مئی ۲۰۱۲

فہرست مضامین

ٹیپو سلطان شہید اور انتظامِ ریاست

ڈاکٹر محمد سہیل شفیق | مئی ۲۰۱۲ | تاریخ و سیر

Responsive image Responsive image

اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو ٹیپو سلطان شہید کو دیکھا جاسکتا ہے۔ برعظیم پاک وہند کی تاریخ میں ٹیپو سلطان(۱۷۵۱-۱۷۹۹ئ) کو ایک لازوال اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کی تاریخ بمشکل اس اولوالعزم سلطان کی نظیر پیش کر سکے گی۔ٹیپو سلطان نہ صرف ایک مردِ مجاہد تھا،بلکہ حقیقی معنوں میں اقبال کا ایک مردِ مومن تھا۔ عالم فاضل، عابد و زاہد، بہترین سپہ سالار، بہترین منتظم ، تجربہ کار سیاست دان ، غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما اور قائد۔  

جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی تو اس نے دو اہم کام کیے۔ ایک   جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی ۔دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر پوری توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان کا مخالف بنادیا، اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ اس کے باوجود سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی حاصل نہ ہوسکی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ اگر ٹیپو سلطان اپنے ارادوں میں کامیاب ہوگیا تو پھر ہندستان پر ہرگز قبضہ نہیں ہوسکتا۔(محمود بنگلوری، تاریخ سلطنت خداد (میسور)ص ۱۴-۱۵)

ٹیپوسلطان کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے سب متحد ہوگئے۔ انگریز اسے ہندستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے     (اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہِ پنجاب، لاہور، ج۶، ص ۹۸۳)۔ اس اتحاد ثلاثہ کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور راے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے ۔ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہوکر اعلان کردیا گیا کہ ٹیپوسلطان سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو سے کہیں زیادہ ہے۔(باری علیگ، کمپنی کی حکومت، طیب پبلشرز، لاہور، ص ۱۲۹ )

  ٹیپو سلطان کی شہادت اور سلطنت خداداد کے زوال کے بعد انگریزوں کے مقابلے کے لیے کوئی بڑی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ٹیپو سلطان ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی شہاد ت کے بعد ہی ان کی زبان سے پہلی دفعہ یہ معنی خیز جملہ  نکلا کہ  ’’آج سے ہندستان ہمارا ہے۔‘‘ (محمد الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان شہید، ص ۴۲۶-۴۲۷)

  • انتظامِ ریاست: ضروری ہے کہ ٹیپو سلطان کے عہدِ حکومت اور انتظامِ ریاست کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ ٹیپو سلطان نے اپنے ۱۷ سالہ عہد حکومت (۱۷۸۲-۱۷۹۹ئ) میں زندگی کا کوئی لمحہ اطمینا ن اور چین سے نہیں گزارا۔ یہ سارا عرصہ جنگی معرکوں میں گزرا، جو مہلت ملی اس میں وہ اپنے زیر اقتدار علاقوں میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے ، نہروں اور تالابوں اور سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر ، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور داخلی معاملات پر گفت و شنید جیسے اہم انتظامی و تعمیراتی امور میں الجھا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ میدان جنگ کے نقشوں کو مرتب کرتا، لڑائی کی منصوبہ بندی کرتا اور اپنے عمال حکومت ، فوجی سالاروں اور قلعہ داروںکو ہدایات جاری کرتا۔ اس کی شہادت کے بعد اس کے ذخیرے سے ملنے والے چار ہزار سے زائد خطوط کے موضوعات و مندرجات اس کی ایسی کارگزاریوں کا واضح ثبوت ہیں۔(معین الدین عقیل، ٹیپو سلطان کی علمی زندگی، مشمولہ: ٹیپو سلطا ن، مرتبہ: محمود خاور، ٹیپوسلطان میموریل سوسائٹی، کراچی، ص ۷)

 حیرت ہوتی ہے کہ جس فرماں رو ا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شہزادگی سے شہادت تک مسلسل خوف ناک لڑائیوں میں گزرا، اسے ان معاملات پر توجہ دینے کا وقت کیوں کر ملتا تھا۔ حق یہ ہے کہ سلطان حکومت کو خدا کی طرف سے امانت سمجھتا تھا اور اس امانت کا حق ادا کرنے کی جیسی عملی مثال اس نے پیش کی، اس کی نظیریں بہت کم ملیں گی۔(اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۶ ، ص ۹۹۴)

ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعداپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا     اس میں بلاتفریقِ مذہب و ملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی ، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف ، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم وستم سے نجات ، مذہبی و لسانی و طبقاتی عصبیت کا خاتمہ ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم کیا (محمد الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۱۸۰)۔ ملک کے قدیم طرز حکمرانی کو یکسر بدل دیا۔سلطنت کے امور میں عوام کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے جمہوری تقاضوں کے پیش نظر ایک مجلس شوریٰ قائم کی جس کا نام ’مجلس غم نباشد‘تھا۔ 

ٹیپوسلطان نے تخت نشین ہونے کے بعد دو نئے آئین بنائے۔ ایک فوج کے لیے جس کا نام ’فتح المجاہدین‘ تھا، اور دوسرا عوام کے لیے جس کا نام ’ملکی آئین ‘ تھا (محمود بنگلوری،ٹیپو سلطان، لاہور، ص۷۶)۔ سرنگا پٹم میں جامع الامور کے نام سے ایک یونی ورسٹی قائم کی جہاں بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ حکومت کی طرف سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو بھاری مشاہرے پر یہاں مقرر کیا گیا تھا ۔( سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۲۲۸ )

ٹیپو سلطان کو جدت و اختراعات کا خاص شوق تھا۔کئی شہروں کے نام بدل ڈالے، مثلاً بنگلور کا نام دارالسرور، کالی کٹ کا اسلام آباد، میسور کا نظر آباد ، اور مینگلور کا جمال آباد رکھا۔ وزن اور پیمانوں کے نام بھی تبدیل کیے۔نیا روپیہ جاری کیااور مختلف نسبتوں سے ان کے نام رکھے،  مثلاً احمدی، صدیقی، فاروقی، حیدری وغیرہ(اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۶، ص ۹۸۶)۔ نئی وضع کی بندوقیں اور توپیں بنوائیںاور ایسی ڈھالیں تیار کرائیں جن پر تیر یا گولی کا اثر نہیں ہوتا تھا(ایضاً، ص ۹۹۳)۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے ایک نئے طرز کی سزاسوچی۔ ہر مجرم کو اس کے جرم کی مناسبت سے ایک درخت اگانے کا حکم دیا۔ معمولی جرم کے لیے ایسا درخت تجویز پاتا جس کے لیے کم محنت و مہلت درکار ہوتی اور سنگین جرم کے لیے ایسا درخت اگانے کی ذمہ داری، جس کے لیے کافی محنت و مہلت درکار ہوتی۔ سلطان معمولی سے معمولی مسئلے میں بھی پور ی توجہ ظاہر کرتا تھا۔ علوم و فنون ، طب ، تجارت، معاملات مذہبی ، تعمیر، فوجی محکمات اور بے شمار دوسرے امور پر سلطان یکساں مہارت سے قطعی راے دیتا تھا۔(سید امجد علی اشہری ، ٹیپو سلطان، دہلی، ص ۱۵۲)

 ہندستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں بآسانی سوراخ کیا جاسکتا تھا۔ دنیا میں میزائیل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا، حتیٰ کہ امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوںمیں شمار کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانے میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔(الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۵۲۵ )

  • فوجی اصلاحات: سلطان کی بّری اور بحری فوجوں کا انتظام بھی قابل داد تھا۔ فوج کے محکمے میں ۱۱بڑے شعبے تھے۔ سلطنت کے کُل رقبے کو ۲۲ فوجی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا (باری، کمپنی کی حکومت،ص ۱۸۶)۔ اس نے ۱۷۹۶ء میں امراء البحر کی ایک جماعت قائم کی جس میں ۱۱؍ اراکین تھے۔ ان اراکین کا لقب میریم رکھا گیا تھا۔ ان اراکین کے ماتحت ۳۰؍ امیر البحر ہوتے تھے۔ بحری فوج کے متعلق ۲۰جنگی جہاز کلاں اور ۲۰چھوٹے جنگی جہاز تھے۔ سلطان کو فن جہاز سازی سے بھی شغف تھا۔ وہ جہازوں کے نقشے خود تیار کرتا تھا (اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج ۶، ص ۹۹۴)۔ جہازوں کے پیندوں کے واسطے ہدایت کی گئی تھی کہ تانبے کے پیندے لگائے جائیں،تاکہ چٹانوں سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔ جہاز سازی کے لیے لکڑی کا جنگل بھی نامزد کردیا گیا۔ اور سب مدارج کے افسروں کی تنخواہوں کی بھی صراحت کردی گئی (سید امجد علی اشہری ،ٹیپو سلطان،ص۱۵۴۔۱۵۵)۔ فوجیوںکی باقاعدہ تربیت کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے گئے اور پوری فوج کو از سر نو منظم کیا گیا۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۲۹۰)

ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبے اور قلعے کے چار دروازے مقرر کیے، جہاں پہرے دار مقرر کیے کہ ملک میںبغیر اطلاع و اجازت کوئی آنے نہ پائے اور ہر مقام کی رُودادپر فوری اطلاع کا انتظام کیا گیا(سید امجد علی اشہری ، ٹیپو سلطان،ص۷۶)۔ جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوئوں کے حملے کا خطرہ رہتا تھا ، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں قاضی اور ہر گائوں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو ابتدائی عدالتوں کے فیصلہ پر شک ہوتا تو مقدمہ صدر عدالت (ہائی کورٹ) میں دائر کیا جاتا۔ سلطان نے افسرانِ ضلع کے نام حکم جاری کررکھا تھا کہ وہ ہر سال سرنگا پٹم (دارالحکومت) میں جمع ہوکر انتظامی امور کے متعلق مشورہ کیا کریں۔(باری علیگ، کمپنی کی حکومت،ص ۱۸۵- ۱۸۶)

ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔ ۱۷۹۴ء میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا ۔ اس میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید، ص۲۹۵)

  • معاشرتی و معاشی اصلاحات: ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔بعض اخلاقی جرائم کی بیخ کنی کے لیے مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا(ٹیپو سلطان، ص ۷۶)۔  زمین داریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں او ر کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔  ٹیپو سلطان نے احکام جاری کردیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے، اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے(کمپنی کی حکومت، ص۱۸۴)۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کیے۔ دُور دُور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کیے (اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۶، ص ۹۹۴)۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا ۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز اب سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہوگیا اور سلطنت میں تیار کردہ چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ دوسری طرف ہزاروں بے روزگاروں کے مسائل بھی اس سے حل ہوئے۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۲۳۰)

اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے بعدٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو سلطنت خداداد میںآکر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتوں سے نوازا گیا۔ خود حکومت کی زیرسرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں اس کی رعایا میں سے ہر کوئی بلاتفریق مذہب اپنا سرمایہ لگا کر نفع و نقصان کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شریک ہوسکتا تھا(ایضاً، ص ۲۸۷)۔ وسط ایشیائی ریاست آرمینیہ سے غیر ملکی تاجروں کو میسور کی حدود میں لاکر بسایا گیا۔میسور سامان تجارت لانے والے چینی سوداگروں کو ملیبار کے ڈاکو تنگ کرتے تھے۔ سلطان نے ان کی حفاظت کے لیے کئی جہاز مقرر کردیے(ایضاً، ص ۵۶۴)۔ سلطان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میں تجارت اور صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی۔

 سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا ، وہاں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ تمام سلطنت میں، رعایا، تاجروں اور کاشت کاروں کے لیے بنک جاری کیے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقے اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا(کمپنی کی حکومت، ص۱۸۶)۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوش حال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہوگیا۔ میسور کی تیسری جنگ میں انگریز جب اس علاقے میںداخل ہوئے تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ (ٹیپو سلطان، ص ۷۷)

  • عظمت کا اعتراف:عربی کا ایک مقولہ ہے کہ خوبی وہ ہے جس کا اعتراف دشمن کرے۔ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کے بے انتہا تعصب کے باوجود کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے: ’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے ا س پر کھیتیاں لہرارہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بے کار نہیں پائی گئی۔ رعایا اورفوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً، ص ۷۷-۷۸)

رفت سلطاں زیں سراے ہفت روز

نوبتِ او در دکن باقی ہنوز

(جاوید نامہ)

(سلطان شہیدؒ اس ہفت روزہ دنیا سے جاچکا ہے، مگر دکن میں اس کے مرقد پر اب تک نوبت بجتی ہے)

ایک زمانہ تھا کہ تقسیم ہند سے قبل کسی نوجوان کے لیے سب سے اعلیٰ اور قابل رشک مقام آئی سی ایس (انڈین سول سروس) میں داخل ہونا تھا۔ یہی وہ طبقہ تھا جو دراصل ہندستان پر حکومت کررہا تھا۔علامہ عبداللہ یوسف علی اور مولانا محمد علی جوہر تقریباً ایک دوسرے کے ہمعصر تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کی بھی خواہش تھی کہ وہ آئی سی ایس آفیسر بنیں لیکن وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوئے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی عبداللہ یوسف علی کی سوانح حیات (Searching for Solace) کے مصنف ایم اے شریف نے اس بارے میں لکھاہے : ’’وجہ یہ تھی کہ انڈین ہسٹری جیسے مضامین کے پرچے میں ایسے سوال شامل کیے جاتے تھے جن سے امیدواروں کے ذہنی رویوں اور جذباتی تعلق کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اس طرح امیدواروں کے بارے میں یہ جانچنے کا موقع مل جاتا تھا کہ آیا وہ برطانوی راج کے وفادار بن سکتے ہیں یا نہیں، مثلاً ’’بتائیے آپ ٹیپو سلطان کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‘‘ جیسا سوال، جو برٹش انڈیا کی ہسٹری کے پرچہ میں۱۸۹۵ء میں پوچھا گیا تھا ، بڑی آسانی سے یہ بات سامنے لے آتا تھا کہ امتحان میں شریک امیدوار کس حد تک اس مسلم حکمران کی ان کارروائیوں کی تائید کرتا ہے جو اس نے برطانیہ کے خلاف کی تھیں‘‘۔(سکون کی تلاش مترجم: زبیر بن عمر ، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ص۵۰ )

درج بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت برطانیہ ٹیپو سلطان سے کس حد تک خوف زدہ تھی۔ ساتھ ہی حکومت برطانیہ کے تعصب اور تنگ نظری کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ دل چسپ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت وہ پیمانہ ہے جس پر انگریز اپنے وفاداروں کا انتخاب کیا کرتے تھے۔دوستوں اور دشمنوں کو جانچا کرتے تھے۔کسی نے خوب کہا ہے کہ کچھ برگزیدہ شہید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی آزمایش  ، عقوبتِ مطّہرہ اور شہادتِ عظمیٰ ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی ۔ربِّ جلیل انھیں شہادتِ جاریہ کی سعادت سے سرفراز فرماتا ہے۔  

 

مقالہ نگار شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ای-میل: sascom7@yahoo.com