دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمان ہرسال لاکھوں کی تعداد میں دُوردراز سے سفر کرنے کے بعد ملّت کے قلب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا رُخ کرتے ہیں اور حج اور عمرہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا کوئی عالمی میلہ نہیں ہے کہ اولمپک کی طرح سے لوگ تفریح اور سیاحت کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اور میدانِ عرفات میں جاکر قیام کریں، بلکہ یہ ایک جسمانی، روحانی اور نفسیاتی عبادت ہے جس کے صحیح طور پر ادا کرلینے کے بعد ایک نیا مسلمان اور نیا انسان وجود میں آتا ہے۔ اس شعوری عمل کے نتیجے میں انسان کے قلب و دماغ کے ہرہرگوشے میں پائی جانے والی کمزوریوں کا تزکیہ ہوجاتا ہے اور جس طرح ایک معصوم بچہ شکمِ مادر سے دنیا میں آتا ہے، ایسے ہی ایک زائر، حج کرنے کے بعد برف کے گالے کی طرح پاک و صاف ہوکر نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ سید مودودیؒ نے اس عمل کو جسم میں خون کی گردش اور قلب سے گزرنے کے بعد خون کی اصلاح و پاکیزگی سے تعبیر کیا ہے کہ جس طرح تمام جسم سے خون کھینچ کر قلب کی طرف جاتا ہے اور قلب سے گزرنے کے بعد تزکیے کے بعدجسم کو توانائی دینے کے لیے پھر گردش میں آجاتا ہے، اسی طرح تمام اہلِ ایمان اپنی کمزوریوں، بھول و نسیان اور خطائوں کے ساتھ حرم شریف کی طرف جاتے ہیں اور میدانِ عرفات میں اپنی غلطیوں کے اعتراف ، عزمِ اصلاح اور عہدِنو کے ساتھ گھروں کو واپس ہوتے ہیں، تاکہ اُمت مسلمہ ہرسال ایک عملی تطہیر و تزکیے کے ذریعے تازہ قوت، بلند حوصلوں اور قابلِ عمل اصلاحی حکمت عملی سے لیس ہوسکے۔
اگر غور کیا جائے تو حج اور عمرہ اور اسلام کے تصورِ ہجرت میں ایک انتہائی قریبی معنوی ربط پایا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے مکہ مکرمہ کی آزمایشوں کی بھٹی سے گزرنے کے بعد حبشہ اور مدینہ منورہ ہجرت کی، ان کے مقام کی بلندی اور ان کے خلوص کا اعتراف قرآن و سنت نے تحسینی کلمات کے ساتھ کیا اور انھیں کامیاب اور بامراد قرار دیا۔ حضرت عمرؓ کی مشہور روایت میں نیت کو اعمال کی بنیاد قرار دیتے ہوئے جو مثال سمجھانے کے لیے استعمال فرمائی گئی، وہ ہجرت ہی کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے لیے ہجرت کی وہ کامیاب ہوگیا۔ حج اور عمرہ کا وجوب بھی قرآن کریم کی آیت مبارکہ وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ (البقرہ ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوش نودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گِھرجائو تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو‘‘، اور وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (الحج ۲۲:۲۷) ’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں‘‘، سے بطور ایک عبادت و فریضہ ثابت ہے۔ مشہور حدیث میں اسلام کے ارکان میں حج ایک رکن کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لیکن سوال یہ اُبھرتا ہے کہ آخر اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے کہ ہرسال لاکھوں افراد اپنا مال، وقت، اور محنت صرف کر کے اس فریضے کو انجام دیں۔
پہلی ہجرت ایک مومن اس وقت کرتا ہے جب وہ یہ نیت کرے کہ اسے حج کرنا ہے۔ اس کا نیت کرنا اپنے رُخ اور قبلے کو درست کرنے کے بعد یہ ارادہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ایک عبداً شکوراً بنانے کے لیے تیار رہے۔ ہجرت کی جانب اس کا دوسرا قدم اس وقت اُٹھتا ہے جب وہ اُس مال کی طرف دیکھتا ہے جو اُس نے بڑی محنت اور مشقت کے بعد کمایاتھا اور طے کرتا ہے کہ اس مال کو اللہ کی راہ میں صرف اُس کی خوش نودی کے لیے، اس کے گھر کی زیارت کے لیے استعمال کرے۔ یہ خواہش اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ جس مال کو وہ اِس غرض کے لیے استعمال کرنے جا رہا ہے، کیا اسے جائز اور حلال طریقے سے حاصل کیا تھا یا غیراخلاقی ذرائع سے۔ما ل کا یہ تزکیہ اس کے ایمان اور صرف حلال کمائی کے ذریعے ایک اچھے کام کو کرنے کی تربیت کرتا ہے۔
اس عمل کے دوران تیسری ہجرت کا آغاز اس وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ اپنے اہلِ خانہ، دوستوں، کاروباری شراکت داروں، غرض ہرفرد کی وابستگی سے نکل کر صرف اللہ کے لیے ان سب کو پسِ پشت ڈال کر صرف اللہ کی طرف لپکتا ہے اور زبان اور دل سے کہنا شروع کرتا ہے کہ میں حاضر ہوں، مالک میں حاضر ہوں۔ صرف آپ کی ایک آواز کے جواب میں، سب کچھ پیچھے چھوڑ کر، آپ کے گھر کی طرف رُخ کر رہا ہوں اور یہ اس لیے کر رہا ہوں، کہ آپ اور صرف آپ، سب سے اعلیٰ، بلند، عزیز، حمد کے مستحق اور نعمتوں کے دینے والے ہیں۔
حج و عمرہ کے لیے نکلتے وقت وہ چوتھی ہجرت اس وقت کرتا ہے جب اپنے قومی لباس، اور زبان کو ترک کر کے صرف دو سفید چادروں میں اپنے آپ کو لپیٹ کر سفر پر روانہ ہوتا ہے، اور عملاً اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ انسانی ضروریات کو خود اپنے ہاتھ اور ارادے سے کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق بھی کرتا ہے کہ اس کی اصل پہچان نہ اس کا قومی لباس ہے نہ قومی زبان، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا بندہ بن جانا اسے دنیا کے تمام انسانوں سے ممتاز کرتا ہے۔
پانچویں ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب اس کی پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑتی ہے اور وہ جذبات سے بے تاب ہوکر طلب ِعفو و درگزر اور شعوری اور غیرشعوری گناہوں کے احساس کے ساتھ ایک سوالی بن کر اس عظمت والے گھر میں قدم رکھتا ہے۔ انسانوں کے اس سمندر میں جو طوفانی ریلے کی طرح اللہ کے گھر میں موجزن نظر آتا ہے، وہ عاجزی اور خاکساری اختیار کرتے ہوئے دوسروں کو تکلیف نہ دینے کی خاصیت پیدا کرتا ہے۔
چھٹی ہجرت وہ اس وقت کرتا ہے جب وہ مراسمِ حج سے فارغ ہونے کے بعد اس عزمِ نو کے ساتھ اپنے گھر کی طرف لوٹتا ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو تمام غلامیوں سے نکال کر صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی میں دے چکا ہے۔ اس لیے بات وہ کرے گا جو حق ہو۔ کام وہ کرے گا جو حلال ہو، نگاہ وہ ڈالے گا جو پاکیزہ ہو، اور اپنے گھر، معاشرے اور ملک میں صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کام کرے گا، اور ان تمام رسومات سے اپنے آپ کوکاٹ لے گا جو اس کی برادری اور دوستوں نے ایجاد کررکھی ہیں۔
حج اور عمرہ کے ذریعے ہونے والی ہجرت اسے اُس مقام سے قریب تر لے آتی ہے جو اسلام کے دورِ اوّل میں اللہ کے نیک بندوں نے اپنا سب کچھ اپنے رب کے لیے قربان کرنے کے بعد حاصل کیا تھا۔ یہ ہجرت فتح مکہ کے بعد اور قیامت تک اسے موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹ کر اُن افراد میں شامل ہوجائے جن کا جینا اور مرنا، جن کی قربانی اور عبادت، جن کی فکروعمل صرف اور صرف احکم الحاکمین کی مرضی کے تابع ہوتی ہے، اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہر بندگی پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ ہجرت زندگی میں ایک مرتبہ حج کرلینے اور حسب ِاستطاعت ایک سے زائد عمرے کے ذریعے زندگی میں کئی بار بھی کی جاسکتی ہے، لیکن صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت میں دینا مقصود ہو۔