تفہیم القرآن تحریر کرنے کے لیے مولانا مودودیؒ جو سخت محنت کیا کرتے تھے، اس کا ذکر خواجہ اقبال ندوی صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے:’’کلام اللہ کے منشا و مفہوم کو سمجھنے کا سب سے پہلا ذریعہ مولانا کے نزدیک خود کلام اللہ تھا۔ چنانچہ وہ اپنے کمرے میں آتے تو وضو کرکے آتے اور بیٹھنے کے ساتھ ہی متعلقہ حصے کی تلاوت شروع کردیتے اور بار بار اسی کو پڑھتے اور اس پر غوروفکر کرتے رہتے۔ مَیں نے مولانا کو چند رکوع کئی کئی گھنٹے تک بار بار تلاوت کرتے دیکھا ہے۔ یہ کام جب ہوجاتا تو یہی مضامین قرآن مجید میں جہاں جہاں آئے ہیں، ان سب کو مولانا اکٹھا کرلیتے اور ان پر غوروفکر کرتے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و عملی تشریح کے لیے حدیث، سیرت، رجال اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ پھر متقدمین سے لے کر معاصرین تک تمام تفاسیر کے مطالعے میں لگ جاتے۔ درمیان میں کہیں ضرورت ہوتی تو لُغت اور کلامِ عرب کی طرف مراجعت فرماتے۔ پھر صحفِ سماوی کے تمام نسخوں سے قرآن کے تقابلی مطالعے کے بعد آثارِ قدیمہ کی دریافتوں اور تاریخ کے پورے ذخیرے سے متعلقہ عہد کا مطالعہ فرماتے رہتے۔ غرض کوئی چیز چھوٹنے نہ پاتی، جو متعلقہ عہد کے حصہ پر کسی طور سے بھی روشنی ڈالتی ہو۔ یہ مولانا کے مطالعۂ قرآن کا پہلا دَور ہوتا۔ پھر وہ سکون کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت شروع کردیتے اور ایسے تمام سوالات لکھتے جاتے جو متعلقہ حصے کے مطالعے کے سلسلے میں ایک طالب علم کے ذہن میں پیدا ہوسکتے تھے۔ اب تمام سوالات کو سامنے رکھ کر تفسیر، سیرت، حدیث اور اَئمہ مجتہدین کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیتے اور ہفتوں یہ سلسلہ چلتا رہتا یہاں تک کہ مطالعۂ تفسیر، حدیث و سیرت کے کئی دَور مکمل ہوجاتے۔ قرآن فہمی کے سلسلے میں ان کا سب سے مضبوط سہارا اللہ کی توفیق اور اس کا فضل رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نواز دے، اور اپنی کتاب کے فہم کے مزید باب وا کردے۔ مطالعے کے بعد ترجمانی شروع ہوتی تو تمام ترجموں سے تقابل کرتے رہتے۔ کہیں اشتباہ ہوجاتا تو پھر مطالعہ شروع ہوجاتا۔ گویا عبارت میں حَک و جلا [تراش خراش] کا سلسلہ آخر تک جاری رہتا‘‘۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج۲،ص ۳۰۴)
مولانا مودودی نے تفہیم القرآن کے اُس دیباچے میں جو انھوں نے نیوسنٹرجیل، ملتان میں ۱۱ستمبر ۱۹۴۹ء کو حوالۂ قرطاس کیا تھا، تحریرِ تفہیم کی غرض و غایت یہ بیان کی ہے: ’’میں ایک مدت سے محسوس کر رہا تھا کہ ہمارے عام تعلیم یافتہ لوگوں میں روحِ قرآن تک پہنچنے اور اس کتابِ پاک کے حقیقی مدعا سے روشناس ہونے کی جو طلب پیدا ہوگئی ہے اور روزبروز بڑھ رہی ہے وہ مترجمین اور مفسرین کی قابلِ قدر مساعی کے باوجود ہنوز تشنہ ہے۔ اس کے ساتھ میں یہ احساس بھی اپنے اندر پا رہا تھا کہ اس تشنگی کو بجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ خدمت میں بھی کرسکتا ہوں۔ انھی دونوں احساسات نے مجھے اُس کوشش پر مجبور کیا جس کے ثمرات ہدیۂ ناظرین کیے جارہے ہیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۱،ص ۵)
’عام تعلیم یافتہ لوگوں‘ تک اپنی تفسیر کو محدود کرنے کے بعد انھوں نے مزید وضاحت اس طرح کی: ’’اس کام میں میرے پیشِ نظر علما اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں، نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علومِ دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآنِ مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵-۶)
دوبارہ وہ اپنے ’عام تعلیم یافتہ لوگوں‘ کے عموم کی تخصیص اس طرح کرتے ہیں: ’’میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی زبان سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علومِ قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے، انھی کی ضروریات کو میں نے پیشِ نظر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے اُن تفسیری مباحث کو میں نے سرے سے ہاتھ ہی نہیں لگایا ہے، جو علمِ تفسیر میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں مگر اس طبقے کے لیے غیرضروری ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص۶)
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تفہیم کی تحریر کے آغاز پر کوئی ۲۷برس گزرنے کے بعد مولانا مودودیؒ کے ہاں ’عام تعلیم یافتہ لوگوں‘ اور ’اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگوں‘ کی خدمت کے بجاے آیندہ نسل کے لیے کچھ کرنے کے جذبے نے جگہ لے لی۔ اس کی توضیح انھوں نے تکمیلِ ترتیب تفہیم القرآن کے موقع پر یوں کی:’’حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو تین سال سے میں لوگوں سے اس بات کو کہتا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ موجودہ زمانے کے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے میں دوڑ دھوپ کروں اور میں ان سے یہ کہتا تھا کہ پچھلی نسل کی جو خدمت میرے بس میں تھی، وہ میں کرچکا، اب مجھے آیندہ نسل کے لیے کچھ کرنے دیجیے۔ چنانچہ اسی خواہش کے تحت میں نے اپنی تمام توجہ اور محنت تفہیم القرآن کی تکمیل پر صرف کردی، یہ سمجھتے ہوئے کہ آیندہ نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں یہ ان شاء اللہ مددگار ثابت ہوگی اور جب تک یہ موجود رہے گی ان شاء اللہ آیندہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ آیندہ نسلوں کی خاطر ہی میں یہ کام کررہا تھا اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ نئی نسل کو یہ چیز پسند آئی اور اس کے اندر یہ مقبول ہورہی ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن، اگست ۲۰۰۹ئ، ص ۳۷، بحوالہ ایشیا، جولائی ۱۹۷۲ء )
اپنے خطاب کے اس فقرے میں مولاناؒ نے اپنی تفسیر کے بارے میں بڑی خوش آیند باتیں کہی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تفسیر دراصل ’آیندہ نسلوں‘ کے لیے لکھی گئی تھی، اس اُمید پر کہ وہ ان نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ اس سے بڑھ کر یہ بات کہ جب تک یہ موجود رہے گی ان شاء اللہ آیندہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ الحمدللہ! ہوا بھی ایسا ہی۔ اس تفسیر کو پایۂ تکمیل کو پہنچے تقریباً ۳۷برس ہوچکے ہیں۔ وہ ابھی تک اُبھرتی ہوئی نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔
یہی وہ قرآن سے ماخوذ توحید، رسالت، آخرت اور وحی وغیرہ پر قوی اور مؤثر استدلال ہے جو مخالف کو سکوت اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے اگرچہ وہ اسے موافق بنانے میں ناکام ہی کیوں نہ رہا ہو۔ یہی وہ طرزِ استدلال ہے جس کی وجہ سے مولانا مودودیؒ کو ’متکلم اسلام‘ کا خطاب دیا گیا تھا اور جس پر تقریباً سارے ہی مذاہب فکر کا اتفاق تھا اور آج تک ہے۔ ’متکلم‘ اسلام ایک عام اور جامع خطاب ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہے۔ لگے ہاتھوں اس خطاب میں، مولانا ؒ نے تفہیم کا سیرتِ نبویہ شریفہ اور احادیث نبویہ شریفہ سے تعلق بھی واضح کردیا تاکہ جو غلط فہمیاں ارادتاً پھیلائی جاتی ہیں ان کا سدباب کیا جائے: ’’تاہم آپ دیکھیں گے کہ میں نے قرآن مجید کا سیرت سے تعلق جگہ جگہ دکھایا ہے۔ پوری ریسرچ کرکے، پوری تحقیقات کر کے میں نے یہ معلوم کیا ہے کہ قرآن کی کون سی آیت اور کون سی سورت کس زمانے میں نازل ہوئی اور اس زمانے کے حالات کیا تھے۔ اس طرح سیرت کے ساتھ قرآن مجید کا تعلق میں برابر تفہیم القرآن میں ہر جگہ ابتدا سے لے کر آخر تک دکھاتا رہا ہوں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۹)
مولانا مودودیؒ نے اگرچہ اپنی تفسیر کو ذخیرۂ تفاسیر میں پہلی حرکی تفسیر قرار نہیں دیا ہے لیکن میرے نزدیک ابتدا سے لے کر آخر تک قرآن مجید اور سیرتِ نبویہ شریفہ کے درمیان قائم کردہ ربط و ضبط نے تفہیم کو ذخیرۂ تفاسیر میں پہلی حرکی تفسیر کی صفت عطا کی ہے۔ یہی وہ وصف و صفت اور خاصیت ہے جو اس کو دوام بخشے گی ان شاء اللہ، کیونکہ ساری دنیا میں چلنے والی اسلامی تحریکوں کو وہ راستہ دکھاتی رہے گی جس پر چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے جاں نثار ساتھیوں نے قرآنِ مجید کو ایک زندہ اور چلتی پھرتی حقیقت بنایا تھا۔
اسی حرکی تفہیم کا عربی پرتو، اور ذخیرۂ تفاسیر میں دوسری حرکی تفسیر سیدقطب شہیدؒ کے سرخ لہو کی سیاہی سے لکھی ہوئی نہایت ہی بلیغ و فصیح اور آبشار کی طرح دندناتی ہوئی تفسیر فی ظلال القرآن ہے۔ اس میں مولاناؒ کی نادرِ روزگار کتاب: قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں (الٰہ، رب، عبادت اور دین) کو جوں کا توں قبول کر کے اور مولاناؒ کی دوسری اہم کتابوں اسلام و جاہلیت، دین حق، جہاد فی سبیل اللّٰہ، تفسیر سورۃ النور اور سود، سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے سید قطب شہیدؒ نے فکرِ مودودی کو آسمانِ خلود کا چمکتا دمکتا ستارہ بنا دیا ہے۔ فی ظلال جب تک پڑھی جائے گی اس وقت تک فکرِ مودودی زندہ اور متحرک رہے گی اور اسلامی تحریکوں کی ظلال اور تفہیم کے ذریعے رہنمائی کرتی رہے گی۔ رحمہما اللہ تعالیٰ الابرار۔
رہا اس خطبے میں مولانا کا احادیث سے تفہیم میں استفادے کا ذکر، تو یہ ایک ایسے شخص سے بالکل ہی متوقع امر ہے جو بے دھڑک ختمِ نبوت کے دفاع میں پھانسی کے تختے پر لٹک جانے کے لیے بالکل تیار تھا کیونکہ احادیث ہی اس دین کی عملی تطبیق کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ اس لیے قرآن و حدیث کے چولی دامن جیسے تعلق کا انکار صرف کوئی احمق اور بدبخت ہی کرسکتا ہے۔
اپنے خطاب کے آخر میں مولاناؒ نے نہ صرف نوجوانوں بلکہ ہرمسلمان سے ایک نہایت پتے کی بات یہ کہی ہے کہ شعوری طور پر پڑھ لکھ کر اور سوچ سمجھ کر ایمان لانے کا ثمرہ کیا ہوتا ہے: ’’اگر کوئی شخص شعوری طور پر ایمان نہ لائے اور محض تقلیدی ایمان کے ذریعے سے نماز روزے بھی کرتا رہے تو آپ اس کی زندگی میں وہ تمام منافقتیں اور وہ تمام تضادات دیکھیں گے جو اس وقت کے عام مسلمانوں کے اندر، مسلمانوں کے لیڈروں کے اندر اور مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کے اندر پائے جاتے ہیں… یہ صورتِ حال شعوری طور پر ایمان لانے سے باقی نہیں رہتی۔ پھر آدمی جو کچھ کرتا ہے سوچ سمجھ کر سچے دل سے کرتا ہے۔ وہ یکسو اور حنیف بن کر رہتا ہے، جیساکہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑکی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے، کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا، ایسا مسلمان جو یکسو تھا، ہر طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہوگیا تھا اور وہ شخص مسلم حنیف تھا‘‘۔ (ایضاً، ص۴۰)
مقالہ نگار صنعائ، یمن میں مقیم ہیں