مئی ۲۰۱۲

فہرست مضامین

سندھ میں نومسلم خواتین کا مسئلہ

عمران ظہور غازی | مئی ۲۰۱۲ | شذرات

Responsive image Responsive image

مستقبل کا مؤرخ جب آج کے پاکستان کی اور خصوصاً عدلیہ کی تاریخ لکھے گا ، تو موجودہ سپریم کورٹ کے ازخود، یعنی سوموٹو (suo moto) نوٹس کو خصوصی مقام دے گا۔ اس لیے کہ  سپریم کورٹ نے اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے معلوم نہیں کن کن دائروں میں انصاف دینے اور اصلاح کرنے کی ’حتی المقدور‘ کوشش کی ہے۔ اسی سلسلے میں ان تین نومسلم خواتین فریال بی بی، حفصہ بی بی اور حلیمہ بی بی کا مسئلہ حل کرنا بھی ہے جس پر سندھ کی ہندو آبادی اور ہماری سیکولر غیرحکومتی تنظیموں (این جی اوز) کی طرف سے بڑی گرد اُڑائی جارہی تھی اور پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا جا رہا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان تین خواتین کو تین ہفتے دارالامان میں رکھا تاکہ      وہ آزادانہ سوچ بچار کریں۔ پھر جب وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئیں تو انھیں موقع دیا کہ رجسٹرار  کے کمرے میں بغیر کسی دبائو کے اپنے موقف کا حلفیہ بیان دیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اسلام برضا و رغبت قبول کیا ہے۔

ان خواتین کے اسلام قبول کرنے کی وجہ ہندو معاشرے کے خصوصی حالات ہوں یا کچھ اور، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کل پوری دنیا میں اسلام قبول کرنے کی ایک لہر ہے۔ جتنا جتنا اسلام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، اتنا ہی لوگوں میں اسلام کی حقیقت جاننے کا شوق پیدا ہوتا ہے، اور جب وہ اس فطری دین کے قریب آتے ہیں تو اپنے ماضی کے مذہب کو ترک کرکے شعوری فیصلے کے تحت اسے قبول کرتے ہیں۔ اس پر دشمنانِ اسلام جو بھی واویلا کریں، وہ اسلام کے روشن چہرے کو  گہنا نہیں سکتے۔ وہ حساب لگاتے ہیں کہ ۲۰۵۰ء تک یورپ یوریبیا (Euarabia) ہوجائے گا ۔ امریکا میں برطانیہ اور فرانس میں اتنے اتنے لوگ ہرسال اسلام قبول کر رہے ہیں، مسجدوں اور اسلامی مراکز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماسکو میں بھی نئی مسجدیں تعمیر ہورہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خود بھارت کے بارے میں مسلسل خبریں آتی ہیں کہ وہاں ہندو بڑی تعداد میں مسلمان ہورہے ہیں لیکن ان چیزوں کی عام اشاعت نہیں کی جاتی کہ بھارت کی ’سیکولر‘ ہندو ریاست کا ردعمل اُبھر کر سامنے نہ آئے۔

پاکستان کے موجودہ حالات کچھ بھی ہوگئے ہوں، اس کے قیام کی جدوجہد، قیام کا مقصد، اس کا دستور، اس کی قراردادمقاصد، سب اسے ۲۰ویں صدی میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست بتاتے ہیں جسے اس کے پہلے وزیراعظم کے بقول ’انسانیت کے لیے روشنی کا مینار‘ بننا تھا۔ ہمارے سفارت خانوں کو پاکستان کے مفادات کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ متعلقہ ملک میں دعوتِ اسلامی کے فروغ کی کوششیں بھی کرنا چاہییں اور انھیں اس کے لیے بجٹ ملنا چاہیے۔ خود پاکستان کے اندر ریاست کا یہ فریضہ ہونا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان زندگی گزارنے کے لیے آسانیاں بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں کو اسلام کی طرف دعوت دے۔ کسی جبرو اِکراہ کے بغیر اگر  وہ اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہیں تو اس کی سہولت بہم پہنچائے ،اور انھیں سابقہ مذہب کے علَم برداروں اور رشتہ داروں کے ظلم سے بچائے۔

حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ ایسا نہ ہو کہ غیرمسلم اقلیتیں اپنے بالغ افراد کو ظلم و جبر اور پابندیاں لگا کر اپنے مذہب سے وابستہ رکھیں اور انھیں ہدایت کے راستے پر جانے نہ دیں۔ سندھ میں تین بالغ ہندو لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے پر ان کی برادری کے مزاحمت کرنے کی کوئی توجیہہ بیان کی جاسکتی ہے، خواہ وہ معقول ہو یا نہ ہو، لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں کو کیا تکلیف ہوئی کہ انھوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ پیپلزپارٹی کے ایم این اے ان کے وکیل بن کر آگئے۔ این جی اوز کو تو جیسے ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق مزے آگئے اور بیرونی آقائوں کا نمک حلال کرنے کا موقع ملا۔ اپنے اسلام پر تو غالباً شرمندہ ہی ہوتے ہوں گے، لیکن ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنے اثرورسوخ سے پاکستان میں ایسا قانون بنوا دیں کہ اقلیتی فرقے کا کوئی فرد اسلام قبول نہ کرسکے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو سیکولر کہتے ہیں، آزادیِ راے کے علَم بردار ہیں لیکن اُسی حد تک جو      وہ بتائیں۔ کوئی بالغ فرد اپنی آزادانہ راے سے اسلام قبول کرے تو یہ انھیں قبول نہیں۔ اس واقعے نے پاکستانی عوام کے سامنے ان کا حقیقی چہرہ کھول کر رکھ دیا ہے کہ یہ کہنے کو مسلمان اور پاکستانی ہیں،  لیکن پاکستان کی اسلامی بنیادوں کا انکار کرتے ہیں اور تاریخ مسخ کر کے قائداعظم علیہ الرحمہ پر  بہتان لگاتے ہیں کہ وہ سیکولر پاکستان کے علَم بردار تھے (العیاذ باللّٰہ)۔