اے فرزند! دنیا آزمایش و ابتلا کی جگہ ہے۔ اس کے ظاہر کو طرح طرح کی ملمع کاریوں سے مزین کیا گیا ہے۔ خیالی و وہمی خال و خط اور زلف و خد سے آراستہ ہے۔ دیکھنے میں شیریں اور تروتازہ لیکن حقیقت میں یہ دنیا ایک مُردار ہے۔ عطر لگایا ہوا، گندگیوں کا ایک ڈھیر ہے۔ مکھیوں اور کیڑوں سے بھرا ہوا ایک سراب ہے۔ آب نما اور ایک مٹھاس ہے زہریلی۔ اس کا باطن، ظاہر کے برعکس خراب و ابتر ہے، اور مزا یہ ہے کہ ان گندگیوں کے باوجود اس کا معاملہ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ نہایت بُرا ہے۔ اس کا فریفتہ، دیوانہ و مسحور ہے اور اس کا گرفتار، فریب خوردہ و مجنون۔ جو بھی اس کے ظاہر پر ریجھا نقصانِ ابدی اس کے پلّے پڑا، اور جو بھی اس کی حلاوت و طراوت پر مائل ہوا ندامت سرمدی [دائمی ندامت]اس کے حصے میں آئی۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: دنیا اور آخرت سوکنیں ہیں۔ اگر ایک راضی ہوئی تو دوسری ناخوش۔ لہٰذا جس نے دنیا کو راضی کیا آخرت اس سے ناراض ہوئی۔ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ اللہ ہمیں اور تمھیں دُنیا اور دُنیاداروں سے پناہ میں رکھے۔ آمین!
اے فرزند! اللہ تعالیٰ نے کمالِ مہربانی سے تجھے ابتداے جوانی میں توبہ کی توفیق عنایت کی تھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ نفس و شیطان کے قبضے سے چھٹکارا پاکر تجھے توبہ پر ثبات و قرار میسر ہوا یا نہیں۔ بظاہر تو استقامت مشکل نظر آتی ہے کیونکہ موسم عنفوان جوانی کا ہے، دنیا کے اسباب میسر ہیں، اور نامناسب دوستوں، ہم نشینوں کی کثرت ہے۔ کام یہ ہے کہ فضول مباحات سے بچا جائے اور بقدر ضرورت پر اکتفا کی جائے، اور مباحات کا بقدرِ ضرورت استعمال بھی جمعیت خاطر کی نیت سے ہونا چاہیے تاکہ وظائف بندگی ادا کرنے میں تشویش پیدا نہ ہو۔ مثلاً کھانے کی غرض یہ ہے کہ اداے طاعات پر قوت و قدرت نصیب ہو، اور لباس کا مقصد یہ ہے کہ ا س سے جسم ڈھانپنے اور سردی گرمی دفع کرنے کا کام لیا جائے۔ اسی قیاس پر تمام ضروری مباحات کو سمجھنا چاہیے۔ اکابر نقشبندیہ قدس سرہم نے عزیمت کا عمل اختیار کیا ہے اور حتی الامکان رخصت سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ عزیمتوں میں ایک عزیمت یہ بھی ہے کہ بقدرِ ضرورت پر اکتفا کیا جائے اور اگر یہ دولت میسر نہ ہو تو مباحات کے دائرے سے نکل کر مشتبہ اور حرام چیزوں کی طرف ہرگز نہ جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے کمالِ کرم سے مباحات اور نعمتوں کا دائرہ خود ہی بہت وسیع کردیا ہے۔ ان نعمتوں سے قطع نظر کون سا عیش اس بات کے برابر ہے کہ بندے کا مولیٰ اس کے کردار سے راضی ہو، اور کون سی جفا اس بات کے برابر ہوگی کہ اس کا آقا اس کے اعمال سے ناراض ہو۔ جنت میں اللہ کی رضا جنت سے بہتر ہے، اور دوزخ میں اللہ کی ناراضی دوزخ سے بدتر ہے۔ اللہ نے انسان کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ اس کو پوری چھوٹ دے دی ہے کہ جو چاہے کرے۔ سوچنا چاہیے اور اپنی عقلِ دُور اندیش کو کام میں لانا چاہیے۔ کل قیامت میں ندامت و نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ کام کا وقت موسمِ جوانی ہے۔ جواں مرد وہ ہے جو اس وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور فرصت کو غنیمت سمجھے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ بڑھاپے تک اسے زندگی ہی نہ ملے اور اگر بالفرض بڑھاپے تک پہنچ گیا تو اطمینان میسر نہ ہو، اور اگر یہ بھی ہو تو ضعف اور سُستی کی وجہ سے کام نہ کرسکے۔
اس وقت اسباب اطمینان میسر ہیں۔ والدین کا وجود بھی اللہ کے انعامات میں سے ہے کہ اس نوجوان کی معیشت کی فکر بھی انھی کے سر ہے۔ موسمِ فرصت ہے اور زمانۂ قوت و استطاعت، پھر کس عذر کی بنا پر آج کو کل پر ٹالا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اداے طاعات میں تاخیر کرنے والے اور ’’عنقریب کروں گا، عنقریب کروں گا‘‘ کہنے والے ہلاک ہوئے۔ ہاں، اگر مہمات و معاملات دنیا کو کل پر چھوڑ دیں اور آج کو اعمالِ آخرت میں مشغول رکھیں تو کیا کہنا۔
عنفوان جوانی کے اس زمانے میں کہ دشمنانِ دین___ نفس و شیطان ___ کا غلبہ ہے، تھوڑے عمل کا بھی اتنا اعتبار ہے کہ ان کا غلبہ نہ ہونے کی صورت میں اس سے ۱۰ گنا عمل کا بھی نہیں۔ فوجی قواعد میں بھی دشمنوں کے حملے و غلبے کے وقت کارگزار سپاہیوں کی بڑی قدر ہے اور اس وقت ان کی تھوڑی دوڑ دھوپ اور کارگزاری بھی لائق اعتبار و نمایاں ہوتی ہے۔
اے فرزند! انسان جو موجودات کا خلاصہ ہے، اس کی تخلیق کا مقصد نہ لہوولعب ہے اور نہ کھانا اور سونا، بلکہ اس کی تخلیق کا مقصد اللہ کی بندگی، تواضع و انکسار، عجز و فقر اور بارگاہِ قدس میں ہمیشہ التجا و تضرع ہے۔ اللہ کی بندگی و عبادت سے مراد وہ عبادتیں ہیں جن کی تعلیم شریعتِ محمدیؐ نے دی ہے۔ ان عبادتوں کی منفعتیں اور مصلحتیں خود بندوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ ان سے خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس لیے اوامر کی تعمیل اور نواہی سے پرہیز دل و جان کے جذبۂ احسان مندی اور کامل اطاعت و انقیاد کے ساتھ ہونا چاہیے اور اپنی پوری سعی صرف کردینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکمل استغنا کے باوجود صرف ہمارے فائدے کے لیے ہمیں اوامر و نواہی سے سرفراز فرمایا۔ ہم محتاجوں کو تو اس نعمت کا شکریہ پورے طورپر ادا کرنا چاہیے۔
اے فرزند! تم جانتے ہو، اگر دنیا کا کوئی زیردست اپنے کسی زیردست کو کسی خدمت پر سرفراز کرتا ہے تو اس حقیقت کے باوجود کہ اس خدمت کا نفع اس حاکم کو بھی ملنے والا ہے، وہ زیردست اس کے حکم کو کس قدر عزیز رکھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایک عظیم القدر شخص نے یہ خدمت اس کے سپرد کی ہے، اس لیے کامل احسان مندی کے ساتھ اس کو بجا لانا چاہیے۔ کیا مصیبت ہے کہ انسان کو رب ذوالجلال کی عظمت اس شخص کی عظمت سے بھی کم نظر آتی ہے کہ اس کے احکام کی بجاآوری میں کوشش نہیں کرتا۔ شرم کرنی چاہیے اور اپنے کو خوابِ خرگوش سے بیدار کرنا چاہیے۔ احکامِ الٰہی کی نافرمانی دو چیز سے خالی نہیں، یا شریعت کی خبروں کو جھوٹ سمجھتا ہے اور باور نہیں کرتا، یا دنیا والوں کی عظمت کے مقابلے میں اللہ کی عظمت حقیر نظر آتی ہے۔ اس بات کی شناعت اور خرابی پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے۔
اے فرزند! ایک ایسا شخص جس کی کذب بیانی کا بارہا تجربہ ہوچکا ہے، کہتا ہے کہ دشمنوں کی مسلح فوج فلاں قوم پر شب خون مارنے والی ہے۔ یہ سنتے ہی اس قوم کے عقل مند اپنی محافظت میں لگ جاتے ہیں اور اس بلا کو دفع کرنے کی فکر کرتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ خبردینے والا جھوٹ بولنے کا عادی ہے، مگر ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ جہاں خطرے کا وہم بھی ہو وہاں عقل مندوں پر احتراز لازم ہے۔ لیکن مخبرصادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوری تاکید کے ساتھ عذاب اُخروی سے خبردار کیا ہے، اس کے باوجود وہ کچھ بھی متاثر نہیں ہوتے اور ہوتے بھی ہیں تو اس کو دفع کرنے کی فکر نہیںکرتے، حالانکہ اس کو دفع کرنے کی تدبیر بھی مخبرصادق سے معلوم ہوچکی ہے۔ پس یہ کیسا ایمان ہے کہ سچے کی خبر، جھوٹے کی خبر کے برابر بھی اعتبار نہیں رکھتی!
یقین حاصل کرنا چاہیے، کی صرف صورت اسلام نجات بخش نہیں۔ یقین کہاں ہے، ظن بھی نہیں بلکہ وہم بھی نہیں ہے کیونکہ عقل مند خطرے کے موقع پر وہم کا بھی اعتبار کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ نے کلامِ مجید میں فرمایا ہے: وَ اللّٰہُ بَصِیْرٌم بِمَا یَعْمَلُوْنَ (البقرہ ۲:۹۶)’’اللہ تمھارے اعمال کو دیکھ رہا ہے‘‘۔ اس کے باوجود لوگ بُرے اعمال میں مشغول ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہو کہ کوئی حقیر شخص بھی ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے تو یہ ہرگز عمل شنیع اس کی نظر کے سامنے نہیں کرتے۔ اس کا سبب دوامر سے خالی نہیں۔ اللہ کی خبر کو باور نہیں کرتے، یا اللہ کی اطلاع کا اعتبار نہیں کرتے۔ اس قسم کا کردار، ایمان کی علامت ہے یا کفر کی نشانی؟ ۱؎
اے فرزند! تم پر لازم ہے کہ ازسرِنو تجدید ایمان کرو۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا ہے: ’’کلمہ لا الٰہ الااللہ کے ذریعے اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہو‘‘۔ نامرضیات حق سے توبۂ نصوح کا ازسرِنو اعادہ کرو۔ جن امور کو حرام قرار دیا گیا ہے اور ان سے نہی فرمائی گئی ہے، ان سے محترز و مجتنب رہو۔ پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرو، اگر قیامِ لیل___ تہجد___ میسر ہو تو زہے سعادت! مال کی زکوٰۃ دینا بھی ارکانِ اسلام میں سے ہے، اسے ضرور ادا کرو۔ زکوٰۃ ادا کرنے کا سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے مال میں سے جو کچھ فقرا کا حق ہے ہر سال زکوٰۃ کی نیت سے الگ محفوظ کر دے اور پورے سال اس کو مصارفِ زکوٰۃ میں صرف کرتا رہے۔ اس طرح ہر مرتبہ اداے زکوٰۃ کی نیت ضروری و لازم نہ رہے گی، یعنی ایک ہی دفعہ زکوٰۃ کی نیت کرکے اس کو علیحدہ کرنا کافی ہوگا۔ (تمام فرائض کی طرح زکوٰۃ کی ادایگی کا بھی اصل طریقہ یہی ہے کہ اس کو اجتماعی طور پر ادا کیا جائے، لیکن جہاں کہیں اجتماعی نظم موجود نہ ہو، وہاں انفرادی طور پر ادا کرنے سے بھی زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔ مترجم)
اسی طرح تمام عبادتوں میں خیال رکھو، کسی عبادت کی ادایگی میں اپنے نفس کو ڈھیل نہ دو۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے میں بھی سعیِ بلیغ کرو تاکہ کسی کا حق تمھارے ذمے باقی نہ رہ جائے۔ یہاں دنیا میں ان کا ادا کرنا آسان ہے، کل قیامت میں یہ آسانی باقی نہ رہے گی۔ وہاں کی جواب دہی مشکل اور ناقابلِ علاج ہے۔ احکامِ شرعیہ علماے آخرت سے پوچھنے چاہییں۔ ان کی باتوں میں تاثیر ہی دوسری ہے۔ ممکن ہے کہ ان کے کلام کی برکت توفیقِ عمل دے دے۔ علماے دنیا سے___ جنھوں نے علم کو مال اور جاہ و مرتبے کے حصول کا ذریعہ و وسیلہ بنا لیا ہے___ دُور رہنا چاہیے۔ ہاں، جہاں متقی علما موجود نہ ہوں وہاں بقدرِ ضرورت ان سے مسئلہ دریافت کرسکتے ہو۔
اے فرزند! یہ مسئلے اور نصیحتیں تمھیں پہلے سے معلوم ہوں گی لیکن مقصود عمل ہے نہ کہ صرف علم۔ جو بیمار اپنے مرض کی دوا جانتا ہے وہ جب تک اسے استعمال نہ کرے، صحت یاب نہیں ہوسکتا۔ یہ مبالغہ و تاکید بھی عمل ہی کے لیے ہے ورنہ علمِ بے عمل کے بارے میں تو یہ حدیث آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت میں سخت ترین عذاب اس عالم پر ہوگا جس نے علم کے مطابق عمل نہیں کیا۔ (مکتوبات امام ربانی، جلد۱، نمبر۷۳، زندگی، جولائی ۱۹۵۵ئ)