کی ادارت کے فرائض انجام دیےoالمنار oالمسلمون oحضارۃ الاسلام۔ ۳۹؎ 

عبدالبدیع صقر

عبدالبدیع صقر ابراہیم، اخوان المسلمون کے سابقوں الاولون میں سے تھے۔ ۱۹۳۶ء میں امام حسن البنّا سے ملاقات ہوئی تو ان کی فکر اور شخصیت کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ شیخ صقر نے ۱۹۴۰ء میںاپنی معروف کتاب کیف ندعوا الناس؟  تصنیف کی او ر دعوت دین کے طریقۂ کا ر پر کھل کر گفتگو کی۔ آپ نے انفرادی تزکیہ و تربیت پر زیادہ زور دیا اور اسے کلیدِ انقلاب قرار دیا۔ چند تصانیف کے نام یہ ہیں:oلأخلاق للبنات( لڑکیوں کا اخلاق) oالتجوید و علوم القرآن  (تجوید اور علوم قرآن) oالتربیۃ الأساسیۃ للفرد المسلم(مسلمان کی بنیادی تربیت) oرسالۃ الایمان oالوصایا الخالدۃ (دائمی نصیحتیں)۔۴۰؎

عبد الفتاح ابوغدّہؒ (۱۹۱۷ئ-۱۹۹۷ئ)

شیخ عبدالفتاح بن محمد بشیر بن حسن ابوغدّہ شمالی شام کے شہر حلب الشہباء میں ایک دین دار تاجر گھرانے میںپیدا ہوئے۔ ابتدا ئی تعلیم اسی شہر میں المدرسۃ العربیۃ الاسلامیہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے کلیۃ الشریعۃ جامعۃ الازہر میں داخل ہوئے اور ۱۹۴۴-۱۹۴۸ء میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دعوتی وتبلیغی میدان میںشیخ ابو غدّہ کی شخصیت بڑی ممتاز تھی۔ آپ کی چند مشہور کتابیں یہ ہیں: o العلماء العزاب الذین أ ثر والعلم علی الزواج(شادی پر علم کو  ترجیح دینے والے علما) oقیمۃ الزمن عند العلمائ(علما کے نزدیک و قت کی قدروقیمت) oالرسول المعلم واأسا لیبہ فی التعلیم (معلم انسانیت اوران کے تعلیمی طریقے) oامراء المومنین فی الحدیث(مسلمان حکمران حدیث کی روشنی میں)۔ ا۴؎

محمد محمود الصواف ؒ (۱۹۱۵ئ-۱۹۹۲ئ)

محمد محمود الصواف اوائل شوال ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۵ء شمالی عراق کے شہر الموصل میںپیدا ہوئے۔ آغاز عمر ہی سے طلب علم کے بڑے دل دادہ تھے۔ علوم شریعت کی تحصیل کے لیے جامعۃ الازہر کا رُخ کیا اور چھے سالہ نصاب کی تکمیل تین سال ہی میں کرڈالی۔ ۱۲ ربیع الثانی ۱۴۱۳ھ مطابق ۹؍اکتوبر ۱۹۹۲ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ موصوف نے مختلف علمی ودینی موضوعات پر متعدد کتابیں لکھیں چند کے نام یہ ہیں: oالمسلمون و علم الفلک ( علم فلکیات اور مسلمان) oالقیامۃ رای العین (قیامت کا چشم دید منظر) oزوجات النبی الطاھرات (اُمہات المومنینؓ) oرِحلاتی الی الدیار الاسلامیہ (سفرنامہ عالم اسلام)۔ ۴۲؎

ڈاکٹر نجیب الکیلانی (۱۹۳۱ئ-۱۹۹۵ئ)

ڈاکٹر نجیب الکیلانی ۱۳۵۰ھ/۱۹۳۱ء میںایک مصری گاؤں شرشابہ میں ایک کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں طنطا سے ثانویہ کا سرٹیفکٹ حاصل کیا۔ پھر میڈیکل کا لج قاہرہ یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۶۰ء میں طب کی ڈگری حاصل کی۔ طبابت کے پیشے کے ساتھ تعمیری ، بامقصد ناول، ڈرامے اور قصے بھی برابر لکھتے رہے۔ ڈاکٹر کیلانی نے ۷۰ سے زائد کتابیں لکھیں۔ ناول ، قصوں کے ساتھ شعر، تنقید، فکر اسلامی اور طب کے تمام پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے۔تصانیف: ارض الانبیائ، لیالی ترکستان، عمالقۃ الشمال وغیرہ اور تاریخی ناول میں مملکتہ الغیب، امرأۃ عبدالمتجلی، أقوال ابوالفتوح الشرقاوی بہت اہم ہیں۔ شاعری کے میدان میں عصر الشہدا ،أغانی الغرباء ،مدینۃ الکبائر وغیرہ اور تنقید میں الاسلامیہ والمذاہب الأدبیۃ ، مدخل الی الادب الاسلامی اور علی أسوار دمشق ، علی ابواب خیبر وغیرہ ڈرامے بڑے قابل قدر ہیں۔ ۴۳؎

اسلامی تحریک کی کامیابی کے لیے عمدہ نظم ونسق او ر جامع مکمل منصوبہ بندی ناگریز ہے۔  یہ دونوں اوصاف حالات کے تھپیڑوں ، شدائد و مظالم کے طوفان کا جم کر مقابلہ کرسکتے ہیں اور کامیابی سے ہم کنار کرتے ہیں۔ عصرِحاضر میں اسلامی تحریکوں نے اس پہلو پر خصوصی توجہ دی ہے:

۱- تمام اسلامی تحریکوں نے تربیت و تزکیہ کے تمام پہلوؤں پر کافی توجہ دی ہے۔     تربیتی کارگاہوں کا انعقاد، عربی، اردو، انگریزی او ر دوسری مقامی و بین الاقوامی زبانوں میں   تربیتی کتب کی تصانیف اور ایک زبان سے دوسری زبان میں تراجم اس کا اہم حصہ ہیں۔    الاخوان المسلمون کی تربیتی ادبیات میں تزکیہ و تربیت سے متعلق کتب کی ایک طویل فہرست ہے۔

۲- اسلامی تحریکات میں فرد کی تربیت کی بنیادی اہمیت ہے، کیوں کہ اسلامی شریعت کا خطاب سب سے پہلے فرد سے ہے، اور افراد کی اصلاح و تزکیے کے ذریعے صالح اجتماعیت وجود میں آسکتی ہے۔

۳- الاخوان المسلمون کے بانی شیخ حسن البنا شہیدؒ نے بیعت کے ۱۰ ناگزیر اجزا پر زور  دیا ہے جو دراصل اسلامی شخصیت کے عناصر ترکیبی ہیں: ۱-فہم ۲-اخلاص ۳-عمل ۴-جہاد ۵-قربانی ۶-اطاعت کیشی۷ -ثابت قدمی ۸-یکسوئی ۹- بھائی چارہ۱۰- باہمی اعتماد۔

۴- اخوان المسلمون نے فرد کے اخلاقی و روحانی تزکیے کے لیے جو نظام ترتیب دیا ہے اس میں متصوفانہ اصطلاحات سے اجتناب کرتے ہوئے عام فہم اور آسان الفاظ میں فرد کے اخلاقی اوصاف ومحاسن سے بحث کی ہے۔

۵- جماعت اسلامی ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش نے فر د کی تربیت و تزکیہ کا جو نظام ترتیب دیا، اس میں بنیادی اہمیت قرآن وحدیث کے براہ راست مطالعے کو حاصل رہی۔مولانا مودودی    کی تفسیر تفہیم القرآن ، مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر تدبرقرآن اور سید قطب کی تفسیر     فی ظلال القرآن کے اُردو ترجموں نے کا رکنوں کی تربیت پر زبردست اثرات مرتب کیے ۔

۶- الاخوان المسلمون کے تربیتی نظام میں اوراد و اذکار کا اہتمام ، وظائف ، نوافل، اور  تہجد گزاری شامل تھے۔ اور ’احتسابی چارٹ‘ کی خانہ پری تزکیۂ نفس کے لیے ضروری قرار دے دی گئی تھی۔

 

مقالہ نگار شعبہ علومِ اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، بھارت میں استاد ہیں

حواشی و تعلیقات

۱-            شیخ علی عبدالرازق(۱۸۸۸ئ-۱۹۶۶ئ) کی مشہور تصنیف: الاسلام وأصول الحکم بحث فی الخلافۃ والحکمۃ فی الاسلام قاہرہ سے ۱۹۲۵ء میں شائع ہوئی۔

۲-            ڈاکٹر طہٰ حسین (۱۸۸۹ئ-۱۹۷۱ئ) مصر کے مشہور ناول نگار ۔ الشعر الجاھلی کے علاوہ مستقبل الثقافۃ فی مصر  بھی ا ٓپ کی کتاب ہے جس میں مغرب کی تقلید پر بڑا زور دیا گیا ہے

۳-            قاسم امین (۱۸۶۳-۱۹۰۸ئ) مصر کے معروف ادیب جن کو’ محرر المرأ ۃ‘ کا خطاب دیا گیا۔

۴-            سید جمال الدین افغانی (۱۸۳۸ئ-۱۸۹۷ئ)افغانستان کے شہر اسد آباد میںپیدا ہوئے۔ آپ کی کتابیں تاریخ الافغان ، رسالۃ الردّ علی الدھر یین طبع ہو چکی ہیں۔

۵-            مفتی محمد عبدہٗ(۱۸۴۹ئ-۱۹۰۵ئ)۔ رسالۃ التوحید، رسالہ الواردات، الاسلام و النصرانیۃ مع العلم والمدینۃ آپ کی اہم تصنیفات ہیں۔ اسکندر یہ میں آپ کی وفات ہوئی۔

۶-            سید محمد رشید رضا(۱۸۶۵ئ-۱۹۳۵ئ) نداء للجنس اللطیف، یسرا لاسلام وأ صول التشریع العام ، الوھا بیون والحجاز آپ کی اہم کتابیں ہیں۔

۷-            مصطفی صادق الرافعی(۱۸۸۱ئ-۱۹۳۷ئ) اعجاز القرآن البلاغۃ والنبوتہ اور تحت رأیۃ القرآن، ان کی معروف تصانیف ہیں۔ آپ کی طنطا میں وفات ہوئی۔

۸-            محمدفرید وجدی(۱۸۷۸ئ-۱۹۵۴ئ)کی پیدایش اسکندریہ میں ہوئی۔ دائرۃ معارف القرآن، الرابع عشر العشرین  آپ کا علمی اور تحقیقی کا رنامہ ہے۔

۹-            محب الدین الخطیب (۱۸۸۶ئ-۱۹۶۹ئ)، کتب: تاریخ مدینۃ الزھراء بالأندلس،الرعیل الاول فی الاسلام ، اتجاہ الموجات، الشریۃ فی جزیرہ العرب ۔

۱۰-         شیخ حسن البنّا کے احوال کے لیے، پڑھیے: امام حسن البنا، ایک مطالعہ، مرتبہ: عبدالغفار عزیز، سلیم منصور خالد، ۲۰۱۱ئ، منشورات، منصورہ، لاہور، پاکستان

۱۱-         خلیل احمد حامدی، اخوان المسلمون، تاریخ دعوت، خدمات، ۱۹۸۱ء ص ۴۳-۴۴

۱۲-         انور الجندی ، حسن البنّا الداعیۃ ، الامام المجدد اردو ترجمہ محمد سمیع اختر حسن البنّا شہید، ۱۹۹۱ئ،ص ۳۱۸۔

۱۳-         حسن الہضیبی مصری کالج سے قانون کی ڈگری لی ۲۷ سالوں تک جج کے فرائض انجام دیے۔

۱۴-         خلیل احمد حامدی حوالہ بالا، ص ۱۲۷

۱۵-         سید عمر تلمسانی ۴؍نو مبر ۱۹۰۴ء کو قاہرہ کے علاقہ غوریہ میںپیدا ہوئے۔ بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یونی ورسٹی لا کالج میں داخل ہوئے۔

۱۶-         The Oxford Encyclopaedia of the Modern Islamic World, 1995. vol2,p.354-356,article on Al Jamaat,at-Islamia

۱۷-         سید عمر تلمسانی ، یادوں کی امانت، (ترجمہ: حافظ محمد ادریس) مدینہ پبلشنگ سینٹر، دہلی، ۱۹۹۳، ص۳۵۷-۳۵۹

۱۸-         استاذ محمد حامد ابو النصرؒ فریدی،۱۹۱۳ میں مصر کے شہر منفلوط میںپیدا ہوئے۔

۱۹-         ہفت روزہ المجتمع کویت، شمار ۱۱۷۸، ۵؍دسمبر ۱۹۹۵ء ، ص ۳۰-۳۲

۲۰-         حاضر العالم الاسلامی عام ۱۹۲۲م، المرکز العالمی للکتاب الاسلامی ، کویت، ص ۹۷-۹۸

۲۱-         استاذ مصطفی مشہور، قاہرہ کلیۃ العلوم سے فلکیات اور رصد کا ری میں گریجویشن کیا ۔

۲۲-         عبید اللہ فہد فلاحی، اخوان المسلمون ، القلم پبلی کیشنز ، کشمیر، ۲۰۱۱ئ، ص ۳۹-۴۳

۲۳-         آپ کے والد حسن اسماعیل الہضیبی نامور قانون دان تھے۔ ۲۸مئی ۱۹۲۱ء کوآپ کی ولادت ہوئی۔  کلیۃ الحقوق سے گریجویشن کے بعد مصر کی عدالت میں بحیثیت جج تقرر ہوا۔

۲۴-         استاذ محمد مہدی عاکف ۲۱؍جولائی ۱۹۲۸ء کو مصری ڈیلٹا کے قہلیہ خطہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں فیزیکل ہیلتھ ایجوکیشن کالج سے گریجویشن کی تکمیل کی۔

۲۵-         Egypt's New Dilemma  ،  The Guardian، لندن، ۹دسمبر ۲۰۰۵ء

۲۶-         ڈاکٹرمحمد البدیع۔ مصری سائنسی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق عرب دنیا میں پتھالوجی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔

۲۷-         خلیل احمد حامدی، اخوان المسلمون، تاریخ دعوت خدمات ، مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی

۲۸-         عبید اللہ فہد فلاحی ۔ سید قطب شہید کی حیات وخدمات کا تجزیہ، دہلی ،۱۹۹۳ء

۲۹-         خلیل احمد حامدی، اخوان المسلمون، ص۸۷

۳۰-         مصطفی محمد الطحان ، وسط ایشیا میں اسلام کا مستقبل، ترجمہ ڈاکٹر عبید اللہ فلاحی ، ۱۹۹۶ء

۳۱-         Taha Jabir al-Alwani, Ijtihad ,International Institute of Islamic Thought, Herndon, USA,1993.P32

۳۲-         عماد الدین خلیل ،مدخل الی اسلامیۃ المعرفۃ مع مخطط مقترح ا لا سلامیۃ علم التاریخ المعھد العالمی للکفر الاسلامی ، ہیرنڈن امریکا ۱۹۹۱ء ص ۲

۳۳-         Abdul Hamid A. Abu Sulayman, The Islamic Theory of International Relations, IIIT, Herndon,1987,P.2

۳۴-         ہفت روزہ المجتمع کویت، شمارہ ۱۱۵۲،۶؍جون۱۹۹۵ئ، ص۲۲

۳۵-         ہفت روزہ المجتمع  ۱۱۶۲،۱۵؍اگست ۱۹۹۵،ص۴۱

۳۶-         محمد اشرف علی، محمد قطب۔مساھمتہ فی النثر العربی الحدیث ، غیر مطبوعہ پی ایچ ڈی مقالہ، زیر نگرانی ڈاکٹر صلاح الدین عمری،شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،۱۹۹۵ء

۳۷-         زینب الغزالی،ایام من حیاتی، بیروت دارالقرآن الکریم، للعنایہ بطبعہ ونشر علومہ، ص۱۷۰-۱۷۱

۳۸-         قطب عبدالحمید قطب، خطب الشیخ محمد الغزالی فی شئون الدین والحیاۃ، دارالاعتصام ، قاہرہ، ۱۹۸۷ئ،الجزء الاول ص ۱۳-۱۷

۳۹-         The Oxford Encyclopedia of the Modern -Islamic World, vol. 1V,p.71-72

۴۰-         عبدالبدیع صقر، کیف ندعوالناس ،المکتب الاسلامی، بیروت، طبع ششم ، ۱۹۷۷، ص۱۰و۱۶۵۔

۴۱-         المجتمع کویت، شمارہ ۱۲۳۹، ۲۵؍ فروری۱۹۹۷ئ،ص۳۴-۳۷۔

۴۲-       "    ۱۲۷۰،۷؍اکتوبر ۱۹۹۷ء ص ۵۱۔

۴۳-      "     ۱۳۲۶،۱۷؍نومبر ۱۹۹۸ئ، ص۴۸-۵۰۔

۴۴-         عبید اللہ فہد فلاحی ، اخوان المسلمون،القلم پبلی کیشنز ۲۰۱۱،ص ۲۰۹-۲۴۳۔