یورپ کی فکری تاریخ میں اٹھارھویں صدی ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس صدی میں نہ صرف یورپی تصورِ مذہب بلکہ تصورِ معاشرہ معیشت و سیاست اور ثقافت، غرض زندگی کے اہم شعبوں میں ایک نمایاں اور بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔ عیسائیت اور کلیسا کااقتدار چرچ کی چاردیواری تک محدود ہوگیا اور زندگی کے دیگر معاملات کی حدبندی الگ الگ فلسفوں کے زیراثر عمل میں لائی گئی۔ اس حوالے سے ہیگل،کارل مارکس، ڈارون، ڈیکارٹس، اوگسٹ کومتے اور ہیوم اور مِل کی فکر نے زندگی کے مختلف شعبوں میں گہرے اثرات ڈالے۔ نتیجتاً مادیت، لذتیت، انفرادیت، لادینی جمہوریت، لامحدود معاشی دوڑ نے یورپی معاشرے کی اقدار میں ایک عنصری تبدیلی پیدا کی۔ بعد میں آنے والی دو صدیوں میں ان تصورات کو مزید قبولیت حاصل ہوئی اور اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ احساس اُبھرا کہ وہ جدیدیت جو اٹھارھویں صدی کی پہچان اور بعد کے اَدوار کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی تھی اب ماضی کا قصہ ہے۔ چنانچہ Beyond post Modernism کا نعرہ بلند کیا گیا۔ مغرب کے اس فکری سفر میں اگر قدرِ مشترک تلاش کی جائے تو سیکولرزم یا لادینیت ان تمام تصورات میںکارفرما نظر آتی ہے۔ سیکولرزم دراصل زندگی، حقیقت اور سچائی کو دوخانوں میں بانٹنے کا نام ہے، یعنی ایک خانہ مذہب کا اور دوسرا خانہ دنیا یا مادیت کا۔ اس تقسیم میں حقیقی عامل اور عنصر مادہ اور حِّس کو تسلیم کیا گیا۔ چنانچہ ہر وہ شے جو مادی طور پر یا حسّی تجربے کے نتیجے میں وجود رکھتی ہو حقیقی قرار پائی اور جو چیز اس معیار پر پوری نہ اُترتی ہو وہ واہمہ، وقتی اور غیرحقیقی سمجھ لی گئی۔ بعدکے آنے والے مفکرین خصوصاً سگمنڈ فرائڈ نے نفسیاتی زاویے سے جائزہ لیتے ہوئے empiricial reality کو بھی لاشعور اور تحت الشعور کا تابع کردینا چاہا۔ اس پورے تہذیبی عمل میں یہ ماننے کے باوجود کہ انفرادی طور پر جو چاہے اور جس طرح چاہے اپنے مذہب پر عمل کرے۔ کاروبارِ حیات کے دروازے مذہب یعنی عیسائیت کے لیے بند کردیے گئے، اور مذہب کو ایک ذاتی اور انفرادی عمل کا مصدقہ مقام دے دیاگیا۔
ہرشعبۂ علم اور ہرحکمت عملی کی تشکیل اسی فکری بنیاد پر رکھی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق و مغرب میں جس شخص نے بھی معاشرتی علوم یا طبعی و تجرباتی علوم کا مطالعہ کیا ، غیرمحسوس طور پر یہ بنیادی مفروضہ اُس کے ذہن اور قلب میں جاگزیں ہوگیا۔
دورِ جدید کی دو قدآور علمی شخصیات علامہ اقبال اور سید مودودی نے اس رمز کو نہ صرف پہچانا بلکہ اس کا علمی اور عقلی جواب اسلام کے جامع تصور سے فراہم کیا۔ گذشتہ ۲۰سال پاکستان کی تاریخ ہی اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس دوران سیکولرزم کو جامعات، انگریزی صحافت اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نظریۂ پاکستان کو کمزور کرنے اور بھارتی نظریاتی یلغار کی پاکستان میں حمایت اور سرپرستی کی غرض سے ہرممکنہ سطح پر عام کرنے کی کوشش سرکاری سرپرستی میں کی گئی۔
طارق جان نے انگریزی میں اس نظریاتی یلغار کا مقابلہ علمی اور ابلاغی سطح پر انتہائی کامیابی کے ساتھ کیا اور گذشتہ دو عشروں میں لادینیت اور اس کے مختلف پہلوئوں پر انگریزی میں اپنی تحریرات سے جہاد کیا۔ میری نگاہ میں ان کا تنہا کام ایک علمی ہراول دستے کے مجموعی کام سے کم نہیں کہاجاسکتا۔ میں ذاتی طور پر ان کی تنقیدی نگاہ، انگریزی زبان پر عبور و مہارت کا معترف آج نہیں، اس وقت سے ہوں جب طارق جوان تھا___ بلکہ وہ آج بھی جوان تر ہے۔ بہت کم افراد ایسے ہوں گے جنھیں طارق جان نے ۴۰ سال تک گوارا کیا ہو، اور تعلقات کی گہرائی میں کوئی فرق نہ آیا ہو۔ ا س لیے توصیفی و تعریفی کلمات کی جگہ___ جس کے وہ لازماً مستحق ہیں، میں پورے اعتماد سے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ جدید نسل کے لیے یہ کتاب ایک لازمی مطالعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
برادر محب الحق صاحب زادہ نے بڑی محنت بلکہ جان جوکھوں میں ڈال کر انگریزی کے اصل مضامین کا ترجمہ اُردو میں کیا ہے۔ میرے خیال میں اسے مزید سلیس بنانے کی ضرورت تھی۔ ترجمے کی خوبی کے باوجود جو بات اصل انگریزی مضامین کی ہے وہ اپنی جگہ مسلّم ہے۔
کتاب کا سرورق مصنف کی نصف تصویر آجانے سے زیادہ حسین اور پُرکشش ہوگیا ہے۔ کتاب کے ناشر خصوصی طور پر مبارک باد اور ہمدردی کے مستحق ہیں جنھوں نے خود طارق جان کے بقول ’مجھے برداشت کیا مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد وہ ایک اچھے صابر انسان کے طور پر اُبھریں گے‘‘۔ میں عین الیقین کی حدتک طارق جان کے اس حُسنِ ظن کی تصدیق کرتا ہوں۔
کتاب ۲۸ طویل اور مختصر مقالات پر مشتمل ہے۔ ہرمقالہ پاکستان کی تاریخ میں اُبھرنے والے کسی حقیقی مسئلے سے تعلق رکھتا ہے اور پاکستانیت اور اسلامیت سے بھرے ہوئے دل کی آواز محسوس ہوتا ہے۔ ہرباب تحقیقی حوالوں سے مزین ہے اور کتاب کے آخر میں فہرست حوالہ جات کے ساتھ مضامین کا انڈکس بھی دے دیا گیا ہے۔
یہ کتاب لادینیت کا اصل چہرہ پیش کرتی ہے اور علمی استدلال کے زور سے علامہ اقبال اور سید مودودی کی فکر کو آگے بڑھاتی ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
مغربی معاشروں میں خواتین کی موجودہ حالت، اُن کے ساتھ ناروا سلوک، اور پھر اسلام اور اسلام کے معاشرتی نظام کے خلاف بلند آہنگ اشتہاربازی کے باوصف وہاں اسلام کی مقبولیت پر یہ تحقیقی کتاب، دراصل مغرب اور اسلام کے عنوان سے شائع ہونے والے علمی و تحقیقی مجلّے کی ۳۸ویں اشاعت ہے (جلد:۱۵، شمارہ:۱)۔
مجلے کے مدیر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، ابتدایئے میں لکھتے ہیں کہ ’’اب بہت سے مسلم اہلِ قلم مسلم معاشروں میں خواتین کی درست اسلامی حیثیت کو اُجاگر کرنے کے بجاے، نام نہاد جدید مغربی فکر کے زیراثر انھیں کچھ ’آزاد‘ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں، جب کہ اسلامی شریعت کا دائرہ نہ [خواتین کے] قیدوبند پر مبنی ہے، نہ مادر پدر آزادی پر‘‘۔ مصنف ثروت جمال اصمعی کہتے ہیں کہ اس وقت معروضی صورتِ حال یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے غلبے اور پھیلائو کے باوصف، مغربی عورت، اسلام کی طرف رغبت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ افغان طالبان کی قید میں اسلام سے متاثر ہوکر، آزادی کے بعد، اُسے قبول کرنے کا اعلان کرنے والی برطانوی صحافی یُوآن رِڈلے کوئی شاذ اور انفرادی مثال نہیں۔ اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے باوجود، برطانیہ، امریکا اور دوسرے مغربی ممالک میں اسلام بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد ہرسال اوسطاً ۲۰ہزار امریکی مسلمان ہورہے ہیں ، اور ان میں خواتین کا تناسب، مردوں سے چار گنا ہے۔ (ص ۱۸)
خواتین میں اسلام کی مقبولیت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مر د و زن میں مساوات کے تمام دعووں کے باوجود مغرب میں عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک عام ہے۔ برطانیہ میں ہرسال ۳۰ہزار عورتیں، حاملہ ہونے کی بنا پر ملازمتوں سے فارغ کی جاتی ہیں (ص۳۲)۔ پھر تنخواہوں اور دوسری مراعات میں بھی انھیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے (ص ۳۴)۔ انھیں قُحبہ خانوں اور حماموں میں مزدوروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ ۴۵ فی صد عورتیں کسی نہ کسی طرح گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ جیلوں میں، فوجی ملازمتوں کے دوران، دفتروں اور تفریحی مقامات پر خواتین کے ساتھ زیادتی کے اعداد و شمار حیران کن ہیں، جو فاضل مصنف نے مغربی اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے جمع کردیے ہیں۔
یُوآن رِڈلے کو جبراً مسلمان نہیں بنایا گیا، بلکہ طالبان کی قید سے رہائی کے بعد لندن پہنچ کر انھوں نے قرآن اور اسلام کا مطالعہ کیا، اور پھر اسلام قبول کیا اور اس نتیجے تک پہنچیں کہ ’’اسلام میں فضیلت کا پیمانہ اخلاقی حُسن ہے، نہ کہ جنسی حُسن، دولت، طاقت ، منصب اور جنسی کشش‘‘۔
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی خواہرِنسبتی اور معروف برطانوی صحافی لارن بوتھ (Lauren Booth) نے Why I Love Islam میں اپنے قبولِ اسلام کی کہانی بیان کی ہے، اور بتایا ہے کہ جب انھوں نے اپنی بچیوں کو قبولِ اسلام کی خبر دی تو انھوں نے خوش ہوکر نعرہ لگایا: ’’ہم اسلام سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ پھر بچیوں نے اپنی ماں سے کچھ سوال کیے۔ اُن کے آخری سوال نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ انھوں نے کہا: اب جب کہ آپ مسلمان ہوچکی ہیں تو کیا اب بھی آپ اپنا سینہ لوگوں کے سامنے نمایاں کریں گی؟‘‘ (ص ۶۶)
مصنف نے امریکا میں اسلام قبول کرنے والی خواتین کے اپنے بیان، خود وہاں کے محققین کے حوالے سے پیش کیے ہیں۔ ان نومسلموں میں سے ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ اُن کے قبولِ اسلام میں اس یقین و اعتماد نے اہم کردار ادا کیا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا جاتا ہے‘‘۔ (ص ۷۸)
مغربی خواتین کے قبولِ اسلام کے اسباب میں اہم ترین ، سرمایہ دارانہ نظام میں اُن کا بطور ایک جنس، استحصال ہے۔ وہاں عورت کو بھی ایک جنسِ بازار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے (یہی حال منڈی کی معیشت اپنا لینے والے دنیا کے تمام ملکوں کا ہے)۔ پھر عیسائیت میں عورت پیدایشی طور پر گناہ گار بتائی گئی ہے کہ اُسی کی وجہ سے اولادِ آدم لعنتی قرار پائی۔ اس کے برعکس اسلام نے عورت اور مرد کے جسمانی اور نفسیاتی فرق کو قبول کر کے اور ملحوظ رکھ کر دونوں کے لیے یکساں شرف اور عزت کے ساتھ ان کے متعین حقوق و فرائض بتا دیے ہیں۔ مصنف نے بڑی تفصیل سے اسلامی قوانین کی رُو سے اُن کا استحصا [احاطہ]کیا ہے (اگرچہ بہت سے مسلم معاشروں میں ان کے مطابق عمل نہیں ہورہا)۔ لیکن مغرب کی پڑھی لکھی سمجھ دار خواتین جب اس حوالے سے اسلام کا مطالعہ کرتی ہیں، اور بعض خاندانوں میں ان اسلامی تعلیمات کو عملاً مروج بھی پاتی ہیں، تو انھیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ موجودہ مسلم معاشرو ں میں عورتوں کے ساتھ بے انصافیاں اور دوسری خرابیاں، اسلامی تعلیمات پر عمل کی وجہ سے نہیں، بلکہ اُن سے انحراف کی وجہ سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکا کی اسلام قبول کرنے والی خواتین میں اکثریت باشعور اور پڑھی لکھی خواتین کی ہے۔
کتاب میں مندرج معلومات اور اعداد و شمار کے لیے برقیاتی ذرائع ابلاغ (ویب سائٹس) کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے، اور ان کے حوالے دیے گئے ہیں۔ ان کے لیے مصنف کی دیدہ ریزی اور محنت قابلِ داد ہے۔ (عبدالقدیر سلیم)
گذشتہ سو برس سے اقبالیات، اہلِ علم و دانش میں ایک زندہ موضوع کی حیثیت سے مرکز نگاہ ہے۔ شعرِاقبال، قولِ اقبال اور حرفِ اقبال کے کتنے پہلو ہیں جنھیں ہزاروں خردمندوں نے غوروفکر کا محور بنایا ۔ اقبالیاتی مکاتیب کا یہ حصہ اوّل اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے زمانۂ طالب علمی سے اقبالیات کو اپنی محبت کا حوالہ بنایا۔ اس ضمن میں انھوں نے ذاتی تحقیق و جستجو کے پہلو بہ پہلو مختلف اہلِ علم و ہنر سے نامہ و پیام کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ یہ کتاب ۴مئی ۱۹۷۱ء سے ۲ جون ۲۰۱۱ء کی درمیانی مدت کی خط کتابت پر مشتمل ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر سید عبداللہ، پروفیسر حمید احمد خاں، احمد ندیم قاسمی، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر جاویداقبال، آل احمد سرور، عبداللہ قریشی، مشفق خواجہ، سید نذیر نیازی، ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، عاشق حسین بٹالوی، گیان چند، رشید حسن خاں، سعید اختر درانی، ڈاکٹر خلیق انجم، ہیروجی کتائوکا، ملک حق نواز، شانتی رنجن بھٹاچاریہ اور صابر کلوروی سمیت ۴۲ مشاہیر اس بزم میں شریک ہیں۔
کتاب کے بعض خطوط تو مختصر ہیں لیکن بعض کی نوعیت مستقل مضامین کی ہے۔ یہ سب اقبالیات کے کسی نہ کسی اہم نکتے کی توضیح و تشریح کے در وَا کرتے ہیں۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کی سلیقہ شعاری اور جزرسی نے اس قیمتی ذخیرئہ مکتوبات کی امانت کو محفوظ رکھنے کا وسیلہ بنایا۔ ان نابغۂ روزگار انسانوں کی یہ مختصر، مشفقانہ، عالمانہ اور وضاحتی تحریریں علم اور مکالمے کی ایک ایسی محفل سجاتی ہیں کہ ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ پھر ہاشمی صاحب کے عزیز شاگرد ڈاکٹر خالد ندیم (سرگودھا یونی ورسٹی) نے محنت اور جاں کاہی سے اسے مرتب کیا اور اس پر حواشی اور تعلیقات کا اضافہ کیا ہے۔ ان کی اس جستجو نے کتاب کے تحقیقی وژن کو دوچند کردیا ہے۔
ادبیات کی تاریخ اور اقبالیات کی رمزشناسی کے جویا اس مجموعۂ مکاتب کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہیں گے۔ (سلیم منصور خالد)
شمیم احمد صدیقی کی یہ اہم کتاب پیغام دیتی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان عمومی طور پر، اور امریکا میں مختلف رنگ و نسل کے مسلمان خصوصی طور پر، اس حقیقت سے آگاہی حاصل کریں کہ اُن کی اور آنے والی نسلوں کی بقا اِسی میں ہے کہ مسلمان دین کو سمجھیں ، اُس پر عمل پیرا ہوں اور اِس کی دعوت کے علَم بردار بن کر دُنیا بھر میں قرآن کریم اور اُسوئہ رسولؐ کا پیغام عام کردیں۔
یہ تصنیف پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آنے والے اُن مسلمانوں کی اولاد کے لیے لکھی گئی ہے جو امریکا میں مقیم ہیں اور اُردو رسم الخط سے ناواقف ہیں یا اُردو کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔ امریکا میں دعوت و تبلیغ اور اقامت ِ دین کی مختلف تنظیموں کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ اُن پر قدرے تنقید بھی کی ہے۔
مصنف کا موقف ’’دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں داعی تیار کریں‘‘ (ص ۱۲۳) محلِ نظر ہے کیونکہ کفر اور اُس کے نمایندے سیاسی اقتدار پر قابض ہیں۔ اس لیے سیاسی جدوجہد کو ترک نہیں کیا جاسکتا، اُن کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ’’دعوتی لٹریچر لاکھوں کی تعداد میں موجود ہے‘‘ (ص ۸۲)۔ امریکا میں اسلامی دعوت کا کام کریں اور راہنما کردار ادا کریں‘‘ (ص ۲۰۵)۔ امریکا میں بسنے والے مسلمان سرگرم زندگی گزار رہے ہیں اور اُن کی صلاحیتوں کا لوہا مانا جاتا ہے۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ بھی اسلامی تحریکات سے سیکھیں۔ امریکا میں رہنے والے مسلمان سود، مخلوط معاشرے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور طالبانائزیشن کا مقابلہ کیسے کریں، اس کا ذکر نہیں۔ (محمد ایوب منیر)
آج اخوان دنیا کا موضوع ہیں لیکن یہ تحریک اس سے پہلے کس کس مرحلے سے گزری، یہ حالیہ تاریخ کی ایک عجیب داستان ہے۔ اخون سے مسلسل قلبی تعلق اور ان کے بارے میں ہمارے لٹریچر کے آگاہی دینے سے ایسا لگتا ہے کہ نصف صدی سے زیادہ کی یہ پوری تاریخ ہماری آنکھوں کے سامنے گزری ہے۔
حسن البنا کی شہادت، چھے قائدین کو پھانسی دیا جانا، اور پھر سیدقطب کی پھانسی، جیسے سب کل کی باتیں ہیں۔ مولانا مسعود عالم ندوی کی دیارِعرب میں چند ماہ نے پاکستان کی تحریک اسلامی کو عالمِ عرب سے، وہاں کی تحریکات سے، شخصیات سے، اہم کتب، رسائل اور فکری لہروں سے آگاہ کیا۔ پھر یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں مختلف افراد کے ذریعے جاری رہا۔ ۱۹۵۲ء میں مصری انقلاب میں شاہِ فاروق کا تخت اُلٹ گیا، اور معروف ہے کہ ناصر اور اس کے ساتھیوں کی پشت پر اخوان تھے۔ ۲۰، ۲۵ سال میں اخوان نہ صرف مصر، بلکہ دوسرے عرب ممالک میں ایک قوت بن چکے تھے۔ لیکن پھر ناصر کے سازشی ذہن اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی خاطر ایک جلسے میں ناصر پر قاتلانہ حملے کا ڈراما رچایا گیا اور اس کا الزام اخوان پر رکھ کر پورے ملک میں جیلیں اخوان سے بھر دی گئیں اور داروگیر کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو دراز ہی ہوتا گیا۔
اس دور میں اخوان پر اور ان کے قائدین پر کیا گزری، اس کی ایک جھلک ان مجاہد خواتین کے تذکرے میں ملتی ہے۔ یہ ان خواتین کی زندگی کی مختصر کہانیاں ہیں جو دراصل مصری حکومت کے اخوان اور مصری عوام کے ساتھ سلوک کا آنکھوں دیکھا بلکہ برتا ہوا مستند بیان ہے۔ عموماً یہ خواتین ان قائدین کی شریکِ حیات یا بہنیں، بیٹیاں ہیں جس میں یہ تفصیل آتی ہے کہ ان کے مرد جیلوں میں بند تھے لیکن مصر کی حکومت کے ان کے اور ان کے جاننے والوں کے ساتھ کتنے سخت جابرانہ رویے تھے۔ یہ اپنے بیٹوں، عزیزوں کی رہائی کے لیے ایک سے دوسری جیل پھرتی رہیں۔ شوہر کا جسدخاکی اس شرط پر باپ کو دیا گیا کہ تدفین میں کوئی عزیز شریک نہیں ہوگا۔ ایک گائوں کرداسہ کے شہدا کی لاشوںکو کئی روز تک دفن نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ مساجد بند کردی گئیں اور نماز پر پابندی عائد کردی گئی۔ ۱۹۴۸ء میں پہلی پابندی کے وقت جو اخوان گرفتار ہوئے اور عدم ثبوت پر رہا کردیے گئے تھے، ۱۹۶۰ء میں ان سب کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور پھر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر رخسانہ جبیں نے چند جملوں میں پوری کتاب کی مکمل تصویر بیان کردی ہے: ’’یہ انتہا درجے کی جدوجہد کی مثالیں ہیں کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، غلبۂ دین کی جدوجہد کیسے جاری رکھنا ہے۔ شوہر شہادت پاجائیں، جیل میں قیدوبند کی اذیتیں سہ رہے ہوں، کمسن بچے گرفتار ہورہے ہوں، نوبیاہتا دولہا کو پولیس گھسیٹ کر لے جارہی ہو، گھروں کو اُلٹ پلٹ کیا جارہا ہو، جوان بیٹوں کو لہولہان کیا جارہا ہو،ہر حال میں صبرواستقامت کا دامن تھامے رکھنا ہے، بلکہ آلِ یاسر کی طرح اقامتِ دین کی تحریک کو اپنے خون سے سینچنا ہے‘‘۔لاریب ان خواتین نے یہ فریضہ پوری کامیابی سے انجام دیا۔ (وقار احمد زبیری)
پاکستان کے موجودہ مسائل اور مصائب کے مختلف پہلوئوں پر زیرنظر مضامین کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر دردمند مسلمان اور پاکستانی محسوس کرتا ہے کہ ع
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس میں اُمت ِ مسلمہ پر نائن الیون کے ڈرامے کے دُور رس اثرات، جنرل مشرف کا پاکستان کی گردن میں امریکی غلامی کا طوق ڈال دینا ، افغانستان پر امریکی حملہ، ہماری کشمیر پالیسی، پاکستان پر بھارت کا دبائو اور اس کا قافیہ تنگ کرنے کی بھارتی پالیسی پر امریکا کی ہلاشیری جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔
گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں کے دوران میں جنرل حمیدگل صاحب نے بہت کچھ لکھا۔ ان کے ایک مداح مبین غزنوی نے اخبارات میں شائع شدہ ان کے ۳۸منتخب مضامین پر مشتمل یہ مجموعہ مرتب کیا ہے۔ یہ مضامین، لکھنے والے کی حب الوطنی ، پاکستان کی سربلندی، امریکی غلامی سے نجات، نہ صرف افغانستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کی امریکا سے رہائی اور بہ حیثیت مجموعی اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے اس کی آرزو اور تمنائوں کے ترجمان ہیں۔
جنرل صاحب کشمیر کو بجا طور پر پاکستان کی ایسی شہ رگ سمجھتے ہیں جس کے بغیر پاکستان کی بقا مشکوک ہے۔ چنانچہ زیرنظر کتاب کا سب سے بڑا موضوع مسئلۂ کشمیر ہے (۱۰ مضامین)۔ ان کے خیال میں ’خودمختار کشمیر‘ ایک ہلاکت آفریں سراب ہے۔ جنرل صاحب نے پاکستان کی کشمیر پالیسی کو درست سمت دینے کے لیے ۱۱ تجاویز پیش کی ہیں۔ مسئلۂ افغانستان ان تحریروں کا دوسرا بڑا موضوع ہے۔ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت ان کے خیال میں امریکا کا چھوڑا ہوا ’شیطانی اور بے بنیاد شوشہ‘ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کی رخصتی، افغان دھڑوں کا باہمی اتحاد اور نفاذِشریعت ہی سے افغانستان میں قیامِ امن ممکن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا (درپردہ صہیونی) نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کو خوابِ غفلت سے بیداری اور نشاتِ ثانیہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کا معاملہ وہی ہے کہ بیمار ہوئے جس کے سبب، اُسی عطار کے ’صاحب زادے‘ سے دوا لیتے ہیں۔ یہ مضامین جنرل حمیدگل کے پیشہ ورانہ تجربے، تاریخ کے مطالعے اور حکمت و دانش کے امتزاج کے عکاس ہیں۔ انھوں نے یہ مضامین بہ تقاضاے ایمان، ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لکھے ہیں۔ (ر - ہ )